سیاسی جماعتیں اور موروثی سیاست کا بحران
عام افراد یا سیاسی کارکن کے پاس مخصوص طاقت ور سیاسی خاندانوں کی سیاسی غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں
کراچی:
پاکستان کی سیاست ، جمہوریت اور حکمرانی کے مسائل میں ایک بنیادی مسئلہ موروثی سیاست یا سیاسی نظام پر خاندانی سیاست کے غلبہ کا بھی ہے۔کیونکہ معاشرے کا طاقت ور سیاسی طبقہ سیاسی طاقت کو دیگر فریقین کی سطح پر منتقل کرنے کی بجائے اسے اپنی ذات، خاندان ، رشتہ داری یا دوستوں تک محدود کرکے اقتدار کی سیاست میں اپنا غلبہ چاہتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی ، جمہوری اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام عملی طور پر خاندانوں کی سیاست کے ہاتھوں یرغمال نظر آتا ہے ۔اس نظام میں عام افراد کے لیے سیاسی طاقت کا حصول کم اور مخصوص طاقت ور طبقہ کے لیے طاقت کا حصول زیادہ ہے۔
عام افراد یا سیاسی کارکن کے پاس مخصوص طاقت ور سیاسی خاندانوں کی سیاسی غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر وہ اس صورتحال پارٹی کے داخلی نظام میں چیلنج کریں تو ان کو اول سیاسی قیادت کی جانب سے مزاحمت یا دوسری صورت میں ایسے افراد کو دیوار سے لگا کر پس پشت کردیا جاتا ہے۔
حال ہی میں مسلم لیگ ن کے اہم راہنما خواجہ سعد رفیق نے ایک سیاسی تقریب میں سیاسی جماعتوں میں موجود داخلی جمہوری نظام کا خوب ماتم کیا ہے ۔ ان کے بقول سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت لڑائی تو اسٹیبلیشمنٹ سے کرنا چاہتی ہے لیکن اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو خاندانی بادشاہت سے باہر نکالنے کے لیے تیار نہیں ۔ خواجہ سعد رفیق نے درست نشاندہی کی کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا نظام خاندانی بادشاہت کا شکار ہے اور اس میں پرانے یا نئے سیاسی لوگوں کے مقابلے میں خاندان میں موجود نئی نسل کو ہی بادشاہت کا حق ہے۔
اسی طرح خواجہ سعد رفیق کے بقول سیاسی تنظیم سازی یا سیاسی جماعتوں کو داخلی سطح پر جمہوری بنانا سیاسی جماعتوں یا ان کی قیادت کی ترجیحات میں بہت کمزور نظر آتی ہے ۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کی حیثیت بظاہر ایک نجی لمیٹڈ کپنی سے زیادہ نہیں اور سیاسی جماعت میں ہر طاقت ور فرد سیاسی جماعت کو ڈھال بنا کر اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی سطح پر ہمیں سیاسی جماعتوں کا مقدمہ عوامی سطح پرکمزور بھی ہے اور شدید تنقید کی زد میں بھی آتا ہے ۔
ایک مقدمہ خاندانی سیاست کے تناظر میں ہمیں حال ہی میں خیبر پختونخواہ کے پہلے مرحلے کے مقامی انتخابات کی صورت میں دیکھنے کو ملا جو خاندانی سیاست سے جڑے مسائل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف جس کا بنیادی نعرہ خاندانی نظام سے جڑی عملی سیاست کا خاتمہ تھا وہ بھی اسی روائتی سیاست کے ہاتھوں یرغمال نظر آئی ۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے صوبائی وزیروں ، مشیروں ، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے مجموعی طور پر پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کو اپنے خاندانوں تک محدود کیا۔
اس سیاست کا نتیجہ حالیہ مقامی انتخابات میں تحریک انصاف کو ناکامی کی صورت میں دیکھنے کو ملا ۔ اگرچہ ایک زمانے میں وزیر اعظم عمران خان کا موقف تھا کہ کوئی ایم این اے یا ایم پی اے یا وزیروں کے خاندانی افراد کو ٹکٹوں میں نہیں نوازا جائے گا۔ لیکن محض انتخابات ہی نہیں بلکہ مخصوص نشستوں پر عورتوں کی نامزدگی بھی اسی خاندانی نظام کی طاقت تک محدود نظر آئی ۔اس پر اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کافی غصہ میں نظر آتے ہیں لیکن مسئلہ ان کی بھی تنظیم سازی کا ہی ہے جہاں ان کی اپنی سوچ اورفکر پر پارٹی کے فیصلہ ساز افراد یا تنظیم عمل درآمد کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
وجہ صاف ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کی سطح پر داخلی جوابدہی یا احتساب کا نظام نہیں ہوگا تو یہ کچھ ہوگا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ جماعتیں جن کی قیادت خود بھی اپنی خاندانی سیاست کو قائم کرنا چاہتی ہیں تو پھر صوبائی یا ضلعی قیادت ایسا ہی کرے گی جو پارٹی کی خرابی اوپر سے چل رہی ہے اسے نچلی سطح پر ختم کرنا آسان نہیں ہوسکتا۔موروثی سیاست بری نہیں اگر کسی بھی جماعت میں قیادت کے خاندان کا فرد کسی سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی میدان میں آتا ہے ۔ لیکن اس کا طریقہ کار اگر وہی ہے جو عام کارکن کے لیے ہوتا ہے تو یہ عمل برا نہیں۔
لیکن جب خاندان کے افراد کو سیاسی پیراشوٹ یا محض بیٹے ، بیٹی ، رشتہ دار یا دوستی کی بنیاد پر اقربا پروری کی جائے تو اس عمل کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔حال ہی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی منظر نامہ میں مسلم لیگ ن کس انداز میں جنید صفدر کو پارٹی میں آگے کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ پارٹی میں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ جنید صفدر کو بطور لیڈر تسلیم کریں۔
یہ واقعی سیاسی کھیل ہے کہ سیاسی جماعتوں میں تجربہ کار ، سنجیدہ اور بزرگ قیادت کس طرح سیاسی خاندان کی سطح پر ابھرنے والی نئی نسل کے سامنے خود کو سیاسی سرنڈر کرتی ہے یا ان کے سامنے کیسے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی ہے ۔یہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں قیادت مخالف آوازوںکو کتنا سنا جاتا ہے یا ان کی سیاسی پزیرائی کی جاتی ہے ۔ کیونکہ جب بھی اہم سیاسی افراد سے بات چیت ہوتی ہے اور ان کو کہا جاتا ہے کہ آپ خاموش کیوں رہتے ہیں تو ان کا جواب سادہ سا ہوتاہے کہ آپ لوگ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو نہیں سمجھتے۔
اگر ہم نے واقعی سچے دل سے بات کرنی ہے تو پھر اس موجودہ سیاسی نظام میں یا ہماری جماعت میں ہماری موجودگی کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے ۔ بات سادی سی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں وہ لوگ جو واقعی سیاسی تبدیلی کے حامی ہیں وہ بھی سیاسی یرغمالی کا شکار ہیں ۔جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں یا سیاسی قیادت کے سامنے طاقت ور سیاسی خاندان یا الیکٹ ایبلز انتخاب جیتنے کے لیے ضروری ہیں اور ان کے بغیر دیہی یا طاقت ور حلقوں میں انتخاب نہیں جیتا جاسکتا تو پھر ان سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری کو توڑنا آسان نہیں ہوتا ؤ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ تواتر کے ساتھ راقم یہ ہی لکھتا رہتا ہے کہ ہماری جمہوریت کی خوبی کا بڑا دارومدار داخلی سطح پر سیاسی جماعتوں میں اصلاحات کا عمل ہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اصلاحات یا پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے بغیر سیاسی جماعتوں کو نہ تو جمہوری بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ جماعتیں خاندانی سیاست سے باہر نکل سکیں گی ۔لیکن خارجی سطح پر موجود سیاسی جماعتوں یا جمہوری طرز عمل پر تنقید تو بہت کرتے ہیں مگر سیاسی لوگ اپنے اندر کے داخلی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے اور اس کی بڑی وجہ طاقت ور خاندانی نظام ہے جس نے سیاسی جماعتوں کے نظام کو اپنے مفاداتی کنٹرول میں رکھا ہوا ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا ، اہل دانش، علمی و فکری ادارے یا رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا ادارے بھی اپنی اپنی سطح پر داخلی تضادات کا شکار ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے بھی عملی طور پر جمہوریت یا قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں طاقت ور سیاسی قیادت کے ساتھ اپنی ذاتی مفادات سے جڑی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ڈھٹائی و جرات کے ساتھ اہل دانش کا ایک گروہ سیاسی قیادتوں کی بداعمالیوں پر پردہ ڈال کر ان کے فیصلوں یا طرز عمل پر سیاسی جواز پیش کرتے ہیں وہ خود بھی ایک مجرمانہ غفلت کی عکاسی کرتا ہے۔
اصل میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو جمہوری خطوط پر استوار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن میڈیا ، علمی و فکری تھنک ٹینک اور پریشر گروپ سیاسی جماعتوں پر دباؤ کی پالیسی اختیار کریں کہ وہ موجودہ طرز عمل کے مقابلے میں اپنا داخلی جمہوری مقدمہ بہتر بنائیں ۔اگر واقعی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کا مقدمہ جیتنا ہے یا اسے مضبوط کرنا ہے تو اس کے لیے پاکستان کی ضرورت مضبوط سیاسی جماعتیں اور اس سے جڑا سیاسی نظام ہی ہوسکتا ہے ۔ جو حالیہ سیاسی جماعتوں یا قیادت کا طرز عمل ہے وہ کسی بھی بڑی جمہوری لڑائی کے برعکس ہے۔
کیونکہ عوام سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ ہی رائے رکھتی ہیں کہ سیاسی سطح پر موجود سیاسی جماعتیں عوامی مفادات، عوامی مسائل اور قومی سطح کے مسائل سمیت جمہوریت کو اپنے مفادات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں ۔اسی بنیاد پر سیاست ، جمہوریت اور حکمرانی کے نظام کی سیاسی ساکھ بھی کمزور ہے اور یہ کمزوری سیاسی نظام اور عوام کے درمیان ایک بڑی سیاسی خلیج کو بھی نمایاں کرتی ہے ۔
پاکستان کی سیاست ، جمہوریت اور حکمرانی کے مسائل میں ایک بنیادی مسئلہ موروثی سیاست یا سیاسی نظام پر خاندانی سیاست کے غلبہ کا بھی ہے۔کیونکہ معاشرے کا طاقت ور سیاسی طبقہ سیاسی طاقت کو دیگر فریقین کی سطح پر منتقل کرنے کی بجائے اسے اپنی ذات، خاندان ، رشتہ داری یا دوستوں تک محدود کرکے اقتدار کی سیاست میں اپنا غلبہ چاہتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی ، جمہوری اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام عملی طور پر خاندانوں کی سیاست کے ہاتھوں یرغمال نظر آتا ہے ۔اس نظام میں عام افراد کے لیے سیاسی طاقت کا حصول کم اور مخصوص طاقت ور طبقہ کے لیے طاقت کا حصول زیادہ ہے۔
عام افراد یا سیاسی کارکن کے پاس مخصوص طاقت ور سیاسی خاندانوں کی سیاسی غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر وہ اس صورتحال پارٹی کے داخلی نظام میں چیلنج کریں تو ان کو اول سیاسی قیادت کی جانب سے مزاحمت یا دوسری صورت میں ایسے افراد کو دیوار سے لگا کر پس پشت کردیا جاتا ہے۔
حال ہی میں مسلم لیگ ن کے اہم راہنما خواجہ سعد رفیق نے ایک سیاسی تقریب میں سیاسی جماعتوں میں موجود داخلی جمہوری نظام کا خوب ماتم کیا ہے ۔ ان کے بقول سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت لڑائی تو اسٹیبلیشمنٹ سے کرنا چاہتی ہے لیکن اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو خاندانی بادشاہت سے باہر نکالنے کے لیے تیار نہیں ۔ خواجہ سعد رفیق نے درست نشاندہی کی کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا نظام خاندانی بادشاہت کا شکار ہے اور اس میں پرانے یا نئے سیاسی لوگوں کے مقابلے میں خاندان میں موجود نئی نسل کو ہی بادشاہت کا حق ہے۔
