نیکی کا صلہ
طالبان حکومت کے استحکام کے لیے مغرب کی خوشنودی حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ افغانستان کے مالی مسائل کو وہی حل کرسکتے ہیں
گزشتہ سال کا سب سے بڑا واقعہ افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کا اخراج اور وہاں مکمل طور پر طالبان کی حکومت کا قائم ہونا تھا۔ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا نے وہاں ڈھائی لاکھ سے زیادہ فوج تیارکر رکھی تھی مگر ہوا یہ کہ طالبان افغان فوجوں سے لڑے بغیر ہی پورے افغانستان پر اپنی حاکمیت قائم کرنے میں کامیاب رہے۔
افغان فوجیوں کے طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سلسلے میں مغربی ممالک اور بھارت کے میڈیا میں کافی بحث ہوتی رہی ہے۔ اس کی وجہ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ہے کہ افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے بہانے پرائیویٹ کنٹریکٹرز نے امریکی حکومت سے لاکھوں ڈالر وصول کیے مگر نہ تو فوجیوں کی ڈھنگ سے تربیت کی گئی اور نہ ان کے لیے ضروری اسلحہ خریدا گیا۔
پھر وہ افغان فوجی جنھیں بھارت تربیت کے لیے بھیجا گیا تھا انھیں وہاں تربیت دینے سے زیادہ پاکستان دشمنی کا سبق پڑھانے پر توجہ دی گئی، لیکن اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق افغان فوجیوں کا طالبان سے مقابلہ نہ کرنے کی اصل وجہ ان کا جذبہ حب الوطنی تھا۔ صرف افغان شہری ہی نہیں افغان فوج بھی اپنے ملک پر غیروں کے طویل قبضے سے بے زار ہو چکے تھے۔ ان کا ملک گزشتہ چالیس سالوں سے غیروں کے تسلط میں تھا۔ کبھی روس ان کے ملک پر قابض ہوا تو کبھی امریکا اور کبھی غیروں کے پٹھو افغان افغانستان کے سربراہ بن بیٹھے۔
یوں تو طالبان امریکی قبضے کے خلاف شروع دن سے ہی جدوجہد کر رہے تھے مگر اشرف غنی کی کرپٹ سرکار کے دور میں افغانستان حقیقی معنی میں افراتفری کا شکار ہو گیا تھا چنانچہ موقع سے فائدہ اٹھا کر طالبان نے اپنی طاقت کو بڑھایا اور امریکی و نیٹو کی افواج کے انخلا کے فوراً بعد افغانستان سے اشرف غنی کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے افغانستان کے جنوبی صوبوں پر مہم جوئی شروع کردی وہاں افغان فوجیوں نے ضرور کچھ مزاحمت کی مگر اس کے بعد ہتھیار ڈال دیے تھے۔
اس کے بعد وہ جس بھی صوبے پر حملہ آور ہوئے وہاں کے فوجی طالبان کے آگے ہتھیار ڈالتے رہے اور یہ افغان فوجیوں کی حب الوطنی کی واضح مثال تھی۔ مغربی ممالک ہی کیا بھارت بھی افغان فوجیوں کے طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے پر اب تک حیران و پریشان ہے کیونکہ طالبان جنگجوؤں کی کل تعداد اسی ہزار تھی جب کہ افغان فوجیوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ تھی۔ بھارت طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے سے اس لیے بھی پریشان ہے کیونکہ وہ افغان فوجیوں سے پاکستان کے خلاف جو کام لینا چاہتا تھا وہ اس سے محروم ہو گیا ہے۔
اب مودی کے اس جارحانہ پلان سے سب ہی واقف ہوچکے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کو پاکستان سے ہتھیانے کے لیے اس خطے پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ مشرق کی جانب سے اس کی افواج اس خطے پر بھرپور حملہ کریں گی ادھر مغربی سرحد پر افغان فوجی پاکستان پر حملہ آور ہوں گے اس طرح پاکستان جو اس وقت سخت معاشی بحران کا شکار ہے دو طرفہ حملوں کا مقابلہ نہیں کر پائے گا اور یوں گلگت بلتستان بھارت کا حصہ بن جائیں گے اور اس طرح اس کے لیے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی آسان ہو جائے گی مگر چین نے عین اسی وقت لداخ پر اپنی زمین بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے حملہ کردیا اور یوں بھارت کا گلگت بلتستان کو ہتھیانے کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔
افغانستان پر طالبان کی حکمرانی قائم ہونے کے بعد پاکستان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اب اسے افغانستان کی طرف سے کسی فوجی حملے کا خطرہ نہیں رہا ہے البتہ دہشت گردی کا مسئلہ ابھی بھی باقی ہے۔ ۔ افغانستان طالبان کی حکومت قائم ہوئے اب تقریباً پانچ ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے اس کی وجہ طالبان کی اپنی باہمی چپقلش اور خواتین سے متعلق ان کی ملا عمر والی پالیسی کو بحال رکھنا ہے۔
اب سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ افغان وزیر اعظم ملا حسن اخوند کی تقرری سے کچھ طالبان گروپ متفق نہیں ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا دوحا مذاکرات سے لے کر طالبان کے کابل پر قبضے تک ملا عبدالغنی برادر سب سے زیادہ متحرک تھے ، اسی لیے اکثر تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیر اعظم بننا ان ہی کا حق تھا۔ مغربی ممالک افغانستان میں وہاں آباد تمام قومیتوں کی حامل مخلوط حکومت کا قیام چاہتے ہیں مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
طالبان حکومت کے استحکام کے لیے مغرب کی خوشنودی حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ افغانستان کے مالی مسائل کو وہی حل کرسکتے ہیں گوکہ چین اور روس طالبان حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں مگر افغانستان کے مالی فنڈز تو امریکا کی گرفت میں ہیں۔ پاکستان طالبان حکومت کی حتیٰ المقدور مدد کر رہا ہے۔ حال ہی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو چکا ہے جو بہت کامیاب رہا۔ اس اجلاس کے بعد کئی ممالک نے طالبان کی مالی مدد کی ہے۔
ایک طرف پاکستان افغان حکومت کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور دوسری جانب افغان طالبان کے کئی دھڑے پاکستان دشمنی میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کو طالبان کے لوگوں نے اکھاڑ دیا تھا۔
ہماری طرف سے اس کی شکایت پر افغان وزیر دفاع ملا یعقوب وہاں پہنچے تھے اور انھوں نے وہاں سرحد پر متعین طالبان اہلکاروں کو ڈانٹ ڈپٹ کی تھی مگر اس کے کچھ دن بعد ہی پھر باڑ کے توڑنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اس دفعہ افغان حکومت کے سینئر ترجمان نے کہا ہے کہ ہم پاکستانی باڑ کو نہیں مانتے اسے پاکستان کو ہٹا دینا چاہیے ورنہ ہم اسے ہٹا دیں گے۔ یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے اگر طالبان پاکستان کی سرحد کو ہی تسلیم نہیں کرتے تو پھر ان سے آگے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔
افغان فوجیوں کے طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سلسلے میں مغربی ممالک اور بھارت کے میڈیا میں کافی بحث ہوتی رہی ہے۔ اس کی وجہ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ہے کہ افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے بہانے پرائیویٹ کنٹریکٹرز نے امریکی حکومت سے لاکھوں ڈالر وصول کیے مگر نہ تو فوجیوں کی ڈھنگ سے تربیت کی گئی اور نہ ان کے لیے ضروری اسلحہ خریدا گیا۔
پھر وہ افغان فوجی جنھیں بھارت تربیت کے لیے بھیجا گیا تھا انھیں وہاں تربیت دینے سے زیادہ پاکستان دشمنی کا سبق پڑھانے پر توجہ دی گئی، لیکن اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق افغان فوجیوں کا طالبان سے مقابلہ نہ کرنے کی اصل وجہ ان کا جذبہ حب الوطنی تھا۔ صرف افغان شہری ہی نہیں افغان فوج بھی اپنے ملک پر غیروں کے طویل قبضے سے بے زار ہو چکے تھے۔ ان کا ملک گزشتہ چالیس سالوں سے غیروں کے تسلط میں تھا۔ کبھی روس ان کے ملک پر قابض ہوا تو کبھی امریکا اور کبھی غیروں کے پٹھو افغان افغانستان کے سربراہ بن بیٹھے۔
یوں تو طالبان امریکی قبضے کے خلاف شروع دن سے ہی جدوجہد کر رہے تھے مگر اشرف غنی کی کرپٹ سرکار کے دور میں افغانستان حقیقی معنی میں افراتفری کا شکار ہو گیا تھا چنانچہ موقع سے فائدہ اٹھا کر طالبان نے اپنی طاقت کو بڑھایا اور امریکی و نیٹو کی افواج کے انخلا کے فوراً بعد افغانستان سے اشرف غنی کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے افغانستان کے جنوبی صوبوں پر مہم جوئی شروع کردی وہاں افغان فوجیوں نے ضرور کچھ مزاحمت کی مگر اس کے بعد ہتھیار ڈال دیے تھے۔
اس کے بعد وہ جس بھی صوبے پر حملہ آور ہوئے وہاں کے فوجی طالبان کے آگے ہتھیار ڈالتے رہے اور یہ افغان فوجیوں کی حب الوطنی کی واضح مثال تھی۔ مغربی ممالک ہی کیا بھارت بھی افغان فوجیوں کے طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے پر اب تک حیران و پریشان ہے کیونکہ طالبان جنگجوؤں کی کل تعداد اسی ہزار تھی جب کہ افغان فوجیوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ تھی۔ بھارت طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے سے اس لیے بھی پریشان ہے کیونکہ وہ افغان فوجیوں سے پاکستان کے خلاف جو کام لینا چاہتا تھا وہ اس سے محروم ہو گیا ہے۔
اب مودی کے اس جارحانہ پلان سے سب ہی واقف ہوچکے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کو پاکستان سے ہتھیانے کے لیے اس خطے پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ مشرق کی جانب سے اس کی افواج اس خطے پر بھرپور حملہ کریں گی ادھر مغربی سرحد پر افغان فوجی پاکستان پر حملہ آور ہوں گے اس طرح پاکستان جو اس وقت سخت معاشی بحران کا شکار ہے دو طرفہ حملوں کا مقابلہ نہیں کر پائے گا اور یوں گلگت بلتستان بھارت کا حصہ بن جائیں گے اور اس طرح اس کے لیے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی آسان ہو جائے گی مگر چین نے عین اسی وقت لداخ پر اپنی زمین بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے حملہ کردیا اور یوں بھارت کا گلگت بلتستان کو ہتھیانے کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔
افغانستان پر طالبان کی حکمرانی قائم ہونے کے بعد پاکستان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اب اسے افغانستان کی طرف سے کسی فوجی حملے کا خطرہ نہیں رہا ہے البتہ دہشت گردی کا مسئلہ ابھی بھی باقی ہے۔ ۔ افغانستان طالبان کی حکومت قائم ہوئے اب تقریباً پانچ ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے اس کی وجہ طالبان کی اپنی باہمی چپقلش اور خواتین سے متعلق ان کی ملا عمر والی پالیسی کو بحال رکھنا ہے۔
اب سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ افغان وزیر اعظم ملا حسن اخوند کی تقرری سے کچھ طالبان گروپ متفق نہیں ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا دوحا مذاکرات سے لے کر طالبان کے کابل پر قبضے تک ملا عبدالغنی برادر سب سے زیادہ متحرک تھے ، اسی لیے اکثر تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیر اعظم بننا ان ہی کا حق تھا۔ مغربی ممالک افغانستان میں وہاں آباد تمام قومیتوں کی حامل مخلوط حکومت کا قیام چاہتے ہیں مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
طالبان حکومت کے استحکام کے لیے مغرب کی خوشنودی حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ افغانستان کے مالی مسائل کو وہی حل کرسکتے ہیں گوکہ چین اور روس طالبان حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں مگر افغانستان کے مالی فنڈز تو امریکا کی گرفت میں ہیں۔ پاکستان طالبان حکومت کی حتیٰ المقدور مدد کر رہا ہے۔ حال ہی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو چکا ہے جو بہت کامیاب رہا۔ اس اجلاس کے بعد کئی ممالک نے طالبان کی مالی مدد کی ہے۔
ایک طرف پاکستان افغان حکومت کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور دوسری جانب افغان طالبان کے کئی دھڑے پاکستان دشمنی میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کو طالبان کے لوگوں نے اکھاڑ دیا تھا۔
ہماری طرف سے اس کی شکایت پر افغان وزیر دفاع ملا یعقوب وہاں پہنچے تھے اور انھوں نے وہاں سرحد پر متعین طالبان اہلکاروں کو ڈانٹ ڈپٹ کی تھی مگر اس کے کچھ دن بعد ہی پھر باڑ کے توڑنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اس دفعہ افغان حکومت کے سینئر ترجمان نے کہا ہے کہ ہم پاکستانی باڑ کو نہیں مانتے اسے پاکستان کو ہٹا دینا چاہیے ورنہ ہم اسے ہٹا دیں گے۔ یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے اگر طالبان پاکستان کی سرحد کو ہی تسلیم نہیں کرتے تو پھر ان سے آگے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