ہماری دعا
مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بڑے خوش کن ہیں۔ اٹھارہ کروڑ عوام کی طرح ہمارے ہاتھ بھی دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہیں
پاکستان دس سال سے جن مسائل میں گھرا ہوا ہے انھیں ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک اقتصادی، دوسرے نظریاتی۔ اقتصادی مسئلہ اگرچہ نظریاتی مسئلہ سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے لیکن پاکستان میں اقتصادی زبوں حالی کا شکار ہے، اس کی اصل وجہ ملک میں امن و امان کی وہ بد ترین صورت حال ہے جس نے نہ صرف ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ روک دیا ہے بلکہ ملکی سرمایہ کار یا تو ملک سے بھاگ رہے ہیں یا پھر اپنی صنعتوں کو محفوظ ملکوں میں منتقل کررہے ہیں، جس ملک میں یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے وہاں کی اقتصادی زندگی پر جمود طاری ہوجاتا ہے۔
بے روزگاری بڑھ جاتی ہے، جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے، سارا ملک ایک افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے، ہمارے ملک کا نظریاتی مسئلہ بڑا عجیب و غریب، بڑا پیچیدہ، بگڑا ہوا گمبھیر ہے۔ اس مسئلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ نظریاتی مطالبوں کو منوانے کے لیے تشدد کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے اس پر خود نظریاتی قیادت کہہ رہی ہے کہ ''ہم نظریاتی مطالبوں کو منوانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے سخت خلاف ہیں'' اس حوالے سے مذہبی رہنما ''لااکراہ فی الدین'' کا حوالہ بھی بار بار دے رہے ہیں اور مذہبی مطالبات تشدد کے ذریعے منوانے والوں کو بار بار یہ تلقین کررہے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے پر امن راستہ اختیار کریں۔
یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ نظریاتی مطالبات کے لیے ٹکرائو کرنے والے نہ صرف مذاکرات کی میز پر آرہے ہیں بلکہ مذاکراتی خبروں کے مطابق ان محترم حضرات کے رویوں اور پالیسیوں میں لچک بھی آرہی ہے۔ ہم جب یہ کالم لکھ رہے ہیں تو دونوں مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان ملاقات ہوچکی ہے اور ملاقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہو رہے ہیں اور دونوں ٹیموں کا رویہ بہت مثبت ہے۔ دس سال کے دہشت زدہ ماحول میں بلاشبہ یہ بیانات، یہ امکانات بہت حوصلہ افزا ہیں۔ ان خبروں سے اس ملک کے 18کروڑ دہشت زدہ عوام میں ایک گو نہ اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے اور اگر مذاکرات اسی نہج پر چلتے رہے تو حالات میں مثبت تبدیلیوں کی امید کی جاسکتی ہے۔
دنیا کی تاریخ نظریاتی ٹکرائووں سے بھری پڑی ہے، صلیبی ٹکرائووں سے لے کر 1947 کے خوفناک فسادات جن میں 22لاکھ انسان مارے گئے، پھر فلسطین اور کشمیر میں ہونے والی خونریزیاں اسی طرز فکر کے وہ المیے ہیں جن میں لاکھوں بے گناہ انسان مارے گئے، ہوسکتاہے حکومت اور مخالف کیمپ کے درمیان مذاکرات سے امن کی کوئی راہ نکل آئے۔ لیکن اگر یہ امن اصولوں کے بجائے وقتی مصلحتوں اور سیاسی ضرورتوں پر استوار ہوتا ہے تو یہ امن کسی وقت بھی بد امنی میں بدل سکتا ہے۔ دنیا میں ٹکرائووں کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ امن اگر اصولوں اور نظریاتی ہم آہنگی کے بجائے وقتی ضرورت یا سانس لے کر زیادہ بہتر انداز میں ٹکرائو لڑنے کے لیے کیا گیا ہو تو ایسا امن پہلی ٹکرائو سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
ہم جس نظریاتی ٹکرائو کے دور سے گزر رہے ہیں اس کے مطالعے سے یہ بات بہر حال عیاں ہوتی ہے کہ اس ٹکرائو کی نظریاتی بنیاد بہت مبہم ہے، اس ابہام نے بھی اس ٹکرائو کو خوفناک اور بے سمت بنا دیا ہے، مثلاً اس ٹکرائو میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ٹکرائو ملک و ملت کی برتری کے لیے ہے یا صرف اپنی نظریاتی برتری کے لیے۔؟ اگر نظریاتی ٹکرائو کا مقصد محض نظریاتی برتری ثابت کرنا اور اپنے نظریات کو دوسروں پر طاقت کے ذریعے مسلط کرنا ہے تو ایسے ٹکرائو کو ہم بے مقصد خون خرابے کے سوا کوئی اور نام نہیں دے سکتے۔ اگر نظریاتی ٹکرائو کا مقصد دنیا پر اپنے ملک اور ملت کی برتری ہے تو پھر اس کا راستہ بالکل مختلف ہوجاتاہے۔ کیوںکہ دنیا میں ملک و ملت کی برتری کا ٹکرائو ہتھیاروں کے ذریعے نہیںہوتا بلکہ اقتصادی محاذ پر سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم میں برتری کے حوالے سے کوشش کی جاتی ہے۔ آج اگر ہم ترقی یافتہ ملکوں پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ ملک دنیا پر اپنے ملک و ملت اور ساتھ ہی ساتھ مذہب کی برتری کے لیے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیے بلکہ جدید علوم، سائنس ٹیکنالوجی، تحقیق، ایجادات کے راستوں پر چل کر سربلند ہوئے ہیں۔ جب کوئی قوم ملک و ملت کی سربلندی پر پہنچ جاتی ہے تو وہ بالواسطہ طور پر اپنی مذہبی سربلندی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے، اس کے لیے ٹکرائو کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔
انسان کو دنیا کے دوسرے لاکھوں جانداروں پر فوقیت دیکر اشرف المخلوقات کا لقب اس لیے دیا گیا کہ اس میں سوچنے، سمجھنے کے علاوہ بولنے کی طاقت بھی تھی۔ دنیا میں کسی بدتر قانون کا ذکر کرنا ہو تو اسے ٹکرائو کے قانون کا نام دیا جاتا ہے۔ کیوںکہ ٹکرائو کا قانون انصاف کی بنیادوں پر ہوتاہے نہ فکر و غور کی بنیادوں پر بلکہ طاقت کی بنیاد پر کھڑا ہوتاہے اور ہر طاقتور بذات خود قانون اور انصاف ہوتاہے۔ اسی غیر منصفانہ نظام سے برتری کی وجہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا۔ اگر دنیا میں اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان کسی اقدام، کسی درست یا غلط فیصلے سے پہلے سوچنا اور غلط فیصلے میں تمیز کرنا چھوڑدے تو کیا وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے؟ پیٹ کی بھوک بڑی ظالم ہوتی ہے یہی بھوک مخلوق کو ظلم پر آمادہ کرتی ہے اور اس ظلم کو ہم حیوانیت کہتے ہیں۔
ایک بھوک نظریاتی ہوتی ہے۔ یہ بھوک زیادہ خطرناک ہوتی ہے، پیٹ کی بھوک پیٹ بھرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے لیکن نظریاتی بھوک انسان کے ساتھ اس وقت تک چمٹی رہتی ہے جب تک وہ زندہ رہتاہے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی یہ بھوک ورثے کی شکل میں زندہ رہتی ہے۔ آج آپ ہر روز مسلم ملکوں میں سیکڑوں انسانوں کی سفاکانہ ہلاکتوں کی خبریں پڑھتے ہیں، یہ ہلاکتیں مذہبی نفرتوں کا نتیجہ نہیں ہیں، ان ہلاکتوں میں مرنے اور مارنے والے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی نہیں ہیں بلکہ مارنے والے بھی مسلمان ہیں، مرنے والے بھی مسلمان۔ کہا جاتا ہے کہ بھیڑیا بھوک کے وقت اپنے بچوں کو بھی کہاجاتا ہے۔ اسی وحشت و بربریت کو روکنے کے لیے اسلام نے ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ کیا ہماری نظر میں اس خدائی حکم کی کوئی اہمیت ہے؟
ہمارے قانون اور انصاف کا نظام گواہ اور ثبوت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس نظام میں انصاف اور قانون کی نظر صرف ملزم پر ہوتی ہے، ظلم کے محرکات پر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملزم ملزم سے مجرم تک پہنچتاہے اور جرم کی سزا میں پھانسی کے پھندے پر لٹک جاتا ہے۔ مجرم مرجاتا ہے،جرم زندہ رہتاہے۔ اس لیے کہ جرم کے محرکات اور اصلی مجرموں پر قانون اور انصاف کی نظر ہی نہیں جاتی۔اس لیے اب محراب و منبر سے اس جبر و ظلم کے خلاف منظم اور موثر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک افسانہ پڑھا تھا جس کا مرکزی کردار ایک کشمیری مسلمان عبدالحکیم ہے۔ عبدالحکیم کا ذہن کشمیری ہندوئوں کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا ہے وہ اسی نفرت کے زیر اثر رات کے اندھیرے میں ایک پورے ہندو خاندان کو قتل کردیتاہے اور عدالت میں سینہ تان کر کہتاہے کہ یہ قتل میں نے کیے ہیں۔ جس پر مجھے کوئی ندامت نہیں کیوںکہ یہ قتل میں نے اپنے دینی بھائیوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے کیے ہیں اور اگر موقع ملا تو اور بھی قتل کروںگا۔ عدالت کا جج ہندو ہے اور ملزم مسلمان جس نے اعتراف جرم بھی کیا ہے اور رنگے ہاتھوں پکڑا بھی گیا ہے۔ لیکن اس قاتل کا وکیل ایک نوجوان ہندو ہوتاہے جو اپنے دلائل سے یہ ثابت کردیتا ہے کہ قتل کا اصل مجرم قاتل نہیں بلکہ قتل کے محرکات ہوتے ہیں۔ قاتل تو ان محرکات کا کٹھ پتلی ہوتا ہے اور وکیل کے یہ موثر دلائل جو ان کے ثبوت عدالت کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ عبدالحکیم کو بے گناہ مان لے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ محرکات کیا ہیں۔
بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی۔ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بڑے خوش کن ہیں۔ اٹھارہ کروڑ عوام کی طرح ہمارے ہاتھ بھی دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں۔ لیکن ذہن میں یہ سوال سانپ کی طرح پھن پھیلائے کھڑا ہے کہ کیا مذاکرات کی کامیابی کے بعد ملک میں 10سال سے ہونے والی خراب صورتحال ختم ہوجائے گی۔؟ یہ سوال اس وقت تک سر اٹھائے کھڑا رہے گا جب تک اس کے محرکات کا خاتمہ کرنے کی کوئی سبیل نہیں کی جاتی ۔
بے روزگاری بڑھ جاتی ہے، جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے، سارا ملک ایک افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے، ہمارے ملک کا نظریاتی مسئلہ بڑا عجیب و غریب، بڑا پیچیدہ، بگڑا ہوا گمبھیر ہے۔ اس مسئلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ نظریاتی مطالبوں کو منوانے کے لیے تشدد کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے اس پر خود نظریاتی قیادت کہہ رہی ہے کہ ''ہم نظریاتی مطالبوں کو منوانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے سخت خلاف ہیں'' اس حوالے سے مذہبی رہنما ''لااکراہ فی الدین'' کا حوالہ بھی بار بار دے رہے ہیں اور مذہبی مطالبات تشدد کے ذریعے منوانے والوں کو بار بار یہ تلقین کررہے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے پر امن راستہ اختیار کریں۔
یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ نظریاتی مطالبات کے لیے ٹکرائو کرنے والے نہ صرف مذاکرات کی میز پر آرہے ہیں بلکہ مذاکراتی خبروں کے مطابق ان محترم حضرات کے رویوں اور پالیسیوں میں لچک بھی آرہی ہے۔ ہم جب یہ کالم لکھ رہے ہیں تو دونوں مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان ملاقات ہوچکی ہے اور ملاقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہو رہے ہیں اور دونوں ٹیموں کا رویہ بہت مثبت ہے۔ دس سال کے دہشت زدہ ماحول میں بلاشبہ یہ بیانات، یہ امکانات بہت حوصلہ افزا ہیں۔ ان خبروں سے اس ملک کے 18کروڑ دہشت زدہ عوام میں ایک گو نہ اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے اور اگر مذاکرات اسی نہج پر چلتے رہے تو حالات میں مثبت تبدیلیوں کی امید کی جاسکتی ہے۔
دنیا کی تاریخ نظریاتی ٹکرائووں سے بھری پڑی ہے، صلیبی ٹکرائووں سے لے کر 1947 کے خوفناک فسادات جن میں 22لاکھ انسان مارے گئے، پھر فلسطین اور کشمیر میں ہونے والی خونریزیاں اسی طرز فکر کے وہ المیے ہیں جن میں لاکھوں بے گناہ انسان مارے گئے، ہوسکتاہے حکومت اور مخالف کیمپ کے درمیان مذاکرات سے امن کی کوئی راہ نکل آئے۔ لیکن اگر یہ امن اصولوں کے بجائے وقتی مصلحتوں اور سیاسی ضرورتوں پر استوار ہوتا ہے تو یہ امن کسی وقت بھی بد امنی میں بدل سکتا ہے۔ دنیا میں ٹکرائووں کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ امن اگر اصولوں اور نظریاتی ہم آہنگی کے بجائے وقتی ضرورت یا سانس لے کر زیادہ بہتر انداز میں ٹکرائو لڑنے کے لیے کیا گیا ہو تو ایسا امن پہلی ٹکرائو سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
ہم جس نظریاتی ٹکرائو کے دور سے گزر رہے ہیں اس کے مطالعے سے یہ بات بہر حال عیاں ہوتی ہے کہ اس ٹکرائو کی نظریاتی بنیاد بہت مبہم ہے، اس ابہام نے بھی اس ٹکرائو کو خوفناک اور بے سمت بنا دیا ہے، مثلاً اس ٹکرائو میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ٹکرائو ملک و ملت کی برتری کے لیے ہے یا صرف اپنی نظریاتی برتری کے لیے۔؟ اگر نظریاتی ٹکرائو کا مقصد محض نظریاتی برتری ثابت کرنا اور اپنے نظریات کو دوسروں پر طاقت کے ذریعے مسلط کرنا ہے تو ایسے ٹکرائو کو ہم بے مقصد خون خرابے کے سوا کوئی اور نام نہیں دے سکتے۔ اگر نظریاتی ٹکرائو کا مقصد دنیا پر اپنے ملک اور ملت کی برتری ہے تو پھر اس کا راستہ بالکل مختلف ہوجاتاہے۔ کیوںکہ دنیا میں ملک و ملت کی برتری کا ٹکرائو ہتھیاروں کے ذریعے نہیںہوتا بلکہ اقتصادی محاذ پر سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم میں برتری کے حوالے سے کوشش کی جاتی ہے۔ آج اگر ہم ترقی یافتہ ملکوں پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ ملک دنیا پر اپنے ملک و ملت اور ساتھ ہی ساتھ مذہب کی برتری کے لیے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیے بلکہ جدید علوم، سائنس ٹیکنالوجی، تحقیق، ایجادات کے راستوں پر چل کر سربلند ہوئے ہیں۔ جب کوئی قوم ملک و ملت کی سربلندی پر پہنچ جاتی ہے تو وہ بالواسطہ طور پر اپنی مذہبی سربلندی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے، اس کے لیے ٹکرائو کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔
انسان کو دنیا کے دوسرے لاکھوں جانداروں پر فوقیت دیکر اشرف المخلوقات کا لقب اس لیے دیا گیا کہ اس میں سوچنے، سمجھنے کے علاوہ بولنے کی طاقت بھی تھی۔ دنیا میں کسی بدتر قانون کا ذکر کرنا ہو تو اسے ٹکرائو کے قانون کا نام دیا جاتا ہے۔ کیوںکہ ٹکرائو کا قانون انصاف کی بنیادوں پر ہوتاہے نہ فکر و غور کی بنیادوں پر بلکہ طاقت کی بنیاد پر کھڑا ہوتاہے اور ہر طاقتور بذات خود قانون اور انصاف ہوتاہے۔ اسی غیر منصفانہ نظام سے برتری کی وجہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا۔ اگر دنیا میں اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان کسی اقدام، کسی درست یا غلط فیصلے سے پہلے سوچنا اور غلط فیصلے میں تمیز کرنا چھوڑدے تو کیا وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے؟ پیٹ کی بھوک بڑی ظالم ہوتی ہے یہی بھوک مخلوق کو ظلم پر آمادہ کرتی ہے اور اس ظلم کو ہم حیوانیت کہتے ہیں۔
ایک بھوک نظریاتی ہوتی ہے۔ یہ بھوک زیادہ خطرناک ہوتی ہے، پیٹ کی بھوک پیٹ بھرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے لیکن نظریاتی بھوک انسان کے ساتھ اس وقت تک چمٹی رہتی ہے جب تک وہ زندہ رہتاہے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی یہ بھوک ورثے کی شکل میں زندہ رہتی ہے۔ آج آپ ہر روز مسلم ملکوں میں سیکڑوں انسانوں کی سفاکانہ ہلاکتوں کی خبریں پڑھتے ہیں، یہ ہلاکتیں مذہبی نفرتوں کا نتیجہ نہیں ہیں، ان ہلاکتوں میں مرنے اور مارنے والے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی نہیں ہیں بلکہ مارنے والے بھی مسلمان ہیں، مرنے والے بھی مسلمان۔ کہا جاتا ہے کہ بھیڑیا بھوک کے وقت اپنے بچوں کو بھی کہاجاتا ہے۔ اسی وحشت و بربریت کو روکنے کے لیے اسلام نے ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ کیا ہماری نظر میں اس خدائی حکم کی کوئی اہمیت ہے؟
ہمارے قانون اور انصاف کا نظام گواہ اور ثبوت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس نظام میں انصاف اور قانون کی نظر صرف ملزم پر ہوتی ہے، ظلم کے محرکات پر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملزم ملزم سے مجرم تک پہنچتاہے اور جرم کی سزا میں پھانسی کے پھندے پر لٹک جاتا ہے۔ مجرم مرجاتا ہے،جرم زندہ رہتاہے۔ اس لیے کہ جرم کے محرکات اور اصلی مجرموں پر قانون اور انصاف کی نظر ہی نہیں جاتی۔اس لیے اب محراب و منبر سے اس جبر و ظلم کے خلاف منظم اور موثر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک افسانہ پڑھا تھا جس کا مرکزی کردار ایک کشمیری مسلمان عبدالحکیم ہے۔ عبدالحکیم کا ذہن کشمیری ہندوئوں کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا ہے وہ اسی نفرت کے زیر اثر رات کے اندھیرے میں ایک پورے ہندو خاندان کو قتل کردیتاہے اور عدالت میں سینہ تان کر کہتاہے کہ یہ قتل میں نے کیے ہیں۔ جس پر مجھے کوئی ندامت نہیں کیوںکہ یہ قتل میں نے اپنے دینی بھائیوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے کیے ہیں اور اگر موقع ملا تو اور بھی قتل کروںگا۔ عدالت کا جج ہندو ہے اور ملزم مسلمان جس نے اعتراف جرم بھی کیا ہے اور رنگے ہاتھوں پکڑا بھی گیا ہے۔ لیکن اس قاتل کا وکیل ایک نوجوان ہندو ہوتاہے جو اپنے دلائل سے یہ ثابت کردیتا ہے کہ قتل کا اصل مجرم قاتل نہیں بلکہ قتل کے محرکات ہوتے ہیں۔ قاتل تو ان محرکات کا کٹھ پتلی ہوتا ہے اور وکیل کے یہ موثر دلائل جو ان کے ثبوت عدالت کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ عبدالحکیم کو بے گناہ مان لے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ محرکات کیا ہیں۔
بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی۔ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بڑے خوش کن ہیں۔ اٹھارہ کروڑ عوام کی طرح ہمارے ہاتھ بھی دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں۔ لیکن ذہن میں یہ سوال سانپ کی طرح پھن پھیلائے کھڑا ہے کہ کیا مذاکرات کی کامیابی کے بعد ملک میں 10سال سے ہونے والی خراب صورتحال ختم ہوجائے گی۔؟ یہ سوال اس وقت تک سر اٹھائے کھڑا رہے گا جب تک اس کے محرکات کا خاتمہ کرنے کی کوئی سبیل نہیں کی جاتی ۔