اسی طرح خواجہ سعد رفیق کے بقول سیاسی تنظیم سازی یا سیاسی جماعتوں کو داخلی سطح پر جمہوری بنانا سیاسی جماعتوں یا ان کی قیادت کی ترجیحات میں بہت کمزور نظر آتی ہے ۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کی حیثیت بظاہر ایک نجی لمیٹڈ کپنی سے زیادہ نہیں اور سیاسی جماعت میں ہر طاقت ور فرد سیاسی جماعت کو ڈھال بنا کر اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی سطح پر ہمیں سیاسی جماعتوں کا مقدمہ عوامی سطح پرکمزور بھی ہے اور شدید تنقید کی زد میں بھی آتا ہے ۔
ایک مقدمہ خاندانی سیاست کے تناظر میں ہمیں حال ہی میں خیبر پختونخواہ کے پہلے مرحلے کے مقامی انتخابات کی صورت میں دیکھنے کو ملا جو خاندانی سیاست سے جڑے مسائل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف جس کا بنیادی نعرہ خاندانی نظام سے جڑی عملی سیاست کا خاتمہ تھا وہ بھی اسی روائتی سیاست کے ہاتھوں یرغمال نظر آئی ۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے صوبائی وزیروں ، مشیروں ، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے مجموعی طور پر پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کو اپنے خاندانوں تک محدود کیا۔
اس سیاست کا نتیجہ حالیہ مقامی انتخابات میں تحریک انصاف کو ناکامی کی صورت میں دیکھنے کو ملا ۔ اگرچہ ایک زمانے میں وزیر اعظم عمران خان کا موقف تھا کہ کوئی ایم این اے یا ایم پی اے یا وزیروں کے خاندانی افراد کو ٹکٹوں میں نہیں نوازا جائے گا۔ لیکن محض انتخابات ہی نہیں بلکہ مخصوص نشستوں پر عورتوں کی نامزدگی بھی اسی خاندانی نظام کی طاقت تک محدود نظر آئی ۔اس پر اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کافی غصہ میں نظر آتے ہیں لیکن مسئلہ ان کی بھی تنظیم سازی کا ہی ہے جہاں ان کی اپنی سوچ اورفکر پر پارٹی کے فیصلہ ساز افراد یا تنظیم عمل درآمد کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
وجہ صاف ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کی سطح پر داخلی جوابدہی یا احتساب کا نظام نہیں ہوگا تو یہ کچھ ہوگا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ جماعتیں جن کی قیادت خود بھی اپنی خاندانی سیاست کو قائم کرنا چاہتی ہیں تو پھر صوبائی یا ضلعی قیادت ایسا ہی کرے گی جو پارٹی کی خرابی اوپر سے چل رہی ہے اسے نچلی سطح پر ختم کرنا آسان نہیں ہوسکتا۔موروثی سیاست بری نہیں اگر کسی بھی جماعت میں قیادت کے خاندان کا فرد کسی سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی میدان میں آتا ہے ۔ لیکن اس کا طریقہ کار اگر وہی ہے جو عام کارکن کے لیے ہوتا ہے تو یہ عمل برا نہیں۔
لیکن جب خاندان کے افراد کو سیاسی پیراشوٹ یا محض بیٹے ، بیٹی ، رشتہ دار یا دوستی کی بنیاد پر اقربا پروری کی جائے تو اس عمل کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔حال ہی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی منظر نامہ میں مسلم لیگ ن کس انداز میں جنید صفدر کو پارٹی میں آگے کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ پارٹی میں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ جنید صفدر کو بطور لیڈر تسلیم کریں۔
یہ واقعی سیاسی کھیل ہے کہ سیاسی جماعتوں میں تجربہ کار ، سنجیدہ اور بزرگ قیادت کس طرح سیاسی خاندان کی سطح پر ابھرنے والی نئی نسل کے سامنے خود کو سیاسی سرنڈر کرتی ہے یا ان کے سامنے کیسے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی ہے ۔یہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں قیادت مخالف آوازوںکو کتنا سنا جاتا ہے یا ان کی سیاسی پزیرائی کی جاتی ہے ۔ کیونکہ جب بھی اہم سیاسی افراد سے بات چیت ہوتی ہے اور ان کو کہا جاتا ہے کہ آپ خاموش کیوں رہتے ہیں تو ان کا جواب سادہ سا ہوتاہے کہ آپ لوگ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو نہیں سمجھتے۔
اگر ہم نے واقعی سچے دل سے بات کرنی ہے تو پھر اس موجودہ سیاسی نظام میں یا ہماری جماعت میں ہماری موجودگی کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے ۔ بات سادی سی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں وہ لوگ جو واقعی سیاسی تبدیلی کے حامی ہیں وہ بھی سیاسی یرغمالی کا شکار ہیں ۔جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں یا سیاسی قیادت کے سامنے طاقت ور سیاسی خاندان یا الیکٹ ایبلز انتخاب جیتنے کے لیے ضروری ہیں اور ان کے بغیر دیہی یا طاقت ور حلقوں میں انتخاب نہیں جیتا جاسکتا تو پھر ان سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری کو توڑنا آسان نہیں ہوتا ؤ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ تواتر کے ساتھ راقم یہ ہی لکھتا رہتا ہے کہ ہماری جمہوریت کی خوبی کا بڑا دارومدار داخلی سطح پر سیاسی جماعتوں میں اصلاحات کا عمل ہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اصلاحات یا پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے بغیر سیاسی جماعتوں کو نہ تو جمہوری بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ جماعتیں خاندانی سیاست سے باہر نکل سکیں گی ۔لیکن خارجی سطح پر موجود سیاسی جماعتوں یا جمہوری طرز عمل پر تنقید تو بہت کرتے ہیں مگر سیاسی لوگ اپنے اندر کے داخلی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے اور اس کی بڑی وجہ طاقت ور خاندانی نظام ہے جس نے سیاسی جماعتوں کے نظام کو اپنے مفاداتی کنٹرول میں رکھا ہوا ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا ، اہل دانش، علمی و فکری ادارے یا رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا ادارے بھی اپنی اپنی سطح پر داخلی تضادات کا شکار ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے بھی عملی طور پر جمہوریت یا قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں طاقت ور سیاسی قیادت کے ساتھ اپنی ذاتی مفادات سے جڑی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ڈھٹائی و جرات کے ساتھ اہل دانش کا ایک گروہ سیاسی قیادتوں کی بداعمالیوں پر پردہ ڈال کر ان کے فیصلوں یا طرز عمل پر سیاسی جواز پیش کرتے ہیں وہ خود بھی ایک مجرمانہ غفلت کی عکاسی کرتا ہے۔
اصل میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو جمہوری خطوط پر استوار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن میڈیا ، علمی و فکری تھنک ٹینک اور پریشر گروپ سیاسی جماعتوں پر دباؤ کی پالیسی اختیار کریں کہ وہ موجودہ طرز عمل کے مقابلے میں اپنا داخلی جمہوری مقدمہ بہتر بنائیں ۔اگر واقعی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کا مقدمہ جیتنا ہے یا اسے مضبوط کرنا ہے تو اس کے لیے پاکستان کی ضرورت مضبوط سیاسی جماعتیں اور اس سے جڑا سیاسی نظام ہی ہوسکتا ہے ۔ جو حالیہ سیاسی جماعتوں یا قیادت کا طرز عمل ہے وہ کسی بھی بڑی جمہوری لڑائی کے برعکس ہے۔
کیونکہ عوام سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ ہی رائے رکھتی ہیں کہ سیاسی سطح پر موجود سیاسی جماعتیں عوامی مفادات، عوامی مسائل اور قومی سطح کے مسائل سمیت جمہوریت کو اپنے مفادات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں ۔اسی بنیاد پر سیاست ، جمہوریت اور حکمرانی کے نظام کی سیاسی ساکھ بھی کمزور ہے اور یہ کمزوری سیاسی نظام اور عوام کے درمیان ایک بڑی سیاسی خلیج کو بھی نمایاں کرتی ہے ۔