اربوں روپے کا مالی اسکینڈل سیاسی مفاہمت کی نذر ہونے کا خدشہ
وفاقی حکومت اسکینڈل کی بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی میں دانستہ تاخیر کررہی ہے
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ٹڈاپ) میں اربوں روپے مالیت کامالی اسکینڈل سیاسی مفاہمت کی نذرہونے کاخدشہ ہے،وفاقی حکومت اسکینڈل کی بڑی مچھلیوں کیخلاف کارروائی میں دانستہ تاخیرکررہی ہے۔
سابق وزیراعظم اور وفاقی وزیرتجارت کے خلاف شواہدکی فائل 3ماہ سے اسلام آباد کی اجازت کی منتظرہے، وزیر تجارت کوایک مقدمے میں نامزدبھی کیاجاچکاہے۔ایف آئی اے کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں کے دوران پہلی مرتبہ اپنے ذرائع سے ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی میں پائی جانے والی مالی بے قاعدگیوںکی تحقیقات شروع کیں اور کامیابی سے اربوں روپے کی لوٹ مارکومنظر عام پرلایاگیا،ایف آئی اے کے تفتیشی افسران نے انتہائی عرق ریزی سے وسیع وجہت مالی اسکینڈل کی کڑیاں ملائیں اورنہ صرف قومی خزانے کواربوں روپے نقصان پہنچانے والے بیوروکریسی کے اعلی ترین افسران کوبغیرکسی دبائومیں آئے ہوئے گرفتارکیابلکہ اس اسکینڈل سے جڑے منی لانڈرنگ کے منظم نیٹ ورک کارازبھی طشت ازبام کیا۔
ڈپٹی ڈائریکٹرایف آئی اے فقیرمحمدکی قیادت میں کام کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم گزشتہ ایک سال سے مسلسل اسکینڈل میں ملوث افسران، بینک افسروں، فرضی ایکسپورٹ کمپنیوں کے مالکان اوردیگرملوث افرادکیخلاف بھوسے کے ڈھیر میں سوئی کی مترادف شواہدجمع کرکے انھیں قانون کے کٹہرے میں کھڑاکرنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب متعدد فرضی کمپنیوں کے مالکان کی جانب سے تقریباً10 کروڑروپے قومی خزانے میں بھی جمع کرائے جاچکے ہیں،پاکستان کی تاریخ میں اس مقدمے کی اہمیت اس پہلوسے بھی کہیں زیادہ ہے کہ پہلی مرتبہ مالی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے افسران پر بااثر بیوروکریسی سمیت دیگرملزمان کے خلاف کیس کوکمزور کیے جانے کا الزام عائد نہیں کیا گیا اورماضی کی طرح اس مقدمے کی تفتیش پراعلی عدلیہ کی جانب سے بھی عدم اعتماد کااظہار نہیں کیاگیا، تفتیشی مراحل کو انتہائی برق رفتاری سے مکمل کرکے زیادہ تر مقدمات عدالتوں میں سماعت کیلیے بھی پیش کیے جاچکے ہیں، تاہم ایک ایسے موقع پرجب مالی اسکینڈل کی تحقیقات اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہیں وفاقی حکومت کی جانب سے کئی ارب روپے کے مالی اسکینڈل کی سرپرستی کرنے والی بڑی مچھلیوں کوشامل تفتیش کرنے کی اجازت دینے سے مسلسل گریز کیاجارہا ہے۔
تفتیشی ٹیم کے سربراہ کی جانب سے سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں3نومبر 2012 کوتحریر کردہ ایک مراسلے میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹرجنرل کو آگاہ کیا گیاتھا کہ دوران تحقیقات سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے ڈپٹی سیکریٹری اورچندقریبی افراد سمیت سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے ڈائریکٹرزکے ملوث ہونے کے واضح ثبوت سامنے آئے ہیں جبکہ یہ شواہدبھی ملے ہیں کہ اعلی ترین حکومتی عہدوں پرفائزشخصیات کی جانب سے ٹڈاپ میں پائی جانے والی خطیرمالی بے قاعدگیوں کیلیے معاونت فراہم کی گئی،مراسلے میں شواہدکی بنیادپر مذکورہ دونوں شخصیات کوشامل تفتیش کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی تاہم ایف آئی اے کے اعلی ترین افسر کی جانب سے تاحال اس فائل کونظر اندازکیا جارہا ہے،ذرائع کے مطابق ایف آئی اے ہیڈ کوارٹراسلام آؓباد اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے گرین سگنل کا انتظار کر رہاہے تاہم باربار کرائی جانے والی یقین دہانیوں کے باوجودتاحال تفتیشی افسران اجازت کے منتظر ہے، خدشہ ہے کہ مبینہ طور پرمالی اسکینڈل کی سرپرستی کرنے والے اعلی سیاسی شخصیات کو کلین چٹ دیدی جائے گی۔
سابق وزیراعظم اور وفاقی وزیرتجارت کے خلاف شواہدکی فائل 3ماہ سے اسلام آباد کی اجازت کی منتظرہے، وزیر تجارت کوایک مقدمے میں نامزدبھی کیاجاچکاہے۔ایف آئی اے کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں کے دوران پہلی مرتبہ اپنے ذرائع سے ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی میں پائی جانے والی مالی بے قاعدگیوںکی تحقیقات شروع کیں اور کامیابی سے اربوں روپے کی لوٹ مارکومنظر عام پرلایاگیا،ایف آئی اے کے تفتیشی افسران نے انتہائی عرق ریزی سے وسیع وجہت مالی اسکینڈل کی کڑیاں ملائیں اورنہ صرف قومی خزانے کواربوں روپے نقصان پہنچانے والے بیوروکریسی کے اعلی ترین افسران کوبغیرکسی دبائومیں آئے ہوئے گرفتارکیابلکہ اس اسکینڈل سے جڑے منی لانڈرنگ کے منظم نیٹ ورک کارازبھی طشت ازبام کیا۔
ڈپٹی ڈائریکٹرایف آئی اے فقیرمحمدکی قیادت میں کام کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم گزشتہ ایک سال سے مسلسل اسکینڈل میں ملوث افسران، بینک افسروں، فرضی ایکسپورٹ کمپنیوں کے مالکان اوردیگرملوث افرادکیخلاف بھوسے کے ڈھیر میں سوئی کی مترادف شواہدجمع کرکے انھیں قانون کے کٹہرے میں کھڑاکرنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب متعدد فرضی کمپنیوں کے مالکان کی جانب سے تقریباً10 کروڑروپے قومی خزانے میں بھی جمع کرائے جاچکے ہیں،پاکستان کی تاریخ میں اس مقدمے کی اہمیت اس پہلوسے بھی کہیں زیادہ ہے کہ پہلی مرتبہ مالی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے افسران پر بااثر بیوروکریسی سمیت دیگرملزمان کے خلاف کیس کوکمزور کیے جانے کا الزام عائد نہیں کیا گیا اورماضی کی طرح اس مقدمے کی تفتیش پراعلی عدلیہ کی جانب سے بھی عدم اعتماد کااظہار نہیں کیاگیا، تفتیشی مراحل کو انتہائی برق رفتاری سے مکمل کرکے زیادہ تر مقدمات عدالتوں میں سماعت کیلیے بھی پیش کیے جاچکے ہیں، تاہم ایک ایسے موقع پرجب مالی اسکینڈل کی تحقیقات اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہیں وفاقی حکومت کی جانب سے کئی ارب روپے کے مالی اسکینڈل کی سرپرستی کرنے والی بڑی مچھلیوں کوشامل تفتیش کرنے کی اجازت دینے سے مسلسل گریز کیاجارہا ہے۔
تفتیشی ٹیم کے سربراہ کی جانب سے سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں3نومبر 2012 کوتحریر کردہ ایک مراسلے میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹرجنرل کو آگاہ کیا گیاتھا کہ دوران تحقیقات سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے ڈپٹی سیکریٹری اورچندقریبی افراد سمیت سابق وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے ڈائریکٹرزکے ملوث ہونے کے واضح ثبوت سامنے آئے ہیں جبکہ یہ شواہدبھی ملے ہیں کہ اعلی ترین حکومتی عہدوں پرفائزشخصیات کی جانب سے ٹڈاپ میں پائی جانے والی خطیرمالی بے قاعدگیوں کیلیے معاونت فراہم کی گئی،مراسلے میں شواہدکی بنیادپر مذکورہ دونوں شخصیات کوشامل تفتیش کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی تاہم ایف آئی اے کے اعلی ترین افسر کی جانب سے تاحال اس فائل کونظر اندازکیا جارہا ہے،ذرائع کے مطابق ایف آئی اے ہیڈ کوارٹراسلام آؓباد اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے گرین سگنل کا انتظار کر رہاہے تاہم باربار کرائی جانے والی یقین دہانیوں کے باوجودتاحال تفتیشی افسران اجازت کے منتظر ہے، خدشہ ہے کہ مبینہ طور پرمالی اسکینڈل کی سرپرستی کرنے والے اعلی سیاسی شخصیات کو کلین چٹ دیدی جائے گی۔