ڈیورنڈ لائن امن کی باڑ
سوشل میڈیاکے جہاں بہت سے نقصانات ہیں، وہیں فوائد بھی ہیں
BERLIN:
سوشل میڈیاکے جہاں بہت سے نقصانات ہیں، وہیں فوائد بھی ہیں، ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جو خبریں مین اسٹریم میڈیا پر کسی وجہ سے نہیں چل رہی ہوتیں، وہ آپ سوشل میڈیا پر آسانی اور بغیر کسی روک ٹوک کے دیکھ سکتے ہیں، پاکستان کی جمہوریت چین کی طرح تو ہے نہیں جہاں متعدد سوشل میڈیا ایپ کی اجازت ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے عوام کو اپنی بنائی ہوئی ایپس اور سرچ انجن استعمال کرنے کے لیے پابند کرتاہے۔ اس کا چینی حکومت کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں اور جو خبر چاہیں روک بھی سکتے ہیں، کنٹرول بھی کر سکتے ہیں اور حذف بھی کر سکتے ہیں۔
مثلاََ کورونا کے حوالے سے اُن کے سوشل میڈیا پر اتنی ہی خبریں پھیلیں جتنی حکومت نے چاہا۔ اگر کہیں کسی نے اس حوالے سے حدود کراس کنے کی کوشش کی تو فوری طور پر اُس کا نا صرف اکاؤنٹ بند کر دیا گیا بلکہ اُس کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی گئی۔ ویسے تو ہے یہ شخصی آزادی کے خلاف اقدام مگر وہاں ایک جماعت کی آمریت کی وجہ سے مخالف آوازیں نہیں اُٹھ سکتیں!
خیر یہ تمہید اس لیے باندھی کہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر جب سے افغانستان میں طالبان برسرِ اقتدار آئے ہیں تو مسلسل ایسی وڈیوگردش کررہی ہیں جن میں پاک افغان سرحد (ڈیورنڈ لائن ) پر سیکیورٹی کے لیے نصب خار دار تاروں کو مسلح طالبان اکھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ان وڈیوز کے بعد افغان طالبان کی جانب سے ایسے بیان بھی سامنے آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ اس سرحد (ڈیورنڈ لائن) کو تسلیم نہیں کرتے۔ افغان دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخینے کہا ہے کہ طالبان حکومت مسائل کے حل کے لیے افہام و تفہیم، بات چیت اور پڑوسیوں سے اچھے تعلقات پر یقین رکھتی ہے۔
اسی لیے اس مسئلے (باڑ اکھاڑنے کے واقعات) کوسفارتی طور پر حل کیا جائے گا۔مطلب کہ افغان حکومت بھی اس باڑ کو فی الوقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے! جب کہ پاکستان کی جانب سے بلکہ آئی ایس پی آر کی جانب سے ابھی گزشتہ روز ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ کو لگانے میں پاکستانی 'شہدا' کا خون شامل ہے، اس پر 94فیصد عمل ہو چکا ہے، اور یہ ناصرف مکمل ہو گی بلکہ قائم بھی رہے گی۔پاکستان کا موقف درست بلکہ 100فیصد درست ہے، کیوں کہ جب سے باڑ لگانے کا کام شروع ہوا ہے پاکستان میں 95فیصد دہشت گردی ختم ہو چکی ہے۔
ڈیورنڈ لائن یعنی پاک افغان سرحد 2640 کلومیٹر طویل ہے اور اس میں پہاڑی سلسلے شامل ہیں۔ اس باڑ کی تنصیب کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے تھے اور اس منصوبے کے تحت سرحد پر نگرانی کے لیے سیکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے یا چوکیاں تعمیر کیے جا رہے ہیں اور جدید ریڈار سسٹم کی تنصیب بھی اس منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا مقصد ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔ رنجیت سنگھ کے دور میں افغانستان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا تھا کہ وہاں سے مسلح گروہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں آ کے لوٹ مار کرتے ہیں اور فرار ہوکر واپس افغانستان میں چھپ جاتے ہیں۔
رنجیت سنگھ کے دور حکومت اور اس کے بعد انگریزوں کے ساتھ افغانستان کی جو جنگیں ہوئیں، ان کی وجوہات میں یہ سرگرمیاں بھی شامل تھیں جنھیں افغانستان کے حکمران روکنے میں کامیاب نہیں ہوتے تھے یا جان بوجھ کر لوٹ مار کرنے والے گروہوںپرہاتھ نہیں ڈالتے تھے۔
1878 کی جنگ کے بعد امیر عبدالرحمن خان کو تخت پر بٹھایا گیا۔ پھر روس نے 1885میں افغانستان کے محدود علاقوں پر قبضہ کیا تو برطانیہ نے روس پرزور دیاکہ سرحدوں کا تعین کریں۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے مشترکہ کمیشن بنایا اور اگلے دو سالوں میں سرحد قائم کر دی۔اس مقصد کے لیے امیر عبدالرحمن کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد سر مورتیمر ڈیورنڈ(Mortimer Durand) کو 1893 میں ایک وفد کے ہمراہ کابل روانہ کیا گیا۔ وہاں اس وفد کا قیام تین ماہ رہا۔ بلاآخر مشترکہ سرحد کا تعین کر دیا گیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد شمال مغربی سرحدیں پاکستان نے حاصل کیں جب کہ مشرق میں پاک بھارت نئی سرحد تشکیل پائی۔
اب جب کہ ایک بار پھر طالبان حکومت برسراقتدار ہے اور ہر گزرتے دن ڈیورنڈ لائن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے ۔ طالبان کے دور میں سرحدی باڑ ہٹائی جا رہی ہے اور ابھی تک طالبان نے ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی، پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ شاید طالبان بھی ایسے عناصر کی خاموش حمایت کر رہے ہیں۔ لہٰذااس حوالے سے پاکستان کو کسی سطح پر کوئی کمزوری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ہمیں طالبان کو سفارتی چینلز کے طور پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ یہ سرحدی باڑ پاکستان کے علاقے میں ہے۔ ہمیں طالبان کو ان کا مفاد بھی سمجھانا چاہیے اور انھیں بتانا چاہیے کہ اگر یہ باڑ لگائی جاتی ہے تو دہشت گرد افغانستان سے پاکستان نہیں آ سکیں گے اور نہ ہی پاکستان سے کوئی واپس افغانستان میں جاسکے گا۔
اس کے علاوہ مہاجرین کے بہاؤ کو بھی روکا جا سکتا ہے اگر مہاجرین کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے تو اس سے دنیا میں یہ تاثر جائے گا کہ طالبان اپنے مخالفین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، اس لیے وہ بھاگ رہے ہیںاور پھر یہ بھی کہ اگر بھارت اپنی سرحدیں مضبوط کرنے کے لیے کنٹرول لائن پر باڑ لگا سکتا ہے تو پھر پاکستان ایساکیوں نہیں کرسکتا؟ اس لیے ڈیورنڈ لائن کو ''امن باڑ'' کا نام دیا جائے اور اس کے لیے طالبان حکومت کو قائل کیا جائے، سفارتی کوششوں میں تیزی لائی جائے تاکہ طالبان کے آنے کے بعد کم از کم ایک طرف کا بارڈر تو محفوظ ہو جائے!