کوچۂ سخن
غزل
آنکھ سے آنکھ ملے ،رَ مز کھلے ،بات چلے
دن نکلنے دو کہ پہلو سے مرے رات چلے
تیری چوڑی کی کھنک سے ہوا تسخیر یہ دل
تیری آنکھوں کے اشاروں پہ خیالات چلے
وہ سَحر خیز ہنسی وہ ترا شرما جانا
کیسے کیسے مری ہستی پہ طلسمات چلے
مکتبِ عقل پڑھا، پڑھ کے چلا میخانے
جب نہ دانائی چلی پھر مرے جذبات چلے
پرزے پرزے ہے تِرے ہجر میں پیراہنِ جاں
مجھ میں سانسوں کی طرح یوںترے صدمات چلے
لوٹ آئے گی مری سمت شجرؔ ہریالی
پھر جو اک بار اسی لمس کی خیرات چلے
(مزمل عباس شجر۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
سفر میں اپنا حال بھی خراب دیر تک رہا
کہ پیاس دیر تک رہی، سراب دیر تک رہا
نکل گئی جو روح تو کنارے پر پٹخ دیا
یہی مرا بدن کہ زیرِ آب دیر تک رہا
قیام کرتی تیرگی کو اپنی جاں کی پڑ گئی
کہ شام آسماں پہ آفتاب دیر تک رہا
وہ جس کو میری خامشی پہ اعتراض تھا بہت
سوال پوچھنے پہ لا جواب دیر تک رہا
نجانے کس کی دستکوں سے میری آنکھ کھل گئی
کہ نیند دیر تک رہی نہ خواب دیر تک رہا
مقابلے میں سر پھری تھیں آندھیاں مگر سدیمؔ
دریدہ شاخ پر کھلا گلاب دیر تک رہا
(سدیم عارض۔ تلہ گنگ)
۔۔۔
غزل
سراب آنکھ سے دریا بہایا جائے گا
ہماری موت پہ ناٹک رچایا جائے گا
تمام شہر اداسی کی زد میں آئیں گے
تمام لوگوں کو وحشت میں لایا جائے گا
ہماری نبضِ محبت ہمارے ہاتھ میں ہے
تھکن ہوئی تو اسے پھر دبایا جائے گا
ہمارے دور کے اثرات ہوں گے بچوں پر
جدید نسل کو رونا سکھایا جائے گا
معانی عشق کے جس نے تلاشنے ہوں گے
تمہارے شہر کا رستہ دکھایا جائے گا
غزل کا مرکزی مصرع بنانے کے لیے قیس
وہ ایک شخص تخیل میں لایا جائے گا
(بلال قیس۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
زمانہ حیرت سے دیکھتا ہے تو کیا برا ہے
تماشا خو د کو بنا لیا ہے تو کیا برا ہے
سراب میں ہی گزار آئے ہیں عمر ساری
ہمیں میسر یہی رہا ہے تو کیا برا ہے
کسی نے مندر کسی نے گرجا بنایا دل کو
جو ہم نے کعبہ بنا لیا ہے تو کیا برا ہے
زمانے والوں کو راس آئے ہیں دین و دنیا
فقط ہمارا خدا ہوا ہے تو کیا برا ہے
کہ اس جہاں میں بتاؤ مجھ آدمی کو راشدؔ
اگر کسی نے برا کہا ہے تو کیا برا ہے
(راشد علی راشد۔واہ کینٹ)
۔۔۔
غزل
دلِ ناداں! توجہ چاہتے ہیں
مرے ارماں توجہ چاہتے ہیں
پرانی داستانیں کیا سنیں ہم
نئے عنواں توجہ چاہتے ہیں
چمن تو کردیے آباد تم نے
دلِ ویراں توجہ چاہتے ہیں
ذرا آگے نکل کر دیکھ لو تم
غم ِ دوراں توجہ چاہتے ہیں
ہمیشہ مجھ کو اب رہتا ہے خطرہ
مرے نگراں توجہ چاہتے ہیں
(شمس ندیم۔ڈیرہ مراد جمالی)
۔۔۔
''بومِ طلا''
نئے آباد کاروں نے ہجومِ شہر کی نظریں بدل دی ہیں
یہاں جو بھی خبر گیری کو آتا ہے
مہینوں لا پتا ہو جاتا ہے
گوشہ بہ گوشہ محوِ سر گوشی
مکاں خالی ہیں کوئی بھی ضیافت کو نہیں آیا
نگاہوں میں نمی اور
نافۂ تاتار میں سوزش بھری ہے
طائرِ جاں گرم گفتاری کی آشا
خاک دانوں میں اُنڈیل آئے
مشینی دل سُبکدوشی کی راہِ آخری پر گامزن ہیں
عالمِ بے خود نمایاں ہو چکا ہے
ہلکی سی ترتیب سازی بھی
بڑی جادوگری محسوس ہوتی ہے
بہارِ ہست رنگ و نُور سے خالی،
سکوتِ شب کہیں گروی پڑا ہے
دل کے گلدانوں میں مصنوعی گُلوں کا راج ہے
خوشبو سے خالی یہ ہوائے صبح بارِ جاں
کہ جس سے
گوشۂ تن پوش کی دیوار کانپے ہے
یہاں بومِ طِلا کی حکمرانی ہے
(توحید زیب ۔بہاولپور)
۔۔۔
غزل
دیکھی پایل جو بے خیالی میں
ہاتھ ڈالا تھا جیب خالی میں
اس کی محفل میں مگ ملے سب کو
ہم کو چائے ملی پیالی میں
ہم تو ٹھہرے گنوار گاؤں کے
