بلدیاتی الیکشن
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں ڈھائی سال لگے 7 ماہ فیصلے پر جان بوجھ کر عمل نہیں کیا گیا
پنجاب بھر میں بلدیاتی اداروں کی تحلیل سے متعلق عدالتی فیصلہ 31 دسمبر تک ہونے کی بلدیاتی اداروں کی توقعات پوری نہ ہوسکیں اور 31 دسمبر تک کورٹ کے فیصلے کے منتظر پنجاب کے منتخب بلدیاتی عہدیداروں کی جگہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے مدت ختم ہوتے ہی صوبے کے ڈپٹی کمشنروں، ایڈیشنل ڈی سیز اور اسسٹنٹ کمشنروں کو بلدیاتی اداروں کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا جنھوں نے سرکاری تعطیل کے باوجود یکم جنوری کو چارج سنبھال کر اپنا کام شروع کردیا اور پنجاب کے منتخب بلدیاتی نمایندے اپنی چار سال کی آئینی مدت پوری ہونے کا خواب دیکھتے ہوئے بہ مشکل ایک سال ہی پورا کرسکے جنھیں عوام نے چار سال کے لیے منتخب کیا تھا۔
پنجاب کے بلدیاتی انتخابات وہاں مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہوئے تھے اور انھیں مسلم لیگ (ن) سے وابستگی کی سزا پنجاب میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس لیے دی تھی کہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں واضح اکثریت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے منتخب نمایندوں کی تھی۔
سندھ میں پی پی حکومت اور کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جہاں اکثریت وہاں کی برسر اقتدار پارٹیوں کی تھی، سندھ میں پی پی کے بعد ایم کیو ایم کے بلدیاتی نمایندے دوسرے نمبر پر تھے جس کے کراچی اور حیدرآباد میں منتخب میئرز تھے اور کے پی میں پی ٹی آئی کے منتخب نمایندوں کی اکثریت تھی مگر وفاق اور پنجاب میں اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے پی ٹی آئی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے بلدیاتی نمایندوں کو پہلے ترقیاتی فنڈز استعمال کرنے سے روکا مگر لیگی عہدیدار مزید برداشت نہ ہوئے اور انتقامی کارروائی کے طور پر پہلے پنجاب اور بعد میں اسلام آباد کے لیگی میئر اور منتخب نمایندوں کو برطرف کیا گیا۔
پنجاب حکومت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے اور اسلام آباد کے میئر نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور جلد ہی ہائی کورٹ نے میئر اسلام آباد کو بحال کردیا مگر کچھ عرصے بعد وفاقی حکومت نے اسلام آباد میونسپل کارپوریشن کو برقرار رکھ کر میئر کو برطرف کردیا اور عدالتی حکم پر میئر کا دوبارہ انتخاب ہوا جس میں مسلم لیگ (ن) کے سابق میئر دوبارہ کامیاب ہوگئے اور پی ٹی آئی کا اپنے زیر اثر وفاقی دارالحکومت سے اپنا میئر منتخب کرانے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی تحلیل کے خلاف سپریم کورٹ نے گزشتہ سال فیصلہ دے کر وہاں کے بلدیاتی ادارے بحال کردیے تھے مگر پنجاب حکومت نے وفاق کی ہدایت پر بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا اور مختلف بہانوں سے مزید سات ماہ ضایع کردیے اور ہر کوشش میں ناکامی کے بعد انھیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بلدیاتی اداروں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا۔ منتخب نمایندوں کو صرف نومبر، دسمبر کام کے لیے ملے مگر پنجاب حکومت اپنے سرکاری افسروں کے لیے منتخب نمایندوں کو کام کرنے نہیں دینا چاہتی تھی۔
2021-2022 کا بلدیاتی بجٹ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے بنایا تھا جس پر منتخب نمایندوں کو عمل کرنے نہیں دیا گیا اور وہ آزادانہ طور پر دو ماہ میں کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کے خلاف عدالتی فیصلے پر فوری طور عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست کے ساتھ اپنی مقررہ 4 سالہ مدت پوری کرانے کی درخواست بھی کی تھی اور ان کا خیال تھا کہ انھیں پوری نہیں تو کچھ مزید مدت مل جائے گی کیونکہ پنجاب حکومت نئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ نہیں اور نہ کوئی تیاری کی گئی تھی۔
پنجاب حکومت مجبوری میں صرف دو ماہ بلدیاتی منتخب نمایندوں کو برداشت کرنا چاہتی تھی جس پنجاب حکومت نے عدالتی فیصلے پر عمل میں سات ماہ لگائے تھے اس نے ایڈمنسٹریٹر دوبارہ مسلط کرنے میں ایک دن کی دیر بھی نہیں لگائی اور 31 دسمبر گزرتے ہی منتخب نمایندوں کو ایک روز کی بھی مہلت نہیں دی۔
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں ڈھائی سال لگے 7 ماہ فیصلے پر جان بوجھ کر عمل نہیں کیا گیا اور پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی رکاوٹیں ڈالنا شروع کردی تھیں تاکہ (ن) لیگی بلدیاتی نمایندے کام ہی نہ کرسکیں اور حکومت اپنی من مانی میں کامیاب رہی جب کہ اپنی مقررہ مدت پوری کرنا ان کا قانونی حق تھا ۔ پنجاب حکومت کے خلاف توہین عدالت اور غیر قانونی اقدام پر اگر عدالتی سزا مل جاتی تو مدت پوری ہوتی اور دوسروں کو بھی سبق حاصل ہو جاتا۔
پنجاب کے بلدیاتی انتخابات وہاں مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہوئے تھے اور انھیں مسلم لیگ (ن) سے وابستگی کی سزا پنجاب میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس لیے دی تھی کہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں واضح اکثریت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے منتخب نمایندوں کی تھی۔
سندھ میں پی پی حکومت اور کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جہاں اکثریت وہاں کی برسر اقتدار پارٹیوں کی تھی، سندھ میں پی پی کے بعد ایم کیو ایم کے بلدیاتی نمایندے دوسرے نمبر پر تھے جس کے کراچی اور حیدرآباد میں منتخب میئرز تھے اور کے پی میں پی ٹی آئی کے منتخب نمایندوں کی اکثریت تھی مگر وفاق اور پنجاب میں اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے پی ٹی آئی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے بلدیاتی نمایندوں کو پہلے ترقیاتی فنڈز استعمال کرنے سے روکا مگر لیگی عہدیدار مزید برداشت نہ ہوئے اور انتقامی کارروائی کے طور پر پہلے پنجاب اور بعد میں اسلام آباد کے لیگی میئر اور منتخب نمایندوں کو برطرف کیا گیا۔
پنجاب حکومت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے اور اسلام آباد کے میئر نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور جلد ہی ہائی کورٹ نے میئر اسلام آباد کو بحال کردیا مگر کچھ عرصے بعد وفاقی حکومت نے اسلام آباد میونسپل کارپوریشن کو برقرار رکھ کر میئر کو برطرف کردیا اور عدالتی حکم پر میئر کا دوبارہ انتخاب ہوا جس میں مسلم لیگ (ن) کے سابق میئر دوبارہ کامیاب ہوگئے اور پی ٹی آئی کا اپنے زیر اثر وفاقی دارالحکومت سے اپنا میئر منتخب کرانے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی تحلیل کے خلاف سپریم کورٹ نے گزشتہ سال فیصلہ دے کر وہاں کے بلدیاتی ادارے بحال کردیے تھے مگر پنجاب حکومت نے وفاق کی ہدایت پر بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا اور مختلف بہانوں سے مزید سات ماہ ضایع کردیے اور ہر کوشش میں ناکامی کے بعد انھیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بلدیاتی اداروں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا۔ منتخب نمایندوں کو صرف نومبر، دسمبر کام کے لیے ملے مگر پنجاب حکومت اپنے سرکاری افسروں کے لیے منتخب نمایندوں کو کام کرنے نہیں دینا چاہتی تھی۔
2021-2022 کا بلدیاتی بجٹ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے بنایا تھا جس پر منتخب نمایندوں کو عمل کرنے نہیں دیا گیا اور وہ آزادانہ طور پر دو ماہ میں کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کے خلاف عدالتی فیصلے پر فوری طور عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست کے ساتھ اپنی مقررہ 4 سالہ مدت پوری کرانے کی درخواست بھی کی تھی اور ان کا خیال تھا کہ انھیں پوری نہیں تو کچھ مزید مدت مل جائے گی کیونکہ پنجاب حکومت نئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ نہیں اور نہ کوئی تیاری کی گئی تھی۔
پنجاب حکومت مجبوری میں صرف دو ماہ بلدیاتی منتخب نمایندوں کو برداشت کرنا چاہتی تھی جس پنجاب حکومت نے عدالتی فیصلے پر عمل میں سات ماہ لگائے تھے اس نے ایڈمنسٹریٹر دوبارہ مسلط کرنے میں ایک دن کی دیر بھی نہیں لگائی اور 31 دسمبر گزرتے ہی منتخب نمایندوں کو ایک روز کی بھی مہلت نہیں دی۔
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں ڈھائی سال لگے 7 ماہ فیصلے پر جان بوجھ کر عمل نہیں کیا گیا اور پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی رکاوٹیں ڈالنا شروع کردی تھیں تاکہ (ن) لیگی بلدیاتی نمایندے کام ہی نہ کرسکیں اور حکومت اپنی من مانی میں کامیاب رہی جب کہ اپنی مقررہ مدت پوری کرنا ان کا قانونی حق تھا ۔ پنجاب حکومت کے خلاف توہین عدالت اور غیر قانونی اقدام پر اگر عدالتی سزا مل جاتی تو مدت پوری ہوتی اور دوسروں کو بھی سبق حاصل ہو جاتا۔