مذاکرات کو سبوتاژ نہ ہونے دیں

مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والوں کی فوری نشاندہی ضروری ہے


Editorial February 13, 2014
مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والوں کی فوری نشاندہی ضروری ہے. فوٹو: فائل

KARACHI: وزیر اعظم نواز شریف ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ہیں، جمعرات کو انھوں نے پاکستان کے 30 رکنی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے ترکی، پاکستان اور افغانستان کی سہ فریقی کانفرنس میں ایک اہم موضوع پر اظہار خیال کیا، عالمی اور علاقائی صورتحال کا احاطہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ پاکستان کو درپیش اعصاب شکن اور صبر آزما داخلی حالات و حوادث اور طالبان سے جاری امن بات چیت سے متعلق زمینی حقائق تھے۔ وزیر اعظم نے اپنی بات کا اعادہ کرتے ہوئے اپیل کی کہ پہلے بدامنی، تشدد آمیز اور الم ناک وارداتیں اور کارروائیاں بند ہونی چاہئیں تا کہ طالبان سے مذاکرات آگے بڑھ سکیں، ان کا کہنا تھا کہ فوج اور عوام مذاکراتی عمل کی حمایت کر رہے ہیں، قوم طالبان سے خوشخبری سننا چاہتی ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان کو اپنی سلامتی، خود مختاری، جمہوری عمل اور عوام کی زندگیوں کے تحفظ کے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔

طالبان سے بات چیت مثبت انداز میں بڑھ رہی ہے، طالبان قیادت کا بھی کہنا ہے کہ امن مذاکرات پر قائم ہیں اور کارروائیاں نہیں کریں گے، لیکن پشاور سمیت پورے ملک میں بدامنی عروج پر ہے، طالبان نے کراچی میں رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے قریب پولیس موبائل پر حملہ کی ذمے داری قبول کی ہے۔ بدھ کو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور قبائلی امن لشکر کے رہنما سمیت 9 افراد جاں بحق ہو گئے۔ جس تسلسل سے روح فرسا وارداتیں ہو رہی ہیں ان سے عوام میں تشویش کا پیدا ہونا فطری ہے اس لیے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والوں کی فوری نشاندہی ضروری ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر کسی رکاوٹ کے مذاکراتی عمل جاری ہے، امید ہے اچھے نتائج نکلیں گے، بغیر شواہد کے شک نہیں کرنا چاہیے۔ لہٰذا مذاکرات پر مامور حکومتی اور طالبان کمیٹی بھی اپنے اوپن ڈائیلاگ کو میڈیا کے سپرد کرنے کے بعد اس کے فال آئوٹ کو بھی نظر انداز نہ کرے بلکہ انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، شعلہ نوائی اور بات سے بات نکل کر پورے پروسیس کو متاثر کر سکتی ہے۔

وزیر اعظم نے بجا طور پر کہا کہ ہم پہلے اپنے معاملات ٹھیک کریں گے، انھوں نے زور دیا کہ کنٹرول لائن پر پاکستان اور بھارت ایک میکنزم بنائیں تا کہ پتہ چلے پہلے فائر کون کھولتا ہے، ایل او سی پر فائرنگ کے معاملہ پر ہم نے اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کا بھی کہا ہے، مسئلہ کشمیر سے متعلق بات کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا 65 سال سے ہم یہ مسئلہ حل نہیں کر سکے اس لیے اس کے لیے ثالثی بہتر ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت سے اہم ایشوز پر پیش رفت ہوئی ہے، ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ میں طے پایا کہ دونوں طرف سے گولہ باری نہیں ہو گی، میٹنگ کے بعد کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا، وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل پر حالیہ آمادگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد تو گیند بلاشبہ بھارت اور اقوام متحدہ کی کورٹ میں چلی گئی، اب عالمی برادری بھارت کو قائل کرے کہ وہ خطے کے اس اہم ترین مسئلہ کے حل پر سنجیدہ مذاکرات کا اعلان کرے۔

اس سوال پر کہ حامد کرزئی کی طرف سے بلوچستان سے مداخلت سے متعلق کوئی شکایت سامنے آئی ہے نواز شریف نے کہا کہ شکایت سامنے نہیں آئی تاہم پھر بھی اسے چیک کریں گے کیونکہ ہم دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی اثنا میں یہ اطلاع بھی آئی ہے کہ آزاد بلوچستان کی حمایت امریکی پالیسی نہیں ہے، امریکا پاکستان کی علاقائی سرحدوں اور سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ ادھر سینیٹ میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی صورت میں 40 فیصد کامیابی کے بیان پر سراپا احتجاج بن گئے، ارکان نے عمران خان پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان سے ریاست اور فوج کی حوصلہ شکنی ہوئی جب کہ طالبان کا مورال بڑھا ہو گا، اپوزیشن ارکان نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم سینیٹ کا بائیکاٹ ختم کر کے ایوان میں آئیں اور خود عمران خان کے اس بیان کی وضاحت کریں۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت بات چیت کے ذریعے عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے تاہم ایک انٹرویو میں انھوں نے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے اندیشہ کا اظہار کیا ہے، جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن سے امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے ملاقات کی ہے جب کہ امریکی سفیر نے ان مذاکرات کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے مداخلت نہ کرنے اور مذاکرات کی کامیابی کی امید کا اظہار کیا۔ برطانوی سماجی کارکن جمائما خان کے امریکی ڈرون حملہ کے بیان نے بھی سیاسی فضا میں ارتعاش پیدا کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں بیگناہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا سے بات چیت میں انھوں نے دلیل پیش کی کہ امریکا کا دعویٰ غلط ہے کہ وہ دنیا میں امن چاہتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈرون حملوں سے امن تباہ ہوتا ہے۔ جمائما سے شاید ہی کوئی امن پسند اور انسان دوست اختلاف کرے۔

بلوچستان بھی قومی صورتحال سے الگ نہیں، اس میں مزاحمت، شورش، فرقہ وارانہ اور سیاسی تشدد اور بدامنی کی وارداتوں سے بڑی تباہی پھیلی ہے، بات چیت کا ایک راستہ بیرون ملک مقیم اور پاکستان میں موجود ناراض بلوچ رہنمائوں کے لیے بھی جلد نکالا جائے، اسی طرح کراچی میں الم ناک وارداتوں اور قتل و غارت کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے، ماورائے قانون قتل چاہے کسی کا ہو اس کی کسی کو اجازت نہیں ملنی چاہیے، حکمران امید افزا بیانات کے ساتھ ساتھ ٹھوس عملی اقدامات بھی کریں اور ریاستی رٹ کو روندنے اور بیگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے بے چہرہ قاتلوں کا سراغ لگائیں، جن سے طالبان بھی دامن کش ہیں۔

انٹیلی جنس ایجنسیاں متحرک ہوں، تمام فورسز مشترکہ حکمت عملی بنا کر ان قوتوں کو ملیامیٹ کریں جو امن مذاکرات کو ناکام بنانے پر مصر ہیں، وہ ہرکولیس ہر گز نہیں، ان کو ریاستی طاقت کا غلط اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔ ملک میں طالبان سے بات چیت سے پیدا شدہ کثیر سطح کی تند و تیز بحث کے امید افزا پہلوئوں کی قصیدہ خوانی اپنی جگہ، مگر اس کے ہولناک یک طرفہ اثرات ما بعد اور تزویراتی ''بلو بیک '' سے بھی چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ قوم منتظر ہے کہ جلد سے جلد ملک میں امن کا پرچم لہرائے، انسانیت موت کی دہلیز سے پلٹ آئے، سیاسی رواداری، فکری یکجہتی، افہام و تفہیم اور دانش و حکمت کو جذبات پر غلبہ حاصل ہو۔ اس کے لیے حکمراں جماعت، اپوزیشن، حکومتی کمیٹی کو طالبان کمیٹی اور پاکستان تحریک طالبان کی قیادت کو بھرپور طریقے سے اعتماد میں لینا چاہیے تا کہ ادھر ادھر کی باتوں کا دھارا موڑنے پر توجہ مرکوز کی جا سکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