ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ افواہوں کا خاتمہ
ایسی مفسدانہ کوششوں اور کارروائیوں پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی بھی گہری نظر ہوگی
ISLAMABAD:
زندہ قومیں ہمہ وقت اپنے ہر عمل کا حساب کرتی رہتی ہیں ۔سال 2021 گزرتے ہی دُنیا کی ہر قوم نے اپنے اپنے اسلوب میں اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لیا ہے۔ اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو اپنے اپنے انداز میں ترازُو میں تولا ہے۔ ایک زندہ قوم کی جری اورعالمی شہرت یافتہ افواج ہونے کے ناتے ہمارے عسکری اداروں نے بھی اپنے افعال کا جائزہ لیا ہے۔
اور اب اس جائزے کو نہائت محتاط اندازو اسلوب میں قوم کے سامنے پیش بھی کر دیا ہے ۔ آئی ایس پی آر چونکہ ہماری تینوں مسلح افواج کا ترجمان ادارہ ہے، اس لیے اِسی کے پلیٹ فارم سے، افواجِ پاکستان کے قابلِ فخر کردار کے حوالے سے، پچھلے سال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار صاحب، جو ہم سب کے لیے باعثِ افتخار بھی ہیں، آئی ایس پی آر کے ڈی جی ہیں، اس ناتے انھی کی زبانی 5جنوری2022کو حقائق اور اعدادوشمار سامنے رکھے گئے ہیں۔
اس کے لیے انھوں نے اپنااوپن فورم استعمال کیا۔ متنوع خیالات و نظریات رکھنے والے کئی صحافیوں کے سامنے شائستگی اور متانت سے اپنے خیالات و افکار رکھے۔ اور پھر ہر اُٹھنے والے سوال کا خندہ پیشانی، صبر کے ساتھ اور مختصر طور پر جواب بھی دیا۔ یہ پریس کانفرنس ایک گھنٹہ سے زائد وقت کو محیط تھی۔ کئی غیر ملکی اخبارات و جرائد اور میڈیا کے نمایندگان بھی آئی ایس پی آر کی اس تازہ ترین اور ذہن کشا بریفنگ میں شریک تھے۔
یہ پریس بریفنگ اس لیے بھی بے حد ضروری تھی کہ ملک کے اندر کئی قسم کے جوار بھاٹا اُٹھ رہے ہیں۔ کئی سوالات ایسے سر اُٹھا رہے ہیں جن کا جواب صرف ہماری عسکری قیادت ہی قوم کے سامنے رکھ سکتی ہے۔ بعض اوقات ہم نادانی میں ایسے سوالات بھی اٹھا دیتے ہیں جن کا براہِ راست کوئی بھی تعلق ہماری مسلح قیادت سے نہیں بنتا۔ ایسے سوال اٹھانے اور انھیں دانستہ آگے بڑھاکر کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے اُچھالنا قوم و ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
کئی سوالوں کے جواب دیتے ہُوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی پریس بریفنگ میں موجود جملہ اخبار نویسوں کو شائستہ لہجے میں یہی مشورہ دیا کہ ہمیں ایسے سوالات اٹھانے سے گریز بھی کرنا چاہیے اور ان کی سنگینی کا ادراک بھی ہمیں ہمہ وقت رہنا چاہیے۔ ویسے ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب کے چہرے پر چھائی گہری سنجیدگی کی موجودگی میں کم ہی اخبار نویس پھلجھڑی نما سوال داغنے کی جسارت کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک دو سوال ایسے کر ہی دیے گئے۔ ایک گھنٹہ سے زائد وقت کو محیط اس تازہ ترین پریس بریفنگ کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پورے ہال میں سنجیدگی کا غلبہ تھا۔
دُنیا میں ایسے ملکوں ، ذہنوں اور اداروں کی کمی نہیں ہے جنھیں پورا یقین ہے کہ افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی شکست اور افغان طالبان کی فتح میں پاکستان کا مرکزی اور بنیادی کردار تھا۔ کئی امریکی اور برطانوی ادارے تواس ضمن میں بصورتِ اقرارو اعتراف بول بھی پڑے ہیں۔ بھارت کو سب سے زیادہ رنج اور غم ہے کہ افغان طالبان فتح اور کامیابی سے ہمکنارکیوں ہُوئے ہیں۔ بھارت اور امریکا گٹھ جوڑ چونکہ اب ایک عالمی حقیقت ہے، اس لیے ان دونوں ممالک کی طرف سے، حکمران افغان طالبان کے حوالے سے، پاکستان پر تنقید اور تنقیص پوری شدت سے جاری نظر آ رہی ہے۔
دونوں کی خواہش ہے کہ پاکستان اور حکمران افغان طالبان قیادت کے درمیان کوئی ایسی دراڑ ڈال دی جائے کہ پاکستان کے خلاف افغان طالبان کی پیشانیوں پر غصے کے تیور پڑ جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں افغان طالبان کو تسلیم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے، وہیں حاکم طالبان کے ہر حکومتی قدم کے سامنے عالمی رکاوٹیں ڈالنے کے عمل بھی جاری ہیں۔ ایسی بھی بد دیانت کوششیں کی جاری ہیں کہ افغان طالبان کی ہر ناکامی کا ذمے دار پاکستان ہے۔
ایسی مفسدانہ کوششوں اور کارروائیوں پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی بھی گہری نظر ہوگی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران یہ خبریں آئی ہیں کہ افغان طالبان نے پاک، افغان سرحد پر لگی پاکستانی خار دار آہنی تار کو توڑ دیا ہے۔ سرحد پر سینہ تانے ہمارے سیکیورٹی اداروں کے جوانوں اور افسروں کے بارے میں مبینہ طور پر نامناسب لہجے میں بیان بھی دیے گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان مناظر کو اُچھال کر دراصل پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان غلط فہمیوں کو بڑھاوا دینے کی مساعی بھی کی گئی ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کوششوں میں پاکستان دشمن ادارے اور ذہن بھی اپنا کر دار ادا کررہے ہیں کہ سوشل میڈیا کے توسط سے افغان طالبان کے خلاف ذہن سازی کی جسارت کی گئی ہے، چنانچہ یہ سوال بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کے سامنے اُٹھایا گیا۔ میجر جنرل بابر افتخار صاحب نے مختصر مگر جامع الفاظ میں جواب دیتے ہُوئے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کی عسکری اور سول قیادت میں مہرو محبت ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ یہ ایک لوکل سا مسئلہ ہے۔ اسے سلجھانا چنداں مشکل نہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر جناب میجر جنرل بابر افتخار کا یہ کہنا بہت سے سوالوں کا وسیع معنوں میں جواب ہونا چاہیے :''پاک، افغان بارڈر پر لگائی جانے والی فینس یا باڑھ دونوں قوموں کی تقسیم کا باعث نہیں ہے بلکہ یہ خار دار باڑ دونوں ممالک کی اقوام کے ہر قسم کے تحفظ کی ضامن ہے۔'' پاک، افغان بارڈر ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زائد لمبی ہے۔ اس کی مینجمنٹ آسان اور سہل نہیں ہے۔
اگر اس طویل، دشوار گزار اور مسام دار سرحد پر فریقین کی جانب سے کوئی معمولی سی ہلچل جنم بھی لے لیتی ہے تو اِسے معمول کا واقعہ قرار دے کر آگے بڑھ جانا چاہیے۔ افغان طالبان حکام کی لیڈر شپ اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے اس مسئلے کو سلجھانے میں صبر و تحمل سے کام لیا ہے۔ کوئی فریق بھی بے جا مشتعل نہیں ہُوا ہے۔ یہ اقدامات درحقیقت یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ فینس کے معاملے کا اُچھالا جانا، سرحد کے آر پار، کسی فریق کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مذکورہ جواب کافی اور شافی ہونا چاہیے۔ بھارت کے بارے میں اُن کا لہجہ اور اسلوب نہائت مناسب اور مستحسن تھا۔ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے بھی اس کا جواب مثبت ہی آئے گا۔ اُن کی طرف سے یہ خبر قوم کے سامنے رکھنا کہ پچھلے ایک سال کے دوران ایل او سی پر پاک، بھارت تعلقات پُر امن رہے، نہائت اطمینان بخش ہے۔
امن کی فاختہ کے اُڑتے رہنے سے سرحد کے باسی بھی امن و چین میں سانس لیتے رہے۔ یہ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے اور دشمن کو اس بات کا احساس بھی دلانا ہے کہ سرحدکے اِس پاربیٹھے لوگ ہمہ وقت جاگ بھی رہے ہیں اور افواجِ پاکستان کا کوئی بھی بازُو ہر جگہ اور ہروقت مقابلے کے لیے تیار بھی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب نے متحمل لہجے میں سول ملٹری ریلیشنززاور جنرل قمر جاوید باجوہ کی کسی ممکنہ ایکسٹینشن بارے بین السطور جواب دے کر بھی کئی غلط فہم ذہنوں کو مطمئن کیا ہے۔
زندہ قومیں ہمہ وقت اپنے ہر عمل کا حساب کرتی رہتی ہیں ۔سال 2021 گزرتے ہی دُنیا کی ہر قوم نے اپنے اپنے اسلوب میں اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لیا ہے۔ اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو اپنے اپنے انداز میں ترازُو میں تولا ہے۔ ایک زندہ قوم کی جری اورعالمی شہرت یافتہ افواج ہونے کے ناتے ہمارے عسکری اداروں نے بھی اپنے افعال کا جائزہ لیا ہے۔
اور اب اس جائزے کو نہائت محتاط اندازو اسلوب میں قوم کے سامنے پیش بھی کر دیا ہے ۔ آئی ایس پی آر چونکہ ہماری تینوں مسلح افواج کا ترجمان ادارہ ہے، اس لیے اِسی کے پلیٹ فارم سے، افواجِ پاکستان کے قابلِ فخر کردار کے حوالے سے، پچھلے سال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار صاحب، جو ہم سب کے لیے باعثِ افتخار بھی ہیں، آئی ایس پی آر کے ڈی جی ہیں، اس ناتے انھی کی زبانی 5جنوری2022کو حقائق اور اعدادوشمار سامنے رکھے گئے ہیں۔
اس کے لیے انھوں نے اپنااوپن فورم استعمال کیا۔ متنوع خیالات و نظریات رکھنے والے کئی صحافیوں کے سامنے شائستگی اور متانت سے اپنے خیالات و افکار رکھے۔ اور پھر ہر اُٹھنے والے سوال کا خندہ پیشانی، صبر کے ساتھ اور مختصر طور پر جواب بھی دیا۔ یہ پریس کانفرنس ایک گھنٹہ سے زائد وقت کو محیط تھی۔ کئی غیر ملکی اخبارات و جرائد اور میڈیا کے نمایندگان بھی آئی ایس پی آر کی اس تازہ ترین اور ذہن کشا بریفنگ میں شریک تھے۔
یہ پریس بریفنگ اس لیے بھی بے حد ضروری تھی کہ ملک کے اندر کئی قسم کے جوار بھاٹا اُٹھ رہے ہیں۔ کئی سوالات ایسے سر اُٹھا رہے ہیں جن کا جواب صرف ہماری عسکری قیادت ہی قوم کے سامنے رکھ سکتی ہے۔ بعض اوقات ہم نادانی میں ایسے سوالات بھی اٹھا دیتے ہیں جن کا براہِ راست کوئی بھی تعلق ہماری مسلح قیادت سے نہیں بنتا۔ ایسے سوال اٹھانے اور انھیں دانستہ آگے بڑھاکر کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے اُچھالنا قوم و ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
کئی سوالوں کے جواب دیتے ہُوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی پریس بریفنگ میں موجود جملہ اخبار نویسوں کو شائستہ لہجے میں یہی مشورہ دیا کہ ہمیں ایسے سوالات اٹھانے سے گریز بھی کرنا چاہیے اور ان کی سنگینی کا ادراک بھی ہمیں ہمہ وقت رہنا چاہیے۔ ویسے ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب کے چہرے پر چھائی گہری سنجیدگی کی موجودگی میں کم ہی اخبار نویس پھلجھڑی نما سوال داغنے کی جسارت کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک دو سوال ایسے کر ہی دیے گئے۔ ایک گھنٹہ سے زائد وقت کو محیط اس تازہ ترین پریس بریفنگ کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پورے ہال میں سنجیدگی کا غلبہ تھا۔
دُنیا میں ایسے ملکوں ، ذہنوں اور اداروں کی کمی نہیں ہے جنھیں پورا یقین ہے کہ افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی شکست اور افغان طالبان کی فتح میں پاکستان کا مرکزی اور بنیادی کردار تھا۔ کئی امریکی اور برطانوی ادارے تواس ضمن میں بصورتِ اقرارو اعتراف بول بھی پڑے ہیں۔ بھارت کو سب سے زیادہ رنج اور غم ہے کہ افغان طالبان فتح اور کامیابی سے ہمکنارکیوں ہُوئے ہیں۔ بھارت اور امریکا گٹھ جوڑ چونکہ اب ایک عالمی حقیقت ہے، اس لیے ان دونوں ممالک کی طرف سے، حکمران افغان طالبان کے حوالے سے، پاکستان پر تنقید اور تنقیص پوری شدت سے جاری نظر آ رہی ہے۔
دونوں کی خواہش ہے کہ پاکستان اور حکمران افغان طالبان قیادت کے درمیان کوئی ایسی دراڑ ڈال دی جائے کہ پاکستان کے خلاف افغان طالبان کی پیشانیوں پر غصے کے تیور پڑ جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں افغان طالبان کو تسلیم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے، وہیں حاکم طالبان کے ہر حکومتی قدم کے سامنے عالمی رکاوٹیں ڈالنے کے عمل بھی جاری ہیں۔ ایسی بھی بد دیانت کوششیں کی جاری ہیں کہ افغان طالبان کی ہر ناکامی کا ذمے دار پاکستان ہے۔
ایسی مفسدانہ کوششوں اور کارروائیوں پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی بھی گہری نظر ہوگی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران یہ خبریں آئی ہیں کہ افغان طالبان نے پاک، افغان سرحد پر لگی پاکستانی خار دار آہنی تار کو توڑ دیا ہے۔ سرحد پر سینہ تانے ہمارے سیکیورٹی اداروں کے جوانوں اور افسروں کے بارے میں مبینہ طور پر نامناسب لہجے میں بیان بھی دیے گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان مناظر کو اُچھال کر دراصل پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان غلط فہمیوں کو بڑھاوا دینے کی مساعی بھی کی گئی ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کوششوں میں پاکستان دشمن ادارے اور ذہن بھی اپنا کر دار ادا کررہے ہیں کہ سوشل میڈیا کے توسط سے افغان طالبان کے خلاف ذہن سازی کی جسارت کی گئی ہے، چنانچہ یہ سوال بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کے سامنے اُٹھایا گیا۔ میجر جنرل بابر افتخار صاحب نے مختصر مگر جامع الفاظ میں جواب دیتے ہُوئے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کی عسکری اور سول قیادت میں مہرو محبت ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ یہ ایک لوکل سا مسئلہ ہے۔ اسے سلجھانا چنداں مشکل نہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر جناب میجر جنرل بابر افتخار کا یہ کہنا بہت سے سوالوں کا وسیع معنوں میں جواب ہونا چاہیے :''پاک، افغان بارڈر پر لگائی جانے والی فینس یا باڑھ دونوں قوموں کی تقسیم کا باعث نہیں ہے بلکہ یہ خار دار باڑ دونوں ممالک کی اقوام کے ہر قسم کے تحفظ کی ضامن ہے۔'' پاک، افغان بارڈر ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زائد لمبی ہے۔ اس کی مینجمنٹ آسان اور سہل نہیں ہے۔
اگر اس طویل، دشوار گزار اور مسام دار سرحد پر فریقین کی جانب سے کوئی معمولی سی ہلچل جنم بھی لے لیتی ہے تو اِسے معمول کا واقعہ قرار دے کر آگے بڑھ جانا چاہیے۔ افغان طالبان حکام کی لیڈر شپ اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے اس مسئلے کو سلجھانے میں صبر و تحمل سے کام لیا ہے۔ کوئی فریق بھی بے جا مشتعل نہیں ہُوا ہے۔ یہ اقدامات درحقیقت یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ فینس کے معاملے کا اُچھالا جانا، سرحد کے آر پار، کسی فریق کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مذکورہ جواب کافی اور شافی ہونا چاہیے۔ بھارت کے بارے میں اُن کا لہجہ اور اسلوب نہائت مناسب اور مستحسن تھا۔ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے بھی اس کا جواب مثبت ہی آئے گا۔ اُن کی طرف سے یہ خبر قوم کے سامنے رکھنا کہ پچھلے ایک سال کے دوران ایل او سی پر پاک، بھارت تعلقات پُر امن رہے، نہائت اطمینان بخش ہے۔
امن کی فاختہ کے اُڑتے رہنے سے سرحد کے باسی بھی امن و چین میں سانس لیتے رہے۔ یہ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے اور دشمن کو اس بات کا احساس بھی دلانا ہے کہ سرحدکے اِس پاربیٹھے لوگ ہمہ وقت جاگ بھی رہے ہیں اور افواجِ پاکستان کا کوئی بھی بازُو ہر جگہ اور ہروقت مقابلے کے لیے تیار بھی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب نے متحمل لہجے میں سول ملٹری ریلیشنززاور جنرل قمر جاوید باجوہ کی کسی ممکنہ ایکسٹینشن بارے بین السطور جواب دے کر بھی کئی غلط فہم ذہنوں کو مطمئن کیا ہے۔