بھارت اقلیتیں اور ہندوتوا

بھار ت میں آج محض مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی، سکھ ، دلتوں کو بھی تشدد کا سامنا ہے


سلمان عابد January 07, 2022
[email protected]

ISLAMABAD: اگرچہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو متعصبانہ روئے اورمذہبی تفریق کا مسئلہ نیا نہیں ہے لیکن جو سیاست آج بھارت میں کی جارہی ہے، عالمی انسانی حقوق کے ادارے تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ بھار ت میں آج محض مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی، سکھ ، دلتوں کو بھی تشدد کا سامنا ہے۔سب سے زیادہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔

اس کی ایک جھلک ہمیں بھارت کے معروف ادکار نصیر الدین شاہ کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے کہ '' بھار ت میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنایا جارہا ہے۔ ان کے بقو ل جو لوگ بھی بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کررہے ہیں وہ دراصل ملک میں خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں ۔''اسی طرح کا ان کا یہ بھی موقف ہے کہ یہ جو کچھ انتہا پسند کررہے ہیں ان کو اوپر کی سطح سے تحفظ حاصل ہے اورا س کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے او رجو لوگ یہ سب کچھ کررہے ہیں ان کے خلاف ریاستی یا حکومتی سطح پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

نصیر الدین شاہ نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، وہ محض رومانوی پہلو نہیں یا محض ان کی رائے نہیں بلکہ بھارتی انتہا پسند عناصر کے عملی اقدام کی بنیاد پر کہا گیا ہے۔ہندوں کے مقدس شہر ہری د وار میں17سے 19دسمبرکے دوران ہونے والے تین روزہ مذہبی اجتماع میں مسلمانوں کی نسل کشی پرمبنی تقریروں کا ردعمل ہے۔

اس اجتماع میں زہر الود مسلم دشمنی پر مبنی تقرریں کی گئی اورمسلمانوں کا قتل عام کی دھمکیاں دی گئیں۔ اسی اجتماع میں ہندو انتہا پسندوں سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ اسلحہ خریدیں اورمسلح جدوجہد کے لیے تیار ہوں او راگر اسلحہ نہیں ہے تو تلواریں خریدیں تاکہ مسلمانوں کو ٹھکانے لگایاجائے۔جہاں جہاں ہندو انتہا پسند طاقت یا اکثریت میںہیں وہاں مسلمانوں کو عبادت سے بھی روکا جارہا ہے اور ان کے کاروبار کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے ۔یہ دھمکیاں بھی سامنے آئی ہیں کہ اگر کسی بھی اقلیت نے بھارت میں رہنا ہے تو اسے ہندواتوا کی بالادستی کو قبول کرنا ہوگا۔

بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اقلیتوں کے ساتھ تفریق کے پہلووں پر بھارتی مسلح افواج کے پانچ سابق سربراہوں ، اعلیٰ سرکاری افسران اور دیگر ممتاز شہریوں سمیت ایک سو سے زائد افراد کی جانب سے صدر رام ناتھ کوونداور وزیر اعظم نریندر مودی کو بھیجے جانے والا وہ خط ہے جس میں مختلف تقریبات کے اندر جن میں سے ہری دوار اور دہلی کی حالیہ تقاریب خا ص طور پر قابل ذکر ہیں ، ان کے بقول اگر انتہا پسند ہندوراہنماوں کی تقاریر میں '' مسلمانوں کی نسل کشی کی کھلی کال '' کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے کہ اس رجحان کا سدباب نہ کیا گیا تو ایک متحد قوم کی حیثیت سے بھارت کا وجود ختم ہوسکتا ہے۔

ان افراد کے بقول مسلمان سمیت عیسائیوں، دلت اورسکھوں کو بھی ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایاجارہا ہے جس سے تشدد کی یہ کالیں بدامنی کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسی طرح ہندو انتہاپسند طبقہ کے بقول '' بھارت کو ہندومملکت بنایا جائے گا خواہ اس کے لیے جنگ اور قتل و غارت بھی کرنا پڑے۔ان سابق فوجی افسران میںسابق چیف آف اسٹاف ایڈمرل لکشمی نرائن داس، سابق ایڈمرل وشنو بھگوت، سابق ایڈمرل ارون پرکاش، سابق ایڈمرل آر کے دھوون، سابق ایئر چیف مارشل ایس پی تیاگی اورلیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ وجے اوبرائے سمیت کئی سرگردہ لوگ شامل ہیں ۔

یہ خط صدر اوروزیر اعظم سمیت نائب صدر ، لوک سبھا کے اسپیکر اور مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی روانہ کیا گیا ہے۔ایک دوسرا خط بھارت کی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ کے 76وکلا نے بھی چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کو لکھا تھا جس میں تشدد کی کالوں کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان کے بقول پولیس کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے عدالت کو اس معاملہ میں مداخلت کرنا ہوگی۔ یہ خبریں بھارت کے داخلی بحران کی سنگینی کو نمایاں کرتی ہے۔

اسی طرح برطانیہ کی پارلیمان کے 28ارکان نے مشترکہ طور پر لکھے گئے خط میں لندن میں قائم بھارتی ہائی کمیشن سے مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور جواب طلب کیا گیا ہے ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومین رائٹس واچ اور یورپی یونین سمیت بہت سے انسانی حقوق کے عالمی اداروں سمیت عالمی میڈیا نے بھی بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی کئی رپورٹس جاری کی ہیں۔لیکن ان معاملات پر بھی عالمی قوتوں نے حسی کا غلبہ ہے ، جب بھارت نے پانچ اگست 2019کومقبوضہ کشمیر کی خودمختاری پرشپ خون مارااور آرٹیکل 370اور 35-Aکا خاتمہ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا جس کے تحت کشمیریوں کو اپنا علیحدہ آئین ، علیحدہ پرچم او رتمام قانونی و آئینی معاملات میں علیحدہ نقطہ نظر رکھنے کی کم ازکم آئینی طور پر ہی سہی مکمل آزادی تھی ، لیکن ان آرٹیکل کے خاتمہ کے بعد یہ آزادی سلب کرلی گئی ۔

سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جو کچھ اتنہا پسند ہندو عناصر بھار ت میں اقلیتو ں کے ساتھ کررہے ہیں اس پر ریاستی یا حکومتی سطح سے وہ اقدامات نہیں کیے جارہے جو ان اتنہا پسندوں کو قانون کے کٹہرے میں لا سکیں ۔ یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ جو کچھ انتہا پسند ہندو طبقہ کررہا ہے اسے کسی نہ کسی شکل میں ریاستی وحکومتی سرپرستی حاصل ہے۔یہ ہی وہ پہلو ہے جو بھارت کی داخلی سنگینی کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے او راسی پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

خاص طو رپر بھارت کے میڈیا میں اقلیتوں کے حوالے سے نفرت انگیزی پائی جاتی ہے اس نے اقلیتوں کو عملی طور پر بھارت میں غیر محفوظ بنادیا ہے ۔ اگرچہ بھارت میں ایسی آوازیں ہیں جو مودی حکومت کی انتہا پسندی کو چیلنج کررہے ہیں لیکن ان کی نہ تو میڈیا میں کوئی بڑی پزیرائی نظر آتی ہے او رنہ ہی ریاستی و حکومتی سطح پر ان کے بیانیہ کو تحفظ دیا جارہا ہے ۔

یہ ساری صورتحال عالمی طاقتوں ، انسانی حقوق کے اداروں اور سیاسی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی و میڈیا کو بھی جنجھورٹی ہے کہ وہ ان تمام معاملات پر اپنی خاموشی کو توڑیں اور ایک مضبوط بیانیہ بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے تناظر میں پیش کریں۔ انفرادی سطح پر آوازیں تو اٹھ رہی ہیں لیکن ان انفرادی آوازوں کو اجتماعی آوازوں میں تبدیل کرنا ہوگا۔

خاص طور پر بھارت کی سول سوسائٹی اور دیگر سماجی طبقات جن میں فن کار، اداکار، شاعر ، ادیب ، صحافی اور دانشوروں سمیت تمام مذاہب کے پرامن قیاد ت کو باہر نکلنا ہوگا اورمودی حکومت پر دباو بڑھانا ہوگا۔جو لوگ بھی اقلیتوں کو دباؤ میں لارہے ہیں یاان کی جان ومال کو ختم کرنے کا ایجنڈ ا رکھتے ہیں یا اس کا سرعام پرچار کررہے ہیں ان کے خلاف ریاست کو بلاتفریق کاروائی کرنا ہوگی ۔ عالمی دنیا کو بھی بھارت کی موجودہ قیادت پر دباو ڈالنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں