خون کیسے صاف کیا جائے
قدیم حکماء نزلہ ، زکام ، کھانسی کے علاج کے لیے بھی دواء کے ساتھ مصفی خون بوٹیاں کھلایا کرتے تھے۔
لاہور:
علمِ طب کو باقی طریقہ علاج پر بہت سی وجوہات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے۔
اس کا ثبوت بھی موجود ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں پورا باب طب پر موجود ہے، یہاں تک کہ مختلف قدرتی اشیاء پھل (مثلاً زیتون)، سبزیوں (مثلاً کدو) کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ شہد میں شفاء ہے، یہ اخلاطِ ثلاثہ (بلغم، صفراء، سوداء) کو خارج کرتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق شہد موثر مصفی خون ہے۔
کدو خون کو پیدا کرتا ہے، اور اب سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ کدو خون کو صاف اور رقیق بھی کرتا ہے۔ دورِ حاضر میں خوراک خالص نہیں رہی ، یہی وجہ ہے کہ اکثر دیکھا گیا ہے، جن پھل اور سبزیوں وغیرہ کو کسی وقت ہضم ، قوت بڑھانے ، خون پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اب یہ کام ہوتے ان اشیا ء سے ہوتے کم ہی نظر آتے ہیں۔ مثلاً مولی کا ذائقہ اگر خود اگائی جائے ، اور پھر کھائی جائے تو کچھ اور ہوتا ہے ، جبکہ بازار سے خریدی مولی کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔
ایسی ہی مثال بند گوبھی کی ہے کیونکہ ان کی مقدار ، حجم وغیرہ کو بڑھانے کے لیے کھاد کا استعمال کیا جاتا ہے، علی ہذاالقیاس جو بھی خوراک کھائی جاتی ہے وہ استحالہ (میٹابولزم) کے بعد اپنے اجزاء میں ٹوٹتی ہے اسے' کیٹابولزم 'کہتے ہیں۔ اسی دوران اس میں سمائے گئے کھاد کے اجزاء بھی ہضم کے بعد استحالے کے مرحلے سے گزرتے وقت خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اب اگر کھائی گئی خوراک خالص ہوتو خالص اجزائِ خون بنتے ہیں ورنہ ناقص اجزاء اور زہریلے مواد پیدا ہوتے ہیں۔
علمِ طب میں خون کو صاف رکھنے پر بے حد زور دیا جاتا ہے، اور مصفی خون کی تعریف کو صرف خون کی صفائی تک محدود کرنا بھی ظلم ہے، کیوں کہ جو شے خون صاف کرتی ہے وہ اعضاء ِ بدن میں نئے خلیات بھی پیدا کرنے کا کام کرتی ہے۔
ایلوپیتھی طریقہ علاج میں خون صاف کرنے والی ادویہ کو اینٹی بائیوٹک ، اینٹی فنگل، اینٹی وائرل وغیرہ نام سے پکارا جاتا ہے، مگر یہ مخصوص جراثیم پر ہی فعل انجام دیتی ہیں۔علمِ طب میں مصفی ِخون کو درجہ بندی کے لفظ سے تعبیر دیا جاتا ہے مثلاً نیم کے پتے درجہ دوم میں گرم خشک ہیں ، یعنی یہ درمیانی قسم کے نقصان دہ پھپھوندی ، بیکٹریا، وائرس کو جسم سے خارج کرتے ہیں، جبکہ افسنتین رومی درجہ سوئم میں گرم و خشک ہے۔ یہ ذرا مضبوط قسم کے جراثیم کو صاف کرتی ہے اور بذریعہ بول و براز جسم سے خارج کر تی ہے۔
قدیم حکماء نزلہ ، زکام ، کھانسی کے علاج کے لیے بھی دواء کے ساتھ مصفی خون بوٹیاں کھلایا کرتے تھے ، مگر آج کل کیونکہ اطباء اس امر کا خیال نہیں کرتے لہذا مریض کو چار و ناچار صرف اعراض (سمپٹمپ) کو دور کرنے والی ادویہ ہی استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ خون میں فساد مختلف اجزاء ِخون (بلغم، سوداء ، صفراء، سرخ خلیات، سفید خلیات، خلیات برائے انجماد خون) کی مقدار کو اعتدال سے دور ہونا شامل ہیں ۔ مثلاً اگر خون میں صفراء ( زرد سیال ) زیادہ ہوجائے تو یرقان، تیزابیت، خارش، بال گرناکی شکایت ہوجاتی ہے۔
اگر بلغم (کچا خون) کی مقدار اعتدال سے بڑھ جائے تو سستی ،لاغری، قوتِ حافظہ میں کمی جیسی شکایات مارض ہو تی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے سیاہ خلط (سوداء) کی مقدار اعتدال سے بڑھ جائے تو مالخولیا ، جنون، وہم جیسی نفسیاتی کیفیات لاحق ہوتی ہیں۔
ایلوپیتھی علاج میں مہنگی ادویہ کا استعمال کیا جاتا ہے جو صرف اعراض کو ہی دور کرتی ہیں جو کہ کچھ عرصے بعد دوبارہ ہی لاحق ہو جاتی ہیں اور مریض کہتا ہے کہ 'ہر سردی کے موسم میںیہ تکلیف لاحق ہوتی ہے'۔ جبکہ مصفی خون ادویہ ان اعراض کو چند ہفتوںمیں درست کر دیتی ہیں اور دوبارہ غذائی لااعتدالی کے بغیر مرض لوٹ کر نہیں آتا ۔ خون میں فساد ہی دراصل خارش، ذیابیطس، موادِ گھنٹیا کی افزائش کا ذمہ دار ہے۔
مثلاً اگر خارش ہے تب بیج کاسنی کا استعمال کرایا جائے تو خون کی صفائی ہوتی ہے اور خارش ٹھیک ہو جاتی ہے۔ ذیابیطس میں خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے، مصفی خون ادویہ اس شکر کو بذریعہ بول جسم سے خارج کر دیتی ہیں۔ مواد گھنٹیا (یورک ایسڈ ) بھی خون میں شامل ہو کر ہڈیو ں میں دورانِ خون کے ساتھ داخل ہو کر مفاصل (جوڑوں میں درد) کا سبب بنتی ہیں، مصفی خون ادویہ اس مواد کوتحلیل کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مصفی خون ادویہ مزاج میں گرم و خشک اور تلخ ذائقہ رکھتی ہیں۔
دراصل یہ تلخی مصفی خون دواء کی تاثیر ظاہر کرتی ہے۔ جتنی تلخ ہوگی اتنی ہی زیادہ امراض اور جراثیم سے بدن کو صاف کرنے کے کام آتی ہیں۔ ایسی صورت میں پہلے ہدایت کی جاتی ہے کہ مریض اسپغول کا استعمال کرے پھر ایک گھنٹے وقفے سے مصفی خون دواء دی جاتی ہے۔ جدید حکماء تو کیپسول میں ایسی ادویہ کا سفوف بھر کر دیتے ہیں، ان کے مطابق کیپسول امعاء میں کھلتی ہے تو معدہ ضرر سے بچ جاتا ہے۔
ایلوپیتھی ضدِ حیوی ادویہ (اینٹی بائیوٹک، اینٹی فنگل، اینٹی وائرل) ادویہ ایک خاص مواد (اینٹائریک کوٹنگ) میں ملفوف ہوتی ہیں۔اگر انہیں چبانے کی کوشش کی جائے تو قے عارض ہوجاتی ہے، اگر قے عارض نہ ہو تو پیٹ میں درد اور مروڑ پڑ جاتے ہیں جبکہ مصفی خون بوٹیاں چبائی جائیں یا ان کا قہوہ پیا جائے تو زبان کا ذائقہ ہی خراب ہوتا ہے یا کبھی شکر کی کمی کی وجہ سے گھبراہٹ لاحق ہوتی ہے۔ بعض حضرات کے معدے میں تیزابیت کی شکایت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ مصفی خون ادویہ اپنی تحلیل کرنے کی قوت کی وجہ سے ریح بھی ختم کرتی ہیں جبکہ کسی دوسرے طریقہ علاج میںایک چیز کے کم نقصان مگر بے بہا فوائد پائے نہیں دیکھے گئے۔
مصفی خون ادویہ کیسے استعمال کریں؟
طبیب کو چاہیے کہ ناشتے کے بعد ایسی ادویہ کے استعمال کی ہدایت کرے تاکہ ہاضم غذاء کا فائدہ بھی حاصل ہو۔ اگر معدے کی شکایت بھی مریض کو لاحق ہوتو لیس دار غذاء کھانے کی تاکید کرنی چاہیے مثلاً بھنڈی، اروی وغیرہ۔ یہ خوراک ثقیل ضرور ہے مگر مصفی خون ادویہ کی قوتِ ہضم ان خوراکوں کی اصلاح کردیتی ہیں۔ مثلاً شاہتراہ ، چرایتہ ، برگ نیم، برنجاسف، کلونجی ، شہد، زیتون وغیرہ یہ تمام اشیاء گرم مزاج کی ضرور ہیںمگر ہاضم ِغذاء میں بھی ان کا ثانی نہیں۔ یہاں تک کہ یہ اشیاء چیچک، طاعون، پھلبہری کے مرض میں بھی شفا ء بخش دیکھی گئی ہیں۔ملیریا ، بخار، پھوڑے، پھنسیاں وغیرہ کاعلاج بھی مصفی خون ادویہ سے بخوبی ہوجاتا ہے۔
مصفی خون ادویہ کے استعمال کے وقت پرہیز
معالج کو چاہیے کہ گرم خوراک سے پرہیز کی تلقین ضرور کرے مثلاً کریلہ ، آم، وغیرہ کیونکہ یہ خوراک بھی اسہال لاتی ہیںاور تیزابیت کو فروغ دیتی ہیں،کریلہ خوراک کے ساتھ مصفی خون بھی ہے یہ شوگر کو اعتدال پرلاتا ہے، آم گرم مزاج کا ہے اکثر اشخاص آم کے بعد دودھ پیتے ہیںورنہ مروڑ پیدا کرتا ہے۔ .
علمِ طب کو باقی طریقہ علاج پر بہت سی وجوہات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے۔
اس کا ثبوت بھی موجود ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں پورا باب طب پر موجود ہے، یہاں تک کہ مختلف قدرتی اشیاء پھل (مثلاً زیتون)، سبزیوں (مثلاً کدو) کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ شہد میں شفاء ہے، یہ اخلاطِ ثلاثہ (بلغم، صفراء، سوداء) کو خارج کرتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق شہد موثر مصفی خون ہے۔
کدو خون کو پیدا کرتا ہے، اور اب سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ کدو خون کو صاف اور رقیق بھی کرتا ہے۔ دورِ حاضر میں خوراک خالص نہیں رہی ، یہی وجہ ہے کہ اکثر دیکھا گیا ہے، جن پھل اور سبزیوں وغیرہ کو کسی وقت ہضم ، قوت بڑھانے ، خون پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اب یہ کام ہوتے ان اشیا ء سے ہوتے کم ہی نظر آتے ہیں۔ مثلاً مولی کا ذائقہ اگر خود اگائی جائے ، اور پھر کھائی جائے تو کچھ اور ہوتا ہے ، جبکہ بازار سے خریدی مولی کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔
ایسی ہی مثال بند گوبھی کی ہے کیونکہ ان کی مقدار ، حجم وغیرہ کو بڑھانے کے لیے کھاد کا استعمال کیا جاتا ہے، علی ہذاالقیاس جو بھی خوراک کھائی جاتی ہے وہ استحالہ (میٹابولزم) کے بعد اپنے اجزاء میں ٹوٹتی ہے اسے' کیٹابولزم 'کہتے ہیں۔ اسی دوران اس میں سمائے گئے کھاد کے اجزاء بھی ہضم کے بعد استحالے کے مرحلے سے گزرتے وقت خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اب اگر کھائی گئی خوراک خالص ہوتو خالص اجزائِ خون بنتے ہیں ورنہ ناقص اجزاء اور زہریلے مواد پیدا ہوتے ہیں۔
علمِ طب میں خون کو صاف رکھنے پر بے حد زور دیا جاتا ہے، اور مصفی خون کی تعریف کو صرف خون کی صفائی تک محدود کرنا بھی ظلم ہے، کیوں کہ جو شے خون صاف کرتی ہے وہ اعضاء ِ بدن میں نئے خلیات بھی پیدا کرنے کا کام کرتی ہے۔
ایلوپیتھی طریقہ علاج میں خون صاف کرنے والی ادویہ کو اینٹی بائیوٹک ، اینٹی فنگل، اینٹی وائرل وغیرہ نام سے پکارا جاتا ہے، مگر یہ مخصوص جراثیم پر ہی فعل انجام دیتی ہیں۔علمِ طب میں مصفی ِخون کو درجہ بندی کے لفظ سے تعبیر دیا جاتا ہے مثلاً نیم کے پتے درجہ دوم میں گرم خشک ہیں ، یعنی یہ درمیانی قسم کے نقصان دہ پھپھوندی ، بیکٹریا، وائرس کو جسم سے خارج کرتے ہیں، جبکہ افسنتین رومی درجہ سوئم میں گرم و خشک ہے۔ یہ ذرا مضبوط قسم کے جراثیم کو صاف کرتی ہے اور بذریعہ بول و براز جسم سے خارج کر تی ہے۔
قدیم حکماء نزلہ ، زکام ، کھانسی کے علاج کے لیے بھی دواء کے ساتھ مصفی خون بوٹیاں کھلایا کرتے تھے ، مگر آج کل کیونکہ اطباء اس امر کا خیال نہیں کرتے لہذا مریض کو چار و ناچار صرف اعراض (سمپٹمپ) کو دور کرنے والی ادویہ ہی استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ خون میں فساد مختلف اجزاء ِخون (بلغم، سوداء ، صفراء، سرخ خلیات، سفید خلیات، خلیات برائے انجماد خون) کی مقدار کو اعتدال سے دور ہونا شامل ہیں ۔ مثلاً اگر خون میں صفراء ( زرد سیال ) زیادہ ہوجائے تو یرقان، تیزابیت، خارش، بال گرناکی شکایت ہوجاتی ہے۔
اگر بلغم (کچا خون) کی مقدار اعتدال سے بڑھ جائے تو سستی ،لاغری، قوتِ حافظہ میں کمی جیسی شکایات مارض ہو تی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے سیاہ خلط (سوداء) کی مقدار اعتدال سے بڑھ جائے تو مالخولیا ، جنون، وہم جیسی نفسیاتی کیفیات لاحق ہوتی ہیں۔
ایلوپیتھی علاج میں مہنگی ادویہ کا استعمال کیا جاتا ہے جو صرف اعراض کو ہی دور کرتی ہیں جو کہ کچھ عرصے بعد دوبارہ ہی لاحق ہو جاتی ہیں اور مریض کہتا ہے کہ 'ہر سردی کے موسم میںیہ تکلیف لاحق ہوتی ہے'۔ جبکہ مصفی خون ادویہ ان اعراض کو چند ہفتوںمیں درست کر دیتی ہیں اور دوبارہ غذائی لااعتدالی کے بغیر مرض لوٹ کر نہیں آتا ۔ خون میں فساد ہی دراصل خارش، ذیابیطس، موادِ گھنٹیا کی افزائش کا ذمہ دار ہے۔
مثلاً اگر خارش ہے تب بیج کاسنی کا استعمال کرایا جائے تو خون کی صفائی ہوتی ہے اور خارش ٹھیک ہو جاتی ہے۔ ذیابیطس میں خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے، مصفی خون ادویہ اس شکر کو بذریعہ بول جسم سے خارج کر دیتی ہیں۔ مواد گھنٹیا (یورک ایسڈ ) بھی خون میں شامل ہو کر ہڈیو ں میں دورانِ خون کے ساتھ داخل ہو کر مفاصل (جوڑوں میں درد) کا سبب بنتی ہیں، مصفی خون ادویہ اس مواد کوتحلیل کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مصفی خون ادویہ مزاج میں گرم و خشک اور تلخ ذائقہ رکھتی ہیں۔
دراصل یہ تلخی مصفی خون دواء کی تاثیر ظاہر کرتی ہے۔ جتنی تلخ ہوگی اتنی ہی زیادہ امراض اور جراثیم سے بدن کو صاف کرنے کے کام آتی ہیں۔ ایسی صورت میں پہلے ہدایت کی جاتی ہے کہ مریض اسپغول کا استعمال کرے پھر ایک گھنٹے وقفے سے مصفی خون دواء دی جاتی ہے۔ جدید حکماء تو کیپسول میں ایسی ادویہ کا سفوف بھر کر دیتے ہیں، ان کے مطابق کیپسول امعاء میں کھلتی ہے تو معدہ ضرر سے بچ جاتا ہے۔
ایلوپیتھی ضدِ حیوی ادویہ (اینٹی بائیوٹک، اینٹی فنگل، اینٹی وائرل) ادویہ ایک خاص مواد (اینٹائریک کوٹنگ) میں ملفوف ہوتی ہیں۔اگر انہیں چبانے کی کوشش کی جائے تو قے عارض ہوجاتی ہے، اگر قے عارض نہ ہو تو پیٹ میں درد اور مروڑ پڑ جاتے ہیں جبکہ مصفی خون بوٹیاں چبائی جائیں یا ان کا قہوہ پیا جائے تو زبان کا ذائقہ ہی خراب ہوتا ہے یا کبھی شکر کی کمی کی وجہ سے گھبراہٹ لاحق ہوتی ہے۔ بعض حضرات کے معدے میں تیزابیت کی شکایت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ مصفی خون ادویہ اپنی تحلیل کرنے کی قوت کی وجہ سے ریح بھی ختم کرتی ہیں جبکہ کسی دوسرے طریقہ علاج میںایک چیز کے کم نقصان مگر بے بہا فوائد پائے نہیں دیکھے گئے۔
مصفی خون ادویہ کیسے استعمال کریں؟
طبیب کو چاہیے کہ ناشتے کے بعد ایسی ادویہ کے استعمال کی ہدایت کرے تاکہ ہاضم غذاء کا فائدہ بھی حاصل ہو۔ اگر معدے کی شکایت بھی مریض کو لاحق ہوتو لیس دار غذاء کھانے کی تاکید کرنی چاہیے مثلاً بھنڈی، اروی وغیرہ۔ یہ خوراک ثقیل ضرور ہے مگر مصفی خون ادویہ کی قوتِ ہضم ان خوراکوں کی اصلاح کردیتی ہیں۔ مثلاً شاہتراہ ، چرایتہ ، برگ نیم، برنجاسف، کلونجی ، شہد، زیتون وغیرہ یہ تمام اشیاء گرم مزاج کی ضرور ہیںمگر ہاضم ِغذاء میں بھی ان کا ثانی نہیں۔ یہاں تک کہ یہ اشیاء چیچک، طاعون، پھلبہری کے مرض میں بھی شفا ء بخش دیکھی گئی ہیں۔ملیریا ، بخار، پھوڑے، پھنسیاں وغیرہ کاعلاج بھی مصفی خون ادویہ سے بخوبی ہوجاتا ہے۔
مصفی خون ادویہ کے استعمال کے وقت پرہیز
معالج کو چاہیے کہ گرم خوراک سے پرہیز کی تلقین ضرور کرے مثلاً کریلہ ، آم، وغیرہ کیونکہ یہ خوراک بھی اسہال لاتی ہیںاور تیزابیت کو فروغ دیتی ہیں،کریلہ خوراک کے ساتھ مصفی خون بھی ہے یہ شوگر کو اعتدال پرلاتا ہے، آم گرم مزاج کا ہے اکثر اشخاص آم کے بعد دودھ پیتے ہیںورنہ مروڑ پیدا کرتا ہے۔ .