کرہ ارض کے رہائشی خبردار ہوجائیں

رپورٹ میں امریکا میں آنے والے طوفان آئیڈا کو معاشی لحاظ سے 2021 کی سب سے مہنگی آفت قرار دیا گیا


محمود عالم خالد January 07, 2022
[email protected]

LONDON: اگست 2021 میں عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزرے پچاس سالوں میں جتنے بھی طوفان یا قدرتی آفات وقوع پذیر ہوئیں ان کی اوسط شرح کا حساب لگایا جائے تو ہر دن ایک طوفان یا قدرتی آفت رونما ہوتی ہے۔ ایک اور رپورٹ میں عالمی تنظیم کا کہنا تھا کہ زہریلی گیسوں کا اخراج جس طرح جاری ہے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمیاتی تغیر کا اثر زمین پر ایسے پڑرہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

صورتحال اگر اسی طرح جاری رہی تو ایک دہائی میں درجہ حرارت کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی ہو، عالمی موسمیاتی تنظیم ہو یا اقوام متحدہ سمیت دنیا کے دیگر تحقیقی ادارے، سب کی تحقیقی رپورٹیں خبردار کررہی ہیں کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں ہر گزرتے سال دنیا کی حکومتوں کے جانی، مالی و اقتصادی نقصانات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والی عالمی امدادی تنظیم کرسچن ایڈ نے بدلتے موسموں کی شدت سے عالمی سطح پر رونما ہونے والے سانحات کے باعث ہونے والے نقصانات کے اعدادو شمار جاری کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سال 2021 میں موسمی آفات سے ہونے والے نقصانات کی شرح 170 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے جوکہ سال 2020 کے مقابلے میں 20 بلین ڈالر زیادہ ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدید موسموں کے باعث رونما ہونے والے واقعات نے 2021 میں نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔ سمندری طوفان، سیلاب اور گرمی کی شدید لہروں کے نتیجے میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے، کسانوں کو خشک سالی کے علاوہ ٹڈیوں کے طاعون سے بھی جنگ لڑنا پڑی جب کہ جنگلات میں لگنے والی آگ نے کاربن کے اخراجات کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ قصبوں اور گھروں کو تہس نہس کردیا۔ واضح رہے کہ اس رپورٹ میں تنظیم کی توجہ بنیادی طور پر مالی نقصانات پر مرکوز تھی۔

رپورٹ میں امریکا میں آنے والے طوفان آئیڈا کو معاشی لحاظ سے 2021 کی سب سے مہنگی آفت قرار دیا گیا۔ نیویارک میں اگست کے آخر اور ستمبر کے شروع میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں 65 بلین ڈالر کے معاشی نقصان کا تخمینہ لگایا گیا، جرمنی، بیلجیئم اور پڑوسی ملکوں میں جولائی میں آنے والے سیلاب کے نقصانات 43 بلین ڈالر، موسم سرما میں آنے والے امریکی طوفان 'اوری'' جس نے سردی کی شدید لہر کو ٹیکساس تک پہنچا دیا تھا کے نقصانات کا تخمینہ 23 بلین ڈالر لگایاگیا ہے۔

جولائی میں چین کے صوبے بنیان میں آنے والے سیلاب سے 17.6 بلین ڈالر، برٹش کولمبیا، کینیڈا میں آنے والے سیلاب سے 7.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا جب کہ فرانس میں اپریل کے آخر میں سردی کی شدید لہر سے انگور کے باغات تباہ ہوئے جس کے نقصانات کا اندازہ 5.6 بلین ڈالر لگایاگیا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں سائیکلون ''یاس''نے 3 بلین ڈالر، آسٹریلیا میں سیلاب سے 2.1 بلین ڈالر، چین میں ٹائفون ''ان۔فا'' دو بلین ڈالر اور بھارت اور سری لنکا میں سائیکلون ''نکتا'' نے 1.5 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔

اس کے علاوہ میڈرڈ میں ہونے والی برف باری، فجی میں آنے والے سائیکلون ''آنا''، ساؤتھ چائنا میں ڈسٹ اسٹورم، انڈونیشیا میں سائیکلون ''تیروجا''، ماسکو میں درجہ حرارت 34.8 ڈگری سینٹی گریڈ کو پہنچا۔ نارتھ ویسٹ امریکا میں ہیٹ ڈوم، امریکا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے 364000 ایکڑ رقبہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔جنگل کی آگ نے اگست کے مہینے میں جنوبی یورپ کے بڑے علاقوں کو تباہ کیا جس کے نتیجے میں ترکی، یونان اور اٹلی میں متعدد جانیں ضایع ہوئیں۔

جنوبی سوڈان میں آنے والے سیلاب کے معاشی نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا، لیکن اس سیلاب نے 8 لاکھ لوگوں کو شدید متاثر کیا۔ مون سون کی بارشوں نے اکتوبر میں نیپال کے متعدد علاقوں سمیت ہندوستان کی دو ریاستوں میں تباہی مچائی، فلپائن میں دسمبر کے وسط میں آنے والے طوفان ''رائی'' نے شدید جانی، مالی و معاشی نقصان پہنچایا۔

2021 میں کچھ شدید موسمیاتی مظاہر انتہائی تیزی سے رونما ہوئے اور محض چند دنوں میں بے پناہ نقصانات کا موجب بنے۔ جیسے مئی میں طوفان ''یاس'' بھارت اور بنگلہ دیش سے ٹکرایا اور چند دنوں میں 3 بلین ڈالر کانقصان کرگیا، جب کہ کئی واقعات کے سامنے آنے میں مہینوں لگے جیسے لاطینی امریکا میں پرانی ندی کی خشک سالی کی وجہ سے برازیل، پیراگوئے اور ارجنٹائن میں زندگی اور معاش شدید متاثر ہوئے، واضح رہے کہ یہ دریا 77 سالوں میں اپنی کم ترین سطح پر آیا تھا۔ جب کہ رواں سال غریب ملکوں میں سیلاب اور اسٹورم کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔

عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق جولائی 2021 ایشیا میں ریکارڈ کیے جانے والے مہینوں میں اب تک کا گرم ترین مہینہ رہا جب کہ امریکا میں 10 واں گرم ترین اور یورپ میں دوسرا گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا۔ بین الاقوامی انشورنس کمپنی ''سوئس ری'' نے دسمبرکے وسط میں 2021 میں رونما ہونے والی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ شایع کیا جس میں نقصانات کا اندازہ 250 بلین ڈالر لگایا گیا جو سال 2020 کے نقصانات سے 24 فیصد زیادہ تھا۔ ایک اور عالمی انشورنس کمپنی Aon نے متنبہ کیا کہ یہ چھٹا موقع ہے جب عالمی قدرتی آفات نے 100 بلین ڈالر کے بیمہ شدہ نقصانات کی حد کو عبور کیا ہے۔ واضح رہے کہ 2021 پچھلے 5 سالوں میں 100 بلین ڈالر کی حد عبور کرنے والا چوتھا بڑا موقع ہے۔ اندازے کی شرح 2011 سے شروع ہوئی۔

یہ اعدادو شمار 2020 کے مقابلے میں تو زیادہ ہیں ہی لیکن ان میں ترقی پذیر غریب اور پسماندہ ممالک میں رونما ہونے والے بے شمار واقعات کا ذکر نہیں ہے۔ اگر ان آفات کو بھی شامل کرلیا جائے تو نقصانات کی شرح کہیں زیادہ ہوسکتی ہے جب کہ موجودہ اعدادو شمار کرہ ارض پر موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرات کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔

کوپ 26 سے پہلے اگست میں بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی ''چھٹی جائزہ رپورٹ'' کا پہلا حصہ جاری کیا گیا تھا۔ جس میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ موسموں میں پیدا ہونے والی شدت میں بنیادی کردار انسانی سرگرمیوں کا ہے۔

دوسری جانب سائنس دانوں کا کہنا ہے کرہ ارض کے رہائشی آنے والے وقتوں میں بہت کچھ اور بدترین دیکھنے والے ہیں کیونکہ زمین کی فضا تیزی سے گرم ہوتی جارہی ہے۔موسم کی شدت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قدرتی آفات کی تباہ کاریوں میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پیرس معاہدے میں درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا لیکن کوپ 26 اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں ناکام نظر آئی۔ یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ 2022 میں غریب، پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بھرپور مالی امداد فراہم کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں