جنوبی ایشیا میں اسلام کا فروغ
عمومی طور پر جنوبی ایشیا کی اسلامائزیشن بہت سست تھی۔
لاہور:
اسلام تقریباً 60 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ جنوبی ایشیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے، جو جنوبی ایشیا کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے۔
دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی جنوبی ایشیا میں ہے، جو تمام مسلمانوں کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہیں۔ جنوبی ایشیا کے نصف ممالک (افغانستان، بنگلہ دیش، مالدیپ اور پاکستان) میں اسلام غالب مذہب ہے۔ بھارت میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے جب کہ سری لنکا اور نیپال میں تیسرے نمبر پر ہے۔
اسلام سندھ، گجرات، مالابار اور سیلون میں عرب ساحلی تجارتی راستوں کے ساتھ جنوبی ایشیائی کمیونٹیز میں موجود تھا۔ اسلام کے آغاز سے بہت پہلے عرب تاجروں نے قدیم زمانے سے برصغیر کے ساحلوں کا دورہ کیا تھا۔ عرب تاجر ہندوستان کے سمندری ساحلوں پر آئے اور ہندوستانی مال کو مصر اور شام کے راستے یورپی منڈیوں میں لے گئے۔
یوں عرب تاجروں کی بدولت ہندوستان اور عرب نے ابتدائی طور پر ایک دوسرے کو جانا۔ جیسے ہی اس مذہب اسلام کی ابتدا ہوئی اور جزیرہ نما عرب میں اسے قبولیت حاصل ہوئی، یہ عرب تاجروں ہی کے ذریعے ہندوستان پہنچ گیا، اس سے بہت پہلے کہ کوئی عرب فوج ہندوستان کی سرحد پر پہنچتی۔ گجرات کے گاؤں گھوگھا میں بروادا مسجد 623 عیسوی سے پہلے تعمیر کی گئی تھی، کیرالہ کے گاؤں مٹھالا میں چیرامن جامع مسجد (629 عیسوی) اور تامل ناڈو کی بلدیہ کیلاکرئی میں جامع مسجد (630 عیسوی) جنوبی ایشیا کی تین پہلی مساجد ہیں جو سمندری سفر کر کے آنے والے عرب تاجروں نے تعمیر کی تھیں۔
ایسے ابتدائی رابطوں کی ایک خصوصی مثال جنوبی ہندوستان میں کیرالہ کا ساحل ہے۔ کیرالہ کے مسلمان یا شمالی کیرالہ کے ملیالی مسلمانوں کو عام طور پر موپلا کہا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے دیگر حصوں کے برعکس کیرالہ کے مسلمانوں میں ذات پات کا نظام موجود نہیں ہے۔ برصغیر کے باقی مسلمانوں کے علاوہ وہ اسلام کے شافعی مکتب کی پیروی کرتے ہیں جیسا کہ عرب کرتے ہیں۔
سندھ اور اسلام کے درمیان تعلق خلافت راشدین کے دور میں ابتدائی مسلم مبلغین نے قائم کیا تھا۔ حکیم بن جبلہ العبدی، جس نے 649 عیسوی میں مکران پر حملہ کیا، حضرت علیؓ ابن ابو طالب کا ابتدائی حامی تھا۔ حضرت علیؓ کی خلافت کے دوران سندھ کے بہت سے ہندو جاٹ اسلام کے زیر اثر آ گئے تھے۔ امویوں کے دور میں (661 - 750 عیسوی) بہت سے مسلمانوں نے دور دراز کے علاقے میں نسبتاً امن کے ساتھ رہنے کے لیے سندھ کے علاقے میں پناہ حاصل کی تھی۔ فارس پر اسلامی فتح مکمل ہونے کے بعد، مسلمان عرب پھر فارس کے مشرق کی سرزمین کی طرف بڑھنے لگے اور 652 میں ہرات پر قبضہ کر لیا۔
712 عیسوی میں ایک نوجوان عرب جرنیل محمد بن قاسم نے اموی سلطنت کے لیے سندھ کا بیش تر علاقہ فتح کر لیا، جو ''السندھ'' صوبہ بنا اور اس کا دارالخلافہ المنصورہ تھا۔ لیکن محمد بن قاسم نے تین سال بعد ہی سندھ چھوڑ دیا اور مسلمان مزید دو سو سال تک سندھ میں ایک چھوٹی سی برادری رہے۔ دسویں صدی عیسوی کے آخر تک اس علاقے پر کئی ہندو بادشاہوں کی حکومت رہی اور گیارہویں صدی عیسوی کے دوران وہ غزنویوں کے زیر تسلط آ گئے۔
اسلام بارہویں صدی میں غوری کے فاتحانہ حملوں کے ذریعے شمالی ہندوستان میں پہنچا اور تب سے ہندوستان کا مذہبی اور ثقافتی ورثہ اس سے متاثر رہا ہے۔ غوری موجودہ وسطی افغانستان کے علاقے غور سے تعلق رکھنے والے ایرانی نژاد خاندان تھے۔ یہ خاندان 1011 میں اس وقت بدھ مت چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوا، جب غزنی کے سلطان محمود غزنوی نے غور کا علاقہ فتح کیا۔ غوری خاندان نے 1186 میں غزنوی سلطنت کا تختہ الٹ دیا جب غور کے سلطان معز الدین محمد نے غزنویوں کے آخری دارالحکومت لاہور کو بھی فتح کر لیا۔
دہلی سلطنت (1206-1526) اور مغل سلطنت (1526-1857) نے صدیوں تک جنوبی ایشیا کے بیش تر حصوں پر حکومت کی۔ اتنے طویل عرصے کے باوجود ہندوستان میں مسلم حکمرانی کے خاتمے تک مسلمانوں کی تعداد ہندوستانی آبادی کے 20 فی صد سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نہ تو اسلام تلوار کے زور سے پھیلا جیسا کہ بعض اوقات کہا جاتا ہے اور نہ ہی دہلی، آگرہ یا لاہور میں مسلم حکمرانوں کا مقصد پوری ہندوستانی آبادی کا مذہب تبدیل کرنا تھا۔
اگرچہ مغل انتظامیہ یا فوج میں اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کو آگے بڑھانے کے لیے اسلام قبول کرنے کی مثالیں موجود ہیں، لیکن اس کے کافی دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ ہندو مغل فوج اور انتظامیہ میں اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچے۔ برہمن بیوروکریٹس کو مغل دربار میں بڑا درجہ حاصل تھا۔ اکبر کے وزیر خزانہ راجہ ٹوڈر مل نے راجپوتوں کے بہترین طریقوں کے ذریعے مغل اقتصادی پالیسیاں تشکیل دیں، جس کے لیے انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
عمومی طور پر جنوبی ایشیا کی اسلامائزیشن بہت سست تھی۔ اس عمل کو پہلے سے موجود نظریات اور رسومات کے نئے اسلامی نظریات کے ساتھ اختلاط کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسے تین مختلف خصوصیات پر مشتمل قرار دیا گیا ہے: شمولیت، شناخت اور نقل مکانی۔ شمولیت کے عمل میں اسلامی شخصیت کو ہندوستانی آفاق میں شامل کیا گیا۔ شناخت کے عمل میں اسلامی واسطے ہندوستانی دیوتاؤں کے ساتھ مل گئے۔ اور نقل مکانی کے عمل میں اسلامی واسطوں نے مقامی دیوتاؤں کی جگہ لے لی۔
اسی سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ کس طرح ہندوستانیوں نے اپنے بہت سے قبل از اسلام طریقوں کو برقرار رکھا۔ قرون وسطیٰ کے جنوبی ایشیا میں اسلام کی خالص شکل کے لیے سب سے بڑا چیلنج نہ تو مغل دربار سے تھا اور نہ ہی مراٹھا چھاپوں سے، بلکہ دیہاتی علاقوں میں مذہب تبدیل کرنے والوں کی طرف سے تھا، جو اسلامی تقاضوں سے ناواقف تھے، اور ان کی زندگیاں ہندو مت کے زیر اثر تھیں۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)