نوازشریف کو حقیقت میں آجانا چاہیے
کیا پاکستان میں جمہوری حکومتیں کسی ڈیل کے ذریعے بنتی ہیں؟
حکومت میں آنے کے لیے ہر سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرنا پڑتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوری حکومتیں کسی ڈیل کے ذریعے بنتی ہیں ؟ اس کے لیے ہم ماضی میں چلتے ہیں، اور یہ پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوتا رہا ہے۔
واجد شمس الحسن کو تو آپ جانتے ہی ہیں،یہ وہ شخصیت تھیں جن پر محترمہ بے نظیر بھٹو حد سے زیادہ اعتماد رکھتی تھیں، محترمہ کسی بھی مشکل میں پڑ جاتیں تو واجد شمس الحسن اُن کی رہنمائی بھی کرتے۔ وہ 1972 میں بھی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اس سرکاری وفد کا حصہ تھے جس نے شملہ معاہدے کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ وہ پاکستان کی ایک چلتی پھرتی سیاسی تاریخ تھے۔اُن کی کتاب ''بھٹو خاندان میری یادوں میں'' میں وہ بڑی تفصیل سے پاکستان کے سیاسی حالات میں بیرونی طاقتوں کے اثر اندازہونے پر قلمکاری کرتے ہیں۔
واجد صاحب لکھتے ہیں '' پاکستان پیپلز پارٹی سے عقیدت رکھنے والے ایک صاحب لندن کی ایک کاؤنٹی میں کونسلر تھے، یہ کسی وفد کے ساتھ پاکستان آئے، اسلام آباد میں ان کی ملاقات برطانیہ کے ہائی کمشنرسے ہوئی، رحمن چشتی نے ہائی کمشنر سے کہا 'پاکستان کے حالات خراب ہیں، برطانیہ کی حکومت جنرل مشرف پر الیکشن کرانے کے لیے پریشر کیوں نہیں ڈالتی؟' برطانوی ہائی کمشنر نے کہا ''میں یہ کوشش کر سکتا ہوں لیکن مجھے پتا ہونا چاہیے بے نظیر بھٹو کیا چاہتی ہیں' رحمن چشتی نے کہا 'بے نظیر الیکشن چاہتی ہیں،دوسرا جنرل مشرف اگر صدر رہنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں وردی اتارنا ہو گی۔
اس کے بعد رحمن چشتی لندن میں بے نظیر بھٹو اور واجد شمس الحسن سے ملے۔ بات آگے بڑھی اور پھر ایک وقت میں جنرل مشرف بے نظیر سے ملاقات کے لیے تیار ہوگئے۔ بے نظیر بھٹو نے اوکے کر دیا، جنرل مشرف کا فون آیا اور ابوظہبی کے سلطان کے محل میں میٹنگ طے ہو گئی،27 جولائی 2007 کو میٹنگ ہوئی' بے نظیر کے ساتھ رحمن ملک اور مخدوم امین فہیم جب کہ جنرل مشرف کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز تھے تاہم دونوں کی ملاقات ون ٹو ون تھی اور یہ ساڑھے چار گھنٹے جاری رہی، جنرل مشرف چاہتے تھے بے نظیر پاکستان نہ آئیں۔
یہ اس کے عوض ان کے تمام مقدمات ختم کرنے کے لیے تیار تھے مگر محترمہ ہر صورت پاکستان جانا چاہتی تھیں' جنرل مشرف نے آخر میں بے نظیر کو سینیٹ میں آنے کی آفر کر دی لیکن بے نظیر اپنی بات پر قائم رہیں، جنرل مشرف نے بی بی سے کہا،میں پارلیمنٹ میں بل لا کر چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال کرنا چاہتا ہوں یوں میں جسٹس افتخار محمد چوہدری سے جان چھڑا لوں گا، آپ مجھے سپورٹ کریں لیکن بی بی نے ہنس کر انکار کر دیا۔
پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ان تمام معاملات کو دیکھ رہا تھا، معاملات چلتے رہے اور پھر جنرل پرویز مشرف محترمہ کو تیسری بار وزیراعظم بنانے پر بھی راضی ہو گئے اور الیکشن کرانے پر بھی' یہ خوش خبری کونڈو لیزا رائس نے بے نظیر بھٹو کو فون کر کے سنائی اور یوں محترمہ بے نظیر بھٹو 18اکتوبر 2007 کو پاکستان واپس آگئیں۔
الغرض ہمیں اس بات سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ ہمارے فیصلے کس قدر نچلی سطح پر ہوتے ہیں، یعنی یہ امریکا و برطانیہ کے صدور و زیر اعظم تک نہیں بلکہ ہائی کمشنر، یا خارجہ تک ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں ان باتوں پر زور نہیں دینا چاہیے کہ کون آرہا ہے یا کون جا رہا ہے۔
اور پھر یہ نہ تو چلی ہے اور نہ چلی جیسے عوام! اس لیے اب نوازشریف کو بھی چاہیے کہ وہ آئیں مقدمات کا سامنا کریں اور پھر سے سرخرو ہوجائیں کیوں کہ اگر ہمارے ''مقدر'' میں آپ لکھ دیے گئے ہیں تو اس ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا، کیوں کہ لکھنے والوں کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ وہ بار بار اسکرپٹ لکھیں، اور اس میں تبدیلیاں کریں۔ کیوں کہ لکھے گئے اسکرپٹ میں چھوٹی موٹی تبدیلی تو ہو سکتی ہے مگر کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہ رکھی جائے! اس لیے اُنہیں فی الوقت آجانا چاہیے تاکہ اُن کے لیے باقی کے راستے ہموار کرنے میں ''بڑوں'' کو کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے!