تعلیمی اداروں کے انتخابات

طلبہ سیاست کا چراغ ذوالفقاربھٹو کے پہلے دور تک تو جگمگا کے جلا مگر صدر ضیا الحق کے دور میں طلبہ یونین کا تصور جاتا رہا

anisbaqar@hotmail.com

دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اور ترقی کی دوڑ میں تیز رفتار قومیں تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی ساتھ ساتھ کراتی ہیں، کھیل کود، پکنک، پارٹیاں، ڈرامہ، فنکشن، مباحثے یہ سب طلبا کا لہو گرم رکھنے کے عناصر ہیں تاکہ جس فن میں طلبا کو شوق پیدا ہو اور اس میں وہ اپنے فن کا مظاہرہ کریں اور تربیت کے مواقع مل سکیں۔ 1968/69 میں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے صدر طارق علی منتخب ہوئے اور انھوں نے دنیا میں بہت نام کمایا اور پاکستان کا نام بھی انھوں نے اپنی علمیت اور ہمت سے آگے بڑھایا، عام طور پر میٹرک پاس طالب علم شعور کی عمر میں داخل ہوجاتا ہے کیونکہ عموماً 15 یا 16سال کی اوسط عمر تک یہ سفر طے ہوجاتا ہے، یہی وہ عمر ہے جب اس کی آواز بدلتی ہے، جس پر ہارمون کی بہاروں اور جمالیات کا احساس نمایاں ہوتا ہے، وہ رازوں کو منکشف کرتا ہے، سوچتا اور سمجھتا ہے، وہ اپنی خودی کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلے جب کالج میں پہنچ جاتا تھا تو نئے سال میں آنے والوں سے ایک طبقہ سیاسی یا اخلاقی مزاج رکھتا تھا، دوسرا جو لطف اندوز ہونے والا طبقہ ہوتا تھا وہ اس کو فرسٹ ایئر فول بھی سمجھتا تھا، عام طور پر بعض گریجویشن کے فائنل ایئر کے طالب علم یہ مذاق کرتے تھے جو بعد میں معدوم ہوگیا تھا۔

طلبہ سیاست کا چراغ ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور تک تو جگمگا کے جلا مگر صدر ضیا الحق کے دور میں طلبہ یونین کا تصور جاتا رہا، کئی بار بعد میں لوٹ لوٹ کے جمہوری ہوا چلی، مگر کالجوں میں انتخابات کی فضا نہ بن سکی۔ ذرا غور تو کیجیے کالج کے منتخب صدور کس قدر اہمیت کے حامل ہوتے تھے یا جنرل سیکریٹری غریب لڑکوں کی فیس معاف کرانا، اگر یہ ممکن نہ ہوا تو چند اہم اور جائز لڑکوں کے لیے فنڈ جمع کرانا یا لڑکوں کے لیے کتابوں کا انتظام کرنا، گرلز کالجز میں بھی اسٹوڈنٹس یونین ان ہی کاموں میں مصروف رہتی تھیں، کیونکہ اگلے سال پھر انتخابات اور پھر ووٹ گویا ایک دائرہ تھا جو سال بھر پر محیط تھا، ہفتہ طلبہ ہوتا تھا تو کالجوں میں بھی بزم مباحثہ، بزم مشاعرہ، بیت بازی کا یوم، کھیل کا یوم، ڈرامے کا یوم، ورائٹی پروگرام وغیرہ وغیرہ۔

ٹرافیوں کا ایک کالج سے دوسرے کالج جانے کا حسین سفر تھا، اس کے علاوہ یونین کے بجٹ کو ہر شعبے میں تقسیم کرنا، سال بھر اس بجٹ سے لوگوں کا خیال رکھنا اور سب سے بڑھ کر ڈاؤ میڈیکل کالج جو اب یونیورسٹی ہے، اس کا احوال، پہلی لینڈنگ لائبریری ڈاکٹر جیسم پاشا نے قائم کی، کتابیں پہلے بہت مہنگی آتی تھیں، فوٹو کاپی مشین بھی 56/57 میں نہ آتی تھی، بڑی مشکلات تھیں طلبہ کو، بغیر کامرس پڑھے حساب کتاب پر عبور رکھنا یہ سب طلبہ کا ہی شعار تھا اور رہ گیا کسی لڑکے کو بے سبب مارنا پیٹنا تو یہ دستور طلبہ میں نہ تھا۔ پہلے برسہا برس بعد اگر کسی مخالف پارٹی کے رکن سے سڑک پر ملاقات ہوگئی تو پھر چائے پی یا پلائی کہ کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے، کالج گراؤنڈ، کھیل اور سیاست کی باتیں مگر اسٹوڈنٹس لیڈروں میں جو رہ گئے ان کی خدا حفاظت کرے کیونکہ وہ ایک بہت بڑی ایندھن کی بھٹی سے نکل کر آئے ہیں، جہاں جسمانی اور روحانی اذیت کا بازار گرم تھا۔


1958 سے 1969 تک ہر موج سفاک تھی، ہر لہر میں بجلی کا کرنٹ مگر بھٹو کے بعد جو موج بھی اٹھی میرے دریا سے، وہ آزادانہ تھی اس لیے آج اس قدر آزاد میڈیا کہلاتا ہے مگر بھلا کبھی بھی میڈیا نے طلبہ یونین کے انتخابات کی بات کی۔ آنے والی نسل اس تیز رفتار برقی راستوں پر رواں دواں زندگی کا ہمارا ملک کیا مقابل ہوسکے گا یا پھر ایسی لیڈر شپ پیدا ہوگی جو آئی ایم ایف کے سامنے بھی لب کشائی کی جرأت نہ رکھے گی۔ آئیے دیکھیے جنرل ضیا الحق کے بعد کتنے جمہوری دعویدار آئے اور واپس اپنے قصروں میں چلے گئے، پاکستانی حکومت کوئی بھی کر رہا ہو، کسی کے ذمے ہو مگر کالجوں کے انتخابات اور میونسپل کارپوریشن کے الیکشن ان دونوں چیزوں سے حکمران نظر اور جان بچا کے چلتے ہیں، یہ حکمران کبھی بھی طلبہ یونین پر یقین نہیں رکھتے ہیں، ان کا پہلا ہدف اسٹوڈنٹس ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ طلبہ نہایت حساس طبقہ ہیں اور قدیم راستوں کو چھوڑ کر جدت پسندی ان کو ہر بات میں پسند ہے، اس لیے دقت پسندی کو چھوڑ کر سرعت سے کام کرنے کے عادی ہیں۔

طلبہ انجمنوں کو فعال کرنے سے بعض اقسام کے کرپشن بھی کم ہو جائیں گے، کرپشن کے پھیلاؤ میں اسٹوڈنٹس یونین ایسے عناصر کو آڑے ہاتھ لیتی ہیں، رہ گیا یہ کہنا کہ طلبہ یونین کے الیکشن میں بد نظمی اور دھاندلی ہوگی سو وہ سب کچھ آج بھی ہو رہا ہے جس سے کل کا خوف طاری ہے۔ 5 برسوں میں تو پانچ انتخابات ہوچکے ہوتے نہ کہ 5 برس تک ملک میں جمہوری نظر بندی میں عوام مبتلا رہے، یہ بھی نہ معلوم ہوسکا کہ ندی نالوں کا کیا احوال ہے، لیاری ندی کس قدر پاٹ دی گئی ہے، بلدیاتی انتخابات کی بیل تو چڑھنے ہی نہیں دی گئی، اس کی بھی وہی وجہ ہے کہ اگر ابتدا میں میونسپل کارپوریشن سے میٹروپولیٹن الیکشن کی مسابقت کی دوڑ نہ لگائی جاتی تو یہ مسئلے پیدا نہ ہوتے مگر صوبائی اور قومی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دے کر ترقی کے نام پر بڑا دھبہ لگا دیا گیا ہے۔ ملک کے اس اہم مسئلے کو بھی زیر غور نہیں لایا گیا مگر طلبہ کا مسئلہ جتنا اہم ہے اس کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔

تعلیم کا سالانہ بجٹ تقریر کی نذر ہو رہا ہے، لیپ ٹاپ اور دیگر اقسام کی زاویہ نگاری طلبہ کو غیر معیاری معاملات میں الجھانے کے علاوہ کچھ نہیں، چونکہ طلبہ یونین اپنے عمل میں آزاد نہیں اور نہ ہی کوئی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے جاتا ہے۔ کراچی شہر میں 1950تا 1953ڈی ایس ایف موجود تھی، ڈی ایس ایف پر پابندی لگنے کے بعد این ایس ایف بنائی گئی، اسلامی جمعیت طلبہ، سلیم جہانگیر مرحوم کی بیداری طلبہ، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے کراچی اور ملک میں نمایاں کام کیے، بعدازاں کراچی میں اے پی ایم ایس او مگر فی الوقت اے پی ایم ایس او، اسلامی جمعیت طلبہ سرگرم عمل ہیں کوئی بھی تنظیم اس وقت تک طلبہ میں مقبول نہیں ہوسکتی جب تک وہ طلبہ کی امنگوں کی ترجمان اور ان کے مستقبل کی پاسبان نہ ہو، لہٰذا طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی قوت کو طلبہ برادری میں دوستانہ رکھیں اور طلبہ یونین کو ان کا تاریخی کردار ادا کرنے کے لیے حکومت سے مشورے کریں اور اپنی صفوں میں نظم و ضبط برقرار رکھیں، کیونکہ طالب علموں کے اتحاد کے بغیر فیسوں میں کمی اور غریب عوام کی اولاد کو وہ تعلیم ہرگز نہ مل سکے گی جس کی خواہش ان کے دل میں ہے۔
Load Next Story