پاک بھارت مذاکرات مثبت پیش رفت
دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات کے اختتام پر 28 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا
پاکستان اور بھارت کے درمیان وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات میں دونوں اطراف سے ماضی کے ہاتھوں یرغمال نہ بننے کے عزم کے اظہار سے یہ نتیجہ اخذ کیاجارہا ہے ۔
دونوں ہمسایہ ممالک کی قیادت نے اس خطے سے غربت اور بے روزگاری اور دیگر لاتعداد مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے موقف میں تھوڑی لچک پیدا کرکے سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل کوآگے بڑھانے کافیصلہ کیاہے ۔
جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن وترقی اور استحکام کے لئے تصفیہ طلب ایشوز پر پیش رفت کو عملی جہت دینا بہت ضروری ہے ،دونوں ممالک کے درمیان وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات کو بلاشبہ سیاسی اور امورخارجہ کے ماہرین کے علاوہ دونوں ممالک کے شہریوں نے بھی مثبت اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ماضی میں بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی قیادت کی سطح پر رابطے ہوتے رہے ہیں اور اکثراوقات بعض عناصر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے یہ مذاکرات سبوتاژ کرتے آئے ہیں۔
دونوں اطراف سے الزامات کا سلسلہ جاری رہا اور کئی بار تعلقات میں کشیدگی اور تنائو کا غلبہ رہا جس کی وجہ سے امن کی کوششیں ماند پڑگئیں۔بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا کے دورہ پاکستان کے موقع پر نئے آزادانہ ویزہ نظام کے معاہدے پر دستخط کئے گئے۔اس ویزہ پالیسی کے ذریعے دونوں ممالک کے شہریوں کو براہ راست فائدہ پہنچے گا اور عوامی رابطے فعال بنانے میں معاونت ہوگی۔
دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات کے اختتام پر 28 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا ہے۔جامع مذاکرات کے 8نکات پر پیش رفت پر بھی اتفاق رائے کیاگیا ہے۔سفارتی مبصرین بہت سارے معاملات پر ان مذاکرات میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کررہے ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ جن نکات پر اتفاق رائے ہوگیا ہے ان پر عملدرآمد کو کیسے یقینی بنایاجاسکے گا؟
بھارت کے وزیر خارجہ نے دورۂ پاکستان کے دوران کہا ہے کہ وہ یہاں امن وآشتی کا پیغام لے کر آئے ہیں اور بھارت پاکستان کو پرامن، مستحکم اور ترقی کرتا ہوا ملک دیکھنا چاہتا ہے۔جامع مذاکرات کو بامقصد بنانے کی ضرورت ہے۔پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ناگزیر ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے اقدام کو جہاں سراہا ہے ،وہاں پاکستان کی قیادت نے نیک نیتی سے بھارت کے ساتھ بات چیت کی ہے،ہمیشہ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوتا رہا ہے۔
قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی حریف اور حلیف سیاسی جماعتوں کے درمیان اسلام آباد میں حالیہ رابطے اہمیت کے حامل ہیں۔ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے درمیان اسلام آباد میں پنجاب ہائوس میں قومی امور پر مذاکرات ہوئے ہیں،دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی ماضی قریب میں نقطہ عروج پر رہی ہے،ایک دوسرے کی قیادت کے سنگین ترین الزامات کل کی بات ہے مگر سیاست ممکنات کا دوسرا نام ہے۔ایم کیو ایم کے وفد کی قیادت وفاقی وزیر ڈاکٹرفاروق ستار اور مسلم لیگ(ن) کے وفد کی قیادت سینٹ میں قائدحزب اختلاف سینیٹراسحاق ڈار کررہے تھے۔
ایم کیوایم کے وفد نے سیاسی قیادت کو نائن زیروآنے کی دعوت دی ہے تاہم لیگی قیادت ایم کیو ایم کے صدر دفتر کا دورہ کرنے سے گریزاں ہے،بظاہر ان مذاکرات میں دونوں سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین نے اہم قومی معاملات پر یکساں موقف اختیار کرنے کے عزم کو دہرایا ہے ،عملی طور پر دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے اور مختلف اہم قومی ایشوز پر یکساں موقف اختیار کرنا ممکن نظر نہیں آرہا۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان بھی پنجاب ہائوس اسلام آباد میں بات چیت ہوئی ہے۔حکومتی وفد کی قیادت سید خورشید احمد شاہ اور(ن) لیگ کی قیادت سینیٹراسحاق ڈار کررہے تھے۔مجوزہ احتساب بل دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل میں یک نکاتی ایجنڈا کے طور پر شامل تھا۔
مذاکرات میں حصہ لینے والے رہنمائوں نے کہا ہے کہ احتساب بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے یہ بات چیت کی گئی ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے والے احتساب بل پر بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اس بل پر تحفظات کا اظہار کرتی آئی ہے۔اس بل کے مسودے پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت مشاورت کررہی ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان نگران سیٹ اپ پر مذاکرات کی قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں مگر ان قیاس آرائیوں میں کوئی وزن اس لئے نہیں کہ دونوں جماعتوں کے سرکردہ قائدین ان قیاس آرائیوں کو رد کرچکے ہیں۔سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کو متعارف کروائے جانے پر حکمران اتحاد میں پھوٹ پڑگئی ہے۔صوبہ سندھ کی سطح پر حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلافات میں شدت آگئی ہے اور یہ شدت تاحال مرکز کی سطح پر نہیں آئی ہے،وفاق میں بھی حکمران اتحاد میں بھی حکمران اتحاد میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے گلے شکوے کرنا شروع کردیئے ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ نیا نظام سندھ کو توڑنے کی سازش ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے لاپتہ افراد کے معاملے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کمانڈر ایف سی کے خلاف بات نہ ماننے پر سخت ایکشن کی ہدایت کی ہے۔ لاپتہ افراد کے معاملے پر اقوام متحدہ کی ٹیم اسلام آباد پہنچ گئی ہے ،اقوام متحدہ کی ٹیم مختلف شخصیات سے ملاقات کرے گی۔
دونوں ہمسایہ ممالک کی قیادت نے اس خطے سے غربت اور بے روزگاری اور دیگر لاتعداد مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے موقف میں تھوڑی لچک پیدا کرکے سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل کوآگے بڑھانے کافیصلہ کیاہے ۔
جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن وترقی اور استحکام کے لئے تصفیہ طلب ایشوز پر پیش رفت کو عملی جہت دینا بہت ضروری ہے ،دونوں ممالک کے درمیان وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات کو بلاشبہ سیاسی اور امورخارجہ کے ماہرین کے علاوہ دونوں ممالک کے شہریوں نے بھی مثبت اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ماضی میں بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی قیادت کی سطح پر رابطے ہوتے رہے ہیں اور اکثراوقات بعض عناصر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے یہ مذاکرات سبوتاژ کرتے آئے ہیں۔
دونوں اطراف سے الزامات کا سلسلہ جاری رہا اور کئی بار تعلقات میں کشیدگی اور تنائو کا غلبہ رہا جس کی وجہ سے امن کی کوششیں ماند پڑگئیں۔بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا کے دورہ پاکستان کے موقع پر نئے آزادانہ ویزہ نظام کے معاہدے پر دستخط کئے گئے۔اس ویزہ پالیسی کے ذریعے دونوں ممالک کے شہریوں کو براہ راست فائدہ پہنچے گا اور عوامی رابطے فعال بنانے میں معاونت ہوگی۔
دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات کے اختتام پر 28 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا ہے۔جامع مذاکرات کے 8نکات پر پیش رفت پر بھی اتفاق رائے کیاگیا ہے۔سفارتی مبصرین بہت سارے معاملات پر ان مذاکرات میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کررہے ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ جن نکات پر اتفاق رائے ہوگیا ہے ان پر عملدرآمد کو کیسے یقینی بنایاجاسکے گا؟
بھارت کے وزیر خارجہ نے دورۂ پاکستان کے دوران کہا ہے کہ وہ یہاں امن وآشتی کا پیغام لے کر آئے ہیں اور بھارت پاکستان کو پرامن، مستحکم اور ترقی کرتا ہوا ملک دیکھنا چاہتا ہے۔جامع مذاکرات کو بامقصد بنانے کی ضرورت ہے۔پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ناگزیر ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے اقدام کو جہاں سراہا ہے ،وہاں پاکستان کی قیادت نے نیک نیتی سے بھارت کے ساتھ بات چیت کی ہے،ہمیشہ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوتا رہا ہے۔
قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی حریف اور حلیف سیاسی جماعتوں کے درمیان اسلام آباد میں حالیہ رابطے اہمیت کے حامل ہیں۔ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے درمیان اسلام آباد میں پنجاب ہائوس میں قومی امور پر مذاکرات ہوئے ہیں،دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی ماضی قریب میں نقطہ عروج پر رہی ہے،ایک دوسرے کی قیادت کے سنگین ترین الزامات کل کی بات ہے مگر سیاست ممکنات کا دوسرا نام ہے۔ایم کیو ایم کے وفد کی قیادت وفاقی وزیر ڈاکٹرفاروق ستار اور مسلم لیگ(ن) کے وفد کی قیادت سینٹ میں قائدحزب اختلاف سینیٹراسحاق ڈار کررہے تھے۔
ایم کیوایم کے وفد نے سیاسی قیادت کو نائن زیروآنے کی دعوت دی ہے تاہم لیگی قیادت ایم کیو ایم کے صدر دفتر کا دورہ کرنے سے گریزاں ہے،بظاہر ان مذاکرات میں دونوں سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین نے اہم قومی معاملات پر یکساں موقف اختیار کرنے کے عزم کو دہرایا ہے ،عملی طور پر دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے اور مختلف اہم قومی ایشوز پر یکساں موقف اختیار کرنا ممکن نظر نہیں آرہا۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان بھی پنجاب ہائوس اسلام آباد میں بات چیت ہوئی ہے۔حکومتی وفد کی قیادت سید خورشید احمد شاہ اور(ن) لیگ کی قیادت سینیٹراسحاق ڈار کررہے تھے۔مجوزہ احتساب بل دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل میں یک نکاتی ایجنڈا کے طور پر شامل تھا۔
مذاکرات میں حصہ لینے والے رہنمائوں نے کہا ہے کہ احتساب بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے یہ بات چیت کی گئی ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے والے احتساب بل پر بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اس بل پر تحفظات کا اظہار کرتی آئی ہے۔اس بل کے مسودے پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت مشاورت کررہی ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان نگران سیٹ اپ پر مذاکرات کی قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں مگر ان قیاس آرائیوں میں کوئی وزن اس لئے نہیں کہ دونوں جماعتوں کے سرکردہ قائدین ان قیاس آرائیوں کو رد کرچکے ہیں۔سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کو متعارف کروائے جانے پر حکمران اتحاد میں پھوٹ پڑگئی ہے۔صوبہ سندھ کی سطح پر حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلافات میں شدت آگئی ہے اور یہ شدت تاحال مرکز کی سطح پر نہیں آئی ہے،وفاق میں بھی حکمران اتحاد میں بھی حکمران اتحاد میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے گلے شکوے کرنا شروع کردیئے ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ نیا نظام سندھ کو توڑنے کی سازش ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے لاپتہ افراد کے معاملے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کمانڈر ایف سی کے خلاف بات نہ ماننے پر سخت ایکشن کی ہدایت کی ہے۔ لاپتہ افراد کے معاملے پر اقوام متحدہ کی ٹیم اسلام آباد پہنچ گئی ہے ،اقوام متحدہ کی ٹیم مختلف شخصیات سے ملاقات کرے گی۔