ڈیل یا ڈھیل

کچھ ان حکمرانوں کا بھی قصور ہوتا ہے اور کچھ ان کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا ہے، سیاستدانوں کے خلاف محاذ کھڑے ہوجاتے ہیں

Jvqazi@gmail.com

ISLAMABAD:
خان صاحب نے چیئر مین نیب کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے پاس جانے سے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے روک دیا۔ کیا یہ فیصلہ کابینہ سے منظور کرایا گیا؟کیونکہ خان صاحب کا ہر فیصلہ ان کی کابینہ کے معرفت ہوتا ہے۔

دوسری طرف اگر کابینہ چاہے بھی تو ایسا نہیں کرسکتی، یہ تو آئین سے تجاوز ہے۔ ہم نے دیکھا امریکی سینیٹ کی ایسی کمیٹیوں کے سامنے بڑے بڑے جنرل بھی جوابدہ ہوتے ہیں۔ ہم کیا روایت ڈالنے جارہے ہیں، ہمیں کوئی بتائے تو سہی، ہم کیا کررہے ہیں ۔

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن

جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں

(فیض)

میرے ایک دانشور دوست ہیں،وہ توکہتے ہیں کہ ملک میں پندرہ سال آمریت چلنی چاہیے اور جو جمہوریت کی بات کرے، اسے گولی سے اڑا دو۔ کہیں کسی نجی محفل میں نہیں بلکہ یہ گل وہ ایک ٹی وی چینل پر کھلا رہے تھے۔ ایک سو موٹو تو بنتا تھا۔ مگر یہ ایک ہو تو ہم کہیں کوئی بات نہیں، ایسے درجنوں ہیں جو ایسی باتیں ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔ یعنی جو اس حکومت کے دفاع میں کہنے والے ہیں ،وہی کہہ رہے ہیں کہ یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے اور ہے تو ہے آپ نے جو کرنا ہے کرلیں! پھر اچھا ہے خان صاحب کومطلق العنان حکمران بنادیجئے، لوگ تو یہی سمجھتے ہیں ،اب لوگ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیسا تجربہ آپ نے کیا کہ جیب میں پیسے تو اتنے ہیں لیکن ان میں اب اتنی بھی چیزیں نہیںآسکتی جتنی دو تین سال پہلے آجایا کرتی تھیں ۔


مہنگائی وہ نبض ہے اس مریض کی جو نصف صدی سے بیمار ہے اور اب اس دور نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اب جو ماجرہ الیکشن کمیشن نے کھولا ہے، ایسے ایسے فنڈ دینے والے نکلے ہیں، جن کو حکومت کے بڑے اہم کانٹریکٹ ملے ہیں۔ ان کے لیے سب جائز ، دوسروں کے لیے جرم ہے۔

کل ایک اور اشارہ ملا ہے ، جو بتا رہا ہے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ پرویز خٹک کا خود اپنی پارٹی کے لوگ استقبال کرنے آئے اور ان کے خلاف ہی نعرے بازی شروع کردی،لوگوں کی بے چینی بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک دو اور جھٹکے اگر طلب و رسد میں آئے تو چیزیں غائب ہونا شروع ہو جائیں گی ئی، پھر چاہے پی ڈی ایم یا بلاول ہو، ان کے بغیر بھی لوگ سڑکوں پر ہوںگے۔

اپریل سے گرمیاں اپنا آغاز کریں گی، رمضان بھی ان ہی دنوں میں ہوگا ۔اس سے پہلے ان تین مہینوں میں ایک بڑا اکھاڑا خوب لگے گا۔ پہلے مرحلے میں جو نتائج خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات سے آئے ہیں، اس سے بھی بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے ، آیندہ آنے والے انتخابات کے بارے میں اک نبض جو بتا رہی ہے کہ کیا نتائج ہوںگے۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کا تو یہ خیال ہے کہ تحریک انصاف کو اب کے بار الیکشن میں کھڑا کرنے کے لیے مضبوط امیدوار نہیں ملیں گے۔

اب خان صاحب کو ہٹایا جائے تو کیسے ہٹایا جائے؟ کوئی صورت بنتی نظر نہیں آرہی، اب تو آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بھی یہی کہہ دیا کہ میاں صاحب سے کوئی ڈیل نہیں ہورہی ہے، مگر پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ڈیل ہی ہوتی ہے ہمیشہ۔ جنرل ضیاء الحق حادثے میں چل بسے۔ انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد جنرل اسلم بیگ سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے ڈیل کی۔ چار اہم وزارتیں اسٹبلشمنٹ کے پاس رہیں۔ یہ بات جنرل اسلم بیگ نے مجھے انٹرویو میں ہی بتائی ، پھر ان کے خلاف عدم اعتماد ہوا، مزید 58(2)(b) کی تلوار گری،پھر بے نظیر ڈیل کر کے آئی پھر 58(2)(b) گرا۔ نواز شریف تو ان کے ہی تھے، ان کے ساتھ بھی اس وقت اسٹبلشمنٹ نہ چل سکی۔ ان پر بھی 58(2)(b) کی تلوار گری اور جب 58(2)(b) آئین میں تھی ہی نہیں تو سیدھی آمریت آئی ۔ جب زرداری آئے تو وہ بھی ڈیل تھی، جس کی وجہ سے جنرل پرویزمشرف کو عزت سے جانے دیا گیا۔اس مملکت خداد اد میں ایک طویل لسٹ ان وزرائے اعظم کی ہے جو بڑے بے آبرو ہوکر وزیر اعظم ہائوس سے نکالے گئے۔

اب ان دو تین مہینوں میں ایسا کیا ہونے والا ہے اور یہ کیا کہ اس سے پہلے آمریتی ادوار نے دس دس سال نکالے، مگر یہ نیم آمریتی دور چار سال بھی مشکل سے پورے کرے اور اگر پورے کرے گا بھی تو بہت کچھ گوانا پڑے گا۔ ہماری قوم کی بدنصیبی یہ ہے کہ یہ مزاحمت نہیں کرتی، یہ سب کچھ برداشت کرتی ہے۔ مگر آمریت یہاں مصر کی طرح بھی نہیں چل پاتی۔ اک آمر گیا تو دوسرا آمر آجاتا ہے۔ اس کے برعکس یہاں ایک آمر آتا ہے پھر ایک جمہوری دور آتا ہے اور پھر آمر۔ہمار ے یہاں لیکن جمہوریت مکمل نہیں آتی ۔ ہمیشہ لنگڑی لولی آتی ہے، اسے پھر چلنے نہیں دیا جاتا ۔

کچھ ان حکمرانوں کا بھی قصور ہوتا ہے اور کچھ ان کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا ہے، سیاستدانوں کے خلاف محاذ کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس سارے کھیل میں اس بار جو خطرناک بحران شکل لے چکا ہے وہ ہے معاشی بحران۔ ایک ایسا بحران جو اور بھی شدید ہوگا، کیونکہ ہم اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرہی نہیں سکتے ۔ پچاس ہزار ارب کے قرضوں کے بوجھ تلے والا پاکستان ۔ شرح نمو پسماندہ ، افراط زر خطرناک حد تک خراب۔ کوئی بھی انڈیکیٹر sustainble development کے حوالے سے بہتر نہیں جب کہ ہمارا نظریاتی ریاست والا بیانیہ جاری و ساری ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دو مہینوں میں جو ہونے جارہا ہے، کیا ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس ہے کہ پاکستان کب نظریاتی ریاست ہونے کے دعوے سے دستبردار ہوگا اور فلاحی ریاست ہونے کے سمت چل پڑے گا۔ اب کی بار یہ میوزک چیئر والا کام ختم ہونا چاہیے اور اگر نہیں ہوتا، یہ بے رحم وقت ہمارا انتظار نہیں کرسکتا۔
Load Next Story