لے کے پھر نئی چبھن بسنت آگئی

بسنت اور پتنگ اہل لاہور کے لیے لازم و ملزوم چلے آتے ہیں۔۔۔۔

rmvsyndlcate@gmail.com

ہم جو ابھی ابھی کراچی میں ادب کی بسنت بنا کر آ رہے تھے اور اس بسنت بہار کا ذکر کرنے لگے تھے کہ ایک یار نے ہتھے پہ ٹوک دیا ''ادب کی بسنت برحق مگر تمہیں کچھ بسنت کی بھی خبر ہے''۔

''خیر تو ہے۔ کیا ہوا''

''بسنت پر پھر اوس پڑ گئی۔''

''وہ کیسے''۔

بولا کہ ''پتنگ بازی کا باب کھلتے کھلتے پھر بند ہو گیا۔ سمجھو کہ بسنت کی ساری سرگرمیاں ساری خوشیاں پھر موقوف ہو گئیں۔ آگے تو یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ بسنت بہار برحق۔ مگر شہر میں نہیں۔ لاہور سے نکل کر چھانگا مانگا کا رخ کرو۔ وہاں جا کر جنگل میں منگل منائو۔ آس پاس سرسوں کے پھول بھی مسکراتے نظر آ جائیں گے۔ سو وہاں بسنتی پوشاک زیب تن کرو۔ بسنتی گلابی رنگوں میں کھیلو۔ پتنگیں اڑائو۔ پیچ لڑائو۔ لیکن اب حکم صادر ہوا ہے کہ بسنت رت کی بسنت سے پچھلی پابندی برقرار رہے گی اور اس میں بستی اور بن میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔ لاہور سے چھانگا مانگا تک آسمان پر پتنگ ڈولتی لہراتی نظر نہیں آنی چاہیے۔

ہم نے یہ احوال سن کر ٹھنڈا سانس بھرا اور غالب کا یہ شعر زبان پر آیا؎

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

ماضی بعید کی بات نہیں کرتے۔ وہ تو سنی سنائی تھی۔ آنکھوں دیکھی سناتے ہیں کہ بسنت رُت کے لگتے ہی شہر لاہور کی رنگت بدلنے لگی تھی۔ یہ دور کی بات نہیں' کل کی بات ہے کہ شہر سے باہر سرسوں کے پھول مسکراتے تھے۔ شہر کے اندر بستی بانا اپنی بہار دکھاتا تھا۔ رنگ برنگی پتنگوں کی بہار الگ۔ وہ اونچی چھتوں سے اڑان لیتی تھیں اور دم کے دم میں آسمان کی بلندیوں میں لہراتی ناچتی نظر آتی تھیں۔ پیچ لڑائے جاتے اور جب پتنگ کٹتی تو چھتوں پر اور گلیوں میں بوکاٹا کا شور مچ جاتا۔ پتنگ کا کٹنا بھی تو ایک واقعہ ہوتا تھا۔

دیکھتے دیکھتے اس خوش رنگ رسم نے ایسا زور باندھا کہ بسنت کے مقررہ دن پورے شہر میں میلہ کا سماں ہوتا تھا۔ پھر قریب و دور سے سیاح آنے لگے اور چھتوں سے بڑھ کر ہوٹلوں میں گہما گہمی نظر آنے لگی۔ پتنگ ساز اور پتنگ باز الگ خوش۔ خوانچہ لگانے والے' بارہ مسالے کی چاٹ بیچنے والے۔ قلفی والے' آئس کریم والے' حلوائی' بنئے بقال سب اپنی اپنی جگہ خوش کہ سب کا کاروبار چمک اٹھا تھا۔ ہاں مولوی ملا نالاں تھے کہ لہو و لعب اور اتنے بڑے پیمانے پر۔ کھلنڈرے اپنی جگہ خوش' تو بزرگ اپنی جگہ نالاں۔ پھر کسی نے شگوفہ چھوڑا کہ ارے یہ تو سارا کھیل غیر اسلامی ہے۔ کہاں کا موسم' کہاں کی بسنت رت۔ یہ تو ہندوانہ تیوہار ہے۔ لیجیے ایک نئی بحث شروع ہو گئی کہ اگر یہ ہندوانہ تیوہار ہے تو صوفیا کے مزاروں اور درگاہوں میں جو بسنت منائی جاتی رہی ہے اور قوالیوں کا سماں بندھتا رہا ہے اسے کس خانے میں ڈالیں گے۔

مگر اصل میں قیامت ڈھائی اس ستم ایجاد تاجر نے جس نے منافع کمانے کے چکر میں ڈور کی جگہ تار کے استعمال کی جدت دکھائی۔ برائی کی صفت یہ ہے کہ وہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ ڈور کی جگہ جب تار نے لے لی تو بچوں بڑوں کے گلے اور گردنیں اس کی زد میں آئیں اور جانوں پر بن آئی۔ اور انتظامیہ نے کیا خوب علاج سوچا کہ بے ایمان تاجروں سے تو باز پرس کی نہیں پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی کہ نہ بانس ہو گا نہ بانسری بجے گی۔

تو انتظامیہ نے کیا خوب انتظام کیا کہ بہار خزاں میں بدل گئی اور نغمہ شادی کی جگہ نوحہ غم نے لے لی۔ بسنت رُت تو آوے ہی آوے۔ اسے آنے سے کون روک سکتا ہے۔ اور سرسوں کے پھول کو مسکرانے سے کون منع کر سکتا ہے۔ تو بسنت تو آتی ہے مگر ہمیں اداس کر کے دبے پائوں گزر جاتی ہے۔ اور یار یہ کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ ع

اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے

بسنت اور پتنگ اہل لاہور کے لیے لازم و ملزوم چلے آتے ہیں۔ اس سے پہلے جو بسنت کے تذکرے کتابوں میں پڑھے اس کا رشتہ ہمیں موسیقی سے زیادہ نظر آیا۔ دلی میں یوں ہوا کہ حضرت امیر خسرو نے گزرتے گزرتے دیکھا کہ راہ میں جا بجا سرسوں کے کھیت میں سرسوں پھولی ہے اور زرد رنگ میں بسی ہوئی ہے۔ قریب کے مندر میں جھانجھر کھڑتالوں کا شور ہے سنکھ پھونکا جا رہا ہے۔ زرد گیندے کے گجرے مندر کے در پہ لہرا رہے ہیں۔ اندر بسنت کی شان میں بھجن گائے جا رہے ہیں۔

جب حضرت نظام الدین اولیا نے امیر خسرو کو ترنگ میں دیکھ کر بسنتی موسم سے اشارہ لیا، سوچا کہ جس دیس میں ہم نے اپنی خانقاہ قائم کی ہے اس کی آب و ہوا میں سانس لیا ہے اس کے موسموں سے ربط و ضبط میں بھی کیا مضائقہ ہے۔ سو جب اس خانقاہ میں بسنت منائی گئی تو اس میں موسیقی کی جگہ قوالی نے لے لی۔ پھر یوں ہوا کہ آج ہرے بھرے شاہ کے مزار پر بسنت منائی جا رہی ہے اور قوالی کی دھوم مچی ہے' مگر وہ شہر جو بائیس خواجہ کی چوکھٹ کہلاتا تھا۔ اس حساب سے بائیس بسنتیں اور بائیس قوالیوں کی محفلیں۔

پھر شاعر اس رنگ میں رواں ہو گئے۔ امیر صاحب تو یہ کہہ کر چپ ہو گئے کہ ع

بسنتی قبا پر تری مر گیا ہوں

کفن دیجیو میر کو زعفرانی


مگر ادھر اکبر آباد میں میلوں ٹھیلوں کا رسیا ایک شاعر نظیر اکبر آبادی بیٹھا تھا۔ اس نے بسنت کی شان میں کیسی کیسی نظم لکھی ہے۔ ایک نظم کا ایک بند سن لیجیے؎

پھر راگ بسنتی کا ہوا آن کے کھٹکا

دھونی کے برابر وہ لگا باجنے مٹکا

دل کھیت میں سرسوں کے ہر اک پھول سے اٹکا

ہر بات میں ہوتا تھا اسی بات کا لٹکا

سب کی تو بسنتیں ہیں یہ یاروں کا بسنتا

اور امانت لکھنوی کو سنو۔ وہ کیا کہتے ہیں؎

ہے شور حسینوں کی دو رنگی کا امانت

دو چار گلابی ہیں تو دو چار بسنتی

ہمارے زمانے کے شاعروں میں تو بس ایک ناصر کاظمی ایسا شاعر گزرا ہے جس نے موسموں کی نیرنگی کو جانا تھا اور ہر موسم کی ادا کو پہچانا تھا۔ بسنت کی شان میں تو اس کی ایک پوری غزل ہے سنو اور داد دو؎

کنج کنج نغمہ زن بسنت آگئی

اب سجے گی انجمن بسنت آگئی

اڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ

جگمگا اٹھا گگن بسنت آگئی

سبز کھیتیوں پہ پھر نکھار آگیا

لے کے زرد پیرہن بسنت آگئی

پچھلے سال کے ملال دل سے مٹ گئے

لے کے پھر نئی چبھن بسنت آگئی

ارے ہمارے لیے تو بسنت کے نام ایک چبھن ہی رہ گئی ہے۔ اور ایک یار نے کیا خوب کہا کہ جب لاہور ہی سے نکل کر پتنگ اڑانی ہے تو چھانگا مانگا پہ کیا موقوف ہے۔ اس سے آگے جا کر کراچی میں ساحل سمندر پر جا کر پتنگ اڑا لیں گے۔ صحیح کہا۔ پتنگ کو جب پنجاب بدر کر دیا گیا تو سندھ نے اسے پناہ میں لے لیا۔ وہاں وہ سندھ فیسٹیول کے پروگرام کا حصہ بن گئی۔ کیا خوب' پتنگ صورت خورشید پنجاب میں غروب ہو گئی تو سندھ میں جا کر طلوع ہو گئی۔ یعنی ادھر ڈوبی ادھر نکلی۔
Load Next Story