محمود درویش کی شاعری میں عورت اور وطن کا باہمی ربط

درویش نے وطن سے اظہار محبت کے لیے عورت کو بطور رمز استعمال کیا ہے


درویش نے وطن سے اظہار محبت کے لیے عورت کو بطور رمز استعمال کیا ہے۔

GENEVA: (اردو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، عین شمس یونیوڑسٹی، قاہرہ، مصر)

محمود درویش ایک عرب فلسطینی شاعر ہیں جو فلسطین کے قومی شاعر ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ وہ عالمی سطح پر ایک مقبول و معروف شاعر ہیں۔ ان کی شاعری آفاقی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے کہ اس شاعری کا بنیادی محور مقبوضہ فلسطین ہے۔ سر زمین فلسطین جس کو تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل ہے ، اور جسے آسمانی کتابوں کے پیروکار احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔

محمود درویش 1912ء میں فلسطین میں پیدا ہوئے۔ اسرائیلی جنگ کے دوران انہوں نے اپنے بچپن میں ہی جلاوطن ہونے کا کرب ناک تجربہ کیا۔ ان کے خاندان نے بیروت میں پناہ گزینی اختیار کی۔ اس کے بعد مختصر مدت کے لیے لبنان چلا گیا۔ اور بالآخر سرحد پار کرکے فلسطین واپس آ گیا۔ بچپن سے جوانی تک کوئی ایسا سال نہیں گزرا جس میں محمود درویش نے کم از کم تین مہینے اسرائیل کی جیلوں میں نہ گزارے ہوں۔ انہوں نے آزادیٔ فلسطین کے لیے سیاست میں حصہ لیا، یوں وہ ساری زندگی بے خانماں روزوشب گزارتے رہے۔ ان کی جلاوطنی کبھی اختیاری رہی تو کبھی اسرائیلی حکام کے ذریعے ہوئی۔

محمود درویش نے بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہی شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ان کا پہلا شعری مجموعہ 1960ء میں چھپ کر منظر عام پر آگیا، عربی زبان میں ان کے تیس کے قریب شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ان کی شاعری کا بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کئی ادبی ایوارڈ اور بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے۔ وہ کئی برس عارضہ قلب میں مبتلا رہنے کے بعد ہارٹ سرجری کے نتیجے میں 2008ء میں ہوسٹن میں انتقال کرگئے۔

محمود درویش کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ ان کے وطن فلسطین پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں بڑے پیمانے پر عورت بھی موضوع سخن بنی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں عورت کو وطن کے ساتھ ملاتے ہیں۔ دونوں کے امتزاج نے ان کی شاعری کو ایک خوب صورت مصوری میں بدل دیا ہے، جس میں عورت سے محبت اور وطن سے محبت کے جذبات میں کوئی فرق نہیں کر سکتا۔

ان کی شاعری میں عورت ان باقی شاعروں سے الگ نظر آتی ہے، جنہوں نے عورت کو اپنی شاعری میں فقط ایک خوب صورت محبوبہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ درویش نے وطن سے اظہار محبت کے لیے عورت کو بطور رمز استعمال کیا ہے، انہوں نے تشبیہات اور استعارے وغیرہ میں عورت کو اپنے شعری اسلوب کا حصہ بنا دیا ہے، ایسا ان حالات کی وجہ سے ہوا جن کا انہوں نے اسرائیلی قبضے کے زیرسایہ فلسطین میں اپنے دوران قیام مشاہدہ کیا، فلسطین سے ان کی جلاوطنی کی وجہ سے ان کی شاعری میں بیگانگی اور اجنبیت کے عناصر پوری توانائی کے ساتھ در آئے ہیں۔

انہوں نے اپنے وطن سے بیگانگی کا اظہار کرنے کے لیے عورت (ماں) کا سہارا لیا۔ وہ درویش کے ہاں ایسا وطن ہے جس کی یاد جلا وطنی کے دوران ان کو آتی ہے۔ عورت (ماں) کھوئی ہوئی محبت اور پناہ گاہ ہے جس کا سہارا وہ اس وقت لیتے ہیں جب وہ زندگی کی سختی اور محرومی محسوس کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:

مجھے یاد آتی ہے

اپنی ماں کے ہاتھ کی پکی روٹی کی

اپنی ماں کے ہاتھ کی بنی کافی کی

اپنی ماں کے ہاتھ کے لمس کی۔۔۔۔

ان اشعار میں شاعر ناسٹلجیاتی کیفیت میں اور نہایت ہی سلیس انداز میں اس خوش گوار وقت کو یاد کرتا ہے جو اس نے وطن میں گزارا ہے۔ اپنی ماں کے بارے میں اس طرح بات کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو وطن کی یاد بہت ستاتی ہے۔ وطن جو امن وسکون کا نام ہے جس میں انسان کو آسودگی ملتی ہے۔ درویش نے ایسی چیزوں کا ذکر کیا جو فلسطین کی روزمرہ کی زندگی سے منسلک ہیں، جیسے ماں کے ہاتھ کی پکی روٹی اور بنی کافی ہیں۔ یہ چیزیں جلاوطنی کی وجہ سے ان کو میسر نہیں ہیں۔ وہ خود کو وہاں دوبارہ لے جانے کے خواہاں ہیں۔

