اسٹیٹ بینک کی خودمختاری پاکستان کی بقا پر حملہ
ترمیمی ایکٹ کے بعد اسٹیٹ بینک اور اس میں کام کرنے والے کسی بھی قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہوں گے
لاہور:
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ آج تک جمہوریت کے ٹھیکے داروں میں سے کبھی کسی نے پاکستان کو ترقی یافتہ صف میں لانے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ تو بس ایک دوسرے کی خامیاں نکالنے میں ہی وقت پورا کر دیتے ہیں۔ اسمبلی ہو یا ٹی وی ٹاک شو، ہر جگہ ایک دوسرے کو صرف چور چور کہنے کی ہی آوازیں سنائی دے رہی ہوتی ہیں۔
کسی بھی ملک میں اسٹیٹ بینک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ایک انسان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ اپاہج ہوجاتا ہے، اسی طرح اسٹیٹ بینک کو گروی رکھ دیا جائے تو ملک اپاہج ہوجائے گا۔
جب قائداعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک کی بنیاد رکھی تو اُس وقت انہوں نے فرمایا تھا اسٹیٹ بینک ہماری قومی خودمختاری کی علامت ہے اور ہم اس پر کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے۔
آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں سے ایک سنگین شرط جو پوری کی جارہی ہے وہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 ہے، جس میں حکومت پاکستان کی خودمختاری کو گروی رکھ رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دو ہزار اکیس کے اس مسودے میں کیا کیا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو اُس کے حکومت پاکستان پر اور عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟ کیونکہ اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرط مان لے گی تو پھر اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان کے تحت کام نہیں کرے گا بلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کے انڈر کام کرے گا۔
اسٹیٹ بینک کے موجودہ قانون کے مطابق اب کنڈیشن کیا ہے اور جب وہ آئی ایم ایف کے انڈر چلا جائے گا پھر وہ کیسے پاکستان کے ساتھ ٹریٹ کرے گا؟ پاکستان کو جب بھی کسی جگہ پر پیسے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی پروجیکٹ یا ترقیاتی کام شروع کرنے ہوتے ہیں یا ہمارے ایم پی ایز یا ایم این ایز کو جو ترقیاتی فنڈز جاری ہوتے ہیں، وہ فنڈز بھی اسٹیٹ بینک سے ملتے ہیں اور اُس کی منظوری وزیراعظم اپنے دستخط کے ساتھ دیتے ہیں اور اسٹیٹ بینک پابند ہوتا ہے فنڈز دینے کا۔ مگر جب یہ آئی ایم ایف کے انڈر جائے گا تو پھر وزیراعظم کی بھی بات نہیں سنے گا۔ پھر وہ ڈائریکٹر آئی ایم ایف سے ڈائریکشن لے گا۔ اگر ڈائریکٹر فنڈ کا کہے گا تو فنڈ جاری ہوگا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کوئی پیسہ ادھار نہیں دے گا۔ وہ اُدھار بھی تب ہی دے گا جب اُس کی ڈائریکشن آئی یم ایف دے گا اور وہ بھی ایک خاص مدت کےلیے۔
اس میں ایک نکتہ نہایت خوفناک ہے جس کو بالکل ہائی لائٹ نہیں کیا جارہا، وہ یہ جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر مائنس میں جانے لگے یا جاچکے ہوں گے تو حکومت پاکستان اس مائنس شدہ رقم کو فوری طور پر اسٹیٹ بینک کو جمع کروانے کی پابند ہوگی۔
میں نے یہاں خوفناک کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ اُس کنڈیشن میں حکومت پاکستان کو پرائیویٹ بینکوں سے زیادہ سود پر قرض لے کر اسٹیٹ بینک کو دینا پڑے گا تاکہ اسٹیٹ بینک مائنس سے نکل جائے۔ اُس کنڈیشن میں اسٹیٹ بینک کو روپے دینے کےلیے حکومت پاکستان کو کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینے پڑیں گے اور 80 فیصد سے زائد بینکنگ سیکٹر غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک طرف حکومت قرض اُتارنے پر لگی ہوگی اور دوسری طرف حکومت مزید قرض لینے پر مجبور ہوگی۔ اُن شرائط میں سے ایک شق گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق 5 سال ہوگی، اس دوران وزیراعظم پاکستان بھی اسے ہٹا نہیں سکیں گے۔ اس وقت حکومت پاکستان چاہ رہی ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو ہٹانے کا اختیار صدر پاکستان کے پاس چلا جائے۔ لیکن وہ بھی ان کو اپنی مرضی سے ہٹا نہیں سکیں گے۔ وی بھی صرف اُس صورت میں کوئی فیصلہ لے سکتے ہیں یا برطرف کرسکیں گے اگر اُس پر الزامات سنگین قسم کے ہوں۔
اسٹیٹ بینک اور اس میں کام کرنے والے کسی بھی قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہوں گے۔ ایف بی آر، نیب سمیت دیگر کوئی بھی ادارہ اسٹیٹ بینک کے معاملات یا اسٹیٹ بینک سے کسی بھی طرح کی رپورٹ مانگنا تو دور کی بات، کسی بھی طرح کے سوال جواب نہیں کرسکے گا۔ اسٹیٹ بینک میں داخلی احتساب کا نظام ہوگا، نیب اُس میں دخل نہیں دے گی۔ موجودہ قانون کے مطابق دیہی علاقوں، صنعتی شعبوں، ہاؤسنگ اور دوسرے شعبوں کےلیے اسٹیٹ بینک کا قرض دینا لازمی ہے، مگر ترامیم کے بعد ان تمام کاموں کےلیے اسٹیٹ بینک سے قرض دینے کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔
حکومت یہ راگ الاپ رہی ہے کہ کورونا کے بعد مہنگائی کے اثرات عالمی سطح پر پڑے ہیں۔ مان لیا ہم نے کہ مہنگائی بوجہ کورونا ہے۔ اب تھوڑا جائزہ لیجئے کہ ترقی یافتہ ممالک نے کورونا کے بعد کیا کیا۔ آپ امریکا کی ہی مثال لے لیجیے۔ کورونا آیا تو امریکا نے بھی 30 فیصد بلاسود قرض 20 سال کےلیے انڈسٹری کےلیے دیا، تاکہ انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی رہ سکے۔ مگر ہمارے پاکستان میں لنگر خانے، پناہ گاہیں، احساس پروگرام پر زور دیا گیا۔ ان پر بے دریغ پیسوں کا ضیاع کیا گیا۔
موازنہ کیجیے ترقی یافتہ ممالک کی پالیسی اور ایک ہمارے ملک کے فیصلے، تو کیسے ملک ترقی کرسکتا ہے؟ حکومت پاکستان اسٹیٹ بینک کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ سرکاری محکموں کی تنخواہوں کا بڑا حصہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے آتا ہی۔ اب اگر کسی اسٹیج پر اسٹیٹ بینک تنخواہوں کےلیے رقم نہیں دیتا تو حکومت پاکستان کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کےلیے پرائیویٹ بینکوں سے قرض لینا پڑے گا۔
مزید سب سے اہم اور خطرناک بات کہ موجودہ قانون کے تحت حکومت پاکستان اسٹیٹ بینک کو حکم دیتی ہے کہ اتنے ارب چھاپنے ہیں اور وہ نوٹ چھاپ دیتے ہیں۔ مگر پھر یہ کرنسی آئی ایم ایف کے کہنے پر چھپے گی۔ پاکستانی حکمرانوں سمیت پاکستانی قوم اتنی بے بس ہوجائے گی جس کا آپ کو ابھی اندازہ نہیں ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ آج تک جمہوریت کے ٹھیکے داروں میں سے کبھی کسی نے پاکستان کو ترقی یافتہ صف میں لانے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ تو بس ایک دوسرے کی خامیاں نکالنے میں ہی وقت پورا کر دیتے ہیں۔ اسمبلی ہو یا ٹی وی ٹاک شو، ہر جگہ ایک دوسرے کو صرف چور چور کہنے کی ہی آوازیں سنائی دے رہی ہوتی ہیں۔
کسی بھی ملک میں اسٹیٹ بینک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ایک انسان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ اپاہج ہوجاتا ہے، اسی طرح اسٹیٹ بینک کو گروی رکھ دیا جائے تو ملک اپاہج ہوجائے گا۔
جب قائداعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک کی بنیاد رکھی تو اُس وقت انہوں نے فرمایا تھا اسٹیٹ بینک ہماری قومی خودمختاری کی علامت ہے اور ہم اس پر کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے۔
آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں سے ایک سنگین شرط جو پوری کی جارہی ہے وہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 ہے، جس میں حکومت پاکستان کی خودمختاری کو گروی رکھ رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دو ہزار اکیس کے اس مسودے میں کیا کیا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو اُس کے حکومت پاکستان پر اور عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟ کیونکہ اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرط مان لے گی تو پھر اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان کے تحت کام نہیں کرے گا بلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کے انڈر کام کرے گا۔
اسٹیٹ بینک کے موجودہ قانون کے مطابق اب کنڈیشن کیا ہے اور جب وہ آئی ایم ایف کے انڈر چلا جائے گا پھر وہ کیسے پاکستان کے ساتھ ٹریٹ کرے گا؟ پاکستان کو جب بھی کسی جگہ پر پیسے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی پروجیکٹ یا ترقیاتی کام شروع کرنے ہوتے ہیں یا ہمارے ایم پی ایز یا ایم این ایز کو جو ترقیاتی فنڈز جاری ہوتے ہیں، وہ فنڈز بھی اسٹیٹ بینک سے ملتے ہیں اور اُس کی منظوری وزیراعظم اپنے دستخط کے ساتھ دیتے ہیں اور اسٹیٹ بینک پابند ہوتا ہے فنڈز دینے کا۔ مگر جب یہ آئی ایم ایف کے انڈر جائے گا تو پھر وزیراعظم کی بھی بات نہیں سنے گا۔ پھر وہ ڈائریکٹر آئی ایم ایف سے ڈائریکشن لے گا۔ اگر ڈائریکٹر فنڈ کا کہے گا تو فنڈ جاری ہوگا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کوئی پیسہ ادھار نہیں دے گا۔ وہ اُدھار بھی تب ہی دے گا جب اُس کی ڈائریکشن آئی یم ایف دے گا اور وہ بھی ایک خاص مدت کےلیے۔
اس میں ایک نکتہ نہایت خوفناک ہے جس کو بالکل ہائی لائٹ نہیں کیا جارہا، وہ یہ جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر مائنس میں جانے لگے یا جاچکے ہوں گے تو حکومت پاکستان اس مائنس شدہ رقم کو فوری طور پر اسٹیٹ بینک کو جمع کروانے کی پابند ہوگی۔
میں نے یہاں خوفناک کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ اُس کنڈیشن میں حکومت پاکستان کو پرائیویٹ بینکوں سے زیادہ سود پر قرض لے کر اسٹیٹ بینک کو دینا پڑے گا تاکہ اسٹیٹ بینک مائنس سے نکل جائے۔ اُس کنڈیشن میں اسٹیٹ بینک کو روپے دینے کےلیے حکومت پاکستان کو کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینے پڑیں گے اور 80 فیصد سے زائد بینکنگ سیکٹر غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک طرف حکومت قرض اُتارنے پر لگی ہوگی اور دوسری طرف حکومت مزید قرض لینے پر مجبور ہوگی۔ اُن شرائط میں سے ایک شق گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق 5 سال ہوگی، اس دوران وزیراعظم پاکستان بھی اسے ہٹا نہیں سکیں گے۔ اس وقت حکومت پاکستان چاہ رہی ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو ہٹانے کا اختیار صدر پاکستان کے پاس چلا جائے۔ لیکن وہ بھی ان کو اپنی مرضی سے ہٹا نہیں سکیں گے۔ وی بھی صرف اُس صورت میں کوئی فیصلہ لے سکتے ہیں یا برطرف کرسکیں گے اگر اُس پر الزامات سنگین قسم کے ہوں۔
اسٹیٹ بینک اور اس میں کام کرنے والے کسی بھی قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہوں گے۔ ایف بی آر، نیب سمیت دیگر کوئی بھی ادارہ اسٹیٹ بینک کے معاملات یا اسٹیٹ بینک سے کسی بھی طرح کی رپورٹ مانگنا تو دور کی بات، کسی بھی طرح کے سوال جواب نہیں کرسکے گا۔ اسٹیٹ بینک میں داخلی احتساب کا نظام ہوگا، نیب اُس میں دخل نہیں دے گی۔ موجودہ قانون کے مطابق دیہی علاقوں، صنعتی شعبوں، ہاؤسنگ اور دوسرے شعبوں کےلیے اسٹیٹ بینک کا قرض دینا لازمی ہے، مگر ترامیم کے بعد ان تمام کاموں کےلیے اسٹیٹ بینک سے قرض دینے کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔
حکومت یہ راگ الاپ رہی ہے کہ کورونا کے بعد مہنگائی کے اثرات عالمی سطح پر پڑے ہیں۔ مان لیا ہم نے کہ مہنگائی بوجہ کورونا ہے۔ اب تھوڑا جائزہ لیجئے کہ ترقی یافتہ ممالک نے کورونا کے بعد کیا کیا۔ آپ امریکا کی ہی مثال لے لیجیے۔ کورونا آیا تو امریکا نے بھی 30 فیصد بلاسود قرض 20 سال کےلیے انڈسٹری کےلیے دیا، تاکہ انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی رہ سکے۔ مگر ہمارے پاکستان میں لنگر خانے، پناہ گاہیں، احساس پروگرام پر زور دیا گیا۔ ان پر بے دریغ پیسوں کا ضیاع کیا گیا۔
موازنہ کیجیے ترقی یافتہ ممالک کی پالیسی اور ایک ہمارے ملک کے فیصلے، تو کیسے ملک ترقی کرسکتا ہے؟ حکومت پاکستان اسٹیٹ بینک کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ سرکاری محکموں کی تنخواہوں کا بڑا حصہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے آتا ہی۔ اب اگر کسی اسٹیج پر اسٹیٹ بینک تنخواہوں کےلیے رقم نہیں دیتا تو حکومت پاکستان کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کےلیے پرائیویٹ بینکوں سے قرض لینا پڑے گا۔
مزید سب سے اہم اور خطرناک بات کہ موجودہ قانون کے تحت حکومت پاکستان اسٹیٹ بینک کو حکم دیتی ہے کہ اتنے ارب چھاپنے ہیں اور وہ نوٹ چھاپ دیتے ہیں۔ مگر پھر یہ کرنسی آئی ایم ایف کے کہنے پر چھپے گی۔ پاکستانی حکمرانوں سمیت پاکستانی قوم اتنی بے بس ہوجائے گی جس کا آپ کو ابھی اندازہ نہیں ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