زباں فہمی کچھ ٹوپی کی تعریف میں

’’ٹوپی، ٹوپی‘‘ کا نعرہ لگاکر یہ بتا دیتا ہے کہ مقابل نے اپنی کسی بات سے دھوکا دیا ہے اور بے وقوف بنایا ہے


سہیل احمد صدیقی January 09, 2022
’’ٹوپی، ٹوپی‘‘ کا نعرہ لگاکر یہ بتا دیتا ہے کہ مقابل نے اپنی کسی بات سے دھوکا دیا ہے اور بے وقوف بنایا ہے ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: زباں فہمی 130

ہماری تہذیب وثقافت میں ٹوپی کی کیا اہمیت ہے، جاننے والے جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں۔ اور اگر بات کی گہرائی میں جائیں تو شاید دنیا کی ہر تہذیب، بلکہ ہر عہد میں ہر خطے کی نمایاں تہذیب میں ٹوپی اہم رہی ہے۔ اسلام سمیت مختلف ادیان ومذاہب میں بھی ٹوپی زیب وزینت اور اعزاز وافتخار کی علامت ہے۔

ہمارے پیارے آقا (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے مسلمانوں کو مشرکین سے ممیّز کرنے کے لیے عمامے کے نیچے، ٹوپی پہننے کی تاکید فرمائی۔ ایک وہ دور بھی تھا جب کسی مسلمان کا، بلاضرورت، ننگے سر ہونا اور پھِرنا انتہائی تعجب خیز اور لائق مذمت ہوا کرتا تھا۔ ہم اپنے موجودہ معاشرے کی بات کریں تو ٹوپی پہنی جاتی ہے، لگائی جاتی ہے، اورآج کل کی چالو عوامی بولی یعنی Slang میں ٹوپی پہنائی جاتی ہے، دی جاتی ہے نیز کرائی جاتی ہے۔

اسی پر بس نہیں، ایک ''ٹوپی ڈراما'' بھی ہوتا ہے جو شاید پچھلے وقتوں میں یوں نہ ہوتا تھا اور کوئی بہت جلدی میں ہوتا ہے تو محض۔ ہمارے بعض ''بڑے'' (کسی بھی شعبے بشمول ادب کے) اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ اُنھیں دیکھنے کے لیے سر اُٹھانا پڑتا ہے اور ایسا کرنے میں ٹوپی سر سے گرجاتی ہے۔

پہلے زمانے میں یہ مثال قطب مینار کے لیے بولی جاتی تھی اور مابعد دیگر کے لیے بھی مستعمل رہی، پھر ہمارے یہاں عالَم چنّا اور نصیرسومرو جیسے بلندقامت اشخاص منظرعام پر آئے جنھیں دیکھتے ہوئے ایک عام قد کے انسان کی ٹوپی گرجانا معمول کی با ت ہوگئی۔

ویسے اگر عمارتوں کو دیکھنے کی بات ہو تو ہمارے ملک میں بھی پہلے قمرہاؤس، حبیب بینک پلازا، ایم سی بی پلازا اور ان کے درمیان کہیں پی ٹی وی بوسٹر جیسی بلند عمارتیں یا تعمیری ڈھانچے، اسی عظیم شہر میں تعمیر ہوکر مشہور ہوئے جسے کہتے تو سبھی اپنا ہیں، مگر اپناتا کوئی نہیں۔ اب وطن عزیز کی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، بحریہ ٹاور[The Bahria Icon Tower/ Bahria Opal Tower]، کو جس کی تکمیل کے بعد کُل باسٹھ منزلیں ہوں گی اور بلندی دوسو تہتر میٹر ( 273 m) ہوگی۔ اب ذرا سوچیں، اسے دیکھنے والے کے سر پر ٹوپی کا جمارہنا تو یقیناً ناممکن ہے۔

