سانحہ مری ذمے دار کون

بلاشبہ اس سانحہ میں ہم سب کی غفلت سامنے آئی ہے


Editorial January 10, 2022
بلاشبہ اس سانحہ میں ہم سب کی غفلت سامنے آئی ہے۔ فوٹو:فائل

ملکہ کوہسارمری میں قیمتی انسانوں کا ضیاع ایک ایسا سانحہ ہے ، جس پر ہر پاکستانی کی آنکھیں اشکبار ہیں ، اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ پاکستانیوں کو برف باری ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے اور جب بھی برف پڑنے لگے تو پاکستانیوں کا دل ملکہ کوہسار مری کی طرف کھنچنے لگتا ہے ، یہ سارا عمل فطری ہے اور نیچر سے محبت کا عملی ثبوت ہے ، لیکن اس بار برف باری کا طوفان قیامت خیز ثابت ہوا ، برف میں قبرستان آباد ہوگیا ۔

مری میں جیسے ہی موسم بہتر ہوگا مزید اموات سامنے آنے کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے ۔ دوسری جانب پی ڈی ایم اے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق برفباری اور بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں 12 افراد جاں بحق، 29 زخمی جب کہ 22 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے،موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات ہمارے سامنے آرہے ہیں ، لیکن ہمارے ملک میں اس اہم ترین موضوع پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ، نہ عوام ہی میں اس حوالے سے کوئی آگاہی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے سانحے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مرنے والے افراد کے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا ہے ۔

اس سانحے کے بعد حکومت کے تمام انتظامی محکموں کی نااہلی اور غفلت سامنے آگئی ہے ،جب لوگ بیس، بائیس گھنٹوں تک صدائیں لگاتے اور مدد کا انتظار کرتے سسک سسک کر مر رہے تھے تو سرکاری اہلکار موسم انجوائے کر رہے تھے، جو برف کے طوفان میں پھنس ہوئے تھے ، وہ موبائل فونز کے ذریعے اپنے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں سے رابطے میں تھے ، اور انتظامیہ کو بھی صورتحال کی سنگینی کے بارے میں آگاہ کررہے تھے ، لیکن انتظامی سطح پر کسی بھی قسم کی کوشش سرے سے نظر نہیں آئی ، جب کہ وہ لوگ جنھیں ملک کے نظم ونسق کی ذمے داری ملی ہوئی ہے وہ ٹویٹس تک محدود رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے اس سانحہ کی ذمے داری پنجاب اور وفاقی حکومت پر عائد کی ہے۔درحقیقت یہ سانحہ ایک دم نہیں ہوا۔ گزشتہ ہفتے ہی محکمہ موسمیات نے مری میں کئی روز تک جاری رہنے والے برفانی طوفان کی پیش گوئی کی تھی۔ اسکولوں میں چھٹیوں کے باعث ملک بھر سے بڑی تعداد میں سیاحوں نے مری کا رخ کر لیا اور ہر گزرتے دن سیاحوں کی تعداد وہاں بڑھتی چلی گئی۔اس دوران انتظامیہ اور حکومت نے لوگوں کو مری جانے سے روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعے کو دن بارہ بجے سے شروع ہونے والی شدید برف باری نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا اور یہ ہفتے کی صبح پانچ بجے تک جاری رہی۔

جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب شدید برفانی طوفان آیا۔جھیکا گلی سے کلڈنہ تک تنگ روڈ پر سب سے زیادہ برفباری ہوئی ،اتنے شدید موسم میں گاڑیوں کی نقل وحرکت بھی رک گئی اور کئی مقامات پر درخت بھی گر گئے۔ صرف چار ہزار گاڑیوں کی گنجائش رکھنے والے تفریحی مقام مری میں جمعے کی شام تک انتظامیہ کے مطابق ایک لاکھ 30 ہزار گاڑیاں داخل ہوچکی تھیں۔

جمعہ کی شام ہی کو انتظامیہ کو معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوگیا اور مری جانے کے راستے بند کر دیے گئے مگر اس وقت تک تاخیر ہو چکی تھی ، جب کہ دوسری جانب ہنگامی صورتحال کے باوجود شہریوں کی مری جانے کی ضد برقرار رہی، آگاہی اعلانات کے باوجود بڑی تعداد میں سیاح مری کے داخلی راستوں پر موجود رہے ،محکمہ موسمیات کے الرٹ کے پیش نظر راولپنڈی پولیس نے 4 جنوری کو سیاحوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ مری جاتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں،لیکن اس پرکسی نے توجہ نہ دی ،سیاحوں کے بے پناہ رش کی وجہ سے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں جگہ نہیں رہی اور لوگ اپنی گاڑیوں میں ہی رات گزارنے پر مجبور ہوگئے اور اپنی گاڑیوں کے ہیٹر آن کرکے سو گئے۔

جو ان کی موت کی بڑی وجہ بنے، جو درد ناک اور افسوسناک واقعات میڈیا میں آئے ہیں ، وہ ہمارے قومی طرزعمل پر بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں ۔ ایکسپریس کی رپورٹس کے مطابق برفباری اور مشکلات میں پھنسے سیاحوں کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی،ہوٹل والوں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ایک خاتون نے بتایا کہ ہمیں ایک کمرہ ایک رات کے لیے25 ہزار روپے میں ملا جس میں کوئی سہولت نہیں دی گئی،ہماری بچی کی طبیعت بگڑنے لگی تو ایک کپ گرم پانی مانگا وہ بھی نہیں ملا۔

ایک دوسری خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،ایک ہوٹل میں کمرے کا پوچھا تو انھوں نے ایک رات کا پچاس ہزار روپیہ مانگ لیا ۔ایک شہری نے اپیل کی کہ جلد سے جلد راستے کھولیں ورنہ صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔مری سے جان بچا کر واپس اسلام آباد پہنچنے والے سیاحوں نے خود پر گزری روداد سناتے ہوئے کہا کہ مری میں اس وقت سیاحوں کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ان کے لیے نہ ہوٹل دستیاب ہے، نہ کھانے پینے کی اشیا اور نہ واپسی کے لیے ٹرانسپورٹ ہی کی سہولت، لوگ شدید برفباری کے باوجود گھنٹوں پیدل چل کر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، سیاحوں کو جہاں مقامی ہوٹل والے لوٹ رہے ہیں وہی مقامی ٹرانسپورٹرز بھی انھیں لوٹنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔مری میں بجلی منقطع ہونے سے سیاحوں کو اپنے عزیزوں سے رابطہ کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

بدھ پانچ جنوری کو تو وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر مری میں ایک لاکھ گاڑیوں کے داخلے کو اچھی خبر کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھا کہ مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

اس سال سو بڑی کمپنیوں نے 929 ارب روپے منافع کمایا تمام بڑے میڈیا گروپس 33 سے 40 فیصد منافع میں ہیں۔ تاہم مری انتظامیہ کے مطابق مری میں صرف چار ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ہے، جب اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں مری میں برف کے موسم میں آئیں تو مسئلہ ہونا ہی تھا۔ پھر مری سے گلیات اور مظفرآباد کے راستے مقامی آبادی بھی گزرتی ہے جس کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک بڑھنا یقینی امر ہے۔

ایک سانحہ رونما ہوچکا ہے ، سوال یہ ہے کہ آیا ایسے کونسے اقدامات کیے جائیں کہ آیندہ یہ سب کچھ نہ ہو، اس سلسلے میں عرض ہے کہ کیا یہ آسان کام نہیں کہ ہر برس ٹریفک بلاک اور افراتفری کی خبریں آنے کے بجائے ایک مرتبہ سائنٹیفک اسٹڈی کر لی جائے کہ مری کا علاقہ زیادہ سے زیادہ کتنی گاڑیوں کا بوجھ برداشت کرسکتا ہے۔

بالخصوص مری کے مال روڈ اور ملحقہ علاقوں میں کتنی گاڑیاں جا سکتی ہیں۔ اسی طرح بھوربن اور نتھیا گلی کے بارے میں بھی تحقیق کی جا سکتی ہے۔ مری جانے کے لیے تحصیل انتظامیہ کی کسی ویب سائٹ کے ذریعے ٹوکن حاصل کیا جا سکتا ہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ کمرشل گاڑیوں کے لیے بھی شیڈول ہو سکتا ہے۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ جب بھی برف باری ہو گی تو ملک بھر سے لوگ مری کا رخ کریں گے۔ برف باری کتنی ہوسکتی ہے اور اس موقعے پر سڑکیں کھلی رکھنے کے کیا انتظامات ہیں، اس بارے ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور اس کی تفصیلات میڈیا پر بھی جاری ہونی چاہئیں۔ اصل ایشو یہ ہے کہ ہم نے مری ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو ہی اللہ کے سہارے پر چھوڑا ہوا ہے۔ یہ خود بخود چلتا جا رہا ہے حالانکہ تھوڑی سے مینجمنٹ سی بہت بڑی بڑی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔

جب یہ لوگ برف باری اور راستے بند ہونے کی وجہ سے گاڑیوں میں پھنسے ہوں گے تو یقینی طور پر انھوں نے اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے ساتھ رابطے کی بھی کوشش کی ہو گی۔ کیا مری کی انتظامیہ نے سڑکوں پر کسی قسم کی ہیلپ لائن کے بورڈ لگا رکھے ہیں، انتظامیہ جب مری میں داخل ہونے والی ہر گاڑی سے ٹیکس لیتی ہے تو اس ٹکٹ پر یہ بھی لکھتی ہے کہ وہ اس ٹیکس کے بدلے میں انھیں کیا سہولیات دے رہی ہے یا اسے محض جگا ٹیکس کے طور پر وصول کر لیا جاتا ہے۔ کیا کوئی بتاتا ہے کہ جب آپ برفباری میں پھنس جائیں تو آپ نے ہیٹر لگا کر گاڑی میں سونا ہرگز نہیں ہے۔ مری میں اس وقت صورتحال بہت مشکل ہے، شہری بھی آیندہ چند روز تک مری کی جانب رخ نہ کریں۔

بلاشبہ اس سانحہ میں ہم سب کی غفلت سامنے آئی ہے، جہاں اس سانحے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ، وہیں عوام کو بھی سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، آج کے ڈیجیٹل دور میں جب موبائل فون ہر فرد کے پاس ہے ، اور اس کی اسکرین پر فقط ایک ٹچ سے موسم کی صورتحال معلوم کی جاسکتی ہے ، تو پھر انتہائی خراب ترین موسم کی پیش گوئی کے باوجود زبردستی جانا ، اپنی اور اپنے اہل خانہ ، عزیز واقارب کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔

اس موقعہ پر انتظامیہ کی غفلت بھی شامل ہے ، جس نے چیک پوائنٹس پر گاڑیوں کو داخلے سے نہیں روکا ، مری ایک تفریحی ہل اسٹیشن ہے جس کی گنجائش انتہائی محدود ہے ،لہٰذا شہریوں کو بھی ایک باشعور قوم کا ثبوت دینا چاہیے ، ان سطور کے ذریعے حکومت سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے سانحات کو روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کرے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں