مچھلیوں نے گاڑی ’ڈرائیو‘ کرنا بھی سیکھ لیا

یہ مچھلیاں اپنا ایکویریئم خود ’ڈرائیو‘ کرکے مطلوبہ مقام تک لے جانا اور راہ کی رکاوٹوں سے بچنا سیکھ چکی ہیں

یہ مچھلیاں اپنا ایکویریئم خود ’ڈرائیو‘ کرکے مطلوبہ مقام تک لے جانا اور راہ کی رکاوٹوں سے بچنا سیکھ چکی ہیں۔ (تصاویر: بن گوریئن یونیورسٹی)

ISLAMABAD:
سائنسدانوں نے سنہری مچھلیوں (گولڈفش) کو اس قابل بنا لیا ہے کہ وہ اپنی غذا تک پہنچنے کےلیے گاڑی بھی 'ڈرائیو' کرسکیں۔

یہ دلچسپ تجربہ اسرائیل کی بن گوریئن یونیورسٹی میں کیا گیا جس میں گولڈ فش قسم کی چھ مچھلیوں کو صاف پانی سے بھرے ہوئے اور شفاف دیواروں والے ایک ایکویریئم میں باری باری رکھا گیا۔

خاص طرح کے اس ایکویریئم کو پہیوں والی ایک ٹرالی پر رکھا گیا تھا جسے حرکت دینے کےلیے موٹریں نصب تھیں۔

ایکویریئم کے ساتھ ہی ایک لمبی سلاخ کے اوپر کیمرا نصب تھا جو پانی میں گولڈ فش کی حرکت پر نظر رکھتا تھا اور اسی حساب سے (موٹروں کے ذریعے) پہیوں کو حرکت میں لاتا تھا۔

مثلاً اگر مچھلی ایکویریئم کے بالکل درمیان میں ہے تو یہ ٹرالی ساکت رہے گی لیکن جیسے ہی مچھلی اپنے دائیں جانب تیرنا شروع کرے گی تو ٹرالی بھی اسی سمت میں حرکت کرنے لگے گی۔

تجربے کی ابتداء میں ایکویریئم کو ٹرالی سمیت ایک کمرے کے درمیان میں رکھا گیا جس کی دیواروں پر مختلف تصویریں لگی تھیں۔

اس کے بعد ایکویریئم میں باری باری سنہری مچھلیاں چھوڑی گئیں جنہیں ایکویریئم کو 'ڈرائیو' کرتے ہوئے دیوار پر لگی تصویر کے قریب پہنچانے کی تربیت دی گئی۔

ان میں سے کچھ خاص تصویریں ایسی تھیں جن کے بالکل قریب پہنچنے پر ایکویریئم میں گولڈ فش کے کھانے کےلیے چارہ گرایا جاتا جبکہ کچھ تصویروں کے پاس پہنچ کر ایسا نہیں ہوتا تھا۔




صرف چند دن کی تربیت سے یہ مچھلیاں ان تصویروں کو پہچاننے لگیں جن کے قریب جا کر انہیں کھانے کو چارہ مل جاتا تھا جبکہ انہوں نے 'جعلی' تصویروں کو پہچاننا بھی سیکھ لیا تھا۔

یعنی یہ مچھلیاں اپنا ایکویریئم خود 'ڈرائیو' کرتے ہوئے مطلوبہ دیوار تک پہنچانے کے قابل ہوگئیں۔

یہی نہیں بلکہ راستے میں رکاوٹیں آنے پر وہ اسے دائیں بائیں گھما کر اپنے ہدف تک پہنچنا بھی سیکھ گئیں۔

بظاہر معمولی دکھائی دینے والی یہ صلاحیتیں ایک چھوٹی سی مچھلی کےلیے بہت غیر معمولی ہیں۔

اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ گولڈ فش اور اس قسم کی دوسری مچھلیوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے اور وہ زیادہ پیچیدہ کام نہیں سیکھ سکتیں۔

اس تجربے سے یہ دونوں خیالات غلط ثابت ہوئے ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ صرف چند دن کی مناسب تربیت سے گولڈ فش بھی ایسے پیچیدہ کام سیکھ سکتی ہے جن کےلیے خاصی یادداشت اور مناسب حد تک ذہانت درکار ہوتی ہے۔

بن گوریئن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی طالب علم شاچار گیوون کا کہنا ہے کہ انسانوں کی طرح گولڈ فش بھی اپنی پیدائش اور پرورش سے بالکل مختلف کچھ نیا سیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

''اس سے ظاہر ہے کہ نئی اکتسابی صلاحیتوں کا حصول صرف چند جانوروں تک محدود نہیں بلکہ بظاہر کم تر ذہانت اور جسامت رکھنے والے جانوروں کےلیے بھی یہ شاید معمول کی بات ہے،'' انہوں نے کہا۔

نوٹ: یہ تحقیق 'بیہیوورل برین سرچ' جرنل کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
Load Next Story