آمدم برسرمطلب! ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں بعض ٹوپیاںکسی مشہور شخصیت، خصوصاً سیاسی قائد سے نسبت پاکر اتنی مشہور ہوچکی ہیں کہ اُن کا اصل نام کہیں گم ہوگیا ہے یا سرے سے یہ تصور بھی مفقود ہوچکا ہے کہ انھیں کچھ اور بھی کہتے ہوں گے ۔سرِفہرست نام قائداعظم سے منسوب، 'جناح کیپ'[Jinnah cap]کا ہے جو پہلے تو محض قراقُلی (قرہ یعنی سیاہ ، قُل یعنی اُون:اُزبِک/ترکی، دَری، پشتو) ٹوپی کہلاتی تھی، مگر اَب پاکستان میں (قائد کے ذکر میں) قراقُلی کوئی نہیں کہتا۔ قائداعظم کو یہ ٹوپی تحریک آزادی کے رہنما نواب اسمٰعیل خان نے ہدیہ کی تھی۔ یہ ٹوپی قدیم مسلم ریاست اَسترا خان میں ایک مخصوص نسل، قراقل کی بھیڑ کے پشم /اُون سے بنائی جاتی ہے، اسی سبب اسے استراخان پشم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ جگہ آج رُوس کا حصہ ہے۔

اس ٹوپی کا رواج زمانہ قدیم سے وسطِ ایشیا میں چلا آتا ہے، جہاں سے یہ پوری دنیا، خصوصاً ہندوستان نیز کشمیر میں پھیل گئی۔ {انتہائی تعجب خیز یہ انکشاف ہے کہ ایک جنگلی بلّی (سیاہ گوش) کو بھی ''قراقُر۔قراقل''[Qaraaqur-qaraaqal]کہتے ہیں جو ایران اور توران (وسطِ ایشیا) میں پائی جاتی ہے}۔ ملکی سطح پر غالباً دوسرا نمبر 'لیاقت کیپ' کا ہے جو ہمارے اولین وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سے منسوب ہے۔ یہ رام پوری ٹوپی کی ایک شکل ہے۔ سابق مشرقی پاکستان کے مشہور بنگالی رہنما 'مولانا' عبدالحمید بھاشانی کی مخصوص ٹوپی بھی اپنے وقت میں بہت مشہور تھی۔

آج بھی بعض بنگالی، خصوصاً پاکستانی بنگالی بزرگ Bhashani cap یہی پہننا پسند کرتے ہیں۔ ہندوستان میں گاندھی (موہن داس کرم چندگاندھی) جی، کی نسبت سے گاندھی کیپ مشہور ہوئی جو پنڈت جواہر لال نہرو کی نسبت سے نہرو کیپ بھی کہلائی، البتہ ابوالکلام آزاد ؔ مختلف اوقات میں مختلف ٹوپیاں پہننے کے لیے مشہور تھے۔ رام پوری اونی ٹوپی اور دوپَلّی ٹوپی کی اپنی شہرت ہے۔ لفظ ٹوپی کو ہندی الاصل بتایا جاتا ہے، لیکن راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ کی ہندی اردو لغت میں یہ شامل نہیں۔ ٹوپی کے مختلف معانی میں تاج، مُکٹ، بندوق کا پٹاخا اور وہ تھیلی شامل ہے جو شکاری، جانور کے مُنھ پر چڑھاتے ہیں۔ اسی سے ٹوپ (بڑی ٹوپی)،کن ٹوپ اور ٹوپا بھی بنا ہے۔

اردو میں ٹوپی کے حوالے سے کئی محاورے مشہور ہیں، جیسے اِس کی ٹوپی، اُس کے سر۔ فارسی میں اسے کہتے ہیں: کُلاہ احمد بَرسَرِ محمود یعنی احمد کی ٹوپی، محمود کے سر۔ فارسی لفظ کُلاہ بھی ٹوپی کے لیے مدتوں رائج رہا، پنجابی اور اس کے زیراثر دیگر زبانوں میں لوگ اسے تشدید سے ''کُل لا'' کہتے ہیں۔ فارسی میں اسے مختصراً کُلہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے بعض دیگر معانی بھی ہیں۔ اس کا سب سے برمحل، برجستہ اور لاجواب استعمال اس شعر میں ہے:

ہرقوم راست راہے، دینے و قبلہ گاہے

من قبلہ راست کردَم اَز طرفِ کج کلاہے

اس کا شان نزول یا تاریخ تخلیق یوں ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) نے ایک دن ہندوؤں کو اَشنان کرتے دیکھ کر برملا پہلا مصرع کہا تو اُن کے مقرب ومرید اَمیر خسرو (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس پر دوسرا مصرع کہہ کر شعر مکمل کردیا۔ کج کُلاہ یعنی ترچھی ٹوپی پہننے والا اپنے پیر ومُرشَد کو کہا۔ افسوس اب ہمارے یہاں تِرچھی ٹوپی کی ترکیب کسی اچھے معنی میں مستعمل نہیں۔ ایک اردو محاورہ ہے: چارکُرتے ٹوپی زیادہ پھاڑنا یعنی زیادہ عمر اور تجربہ کار ہونا (عددی محاورے اور ضرب الامثال از عامر عالم رضوی)۔ ٹوپی سے بھی مشورہ کرنا چاہیے (مثل): ؎ کہتے ہیں اپنی ٹوپی سے بھی مَشورَت کرو+کر قصد ترک سر سے کبھی شرم مَت کرو (میرؔ۔منقول : فرہنگ آصفیہ)

بعض اور محاورے بھی لغات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

جدیداسلامی تاریخ میں شاید سب سے زیادہ شہرت تُرکی ٹوپی کو ملی جو مصطفی کمال پاشا کی مہربانی سے اپنے ہی وطن میں ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں شامل ہوئی تو مدتوں کوئی تُرک اسے پہننے سے قاصر رہا۔ برّصغیر (یا برّعظیم) پاک وہند میں تحریک تحفظ خلافت کے عمائدین مولانا محمدعلی جوہرؔ اور شوکت علی نے ترکی ٹوپی اور عربی جُبّہ زیب تن کرکے اسے دیسی شناخت دی۔ سابق ہندوستانی ریاستوں میں حیدرآباد، د کن کے آخری فرماں رَوا، نظام میر عثمان علی خان اور بہاول پور کے آخری حکمراں نواب سَر صادق محمدخان عباسی نے اس ٹوپی کی سرپرستی کی۔

بعض دیگر سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اُن کی تقلید کی، مگر کوئی اس نسبت سے مشہور نہ ہوا۔ ترکی ٹوپی کی پھُندنے والی ساخت ہمارے یہاں کچھ لوگو ں کو مضحکہ خیز محسوس ہوئی تو معروف ٹی وی ڈراما نگار محترمہ حسینہ معین (مرحومہ) نے اپنے ڈرامے ''انکل عُرفی'' میں اس کا ''حسنات بھائی'' جیسے مزاحیہ کردار میں، الٹی ٹوپی پہناکر، خوب خوب تمسخر اُڑایا۔ یہاں انتہائی تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ : ا)۔

محترمہ نے مجھے ٹیلی فونک انٹرویو میں خود بتایاتھا کہ انھوں نے بی اے (آنرز) میں تاریخ ِعام[General history] پڑھی ہے اور ب)۔ جمشید انصاری مرحوم کے انکشاف کے مطابق، انھوں نے یہ کردار، دہلی کالونی کے فٹ پاتھ پر نہاری کھاتے ہوئے کسی مجہول، مضحکہ خیز شخص سے اتفاقاً بات چیت کرتے ہوئے، اُس کے عجیب طرزِگفتگو کی وجہ سے، ڈرامے میں شامل کرنے کا سوچا اور مصنفہ نے اسے ایک شکل دے دی۔ مرحوم سے میری بھی ملاقات رہی، مگر انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مذکورشخص اس حُلیے کا حامل تھا۔

اب ذرا سوچیں کہ ہم اپنی ہی تاریخ سے کیسا کھِلواڑ کرتے ہیں، پھر دوسروں سے گِلہ کیا کرنا۔ (یہ بظاہر قابل اعتراض تفصیل اس لیے بیان کی ہے کہ ہمارے یہاں ہر بات اور ہر عمل بلاسوچے سمجھے نقل کرنے کی غلط رَوِش عام ہے)۔ ترکی ٹوپی کی ایک قسم فارسی میں فس یا فص کہلاتی ہے۔ یہی فیض یا فاض بھی کہلائی اور اس کی نسبت، مراکِش کے شہر فیض [Fez or Fes] سے ہوگئی۔ اس کا دوسرا نام طربُوش ہے۔ پاکستان کی کثیرلسانی، متنوع علاقائی ثقافت میں کئی قسم کی ٹوپیاں اپنی اپنی جگہ منفرد شناخت کی حامل ہیں۔ سرِفہرست نام سندھی ٹوپی کا ہے جو تحقیق کی رُو سے اصل میں، بلوچی ٹوپی ہے اور سرائیکی ثقافت میں بھی رچی بسی ہے۔ گلگت، بلتستان، چترال، مردان اور بونیر کی ٹوپیاں اپنی اپنی جگہ ممتاز ہیں۔ اسی طرح گرم ٹوپیوں میں بھی صوبہ خیبرپختو ن خوا کے کئی نمونے بہت مقبول ہیں۔

ہمارے یہاں خان عبدالغفار خان عرف 'باچاخان' (باچا: پشتو میں بمعنی بادشاہ) کی سُرخ ٹوپی بھی اُن کے پیروکاروں اور عقیدت مندوں میں بہت مقبول ہے، مگر اُسے خان مرحوم سے منسوب یا معنوَن نہیں کیا جاتا، ہاں البتہ اُنھیں سُرخ پوش کہا جاتا تھا تو یہ بھی سرخ پوش ہی ٹھہرے۔ تاریخی اعتبار سے سُرخ ٹوپی کا ایک اور حوالہ بھی مشہور ہے، وہ ہے قِزِ ل باش کا (قزل یعنی سُرخ+باش یعنی سَر: ترکی)۔

یہ نام بگاڑکر زبر سے بولا جانے لگا ہے، مگر درست زیرسے ہے:Qizilbaash۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مخصوص سُرخ ٹوپی اور رومال سر پر باندھنے والے، قِزِ ل باش، مشرقی قفقاز ( Caucasus or Caucasia) سے تعلق رکھنے والے تاتاری گھڑ سواروں کا قبیلہ ہے جس کے قیدیوں کو (ایک روایت کے مطابق) اَمیرتِیموُر[Timur]نے ایرانی بادشاہ اسمٰعیل صفوی کے والد شیخ حیدر کے حوالے کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایرانی شاہ نے اپنے لشکریوں کے لیے یہ سرخ ٹوپی مخصوص کی تھی۔ یہ لوگ نادرشاہ کی حملہ آور فوج اور مغلیہ سپاہ میں بھی نمایاں طور پر شامل تھے۔

اورنگزیب عالم گیر کے مشہور وزیر میر جملہ بھی قزلباش تھے۔ ایک ایرانی شاعر قزل باش خان امیدؔ بھی ہوگزرے ہیں جو اَورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ایران سے ہندوستان آئے اور مادری زبان فارسی کے علاوہ، کبھی کبھار ریختہ یعنی قدیم اردو میں بھی شعر کہہ لیا کرتے تھے، یوں اُن کا شمار قُدَمائے سخن میں کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے سابق صوبے مغربی پاکستان کے تیسرے وزیراعلیٰ اور سابق وفاقی وزیرخزانہ، سابق وزیراعلیٰ پنجاب، (نیزفرانس میں پاکستان کے سابق سفیر)، نواب مظفر علی خان قزلباشKnight Bachelor ، ہلالِ پاکستان (1908ء تا 21ستمبر 1982ء) بھی اپنے وقت کے مشاہیر میں شامل تھے۔

فرنگی عہد حکومت میں سرکار کے نمک خوار، جاگیردار نواب سرفتح علی خاں قزلباش ( 1862ء تا 28 اکتوبر 1923ء) بھی ممتاز تھے۔ جدید دور کی بات کریں تو ہمارے یہاں ایک نہایت حسین گلوکارہ ماہ جبیں قِزل باش (1958ء تا 26فروری2020ء) ہو گزری ہیں۔ {انھیں ''بلبلِ سرحد'' کا خطاب ملا۔ وہ اردو، پشتو، فارسی، ترکی، پنجابی، سرائیکی، ہندکو اور سندھی میں گانے گاتی تھیں۔ اُن کے والد تُرک نژاد افغان مہاجر تھے}۔

عوامی جمہوریہ چین کے عظیم رہنما چیئرمین ماؤزے تُنگ کے مخصوص لباس میں شامل ٹوپی کو دنیا بھر میں Mao capکے نام سے شہرت ملی۔ آن لائن تحقیق کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹوپی درحقیقت ''جہازی'' یا ''ملاحی'' ٹوپی [Mariner's cap] ہے جسے ان ناموں سے بھی پکاراجاتا رہا ہے:

Skipper cap, Greek fisherman's cap, Fiddler cap or Breton cap and Lenin cap

آخری نام پر یقیناً آپ چونکے ہوں گے۔ لینن صاحب بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ پاکستان میں اس مخصوص ٹوپی کو متعارف کرانے کا سہرا سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے سَر ہے۔ جہاز اور جہازی کی فہرست میں تو وہ ساری ٹوپیاں بھی شامل ہیں جو زمانہ قدیم سے آج تک بحری افواج میں مستعمل رہی ہیں، پھر سمندر کا ذکر ہو تو ''بحری'' یا سمندری ڈاکو یعنی Piratesکی ٹوپیاں بھی یاد رہتی ہیں، جنھیں قزاق یا قذاق کہنا ہرگز موزوں نہیں، ایک پوری قوم کی تذلیل ہوتی ہے۔ امریکی خطے میں Cowboy capیا Cowboy hat کی اپنی شناخت ہے۔ دیگر مشہور ومقبول ٹوپیوں میں کرکٹ کیپ، خصوصاًBaggy Cricket Cap شامل ہیں جن کا آغاز آسٹریلیا سے ہوا تھا۔ اسی طرح کرکٹ میں کھلاڑی اور امپائرز Solar/Sun Hatاستعمال کرتے ہیں۔ کرکٹ کے علاوہ گالف اور بیس بال کے کھلاڑیوں کی ٹوپیاں بھی مشہور ہیں۔

کوریا کی قدیم روایتی ٹوپی ''گاس'' (غلط انگریزی تلفظ: گیٹ) اپنی گنبد نُما شکل کی وجہ سے الگ پہچان رکھتی ہے، ویسے کورین کیپ کے نام سے جدید لمبے چھجّے والی ٹوپی زیادہ مشہور ہے۔ یہودی مذہبی پیشوا، رَبّی اپنی مخصوص ٹِکیہ جیسی ننھی منی ٹوپی سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہی ٹوپی پوپ بھی پہنتے ہیں۔ مسقطی ٹوپی، عُمانی ٹوپی بھی کہلاتی ہے۔ یہ ان دنوں ہمارے یہاں بعض طبقات میں بہت مقبول ہے۔ مختلف افواج کی اپنی مخصوص ٹوپیاں، اسکاؤٹس کی ٹوپی، ملکہ برطانیہ کے شاہی محافظوں اور برٹش میوزئیم کے دربانوں کی ٹوپیاں بھی اپنی اپنی جگہ منفرد ہیں۔

چَوگوشہ، منفرد اور سادہ نمونے یعنی Design والی شامی ٹوپی بھی تحقیق کا ایک باب ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہیلمٹ [Helmet] یعنی خود بھی درحقیقت قدیم فوجی جنگی آہنی ٹوپی ہے۔ اس کا ماخذ قدیم انگریزی لفظHelmہے جس کا مطلب ہے سر کی حفاظت کے لیے پہننے والی کوئی چیز۔ آج کل اس کے اندر بھی ایک ٹوپی پہنی جاتی ہے جسے ہیلمٹ کیپ کہتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں شاعری میں ٹوپی کے ذکر کی:

دِلّی کے کَج کُلاہ لڑکوں نے
کام عُشّاق کا تمام کیا

کوئی عاشق نظر نہیں آتا
ٹوپی والوں نے قتل عام کیا

یہ کلام ہے میرؔ کے صاحب ِ دیوان، ہم عصر، شرف الدین علی خان پیامؔاکبرآبادی (متوفیٰ1744) کا جو میرؔ کے (سوتیلے بھائی کے) ماموں اور صاحب علم، بزرگ معاصر خان آرزو (سراج الدین علی خان آرزو، متوفیٰ 1756) کے شاگرد تھے اور مغلیہ سلطنت کے زوال کے آئینہ دار محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں ہوگزرے ہیں۔ {معلوم ہوتا ہے کہ پیامؔ کا یہ قطعہ اس قدر مقبول ہوا کہ میرؔ جیسے بڑے شاعر نے بھی اپنی غزل میں بعینہ شامل کرلیا:

غزل از میر تقی میر

کام پل میں مرا تمام کیا
غرض اس شوخ نے بھی کام کیا

سرو و شمشاد خاک میں مل گئے
تونے گلشن میں کیوں خرام کیا

سعی طوف حرم نہ کی ہرگز
آستاں پر ترے مقام کیا

تیرے کوچے کے رہنے والوں نے
یہیں سے کعبے کو سلام کیا

اس کے عیارپن نے میرے تئیں
خادم و بندہ و غلام کیا

حال بد میں مرے بتنگ آکر
آپ کو سب میں نیک نام کیا

دختر رز سے کیا تھا میرے تئیں
شیخ کی ضد پہ میں حرام کیا

ہو گیا دل مرا تبرّک جب
وِرد یہ قطعۂ پیامؔ کیا

''دلی کے کج کلاہ لڑکوں نے
کام عشاق کا تمام کیا

کوئی عاشق نظر نہیں آتا
ٹوپی والوں نے قتل عام کیا''

عشق خوباں کو میر میں اپنا
قبلہ و کعبہ و امام کیا}

کتابی اور آن لائن تحقیق و جستجو میں ہمیں ٹوپی کے موضوع پر یہ اشعار دستیاب ہوئے:

اڑ گئی ٹوپی بھی سر کے جب چلی باد وبال
تاج شہ کو مورچھل آندھی کا جھونکا ہو گیا

(امداد علی بحرؔ)

یاران سخن گو کی ہے وہ کمپنی اپنی
نت جس کی سلامی ہے فراسیس کی ٹوپی

(مصحفی ؔ)

گلگشت باغ کو جو گیا وہ گل فرنگ
غنچے سلام کرتے تھے ٹوپی اتار کے

(ارشد علی خان قلقؔ)

اس کے علاوہ متعدد منظومات میں اس کا ذکر بہت ہوا۔ ادب ِاطفال میں، بچوں کے شاعر، مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی نظم ''ایک بچہ اور جگنو کی باتیں'' کا یہ حصہ بھی دل چسپ ہے:

چمکدار کیڑا جو بھایا اسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپایا اسے

بچوں کے لیے ڈاکٹر شان الحق حقی کی مشہور نظم ''بھائی بھلکڑ'' میں یہ شعر بھی سبھی کو یاد ہوا کرتا تھا:

ٹوپی ہے تو جوتا غائب
جوتا ہے تو موزہ غائب

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں