قبرستانوں کی داستان
ہمارے ادارے ہی نہیں ہم خود بھی مذہب و اخلاقیات سے عاری خودنمائی، خودپرستی اور نفس گزاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں
روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے زیر نگرانی 39 قبرستان ہیں جن میں سے 6 کو تدفین کے لیے بند کردیا گیا ہے جب کہ فلاحی اداروں کے تعاون سے دو نئے قبرستانوں کی تعمیر کرکے تدفین کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔
بلدیہ کے ڈائریکٹر انفارمیشن اورکنوینر قبرستان کمیٹی کے مطابق کراچی کے قبرستانوں میں مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے منشیات کی خرید و فروخت اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری تھیں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ قبرستان محفوظ پناہ گاہیں بن چکی تھیں۔ ایک مضبوط مافیا پورے نیٹ ورک کے پیچھے کام کر رہا تھا۔ ان تمام مسائل اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ نے موثر اقدام کیے تھے۔
قبرستان میں گورکنوں سمیت تمام عملے کو رجسٹرڈ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ بچیوں کی آمد و رفت کو ممنوع قرار دیا گیا۔ قبروں پر پانی ڈالنے والوں کے لیے 18 سال سے زائد عمر کی شرط لگائی گئی۔ بلدیہ حکام نے ایک سینٹرل کمیٹی قبرستان قائم کی جس کے اراکین میں سرکاری افسران، سماجی و فلاحی اداروں کے نمایندے شامل ہیں یہ کمیٹی اب قبرستانوں کے تمام امور پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے جس کی وجہ سے غیر اخلاقی سرگرمیوں پر قابو پایا جاچکا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کا کوئی ادارہ اپنی ذمے داریاں محسوس کرتا ہے نہ ہی انھیں نبھانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس صلاحیت سے بھی محروم ہوتے ہیں البتہ بیانات، سیمینارز اور تقریبات میں خوش کن باتوں اور دعوؤں کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کا فن انھیں خوب آتا ہے۔ مشہور گلوکار مہدی حسن کے انتقال پر جب ان کی میت پر ملک اور بیرون ملک سے ان کے مداحوں اور بڑے فنکاروں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا تو حکومت اور بلدیہ عظمیٰ نے ان کا عظیم الشان مزار بنانے کا اعلان کیا تھا۔
مزار کے لیے زمین کا ایک بڑا حصہ بھی مختص کیا گیا تھا ، مگر بعد میں کسی نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا آج وہاں خاک اڑتی ہے درمیان میں مہدی حسن اور ان کے بیٹے کی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ گورکنوں کے مطابق آج بھی وہاں پڑوسی ملک کے نام ور گائیک اور اداکار اپنے رسک پر باقاعدگی سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ قبرستانوں میں فاتحہ و تدفین کے لیے آنے والے افراد کو لوٹا بھی جاتا ہے۔ خاص طور پر جس وقت پولیس والوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں اور تمام نفری تھانوں میں موجود ہوتی ہے اس وقت چھینا جھپٹی اور لوٹ مار کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں۔
قبرستانوں میں تدفین کے لیے کسی ترتیب و نظم کا کوئی طریقہ کار و اصول نہیں ہوتا جو قبرستان بھر چکے ہیں ان پر تدفین پر پابندی کے بورڈ آویزاں ہونے کے باوجود بڑی رقمیں لے کر قبر کے لیے جگہ نکال دی جاتی ہے۔ قبرستانوں میں ٹھیکیداری نظام ہے ایک قبرستان میں کئی کئی ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ غربت اور لالچ کی بنا پر گورکن پرانی قبریں کھود کر نئی قبریں تیار کردیتے ہیں بعض مرتبہ لواحقین بھی دھونس ، دھمکی اور خوف کے ذریعے ان گورکنوں کو اس بات پر مجبورکرتے ہیں کہ ان کی میت کے لیے ان کی پسندیدہ جگہ پر کسی پرانی قبر کوکھود کر نئی قبر تیار کرکے دی جائے جس کی وجہ سے گورکنوں سے مارپیٹ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
یہ گورکن اندرون ملک سے اپنے بچوں کے ہمراہ ان قبرستانوں میں قبریں کھودنے، قبریں تعمیر کرنے اور پانی ڈالنے کے فرائض انجام دیتے ہیں ، انھی قبرستانوں یا ان کے مضافات میں رہائش پذیر ہوتے ہیں جن میں سے کچھ بچے اور عورتیں قبرستانوں کے اندر گدا گری بھی کرتے ہیں۔ ان کی حالت قابل رحم اور اصلاح طلب ہے البتہ قبرستانوں کے ٹھیکیدار اور متولی کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں 200 کے قریب قبرستان ہیں جن میں بلدیہ کے علاوہ فلاحی اداروں اور صنعتی اداروں کے قبرستان بھی شامل ہیں جب کہ کئی غیر رجسٹرڈ قبرستان بھی ہیں جن میں لوگ خود تدفین کرتے ہیں ان کا کوئی ریکارڈ کسی اتھارٹی کے پاس نہیں ہوتا۔
قبرستانوں کے اندر مذہب، فرقہ اور برادریوں کے حوالے سے بھی کئی قبرستان آباد ہیں جن کی اپنی اپنی چار دیواریاں اور تجہیز و تدفین کا اپنا نظام اور اصول و ضوابط ہیں۔ ایک برادری کے قبرستان کے گیٹ پر نصب قواعد و ضوابط میں تحریر ہے کہ اگر برادری کے کسی مرد نے برادری سے باہر شادی کی تو اس کی تدفین کی اجازت ہوگی مگر اس کے بیوی بچوں کو اس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر برادری کی کسی عورت نے برادری سے باہر شادی کی تو اسے اور اس کی اولاد کو اس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں ہوگی۔
قبروں پر مرحوم کی شان میں قصیدے لکھنے کا رجحان بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک قبر پر تحریر ہے لیجنڈ اداکار چاکلیٹی ہیرو وحید مراد ولد نثار مراد۔ حیدرآباد کے قبرستان میں ایک ایسی قبر بھی موجود ہے جس میں مرنے والے کی شبیہ (تصویر) کنندہ ہے قبروں کی تعمیر پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کا رجحان بھی روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے۔ قبرستانوں میں مزارات کے لیے بھی بڑی بڑی جگہیں گھیری گئی ہیں جنھیں تعمیر کرکے کافی سرمایہ لگایا گیا ہے۔
قبرستانوں میں آپ کو بڑے بڑے مزارات تو جابجا نظر آئیں گے لیکن اگر نماز پڑھنے کے لیے مسجد تلاش کریں تو شاید اس کے احاطے میں آپ کو ایک بھی مسجد نہ مل پائے۔ قبرستانوں میں جگہ جگہ آپ کو ایسی باؤنڈری والز نظر آئیں گی جن میں کوئی قبر موجود نہیں ہوگی تمام جگہ مستقبل کے مردوں کے لیے مختص ہوگی ، یہ مہربانیاں بلدیہ کے ذمے داران اثر و رسوخ کے حامل اپنے کرم فرماؤں پر کرتے ہیں اور چند ہزار روپے کا چالان بھر کر ان کو مستقبل میں اس قطعہ اراضی پر تصرف کا اختیار تفویض کردیتے ہیں ایسی چہار دیواریوں پر ایک نوٹس کنندہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ بہ عوض بلدیہ چالان نمبر فلاں فلاں، فلاں کی ملکیت ہے۔
ماضی میں 22 لاکھ کے وی وی آئی پی حج کی طرح لاہور میں لگژری گریویارڈ کی خبر بھی آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ قبرستان میں جرمنی سے درآمد شدہ فریزرز میں مردوں کو رکھا جاسکے گا۔ درجنوں کیمروں کے ذریعے تدفین کی کوریج ہوگی جس سے رشتہ دار براہ راست تدفین کے تمام مراحل دیکھ سکیں گے۔ تدفین کے شرکا کے سروں پر ہوا کے لیے پنکھے لٹکے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ان رویوں سے لگتا ہے کہ ہمارے ادارے ہی نہیں ہم خود بھی مذہب و اخلاقیات سے عاری خودنمائی، خودپرستی اور نفس گزاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس میں ہمیں ارباب اختیار، سماجی اور مذہبی حلقوں کی محدود تعداد کی سرپرستی و پذیرائی ضرور حاصل ہے اور بہ حیثیت مجموعی ان کی خاموش تائید بھی حاصل ہے۔
بلدیہ کے ڈائریکٹر انفارمیشن اورکنوینر قبرستان کمیٹی کے مطابق کراچی کے قبرستانوں میں مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے منشیات کی خرید و فروخت اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری تھیں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ قبرستان محفوظ پناہ گاہیں بن چکی تھیں۔ ایک مضبوط مافیا پورے نیٹ ورک کے پیچھے کام کر رہا تھا۔ ان تمام مسائل اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ نے موثر اقدام کیے تھے۔
قبرستان میں گورکنوں سمیت تمام عملے کو رجسٹرڈ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ بچیوں کی آمد و رفت کو ممنوع قرار دیا گیا۔ قبروں پر پانی ڈالنے والوں کے لیے 18 سال سے زائد عمر کی شرط لگائی گئی۔ بلدیہ حکام نے ایک سینٹرل کمیٹی قبرستان قائم کی جس کے اراکین میں سرکاری افسران، سماجی و فلاحی اداروں کے نمایندے شامل ہیں یہ کمیٹی اب قبرستانوں کے تمام امور پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے جس کی وجہ سے غیر اخلاقی سرگرمیوں پر قابو پایا جاچکا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کا کوئی ادارہ اپنی ذمے داریاں محسوس کرتا ہے نہ ہی انھیں نبھانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس صلاحیت سے بھی محروم ہوتے ہیں البتہ بیانات، سیمینارز اور تقریبات میں خوش کن باتوں اور دعوؤں کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کا فن انھیں خوب آتا ہے۔ مشہور گلوکار مہدی حسن کے انتقال پر جب ان کی میت پر ملک اور بیرون ملک سے ان کے مداحوں اور بڑے فنکاروں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا تو حکومت اور بلدیہ عظمیٰ نے ان کا عظیم الشان مزار بنانے کا اعلان کیا تھا۔
مزار کے لیے زمین کا ایک بڑا حصہ بھی مختص کیا گیا تھا ، مگر بعد میں کسی نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا آج وہاں خاک اڑتی ہے درمیان میں مہدی حسن اور ان کے بیٹے کی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ گورکنوں کے مطابق آج بھی وہاں پڑوسی ملک کے نام ور گائیک اور اداکار اپنے رسک پر باقاعدگی سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ قبرستانوں میں فاتحہ و تدفین کے لیے آنے والے افراد کو لوٹا بھی جاتا ہے۔ خاص طور پر جس وقت پولیس والوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں اور تمام نفری تھانوں میں موجود ہوتی ہے اس وقت چھینا جھپٹی اور لوٹ مار کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں۔
قبرستانوں میں تدفین کے لیے کسی ترتیب و نظم کا کوئی طریقہ کار و اصول نہیں ہوتا جو قبرستان بھر چکے ہیں ان پر تدفین پر پابندی کے بورڈ آویزاں ہونے کے باوجود بڑی رقمیں لے کر قبر کے لیے جگہ نکال دی جاتی ہے۔ قبرستانوں میں ٹھیکیداری نظام ہے ایک قبرستان میں کئی کئی ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ غربت اور لالچ کی بنا پر گورکن پرانی قبریں کھود کر نئی قبریں تیار کردیتے ہیں بعض مرتبہ لواحقین بھی دھونس ، دھمکی اور خوف کے ذریعے ان گورکنوں کو اس بات پر مجبورکرتے ہیں کہ ان کی میت کے لیے ان کی پسندیدہ جگہ پر کسی پرانی قبر کوکھود کر نئی قبر تیار کرکے دی جائے جس کی وجہ سے گورکنوں سے مارپیٹ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
یہ گورکن اندرون ملک سے اپنے بچوں کے ہمراہ ان قبرستانوں میں قبریں کھودنے، قبریں تعمیر کرنے اور پانی ڈالنے کے فرائض انجام دیتے ہیں ، انھی قبرستانوں یا ان کے مضافات میں رہائش پذیر ہوتے ہیں جن میں سے کچھ بچے اور عورتیں قبرستانوں کے اندر گدا گری بھی کرتے ہیں۔ ان کی حالت قابل رحم اور اصلاح طلب ہے البتہ قبرستانوں کے ٹھیکیدار اور متولی کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں 200 کے قریب قبرستان ہیں جن میں بلدیہ کے علاوہ فلاحی اداروں اور صنعتی اداروں کے قبرستان بھی شامل ہیں جب کہ کئی غیر رجسٹرڈ قبرستان بھی ہیں جن میں لوگ خود تدفین کرتے ہیں ان کا کوئی ریکارڈ کسی اتھارٹی کے پاس نہیں ہوتا۔
قبرستانوں کے اندر مذہب، فرقہ اور برادریوں کے حوالے سے بھی کئی قبرستان آباد ہیں جن کی اپنی اپنی چار دیواریاں اور تجہیز و تدفین کا اپنا نظام اور اصول و ضوابط ہیں۔ ایک برادری کے قبرستان کے گیٹ پر نصب قواعد و ضوابط میں تحریر ہے کہ اگر برادری کے کسی مرد نے برادری سے باہر شادی کی تو اس کی تدفین کی اجازت ہوگی مگر اس کے بیوی بچوں کو اس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر برادری کی کسی عورت نے برادری سے باہر شادی کی تو اسے اور اس کی اولاد کو اس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں ہوگی۔
قبروں پر مرحوم کی شان میں قصیدے لکھنے کا رجحان بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک قبر پر تحریر ہے لیجنڈ اداکار چاکلیٹی ہیرو وحید مراد ولد نثار مراد۔ حیدرآباد کے قبرستان میں ایک ایسی قبر بھی موجود ہے جس میں مرنے والے کی شبیہ (تصویر) کنندہ ہے قبروں کی تعمیر پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کا رجحان بھی روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے۔ قبرستانوں میں مزارات کے لیے بھی بڑی بڑی جگہیں گھیری گئی ہیں جنھیں تعمیر کرکے کافی سرمایہ لگایا گیا ہے۔
قبرستانوں میں آپ کو بڑے بڑے مزارات تو جابجا نظر آئیں گے لیکن اگر نماز پڑھنے کے لیے مسجد تلاش کریں تو شاید اس کے احاطے میں آپ کو ایک بھی مسجد نہ مل پائے۔ قبرستانوں میں جگہ جگہ آپ کو ایسی باؤنڈری والز نظر آئیں گی جن میں کوئی قبر موجود نہیں ہوگی تمام جگہ مستقبل کے مردوں کے لیے مختص ہوگی ، یہ مہربانیاں بلدیہ کے ذمے داران اثر و رسوخ کے حامل اپنے کرم فرماؤں پر کرتے ہیں اور چند ہزار روپے کا چالان بھر کر ان کو مستقبل میں اس قطعہ اراضی پر تصرف کا اختیار تفویض کردیتے ہیں ایسی چہار دیواریوں پر ایک نوٹس کنندہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ بہ عوض بلدیہ چالان نمبر فلاں فلاں، فلاں کی ملکیت ہے۔
ماضی میں 22 لاکھ کے وی وی آئی پی حج کی طرح لاہور میں لگژری گریویارڈ کی خبر بھی آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ قبرستان میں جرمنی سے درآمد شدہ فریزرز میں مردوں کو رکھا جاسکے گا۔ درجنوں کیمروں کے ذریعے تدفین کی کوریج ہوگی جس سے رشتہ دار براہ راست تدفین کے تمام مراحل دیکھ سکیں گے۔ تدفین کے شرکا کے سروں پر ہوا کے لیے پنکھے لٹکے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ان رویوں سے لگتا ہے کہ ہمارے ادارے ہی نہیں ہم خود بھی مذہب و اخلاقیات سے عاری خودنمائی، خودپرستی اور نفس گزاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس میں ہمیں ارباب اختیار، سماجی اور مذہبی حلقوں کی محدود تعداد کی سرپرستی و پذیرائی ضرور حاصل ہے اور بہ حیثیت مجموعی ان کی خاموش تائید بھی حاصل ہے۔