پاکستانی ادیبوں سے ناآشنائی کیوں
ہمارے ہاں اگر آج بھی کوئی جان دار ادب پیدا ہو رہا ہے تو اشرافیہ اورحکومت اس کے بارے میں پریشان کیوں نہیں دِکھ رہے؟
پچھلے کچھ برسوں سے ہمارے ہاں ''ادبی میلوں'' کا رواج چل نکلا ہے۔ پاکستان میں شاید ایسے میلوں کو اس لیے متعارف کروایا جاسکا کہ بھارت والے جے پور میں ایک Literary Festivalکروانا شروع ہوگئے تھے۔ اسے وہاں کے میڈیا نے بھرپور انداز میں رپورٹ کیا اور بالآخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ بھارت کے بہت سارے نامی گرامی صنعت کار جو کبھی فلمی اداکاروں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کے ساتھ ذاتی دوستیاں بنانے کے لیے اپنے فلیٹوں اور فارم ہائوسز میں پرہجوم دعوتیں دیا کرتے تھے، اپنے ذاتی طیاروں کو دوستوں سے بھرکر جے پور والے Eventمیں بھی جانا شروع ہوگئے۔ پاکستان کے متمول افراد ان سے پیچھے کیوں رہتے۔ بڑے لوگوں کو ادب وثقافت کا ''سرپرست'' کہلوانا ویسے بھی اچھا لگتا ہے۔ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو اگر دربارِ اکبری نہ ہوتا تو میرے جیسے لوگ تان سین کے نام سے بھی واقف نہ ہوتے۔ بڑودہ اور پٹیالہ کے مہاراجے نہ ہوتے تو کیرانہ گائیکی سے ہم بے خبر رہتے اور اس حقیقت سے لاعلم کہ موسیقی کا ایک پٹیالہ گھرانہ بھی ہوتا ہے۔ ''انشاء جی اُٹھو...'' گانے والے امانت علی خان کا تعلق اسی گھرانے سے تھا۔ کیرانہ اور پٹیالہ گائیکی میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں مجھے کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی علم کہ دُھرپد اور خیال گانے والوں میں تفریق کیسے کی جاتی ہے۔
موسیقی تو میں اتفاقاً سن لیتا ہوں مگر ادب کے حوالے سے خود کو سنجیدہ قارئین میں شمار کرتا ہوں۔ تقریباً ہر ماہ باقاعدگی سے کتابوں کی کسی دکان پر کافی وقت صرف کرنے کے بعد اپنی مالی استطاعت کو نظرانداز کرتے ہوئے کچھ کتابیں بھی خرید لیتا ہوں۔ اپنی اس عادت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے بڑا غور کیا تو یاد آیا کہ میں نے کئی برسوں سے اُردو میں چھپی کوئی کتاب نہیں خریدی۔ ہاں چند ماہ پہلے قرۃ العین حیدر کی ''کارِ جہاں دراز ہے'' کو ایک جلد میں مرتب ہوا دیکھ کر ضرور خرید لیا۔ وہ جسے فکشن کہا جاتا ہے اس کی زیادہ تر کتابیں جو میں خریدتا ہوں اکثر لاطینی امریکا یا یورپ کے لکھاریوں کے انگریزی میں تراجم ہوا کرتے ہیں۔ ''میرا سلطان'' کی مشہوری اور مقبولیت سے کئی برس پہلے میں ترکی کے اورہان پامک (Orhan Pamuk)سے متعارف ہوچکا تھا۔ Snowاس کی پہلی کتاب تھی جو میں نے پڑھی۔ اس نے مجھے متحیر کردیا اسے پڑھنے کے بعد میں نے پامک کی لکھی ہر چیز کو بڑی لگن سے ڈھونڈ کر اپنے بیڈروم میں رکھی کتابوں کی الماری میں اکٹھا کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لگن اور تڑپ میں نے پامک کے بارے میں محسوس کی وہ ان دنوں پاکستان میں لکھنے والے کسی ادیب کے سلسلے میں کیوں پیدا نہ ہوئی۔ ہمارے چند نوجوان لکھنے والوں کا حال ہی میں منعقد ہونے والے ادبی میلوں میں بڑا چرچا رہا ہے۔ میں ان میں سے کسی ایک کی تخلیق سے بھی آشنا نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے حال ہی میں مشہور ہونے والے نوجوان ادیب انگریزی میں لکھتے ہیں۔ لیکن میرے لیے ان کی زبان کوئی خاص مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ عالمی ادب کے مشہور اور اپنے پسندیدہ ادیبوں کو میں نے انگریز تراجم کی صورت ہی پڑھا تھا۔ ہمینگوے تو لکھتا ہی انگریزی میں تھا۔ میں اس کا دیوانہ ہوسکتا ہوں تو اپنے ہاں کے انگریزی میں لکھنے والوں سے آشنا کیوں نہ ہوسکا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مجھے اپنے انگریزی اخباروں میں پاکستان میں منعقد ہوئے ادبی میلوں کے بارے میں لکھے مضامین اور کالموں میں نہیں ملتے۔ کچھ دن پہلے ہمارے ایک لکھنے والے نے ''مارکسی نقطہ نظر'' سے ادبی میلوں پر تنقید کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ان میلوں کو بڑے طباعتی ادارے دراصل کتابوں کی مارکیٹنگ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ درست کہہ رہے ہوں۔ مگر میں کتابوں کا ایک باقاعدہ ''صارف'' ہوں۔ اگر مارکیٹنگ ہی مقصود ہے تو آج کل کے ادبی میلے منعقد کرنے والوں کو ایک سیشن اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے بھی ضرور مختص کرنا چاہیے کہ میرے جیسے باقاعدہ ''صارف'' پاکستانی ادیبوں کی انگریزی یا اُردو میں لکھی کتابیں کیوں نہیں خرید رہے؟
''صارف'' ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے اکثر یہ خیال بھی آتا ہے کہ علامہ اقبال نے ''شکوہ'' لکھا تو ان کے خلاف کفر کے فتوئوں کا انبار لگ گیا۔ ان کے بعد سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی اُردو میں لکھنے والے پہلے ادیب تھے جن کے خلاف فحاشی اور عریانی پھیلانے کے الزام میں باقاعدہ مقدمات چلے۔ فیض احمد فیض جیلوں میں ضرور گئے۔ مگر ان کی کوئی غزل یا نظم اس کا سبب نہ تھی۔ ''پنڈی سازش کیس'' وغیرہ جیسے کئی سیاسی معاملات تھے۔ حبیب جالب جیل جاتے رہے اور احتجاجی جلوسوں میں لاٹھیوں اور آنسو گیس کا نشانہ بھی ۔ مگر اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اپنی نظمیں وہ گھر بیٹھ کر نہیں لکھتے تھے۔ انھیں احتجاجی جلوسوں میں جان ڈالنے کے لیے وہاں خود آکر بڑی دیوانگی سے پڑھتے اور پھر احتجاجیوں کی پہلی صفحوں میں کھڑے ہوجاتے۔ اُستاد دامن ایک اور شاعر تھے جنہوں نے ''کی کریں جانا ایں؟'' لکھا اور پولیس نے انھیں ''بم سمیت'' تخریب کاری کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ احمد فراز پر بھی مشکلات کا ایک دور ضرور آیا۔ سندھی، پشتو اور بلوچی کے حوالے سے شیخ ایاز، اجمل خٹک اور گل خان نصیر کے نام اسی حوالے سے ذہن میں آتے ہیں۔
میں جاننا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں اگر آج بھی کوئی جان دار ادب پیدا ہو رہا ہے تو ہماری اشرافیہ اور حکومت والے اس کے بارے میں پریشان کیوں نہیں دِکھ رہے۔ بجائے پریشان ہونے کے ہماری اشرافیہ اور حکومتوں کے لوگ جب آج کے لکھنے والوں کے ساتھ تصویروں میں مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں تو میں تھوڑا بہت سمجھ جاتا ہوں کہ میں نے ''پاکستانی ادب'' کے نام پر لکھی کتابیں خریدنا کیوں چھوڑ رکھا ہے۔
موسیقی تو میں اتفاقاً سن لیتا ہوں مگر ادب کے حوالے سے خود کو سنجیدہ قارئین میں شمار کرتا ہوں۔ تقریباً ہر ماہ باقاعدگی سے کتابوں کی کسی دکان پر کافی وقت صرف کرنے کے بعد اپنی مالی استطاعت کو نظرانداز کرتے ہوئے کچھ کتابیں بھی خرید لیتا ہوں۔ اپنی اس عادت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے بڑا غور کیا تو یاد آیا کہ میں نے کئی برسوں سے اُردو میں چھپی کوئی کتاب نہیں خریدی۔ ہاں چند ماہ پہلے قرۃ العین حیدر کی ''کارِ جہاں دراز ہے'' کو ایک جلد میں مرتب ہوا دیکھ کر ضرور خرید لیا۔ وہ جسے فکشن کہا جاتا ہے اس کی زیادہ تر کتابیں جو میں خریدتا ہوں اکثر لاطینی امریکا یا یورپ کے لکھاریوں کے انگریزی میں تراجم ہوا کرتے ہیں۔ ''میرا سلطان'' کی مشہوری اور مقبولیت سے کئی برس پہلے میں ترکی کے اورہان پامک (Orhan Pamuk)سے متعارف ہوچکا تھا۔ Snowاس کی پہلی کتاب تھی جو میں نے پڑھی۔ اس نے مجھے متحیر کردیا اسے پڑھنے کے بعد میں نے پامک کی لکھی ہر چیز کو بڑی لگن سے ڈھونڈ کر اپنے بیڈروم میں رکھی کتابوں کی الماری میں اکٹھا کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لگن اور تڑپ میں نے پامک کے بارے میں محسوس کی وہ ان دنوں پاکستان میں لکھنے والے کسی ادیب کے سلسلے میں کیوں پیدا نہ ہوئی۔ ہمارے چند نوجوان لکھنے والوں کا حال ہی میں منعقد ہونے والے ادبی میلوں میں بڑا چرچا رہا ہے۔ میں ان میں سے کسی ایک کی تخلیق سے بھی آشنا نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے حال ہی میں مشہور ہونے والے نوجوان ادیب انگریزی میں لکھتے ہیں۔ لیکن میرے لیے ان کی زبان کوئی خاص مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ عالمی ادب کے مشہور اور اپنے پسندیدہ ادیبوں کو میں نے انگریز تراجم کی صورت ہی پڑھا تھا۔ ہمینگوے تو لکھتا ہی انگریزی میں تھا۔ میں اس کا دیوانہ ہوسکتا ہوں تو اپنے ہاں کے انگریزی میں لکھنے والوں سے آشنا کیوں نہ ہوسکا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مجھے اپنے انگریزی اخباروں میں پاکستان میں منعقد ہوئے ادبی میلوں کے بارے میں لکھے مضامین اور کالموں میں نہیں ملتے۔ کچھ دن پہلے ہمارے ایک لکھنے والے نے ''مارکسی نقطہ نظر'' سے ادبی میلوں پر تنقید کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ان میلوں کو بڑے طباعتی ادارے دراصل کتابوں کی مارکیٹنگ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ درست کہہ رہے ہوں۔ مگر میں کتابوں کا ایک باقاعدہ ''صارف'' ہوں۔ اگر مارکیٹنگ ہی مقصود ہے تو آج کل کے ادبی میلے منعقد کرنے والوں کو ایک سیشن اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے بھی ضرور مختص کرنا چاہیے کہ میرے جیسے باقاعدہ ''صارف'' پاکستانی ادیبوں کی انگریزی یا اُردو میں لکھی کتابیں کیوں نہیں خرید رہے؟
''صارف'' ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے اکثر یہ خیال بھی آتا ہے کہ علامہ اقبال نے ''شکوہ'' لکھا تو ان کے خلاف کفر کے فتوئوں کا انبار لگ گیا۔ ان کے بعد سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی اُردو میں لکھنے والے پہلے ادیب تھے جن کے خلاف فحاشی اور عریانی پھیلانے کے الزام میں باقاعدہ مقدمات چلے۔ فیض احمد فیض جیلوں میں ضرور گئے۔ مگر ان کی کوئی غزل یا نظم اس کا سبب نہ تھی۔ ''پنڈی سازش کیس'' وغیرہ جیسے کئی سیاسی معاملات تھے۔ حبیب جالب جیل جاتے رہے اور احتجاجی جلوسوں میں لاٹھیوں اور آنسو گیس کا نشانہ بھی ۔ مگر اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اپنی نظمیں وہ گھر بیٹھ کر نہیں لکھتے تھے۔ انھیں احتجاجی جلوسوں میں جان ڈالنے کے لیے وہاں خود آکر بڑی دیوانگی سے پڑھتے اور پھر احتجاجیوں کی پہلی صفحوں میں کھڑے ہوجاتے۔ اُستاد دامن ایک اور شاعر تھے جنہوں نے ''کی کریں جانا ایں؟'' لکھا اور پولیس نے انھیں ''بم سمیت'' تخریب کاری کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ احمد فراز پر بھی مشکلات کا ایک دور ضرور آیا۔ سندھی، پشتو اور بلوچی کے حوالے سے شیخ ایاز، اجمل خٹک اور گل خان نصیر کے نام اسی حوالے سے ذہن میں آتے ہیں۔
میں جاننا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں اگر آج بھی کوئی جان دار ادب پیدا ہو رہا ہے تو ہماری اشرافیہ اور حکومت والے اس کے بارے میں پریشان کیوں نہیں دِکھ رہے۔ بجائے پریشان ہونے کے ہماری اشرافیہ اور حکومتوں کے لوگ جب آج کے لکھنے والوں کے ساتھ تصویروں میں مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں تو میں تھوڑا بہت سمجھ جاتا ہوں کہ میں نے ''پاکستانی ادب'' کے نام پر لکھی کتابیں خریدنا کیوں چھوڑ رکھا ہے۔