محمود درویش کے بے شمار اشعار میں بظاہر گفتگو کا رخ عورت کی طرف ہوتا ہے، لیکن جوں جوں مفہوم گہرا ہوتا جاتا ہے تو وہ ایک مضبوط بنیاد پر قائم وطن کی محبت نظر آنے لگتی ہے۔ کبھی وہ وطن اور اس کے خدوخال کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں گویا عورت کے خدوخال بیان کر رہے ہوں، اور ہمیں دونوں کے درمیان کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا۔



اور چوںکہ عورت اور وطن کے درمیان مماثلت ہے، کیوں کہ دونوں عطا ودین، تحفظ، جذباتی، پختگی اور استحکام کی علامت شمار ہوتی ہیں، اس لیے دونوں کے درمیان امتزاج، عبارت کو ہم آہنگ بنا دیتا ہے۔ ان کی نظم ( عاشق جو فلسطین سے آیا ہے) کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

اس کی آنکھیں اور اس کے نقش ونگار فلسطینی ہیں

اس کا نام فلسطینی ہے

اس کے خواب و خیال اور دکھ فلسطینی ہیں

اس کا رومال، اس کے پیر اور اس کا بدن فلسطینی ہیں

اس کے بول اور اس کی چُپ فلسطینی ہیں

اس کی حیات اور اس کی موت فلسطینی ہیں

درویش یہاں لفظ فلسطینی بار بار دہراتے ہیں اس لیے کہ ان کو اس لفظ میں انسانی محبت کے سب سے خوب صورت معانی ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس لڑکی سے محبت وطن کی محبت ہوتی ہے۔ تمام خوب صورتی جس کو شاعر محسوس کرتا ہے، وہ فلسطین ہی میں مرتکز ہوتی ہے۔ درویش اکثر اپنی محبوبہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں پھر یہ گفتگو ان کو سرزمین فلسطین اور اس کے دکھ درد کی طرف لے جاتی ہے۔ چناںچہ جب وہ ایک عورت سے محبت کے لمحات کا احساس کرتے ہیں، تو ساتھ ہی وطن سے محبت کے جذبات بھی انگڑائی لینے لگتے ہیں۔ محبوب عورت شاعر کو ہمیشہ وطن کی یاد دلاتی ہے کیوںکہ در حقیقت وطن ہی محبوب ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

تمہاری آنکھوں کے درمیان کیا چیز ہے

جو وطن کو زیادہ خوب صورت بناتی ہے۔۔۔

اساطیر اور وقت تم سے ایک گھر کی خواہش کرتے ہیں

تم ہو میرے پاس یا وطن ہو

یا میں تم دونوں میں ایک رمز ہوں

وہ اپنی محبوبہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

تم اپنی آنکھوں کے نیچے مجھے لے لو

تم جہاں بھی ہو، مجھے لے لو

جو کچھ بھی بن گئی ہو، مجھے لے لو

ان اشعار میں ''مجھے لے لو'' کی تکرار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درویش کو اپنے وطن کی اشد ضرورت ہے۔ ان کی نظر میں عورت اپنے اندر عزت اور تقدس کی قدریں رکھتی ہے۔ اس لیے عورت ان کے لیے وطن کی نمائندگی کرتی ہے۔ جب وہ غیرمحفوظ ہونے، جلا وطنی، بے گانگی اور اجنبیت کا درد، پریشانی، اور دباؤ کی کیفیت محسوس کرتے ہیں تو وہ عورت کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کو وطن واپس آنے سے قاصر رہنے کی تکلیف ہونے لگتی ہے تو وہ وطن سے اس طرح مخاطب ہوئے ہیں جیسے وہ اپنی محبوبہ سے مخاطب ہو رہے ہوں۔ وہ عورت اور وطن کی تقدیس کرتے ہیں کیوںکہ دونوں زندگی کے دو ذرائع ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

میرے پاس دھرتی ہے یا تم ہو، یا تم دونوں جڑواں ہو؟!

تم دونوں ایک جیسے ہو... میرے پاس

محمود درویش ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے اشعار سے اپنے وطن کا دفاع کیا۔ اپنی وفات تک سرزمین فلسطین سے محبت کی۔ اس لیے ان کی شاعری میں وطن کا محبوب، مادہ، اور مٹی ہونا فطری بات ہے۔ ان کی شاعری سے یہ بات نمایاں ہے کہ محبت کے انتہائی مخلصانہ جذبات وہ ہیں جو وطن کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری، وطن کی محبت اور عورت کو ایک استعارے میں سمو کر محبت کے جذبے میں بدل دیتی ہے۔ وہ بڑی عمدگی سے عورت کی صورت میں وطن کی صورت پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں عورت ملتی ہے وہاں وطن بھی موجود ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے وطن فلسطین کو معشوق کی طرح چاہا۔ وہ عاشق ہیں اور فلسطین ان کی محبوب سرزمین ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں