صائب باتیں

مغربی بارڈر پر 2021 میں صورتحال تشویشناک رہی ہے

مغربی بارڈر پر 2021 میں صورتحال تشویشناک رہی ہے فوٹوفائل

ISLAMABAD:
نواز شریف سے ڈیل کی باتیں بے بنیاد ہیں جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے سیز فائر 9 دسمبر کو ختم ہوگیا تھا، اب ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مغربی بارڈر پر 2021 میں صورتحال تشویشناک رہی ہے، افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے اثرات پاکستان کی سیکیورٹی پر پڑے ہیں، بارڈر مینجمنٹ کے تحت پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام 94 فیصد مکمل ہوچکا ہے۔

یہ امن کی باڑ ہے اور یہ ضرور مکمل ہوگی، اس باڑ کو لگانے میں ہمارے شہدا کا خون شامل ہے، افغانستان کی موجودہ صورتحال سنگین انسانی المیہ کو جنم دے سکتی ہے۔2021 میں ایل او سی پورا سال پرامن رہا، بھارتی فوج دہشت گردی کے نام پر مظلوم کشمیریوں کو شہید کررہی ہے، بھارت ایل او سی کے اردگرد بسنے والے لوگوں کو شہید کرچکا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی مظالم سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے، بھارت اندرونی طور پر مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے، بھارتی فوجی قیادت کی جانب سے منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔

بیتے برس کے حوالے سے ملکی دفاع اور امن وامان کی صورتحال پر میجر جنرل بابر افتخار کی قومی پریس سے گفتگو انتہائی اہمیت کی حامل ہے ، سیاسی حوالے سے بات کی جائے تو چائے کی پیالی میں جو طوفان اٹھ کر رہا تھا، وہ فوج کے ترجمان کی وضاحت کے بعد تھم جائے گا۔ انتخابات وقت مقررہ پر ہونگے، جس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو بھرپور تیاری کرنی چاہیے اور اپنے اپنے منشور کے ساتھ عوام میں رابطے بحال کرنے ہوں گے ۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ افغانستان میں موجود بعض مسلح گروہ پاکستان کے عوام اور ہماری سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، اس لیے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا اور اسے محفوظ بنانا پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے بھی یہ باڑ اتنی ہی ضروری ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ''القاعدہ کی قیادت کا ایک بڑا حصہ پاک افغان سرحد کے پاس موجود ہے' اور داعش خراسان بھی نہ صرف متحرک ہے بلکہ خطرناک بھی ہے'' پاکستان کے سیکیورٹی ادارے پہلے ہی خبردار کردیا ہے کہ اگر پڑوس میں کشیدگی جاری رہتی ہے تو دہشت گردوں کے سلیپر سیل دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی دہشتگردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سخت قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی پاکستان کی کامیابیاں ضایع ہونے کا امکان پیدا ہوجائے گا، اسی تناظر میں افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا عمل پاکستان کا صائب اقدام ہے ۔

افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان کے اندر پیدا ہونے والے تناؤ اور ایک غیر یقینی کی صورت حال، بدامنی اور عدم استحکام یقینا ہمسایہ ممالک سمیت پورے خطے کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔افغانستان کے لسانی، نسلی، قبائلی تفرقات کے علاوہ سیاسی گروہوں کے درمیان چپقلش اور مسلح جنگجوؤں کی حکومت مخالف کارروائیاں جیسے مسائل افغانستان کے اندر صورت حال کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو طالبان افغانستان کے اندر ایک مضبوط اور طاقتور اسٹیک ہولڈر تو ہیں مگرایک جامع سیاسی سیٹ اپ کے بغیر افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء افغانستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک خطرہ ثابت ہوا ہے۔


اس سچ سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی صورتحال پاکستان کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی ہے، امریکا تو اپنی مرضی سے افغانستان سے چلا گیا ہے، لیکن اس فوجی انخلا کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑے ہیں۔حکومت پاکستان کا واضح موقف ہے کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے، جو میں تمام نسلی ولسانی گروہوں کو نمایندگی دی جائے، لیکن تاحال طالبان کی عبوری حکومت اس ضمن میں پیش رفت نہیں کرسکی ہے۔چین، روس اور ایران کے لیے افغانستان میں طالبان کا دوبارہ ابھرنا ایک بڑا مسئلہ ہوسکتا تھا لیکن ان تینوں ملکوں نے پیش بندی کر رکھی تھی۔

ایران اور روس نے ماضی کے برعکس پالیسی اپنائی تھی، ماضی میں یہ دونوں ملک طالبان مخالف قوت شمالی اتحاد کو مدد دیتے رہے تھے، لیکن اس بار ان دونوں ملکوں نے طویل مدت سے طالبان کے ساتھ روابط بنا لیے تھے۔ افغان طالبان کے کابل پر قبضے کو پاکستان میں بھارت کی اسٹرٹیجک شکست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ کالعدم تحریکِ طالبان اور دیگر انتہا پسند گروپوں کا حوصلہ بڑھنے پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ طالبان کی فتح کے بعد بھارت کے افغانستان کے قونصل خانوں اور اشرف غنی انتظامیہ کی مدد سے وہ پاکستان کے لیے جو مسائل کھڑے کررہا تھا وہ راستے بند ہوگئے ہیں۔ ساتھ ہی کابل میں بھارت کے تمام دوست راہِ فرار اختیار کرگئے ہیں۔خطے کی سیاست افغانستان میں تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔

بھارت کابل میں غیر متعلق ہوچکا ہے۔ روس جو 3 دہائیاں قبل دریائے آمو کے پار واپس جانے پر مجبور ہوا تھا ۔چین جو امریکی فوجی موجودگی سے مضطرب تھا اس کی روانگی سے خوش ہے اور علاقائی سیکیورٹی کا انچارج بننے کو بیتاب بیٹھا ہے اور اس کے ساتھ افغانستان کو سنکیانگ میں سرگرم گروپوں کی آماجگاہ بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ ایک عمومی منظرنامہ جو ابھر کر سامنے آیا ہے ، اب اس صورتحال میں پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کس طرح کرسکتا ہے ، یہ اہم ترین سوال ہے ۔

عالمی سیاسی منظرنامے پر رونما ہونے والی سیاسی اور عالمی تبدیلیوں، نئے زمینی حقائق اور نئی عالمی صف بندیوں کے بعد پاکستان اب مسئلہ افغانستان کو ایک نئے پہلو سے دیکھتا ہے۔ پاکستان نے بہر طور کئی دہائیوں تک افغانستان کے داخلی معاملات میں غیر معمولی دلچسپی، سیاسی خدوخال پر اثر انداز ہونے کی کامیاب کوشش اور 'تزویراتی گہرائی' جیسی اپروچ کے ایک طویل تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور کئی اہم اسباق حاصل کیے ہیں۔

گزشتہ چالیس برسوں کے درمیان افغان مزاحمت اور مجاہدین کی آماجگاہ زیادہ تر پاکستانی شہر رہے ہیں اور اس کے علاوہ پاکستانی حکام اور عوام دونوں نے ہی ہر طریقے سے افغان مجاہدین کی مدد کی ہے۔ اس لیے پاکستان کے افغانستان میں طالبان جیسے اسٹیک ہولڈرز سے غیر معمولی تعلقات اور اثررسوخ کے باوجود موجودہ صورت حال نوے کی دہائی سے مختلف ہے۔ دوسری طرف اس بدلتی ہوئی صورت حال میں امریکا کی سیاسی اور تزویراتی ترجیحات صرف امریکا تک محددود نہیں بلکہ چین اور امریکا کے درمیان تناؤ اور مشرق وسطی میں ایران کی باعث امریکا مفادات کو درپیش چیلنج بھی اہم نوعیت کے معاملات ہیں جو خطے سے متعلق امریکی پالیسی کے بنیادی محرکات ہیں اور امریکی مفادات میں ایک اہم پہلو بھی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے چھ ماہ قبل ہی ''دی واشنگٹن پوسٹ'' اخبار کے لیے تحریر کیے گئے اپنے ایک مضمون میں صاف طور پر پاکستان میں امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کو مسترد کرتے ہوئے مستقبل کے لیے پاکستانی حکمت عملی وضع کردی تھی، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی تعمیر نو میں ایک فعال کردار ادا کرے لیکن پاک افغان سرحد پر جو کچھ ہورہا ہے، یہ مختلف کہانی کی نشاندہی ہے۔ایسا لگتاہے کہ طالبان کی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان کے بارے میں وہی خیالات رکھتے ہیں جو کرزئی اور اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کے تھے۔

پاکستان کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب دنیا سمجھتی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں ایک دیرپا امن قائم کرنا ممکن نہیں۔دوسری طرف اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کے عدم استحکام کی صورت میں اسی کی دہائی اور پھر نائن الیون کے واقعات کے بعد رونما ہونے والی صورت حال کی طرح ایک بار پھر پاکستان اس کے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہو سکتا ہے،جب کہ یہ عدم استحکام کئی حوالوں سے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے لیے بھی پریشان کن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے لیے افغانستان کی صورتحال تاحال پیچیدہ ہے۔

پاکستان کو افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی کے حوالے سے ایک وسیع کینوس پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کے نئے سیاسی، معاشی ،علاقائی، نجی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جا نا چاہیے۔ پاک فوج کے ترجمان نے پاک افغان سرحد پر باڑ کے حوالے سے واضح کردیا ہے کہ باڑ کے معاملے میں کوئی لچک نہیں دکھائی جائے گی۔
Load Next Story