ہم تو کھائیں گے ایک تھالی میں
بچ نہ پائی مگر شکاری سے
ایک چڑیا چھپی تھی ڈالی میں
جلدی زلفیں سنواریے اپنی
ساری بارات ہے ٹرالی میں
شاہ کشکول چومنے کو بڑھا
تھی عجب تمکنت سوالی میں
میں وہ مالی ہوں جس نے گلشن کو
سبز رکھا تھا خشک سالی میں
مجھ کو پل میں اجاڑنے والے
صدیاں درکار ہیں بحالی میں
اک مویشی مرا ہوا تھا فیضؔ
باقی مصروف تھے جگالی میں
(شہزاد فیض ۔کوٹ ادو)
۔۔۔
غزل
لباسِ زیست پہ چھلکا اگر ایاغِ اجل
تو ایک عمر چمکتا رہے گا داغِ اجل
اسے بھی موت نے آغوش میں جگہ دے دی
جسے کبھی بھی میسر نہ تھا فراغِ اجل
مکانِ دل سے کوئی کوچ کرنے والا ہے
کہ اب منڈیر پہ میں دیکھتا ہوں زاغِ اجل
کہیں سراغ رساں اس کی رفت روک نہ دیں
کچھ اس لیے بھی تو ممکن نہیں سراغِ اجل
خبر نہیں ہے کہ کس کی لپک تمام کرے
ادھر چراغِ نظر ہے اُدھر چراغِ اجل
اسے غرض ہی نہیں موسموں سے کوئی حسین
بس ایک سوگ کا پھل دے رہا ہے باغِ اجل
(حسین فرید۔ میاں چنوں)
۔۔۔
غزل
عجب تقدیر چل دیتی ہے چالے زندگانی کے
ہمیشہ کھیل ہوتے ہیں نرالے زندگانی کے
تمہارے بعد گلشن میں یہ کیا رنگِ بہار آیا
متاعِ حُسن کو پڑتے ہیں لالے زندگانی کے
سدا جاری رہیں گے سلسلے یوں ہی محبت کے
ہمارے بعد بھی ہوں گے مقالے زندگانی کے
ہمارا ضبط تو دیکھو کہ ہم مسکائے جاتے ہیں
بدن سے روح تک ورنہ ہیں چھالے زندگانی کے
جگر چھلنی ہے ،دل زخمی، نظر ویران ،لب خاموش
بڑے پُر سوز ہیں یعنی حوالے زندگانی کے
ابھی اُلجھے ہوئے ہیں ہم ابھی ممکن نہیں طاہرؔ
ملی فرصت تو دیکھیں گے اجالے زندگانی کے
(طاہر ہاشمی۔ حافظ آباد)
...
غزل
وہ قصرِ جاناں ہے جو روشنی سے کھِلتا ہے
مرا مکان تو بس تیرگی سے کھلتا ہے
مری یہ پیاس اسے چین دیتی رہتی ہے
وہ ساقی ہے سو مری تشنگی سے کھلتا ہے
ہزار پھول بھی گرچہ ہوں گھر کے آنگن میں
یہ گلستان تو بس اک کلی سے کھِلتا ہے
وہ اور ہوں گے جنہیں راس آتی ہے منزل
ہمارا قافلہ تو رہروی سے کھِلتا ہے
یہاں پہ رنگِ محبت بھی تو نہیں جمتا
ہمارا چہرہ فقط بے بسی سے کھِلتا ہے
وفا کے شعلے بھڑکتے ہیں گر جفا ہووے
یہ گل وہ ہے جو نمی کی کمی سے کھِلتا ہے
حیا ؔجی دستکیں یاں کار گر نہیں ہوتیں
کہ دل کا در تو فقط ٹکٹکی سے کھِلتا ہے
(ماہم حیا صفدر۔ فیصل آباد)
...
غزل
عزت کو ایک رات میں دولت نے کھا لیا
گھبرو جوان گاؤں کا غیرت نے کھا لیا
جب دیکھتے ہیں دیس کو یہ سوچتے ہیں بس
کیسا چمن تھا؟ مالی کی غفلت نے کھا لیا
آئینہ دیکھتے ہی یہ بے ساختہ کہا
کیسا حسین شخص محبت نے کھا لیا
صاحب مرا تو پیٹ ہے بس، اور کچھ نہیں
مذہب بھی تھا مگر اسے غربت نے کھا لیا
دیوار دکھ رہی ہیں سبھی کھڑکیاں مجھے
میرے حسیں مکان کو وحشت نے کھا لیا
دو چار لمحوں کا ہی ملن مل سکا ہمیں
پھر وصل کا سکون بھی عجلت نے کھا لیا
تاثیرؔ کو جو دیکھا، بتایا طبیب نے
یہ شادمان چہرہ تھا فرقت نے کھا لیا
(تہمینہ شوکت تاثیر۔ سرگودھا)
...
غزل
کوئی رہبر نہ کوئی زادِ سفر رکھتا ہوں
آس منزل پہ پہنچنے کی مگر رکھتا ہوں
قید ہونے میں نہیں اور برائی کوئی
یہی خفت یہی سبکی ہے کہ پر رکھتا ہوں
دور ابھرتی ہے گلی میں کوئی مانوس سی چھاپ
بام سے جھانکتا ہوں کھول کے در رکھتا ہوں
یہ الگ بات مری لاش نہیں ملتی ہے
اپنے اطرف میں تیراک مگر رکھتا ہوں
گویا دنیا میں ہی پا لیتا ہوں جنت اپنی
ماں کی آغوش میں جب لاڈ سے سر رکھتا ہوں
جن کے دامن میں ستاروں کی ضیا ہے احمدؔ
بزمِ احباب میں وہ خاک بسر رکھتا ہوں
(احمد محسود۔ ڈی آئی خان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی