درآمدی بل اور کھاد کی درآمد
پاکستان میں کھاد کی فراہمی کے جومسائل درپیش ہیں اس کے ساتھ ہی ناقص بیج بھی کاشتکاروں کے لیے دردسری کا باعث بنا ہوا ہے
KASUR:
گزشتہ دنوں ای سی سی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ اس ضمن میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے چین سے حکومتی سطح پر 50 ہزار ٹن یوریا کھاد کی درآمد کا فیصلہ کیا اس کے علاوہ درآمدی گاڑیوں پر مزید ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ بعض حلقوں کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ درآمدات کے بل میں کسی قدر کمی لائی جائے۔
ملکی درآمدات کا حجم 40 ارب 58 کروڑ ڈالر رہا جوکہ پون صدی کی تاریخ میں کسی بھی 6 ماہ کے دورانیے میں سب سے زیادہ ہے لیکن صرف درآمدی گاڑیوں پر جتنا بھی ٹیکس بڑھا دیا جائے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ملک میں قیمتی گاڑیوں، لگژری گاڑیوں اور درآمدی گاڑیوں کی بیرون ملک سے خریدنے کا رجحان سماجی ضرورت کے تحت روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
کیونکہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یا اپنی شان آن اور امارت کے اظہار کا اہم ترین ذریعہ بیش قیمت گاڑیاں ہی سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ اب دو طبقے تیزی سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ امیر مزید امیر تر ہوتا جا رہا ہے ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور بینک بیلنس بھی روز افزوں ترقی پر ہے۔
دوسرا طبقہ جوکہ غریب ہے اس کی غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ باقی اہم مسئلہ یہ ہے کہ درآمدی بل کا حجم ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے جسے کم کرنے کے لیے فوری طور پر کسی بھی قسم کی پالیسی یا ایک یا دو سال کے لیے منصوبہ بندی بھی نہیں ہو سکی جس سے خدشات ہیں کہ درآمدی بل بڑھنے کی رفتار مزید تیز ہوکر رہے گی۔
سب سے اہم فیصلہ کھاد کی درآمد سے متعلق کیا گیا۔ ماہ نومبر کے وسط کے ساتھ ہی ملک بھر میں گندم کی بوائی شروع ہو جاتی ہے۔ اس دوران ملک بھر میں کھاد کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2020-21 کے دوران پاکستان نے 36لاکھ 12 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کرتے ہوئے 98 کروڑ ڈالر سے زائد صرف کیے تھے۔
البتہ 2021 کے وسط تک ملک میں گندم اسٹاک کی صورتحال میں بہتری واقع ہوئی کیونکہ پاکستان میں گندم کی اچھی فصل پیدا ہوئی تھی۔ لیکن رواں مالی سال جیسے ہی گندم کی بوائی کا عمل شروع ہوا۔ ملک بھر سے اس قسم کی اطلاعات موصول ہونے لگی کہ کھاد کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومتی ریٹ پر کہیں کھاد دستیاب نہیں ہے۔
1950 کی دہائی کی بات تھی جب ملک میں غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہو کر رہی اور زیادہ مقدار میں مختلف غذائی اجناس کی درآمد کی گئی۔ حکومت نے مختلف خوراکی فصلوں میں اضافے کی خاطر کاشتکاروں کو کافی رعایتی قیمتوں پر کھاد کی فراہمی شروع کردی۔ شروعات میں کاشتکار اس کے استعمال سے اجتناب برتتے رہے لیکن بتدریج کھاد کے استعمال میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔
اور اب اتنی زیادہ طلب بڑھ گئی ہے کہ اس کی فراہمی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ اب چونکہ ملک میں نہ صنعتیں لگ رہی ہیں نہ کارخانے نہ ملیں لگائی جا رہی ہیں۔ اس لیے سرمایہ کاروں نے سرمائے کا استعمال کچھ اس طرح شروع کردیا ہے کہ کہیں چینی ذخیرہ کرلی۔ اپنے بند کارخانوں میں کھاد کی بڑی مقدار جمع کرلی اسی طرح کہیں گندم چھپائی جانے لگی اور جب کچھ ہاتھ نہ لگا تو زرعی زمینوں کو سوسائٹیاں بنا کر غیر آباد چھوڑ دیا گیا جس سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
ان میں زرعی پیداوار کی کمی بھی ایک ہے اس کے علاوہ ملک بھر میں سرمایہ کاری اگر کسی شعبے میں کھربوں روپے کی ہو رہی ہے تو وہ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ہے۔ کھاد کی درآمد اس لیے کی جا رہی ہے کہ مہنگے داموں کھاد دستیاب ہو رہی ہے کیونکہ کھاد و زرعی ادویات اجناس اسی طرح مصنوعات بڑی مقدار میں ذخیرہ کرلی جاتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ درآمدات میں کمی لائی جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات کا بدل ملک میں تیار کیا جائے۔
پاکستان میں کھاد کی فراہمی کے جو مسائل درپیش ہیں اس کے ساتھ ہی ناقص بیج بھی کاشتکاروں کے لیے درد سری کا باعث بنا ہوا ہے اس کے علاوہ جعلی ادویات کی بھی بھرمار ہے اور کاشتکار ان شدید مسائل سے اکیلے ہی نبرد آزما ہیں کیونکہ اب ملکی درآمدات کا ایک بڑا حصہ غذائی اجناس کی درآمد پر صرف کرنا پڑتا ہے اگر حکومت پانی کی فراہمی اور بروقت کھاد کی فراہمی اور صحیح بیج کی فراہمی کے علاوہ جعلی کیڑے مار ادویات کی روک تھام یقینی بنا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملکی زرعی پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہوکر رہے جس کے باعث ملک کو زرعی اجناس کی درآمد کی ضرورت نہ رہے گی۔