نیٹو افواج کا افغانستان کو تنہا نہ چھوڑنے کا عزم
یٹو پاکستان کو اپنا اہم اتحادی ملک سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کا خواہشمند ہے
KARACHI:
پاکستان اور نیٹو کے تعلقات پر 2 روزہ کانفرنس میں شریک نیٹو عہدیداران نے کہا ہے کہ نیٹو ممالک 2014ء کے بعد بھی افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، نیٹو پاکستان کو اپنا اہم اتحادی ملک سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کا خواہشمند ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق ہر سطح پر قیاس آرائیاں جاری ہیں اور خطے کی سیاسی آب و ہوا پر اس انخلا سے پڑنے والی تبدیلیوں کو بہت اہم تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وہائٹ ہائوس نے افغانستان سے فوجی انخلا کو فی الحال ملتوی کر دیا ہے، امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک افغان صدر حامد کرزئی اپنی مدت صدارت مکمل ہونے سے قبل مجوزہ امریکی سیکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کر دیں اس وقت تک امریکا کو فوجی انخلا کے منصوبے پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔
اگلے روز ''سائوتھ ایشین اسٹرٹیجک اسٹیبلیٹی انسٹی ٹیوٹ'' (ساسی) یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کے دوران نیٹو ہیڈ کوارٹرز میں افغان آپریشن ڈیسک کے سربراہ نک ولیم نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ 2014ء کے بعد افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد نیٹو ممالک افغانستان کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 8 سے 12 ہزار تک فوجی 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں قیام کریں گے، نیٹو افواج افغانستان میں اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق تعینات ہیں، انھوں نے کہا کہ نیٹو ممالک کی افواج کی افغانستان میں مستقبل میں تعیناتی کا دار و مدار افغانستان کی مرضی پر بھی ہے۔ نیٹو کے ایک اور عہدیدار گائیلز وینڈر نے اظہار خیال کیا کہ نیٹو پاکستان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پاکستان نیٹو کے لیے ایک اہم ملک ہے، نیٹو ممالک پاکستان کی غلط فہمیاں دور کریں گے۔
کانفرنس میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ افغانستان سے نیٹو ممالک کے انخلا سے وہاں ایک خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ضروری ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ایک ذمے دارانہ عمل ہو اور اس کو احسن طریقے سے سر انجام دیا جائے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند کے مطابق اگر امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کی ایک لاکھ سے زائد افواج افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکیں تو 12 ہزار فوجی کیسے یہ کام کر سکتے ہیں؟ افغانستان میں مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر مفاہمت کے بغیر افغانستان کو چھوڑا گیا تو یہ امن و سلامتی کے لیے خطرناک بات ہو گی اور وہاں کا معاشرہ مزید تقسیم کا شکار ہو گا۔ عنقریب ہی افغانستان میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے اور یہ صدارتی انتخابات افغانستان میں امن کی صورتحال پر گہرا اثر ڈالیں گے، اس خطے کا امن افغانستان میں امن کے قیام سے جڑا ہوا ہے۔
کانفرنس میں ڈائریکٹر جنرل انسٹیٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز ریسرچ اینڈ انالیسس میجر جنرل نوفل نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے کبھی اجارہ داری پر مبنی عزائم نہیں رہے۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امید ظاہر کی کہ افغانستان کا تنازعہ پرامن طریقے سے حل ہو گا، اور عالمی برادری افغانستان کی تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے لیے 2014ء کے بعد بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ یہ امر واضح ہے کہ 2014ء کے بعد آزاد اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا حامل افغانستان پورے خطے کے امن و سلامتی کے لیے ضروری ہے، افغانستان کے تمام دھڑوں کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات ہی علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو درپیش چیلنجوں کا بہترین حل ہے۔
پاکستان اور نیٹو کے تعلقات پر 2 روزہ کانفرنس میں شریک نیٹو عہدیداران نے کہا ہے کہ نیٹو ممالک 2014ء کے بعد بھی افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، نیٹو پاکستان کو اپنا اہم اتحادی ملک سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کا خواہشمند ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق ہر سطح پر قیاس آرائیاں جاری ہیں اور خطے کی سیاسی آب و ہوا پر اس انخلا سے پڑنے والی تبدیلیوں کو بہت اہم تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وہائٹ ہائوس نے افغانستان سے فوجی انخلا کو فی الحال ملتوی کر دیا ہے، امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک افغان صدر حامد کرزئی اپنی مدت صدارت مکمل ہونے سے قبل مجوزہ امریکی سیکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کر دیں اس وقت تک امریکا کو فوجی انخلا کے منصوبے پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔
اگلے روز ''سائوتھ ایشین اسٹرٹیجک اسٹیبلیٹی انسٹی ٹیوٹ'' (ساسی) یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کے دوران نیٹو ہیڈ کوارٹرز میں افغان آپریشن ڈیسک کے سربراہ نک ولیم نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ 2014ء کے بعد افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد نیٹو ممالک افغانستان کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 8 سے 12 ہزار تک فوجی 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں قیام کریں گے، نیٹو افواج افغانستان میں اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق تعینات ہیں، انھوں نے کہا کہ نیٹو ممالک کی افواج کی افغانستان میں مستقبل میں تعیناتی کا دار و مدار افغانستان کی مرضی پر بھی ہے۔ نیٹو کے ایک اور عہدیدار گائیلز وینڈر نے اظہار خیال کیا کہ نیٹو پاکستان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پاکستان نیٹو کے لیے ایک اہم ملک ہے، نیٹو ممالک پاکستان کی غلط فہمیاں دور کریں گے۔
کانفرنس میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ افغانستان سے نیٹو ممالک کے انخلا سے وہاں ایک خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ضروری ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ایک ذمے دارانہ عمل ہو اور اس کو احسن طریقے سے سر انجام دیا جائے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند کے مطابق اگر امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کی ایک لاکھ سے زائد افواج افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکیں تو 12 ہزار فوجی کیسے یہ کام کر سکتے ہیں؟ افغانستان میں مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر مفاہمت کے بغیر افغانستان کو چھوڑا گیا تو یہ امن و سلامتی کے لیے خطرناک بات ہو گی اور وہاں کا معاشرہ مزید تقسیم کا شکار ہو گا۔ عنقریب ہی افغانستان میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے اور یہ صدارتی انتخابات افغانستان میں امن کی صورتحال پر گہرا اثر ڈالیں گے، اس خطے کا امن افغانستان میں امن کے قیام سے جڑا ہوا ہے۔
کانفرنس میں ڈائریکٹر جنرل انسٹیٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز ریسرچ اینڈ انالیسس میجر جنرل نوفل نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے کبھی اجارہ داری پر مبنی عزائم نہیں رہے۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امید ظاہر کی کہ افغانستان کا تنازعہ پرامن طریقے سے حل ہو گا، اور عالمی برادری افغانستان کی تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے لیے 2014ء کے بعد بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ یہ امر واضح ہے کہ 2014ء کے بعد آزاد اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا حامل افغانستان پورے خطے کے امن و سلامتی کے لیے ضروری ہے، افغانستان کے تمام دھڑوں کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات ہی علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو درپیش چیلنجوں کا بہترین حل ہے۔