سرمایہ داری نظام بے نقاب

ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ کوئی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے ناجائز فنڈنگ کر رہا ہے

zb0322-2284142@gmail.com

LONDON:
ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ کوئی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے ناجائز فنڈنگ کر رہا ہے۔ کوئی چینی اور گندم کی ناجائز تجارت میں اربوں روپے لوٹ رہا ہے۔ کسی کی آف شور کمپنیوں میں ناجائز رقوم ہیں ، کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ لندن میں ناجائز فنڈ ہیں اور اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے۔

یہ پیسے ملک میں واپس لائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ایک دوسرے پر اس لیے الزام لگا رہے ہیں کہ یہ لوگ بددیانت ہیں، ہم ایماندار ہیں۔ لہٰذا آیندہ الیکشن میں ہمیں کامیاب کرائیں۔ اب عوام کا مسئلہ ہے کہ وہ کیا کریں۔ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں لیکن سب عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ اس لیے آیندہ انتخابات میں بہت کم لوگ ووٹ ڈالنے جائیں گے۔

ہاں مگر ووٹ خریدنے کی تجارت تیز ہو جائے گی۔ جس طرح سینیٹ کے چیئرمین اور بلوچستان کی حکومت بنانے میں اراکین کو خریدا گیا اور وہ خود بھی بکنے پر تیار کھڑے تھے۔ ذرا غور تو کریں جس ملک میں 90 فیصد محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کو ماہانہ 8 ہزار سے 15 ہزار روپے تنخواہیں ملتی ہوں اس ملک میں ارب پتیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

حزب اقتدار کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ بس چند عرصے کی بات ہے، اس مہنگائی سے نجات مل جائے گی اور عوام خوش حال بھی ہوں گے۔ دوسری جانب حزب اختلاف کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے مہنگائی آسمان پر پہنچا دی ہے مگر یہ نہیں بتاتے کہ وہ اقتدار میں آکر آٹا، تیل، چاول، دال، دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں کس حد تک کمی کریں گے۔ اس لیے وہ وعدہ نہیں کر رہے ہیں کہ ایک بار پی این اے کی تحریک میں عوام سے وعدہ کیا تھا ''ہم 1973 کی قیمت واپس لائیں گے'' جس پر عمل نہ ہو سکا۔ وہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خاتمے کی بات بھی نہیں کر رہے ہیں۔

اس لیے کہ انھیں عوام میں مہم، جلسے، انتخابی عمل کے فنڈز انھی سے حاصل ہوتے ہیں، وہ کیونکر جاگیرداری اور سرمایہ داری ختم کریں گے۔ اب چینی کے بحران کو ہی لے لیں چینی کی ملوں کو حکومت باآسانی قومی ملکیت میں لے سکتی تھی اور حزب اختلاف بھی یہ مطالبہ کرسکتی تھی، اگر گندم کی تجارت، ڈیری فارمز، قصاب خانوں، چاول کی تجارت، تیل اور گھی ملوں، سیمنٹ فیکٹریوں کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اجناس بھی سستی ہو سکتی ہیں۔


ذوالفقار علی بھٹو نے جب نجی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا تو تقریباً تمام اشیا خوردنی اور استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی تھی۔ مگر عالمی سامراج اور مقامی سرمایہ دار مسلسل سازشیں کرتے رہے، آخر کار بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا ۔ بعدازاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کیے گئے تمام مثبت اقدامات خاص کر قومیائے گئے اداروں کی نجکاری کی ۔ صحت اور تعلیم کے بجٹ میں کمی کی گئی۔ کسانوں میں تقسیم کی گئیں زمینیں وڈیروں اور جاگیرداروں کو واپس کردی گئیں۔ سرکاری اسکولوں کی نجکاری کرکے تعلیم کی تجارت شروع کردی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جو کچھ عوام دوست اقدامات کیے گئے انھیں سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کردیا گیا۔ کے الیکٹرک، تیل، گھی کی ملوں، سیمنٹ کی فیکٹریوں اور دیگر بنیادی کیمیائی دھاتوں، مینوفیکچرنگ ملوں کی نجکاری کرنے کے بعد وہاں پیداواری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ خاص کر سیمنٹ، گھی، تیل، چینی اور بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ آج بھی ملک بھر کے اسپتالوں میں روزانہ ہزاروں مریضوں کا آپریشن ہوتا ہے، دوائیں مفت ملتی ہیں۔ راقم کا چار بار مفت آپریشن ہو چکا ہے۔ جب کہ ہماری حکومت صرف سرمایہ کاری، قرضوں اور امداد پر انحصار کر رہی ہے۔ ہم نے اپنی لاکھوں ایکڑ زمین غیر ملکی سرمایہ داروں کو پٹے پر دے رکھی ہے۔نایاب بازوں اور تلوروں کو رقم کے عوض غیر ملکی شہزادوں کو فروخت کردیتے ہیں جب کہ حزب اختلاف ان عوامل پر خاموش ہے۔ اگر بولتی بھی ہے تو صرف تقریروں اور ٹاک شوز تک۔

ذوالفقار علی بھٹو بھی آخری وقت میں دائیں بازو کے گھیراؤ میں آگئے تھے اور پی پی کے جاگیرداروں کے ہتھے لگ گئے۔ اگر بھٹو صاحب ساری زمین کسانوں میں بانٹ دیتے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے لیتے تو مزدور اور کسان جیل توڑ کر بھٹو کو نکال لیتے۔ مگر ہماری نوکر شاہی اور سیاست دان فیصلہ کن اور درست موقف پر قائم نہیں رہے۔ 14 ویں صدی کے معروف یونانی فلسفی اور موسیقار ''سولونو'' نے کہا تھاکہ ''سانپ کو چھیڑو نہیں اور چھیڑو تو چھوڑو نہیں۔'' اس قسم کی غلطیاں دنیا بھر کے عوام دوست رہنماؤں نے کی ہیں، خاص کر سوڈان، عراق اور انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹیوں نے کیں جس کے نتیجے میں لاکھوں کمیونسٹ شہید ہوئے۔

انڈونیشیا، چین کے بعد ایشیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی سوڈان افریقہ کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی اور عراق عالم عرب کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی تھی، مگر رہنماؤں کی غلطیوں سے عوام دشمن اقتدار میں آگئے اور کمیونسٹوں، مزدوروں اور کسانوں کا قتل عام کیا۔ راقم نے اپنے کالم میں بورژوا (سرمایہ دار) کی بے نقابی کی بات کی ہے۔ اس کا مطلب صرف سرمایہ دار نہیں بلکہ ساری سرمایہ دار سیاسی جماعتیں بے نقاب ہو رہی ہیں۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود ایک دوسرے کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ جو بھی جماعت نجی ملکیت اور جائیداد رکھنے کی حامی ہیں وہ جماعت سرمایہ داری کی حامی جماعت کہلائے گی اور جو جماعت غیر طبقاتی سماج کی بات کرے گی وہ بائیں بازو اور سرمایہ دار مخالف جماعت کہلائے گی۔

ایک ایسے نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے جہاں سب مل کر پیداوار کرے گی اور مل کر بانٹ لیں گے۔ یہ نظام ایک کمیون اجتماعی معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔ علاقائی، صوبائی یا خطوں میں دنیا بھر میں موجود ہیں جو کمیون نظام رائج کرکے بلا حکومت و اقتدار کے کارہائے زندگی رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔

جھوک، ٹھٹھہ میں آج سے صدیوں قبل شاہ عنایت نے کمیون نظام رائج کیا تھا۔ ان کا نعرہ تھا ''جو بوئے وہ کھائے'' سات ہزار سال قبل موہن جو دڑو، ہڑپہ اور مہر گڑھ میں بھی کمیون نظام رائج تھا۔ یہاں کھدائی میں کوئی اسلحہ، مندر، محل یا ایسی کوئی نشانی نہیں ملی جس سے اس بات کا ثبوت ملے کہ یہاں طبقاتی نظام تھا۔ انھوں نے کسی پر حملہ کیا اور کسی اور نے ان پر حملہ کیا۔ معروف انارکسٹ کارکن اور دانشور محمد مظاہر کہتے ہیں کہ ''غلام قومیں اپنے پرکھوں کے کارناموں کو یاد کرنے میں ہچکچاتی ہیں۔ جب مہنگائی، بے روزگاری اور بے گھری میں روز بروز اضافہ ہوگا تو عوام خود اٹھ کھڑے ہوں گے اور نظام کو بدل دیں گے۔'' یہ کوئی کہاوت نہیں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔
Load Next Story