ان کی گاڑی چھوٹ گئی
میری خواہش ہے کہ کاش تجارت اور سفر کو معمول پر لانے کے لیے اعلان لاہور پر اب بھی عمل درآمد شروع ہو جائے
ANKARA:
پندرہ سال پہلے فروری 1999ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی خاطر ایک بس کے ذریعے لاہور کا سفر کیا۔ ادھر نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ انھوں نے مشترکہ طور پر اعلان لاہور جاری کیا جس نے گویا تعلقات کی بہتری کے حوالے سے یکلخت ہی بہت سے قدموں کا فاصلہ طے کر لیا۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو واجپائی کے ساتھ اس بس میں سوار ہوئے تھے۔ یہ ایک بہت ولولہ انگیز تجربہ تھا جس میں بہت سے امید افزا پہلو پوشیدہ تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اٹاری سے واہگہ بارڈر تک کا چند کلومیٹر کا فاصلہ نئی دہلی اور اسلام آباد کو قریب لانے کے لیے زیادہ لمبا سفر ثابت نہیں ہو گا۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ اس وجہ سے نہیں کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم میں کوئی اختلاف تھا بلکہ اس وجہ سے کہ بعض عناصر ایسا نہیں چاہتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف اس وقت آرمی چیف تھے اور ان کے خیالات مختلف تھے۔ بعد ازاں انھوں نے منتخب وزیر اعظم کو نکال باہر کیا۔ اس اقدام سے ان کے عزائم آشکار ہو گئے۔
بس کا سفر واجپائی کا ایک جرأت مندانہ اقدام تھا کیونکہ ان کی بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) پاکستان مخالف تھی اور وہ ہندو قومیت کا پرچار کر رہی تھی۔ واجپائی تو اس حد تک آگے چلے گئے کہ انھوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک ٹائم فریم تک دیدیا۔ شاید ان کے دل میں وہ بات تھی جو پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مجھے ایک ریکارڈ شدہ انٹرویو میں کہی تھی: بھٹو نے کہا:'' ہم جنگ بندی لائن کو امن کی لائن بنا سکتے ہیں اور دونوں کشمیروں کے عوام کو آنے جانے کی اجازت دیدی جائے۔ آخر وہ کیوں مصیبت اٹھاتے رہیں؟ ان کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس طرح رفتہ رفتہ حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ہم سرکاری افسروں اور غیر سرکاری لوگوں کے لیے آنے جانے کی سہولت کھول کر تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں۔ تاہم جب نئی دہلی کی طرف سے سرکاری طور پر بھٹو سے دریافت کیا گیا تو وہ امن کی لائن کی اصطلاح استعمال کرنے سے منحرف ہو گئے۔
میری خواہش ہے کہ کاش تجارت اور سفر کو معمول پر لانے کے لیے اعلان لاہور پر اب بھی عمل درآمد شروع ہو جائے۔ جو دو وزرائے اعظم کے درمیان طے ہوا تھا۔ ممکن ہے ٹھوس بنیادوں پر اس کی زیادہ اہمیت نہ ہو بالخصوص اس صورت میں جب کہ پاکستان ہر چیز مسئلہ کشمیر کے تناظر میں تولتا ہے۔ حتی کہ واجپائی نے بھی اپنے دورے کے دوران ایک بار نہیں بلکہ تین بار یہ کہا تھا کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ ابھی حل ہونا باقی ہے۔ لہٰذا دونوں فریقوں کو اس وقت تک اس پر بات چیت جاری رکھنی چاہیے جب تک اس دیرینہ مسئلے کا کوئی حل نہ نکل آئے۔ بالفاظ دیگر واجپائی نے تسلیم کیا کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ یہ حقیقت کہ واجپائی نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران ایک بار بھی کشمیر کو انڈیا کا اٹوٹ انگ قرار نہیں دیا، یہ ایسی بات تھی جس کا پاکستانیوں نے بطور خاص نوٹس لیا ہو گا۔
بس کے سفر کے علاوہ میں ان بائیس ممتاز لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مستحکم کرنے کے مشن پر پاکستان کا دورہ کیا۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پر کاش سنگھ بادل ہمارے ساتھ امرتسر ایئر پورٹ پر شامل ہو گئے۔ انھوں نے مجھے گلے سے لگایا اور کہا ''تمہاری کوششیں رنگ لا رہی ہیں''۔ ان کا اشارہ ہماری ان کوششوں کی طرف تھا جو ہم 1996ء سے واہگہ بارڈر پر موم بتیاں جلا کر کر رہے ہیں تا کہ سرحد پار دوستی کا پیغام پہنچایا جا سکے۔ سردار پرکاش سنگھ بادل اونچے لمبے پگڑیوں والے سکھوں کے ہجوم میں نظروں سے اوجھل ہو گئے جو واجپائی کی آمد پر ان کا استقبال کرنے جمع ہوا تھا۔ لیکن ہم میں سے کچھ لوگ بس کی طرف بڑھے جو اڈے کے قریب کھڑی تھی۔ اس کی باڈی پر انڈیا اور پاکستان کے پرچم پینٹ کیے گئے تھے۔ شکر ہے کہ کوئی نعرہ وغیرہ نہیں تھا ورنہ سارا کام خراب ہو جاتا۔ اس کے پیچھے رنگا رنگ ملبوسات میں عورتیں اور مرد رقص کر رہے تھے اور گا رہے تھے۔ پولیس والے غیر ضروری لگ رہے تھے' ویسے بھی ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔
جونہی واجپائی بس کی اگلی نشست پر بیٹھے بس نے لاہور کی طرف سفر شروع کر دیا۔ ایک ٹکٹ کلکٹر نے مجھے بھی ایک ٹکٹ دیا اور پھر میرے ہاتھ سے لے کر اس کا آدھا حصہ پھاڑ دیا۔ میں نے اپنے آدھے حصے کو یادگار کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد ہمیں ٹھنڈے مشروبات پیش کیے گئے۔ ٹی وی اور موبائل فون بھی وہاں موجود تھے جیسے کہ باقاعدہ دوروں کے دوران ہوتے ہیں۔ وہاں سے لے کر بارڈر تک کے 35 کلومیٹر کے راستے پر دونوں جانب لوگ قطاریں بنائے کھڑے تھے۔ بچے پیلے رنگ کے جھنڈے لہرا رہے تھے جب کہ موسیقی کا بینڈ بلند آہنگ دھنیں بکھیر رہا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات نے جو جوش و ولولہ پیدا کیا تھا وہ اس ماحول سے عیاں تھا۔
بس کے اندر سب لوگ بڑے پرسکون انداز میں بیٹھے تھے تاہم آپس میں کوئی بات چیت نہیں ہو رہی تھی۔ فضا توقعات اور امیدوں کے جذبات سے بوجھل تھی۔ ماحول میں کچھ بے چینی اور اضطراب بھی موجود تھا جس میں ہر کلومیٹر کے سفر کے بعد اضافہ ہو رہا تھا۔ ہر شخص کا چہرہ امید و بیم کا مظہر تھا۔ وہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے تھے جس کا انھیں شدت سے احساس تھا۔ میں جب وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ بیٹھا تو میں نے کہا ''یہ بہت بولڈ اقدام ہے'' لیکن وزیر اعظم صرف مسکرا کر رہ گئے۔ میں نے پھر سوال کیا ''آخر آپ نے نواز شریف کی اس بات پر عمل کرنا کیوں ضروری خیال کیا کہ بس پر آ جائیں؟ آخر آپ کی پارٹی (بی جے پی) کیا سوچے گی؟'' ان کا جواب تھا ''میں نے سوچا کہ کوئی ایسی بات کی جائے جو یاد رہے کیونکہ وزارت عظمیٰ تو زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چلتی۔'' اور پھر انھوں نے راجوڑی میں ہندوئوں کے قتل کا ذکر کیا۔ انھیں اس بات پر تشویش تھی۔ انھوں نے کہا ''بعض عناصر ہمیشہ بات چیت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں''۔ میں ان سے مزید باتیں کرنا چاہتا تھا مگر اس وقت تک ان سے بات چیت کرنے والوں کی قطار خاصی لمبی ہو چکی تھی۔ لاہور پہنچنے پر ہمیں معمول کے مطابق گارڈ آف آنر دیا گیا۔
دوسری جانب پولیس والوں کا بہت بڑا دستہ موجود تھا۔ گارڈ آف آنر پیش کرنا نوآبادیاتی دور کی ایک فرسودہ رسم ہے جو ابھی تک جاری ہے حالانکہ برطانوی حکمرانی ختم ہوئے 66 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جو لوگ دوسری طرف پیچھے رہ گئے تھے ان پر اداسی چھا گئی۔ پاکستانی رینجرز قطار در قطار چوکس کھڑے تھے۔ مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی اور ہوا بوجھل محسوس ہو رہی تھی۔ نواز شریف کے مسکراتے چہرے نے جمود توڑ دیا۔ ان کے بعض ساتھی اچکنیں زیب تن کیے ہوئے تھے اور یہ بات باعث اطمینان تھی۔ ''پاکستان میں خوش آمدید'' یہ نواز شریف کے پہلے الفاظ تھے جو انھوں نے واجپائی سے بغلگیر ہوتے ہوئے ادا کیے۔ لاہور جانے والی سڑک کے دونوں طرف لوگ کھڑے تھے۔ وہاں پہ عورتیں بھی تھیں اور دوستی کے بہت سے ہاتھ ہماری طرف لہرائے گئے۔ میری خواہش ہے کاش کہ ان کی توقعات پوری ہو سکتیں۔ جب دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات ہوئی تو میں نے بھی یہ سوچا تھا کہ اب دونوں ملکوں میں خلیج ختم ہو جائے گی، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بہت سارے مخصوص مفادات اور نہ نظر آنے والے عناصر راہ میں حائل ہیں۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بس چھوٹ گئی ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)