ساتویں مردم شماری ماضی کی طرز پر کرنے کی منصوبہ بندی
1981 سے 2017 تک مستقل ایڈریس (dejure) کی بنیاد پر مردم شماری کی گئی جس سے کراچی سمیت اہم شہروں کی آبادی متاثر ہوئی
ملک میں ساتویں مردم شماری ماضی کی طرح مستقل رہائشی ایڈریس (dejure) کی بنیاد پر کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو نہ صرف قومی خزانے کے ضیاع کا سبب بنے گا بلکہ ایک بار پھر اس کے نتائج متنازع بنیں گے۔
پاکستان میں بین الاقوامی اصولوں کے بالکل برعکس 1981 سے 2017 تک dejure بنیادوں پر مردم شماری کی گئی جس سے ملک کے اہم شہروں کی آبادی متاثر ہوئی ہے بالخصوص ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی کو ہمیشہ گھٹا کر دکھا گیا ہے، چھٹی مردم شماری میں بھی کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60لاکھ ظاہر کی گئی ہے جسے سپریم کورٹ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے غلط قرار دیا ہے۔
آئی بی اے کے فیکلٹی ممبر ماہر اقتصادیات اور محقق عاصم بشیر خان کا کہنا ہے دنیا بھر میں مردم شماریdefectoبنیاد پر کی جاتی ہے یعنی جو انسان جہاں سکونت اختیار کرتا ہے اسے وہاں شمار کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ہونے والی مردم شماری کے موقع پرمستقل ایڈریس کی بنیاد پر کی جارہی ہے، یعنی کوئی شہری مردم شماری کے موقع پر کسی علاقے میں کئی سالوں سے رہائش پذیر ہے لیکن اس کے شناختی کار ڈ پر مستقل ایڈریس کسی دوسرے اضلاع یا صوبے کا درج ہے تو اسے مستقل ایڈریس والے علاقے میں شمارکیا جاتاہے، باوجود اس کے کہ وہ مردم شماری کے موقع پر اس علاقے میں موجود ہے جہاں وہ کئی برسوں سے برسرروزگار ہے۔
ادارہ شماریات کے ایک آفیسر نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملک میں ساتویں مردم شماری کے لیے منصوبہ بندی بھی dejure بنیادوں پر کی جارہی ہے، اس ضمن میں 5اکتوبرکو فیڈرل کابینہ کے اجلاس میں dejure بنیادوں پر مردم شماری کی منظوری دیدی گئی ہے جبکہ کونسل آف کامن انٹرسٹ سے اس کی منظوری لی جائے گی۔
متعلقہ آفیسر نے کہا کہ ماضی 1981، 1998 اور2017 میں ہونے والی مردم شماری بھی dejureیعنی مستقل ایڈریس کی بنیادوں پر کرائی گئی تھی جبکہ 1972کوہونے والی مردم شماری میں بھی ابہام پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی مسلسل کم ظاہر ہوئی ہے، اگرچہ کہ dejureکی پالیسی یہ ظاہر کی جاتی ہے کہ جو شہری چھ ماہ سے جہاں رہائش پذیر ہے اسے وہیں شمار کیا جاتا ہے لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے، کم ازکم کراچی کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ اگلی مردم شماری کیلیے23ارب روپے اخراجات آئیں گے اور رواں مالی سال 5ارب روپے مختص کردیئے گئے ہیں، نئی مردم شماری کا آغاز 2022میں ہونے جارہا ہے۔
ماہر اقتصادیات اور محقق عاصم بشیر خان کا کہنا ہے کہ اگر اس بار بھیdejure بنیاد یعنی مستقل رہائشی ایڈریس کی بنیاد پر مردم شماری کی گئی تو اس کی نتائج منصفانہ و شفاف نہیں ہونگے، مردم شماری 2017 کے موقع پر کچھ شہروں بالخصوص کراچی کے کئی بلاکس میں بہ ظاہر ادارہ شماریات کی ٹیمیں خانہ شماری و مردم کے لیے گھروں پر آئیں اور فارم بھی پر کیے لیکن عملی طور پر وہ گھر اور افرادکراچی میں شمار نہیں کیے گئے چونکہ ان کے مستقل ایڈریس کسی دوسرے صوبے کے تھے اس لیے انھیں وہاں شمار کیا گیا۔
عاصم بشیر خان نے کہا ہے کہ انھوں نے ایک ہزار 40حلقوں کا تجزیہ کیا ہے جہاں پر بعض حلقوں کے سینسز بلاکس میں خانہ شماری صفر اور آبادی بھی صفرکی گئی ہے جبکہ عملی طور پر اگر اس مقام کا مشاہدہ کیا جائے تو وہاں گھر اور افراد موجود ہیں اور کئی سال سے رہائش پذیر ہیں۔
واضح رہے کہ خانہ شماری کی بنیاد پر بلاکس کا تعین کیا جاتا ہے ایک بلاک کیلیے 200 سے 250 گھرانوں کا اصول بنایا گیا تھا۔
ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ سندھ میں 86 ایسے بلاک ہیں جن میں گھرانوں کی تعداد بھی صفر ہے اور آبادی بھی صفر،1981 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 54 لاکھ 37 ہزار984 تھی جس کی صحت اور اعداد و شمار پر کئی سوالیہ نشان تھے۔
علاوہ ازیں اس ضمن میں جماعت اسلامی نے وفاقی حکومت کی ساتویں مردم شماری کو dejureبنیادوں پر کرانی کی پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے 2017 کی مردم شماری dejureبنیاد پرکی جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی نصف ظاہر ہوئی، تحریک انصاف کی حکومت اگلی مردم شماری بھیdejureبنیادوں پر کرانے کیلیے جارہی ہے جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کے چیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ کچھ سیاسی جماعتوں اوراسٹیک ہولڈر زنے dejureپر اعتراض اٹھایا ہے اور defectoبنیادوں پر مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا ہے، اگرdefectoپر مردم شماری کرانے کے لیے جاتے ہیں توسیکیورٹی کی ضروریات اور بجٹ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، دنیا بھر میں dejure بنیادوں پر ہی مردم شماری کی جاتی ہے، defecto پر دنیا میں صرف ان ممالک میں مردم شماری کرائی جاتی ہے جہاں آبادی بہت کم ہے، پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہے جو defecto پر مردم شماری کرانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں بین الاقوامی اصولوں کے بالکل برعکس 1981 سے 2017 تک dejure بنیادوں پر مردم شماری کی گئی جس سے ملک کے اہم شہروں کی آبادی متاثر ہوئی ہے بالخصوص ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی کو ہمیشہ گھٹا کر دکھا گیا ہے، چھٹی مردم شماری میں بھی کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60لاکھ ظاہر کی گئی ہے جسے سپریم کورٹ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے غلط قرار دیا ہے۔
آئی بی اے کے فیکلٹی ممبر ماہر اقتصادیات اور محقق عاصم بشیر خان کا کہنا ہے دنیا بھر میں مردم شماریdefectoبنیاد پر کی جاتی ہے یعنی جو انسان جہاں سکونت اختیار کرتا ہے اسے وہاں شمار کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ہونے والی مردم شماری کے موقع پرمستقل ایڈریس کی بنیاد پر کی جارہی ہے، یعنی کوئی شہری مردم شماری کے موقع پر کسی علاقے میں کئی سالوں سے رہائش پذیر ہے لیکن اس کے شناختی کار ڈ پر مستقل ایڈریس کسی دوسرے اضلاع یا صوبے کا درج ہے تو اسے مستقل ایڈریس والے علاقے میں شمارکیا جاتاہے، باوجود اس کے کہ وہ مردم شماری کے موقع پر اس علاقے میں موجود ہے جہاں وہ کئی برسوں سے برسرروزگار ہے۔
ادارہ شماریات کے ایک آفیسر نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملک میں ساتویں مردم شماری کے لیے منصوبہ بندی بھی dejure بنیادوں پر کی جارہی ہے، اس ضمن میں 5اکتوبرکو فیڈرل کابینہ کے اجلاس میں dejure بنیادوں پر مردم شماری کی منظوری دیدی گئی ہے جبکہ کونسل آف کامن انٹرسٹ سے اس کی منظوری لی جائے گی۔
متعلقہ آفیسر نے کہا کہ ماضی 1981، 1998 اور2017 میں ہونے والی مردم شماری بھی dejureیعنی مستقل ایڈریس کی بنیادوں پر کرائی گئی تھی جبکہ 1972کوہونے والی مردم شماری میں بھی ابہام پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی مسلسل کم ظاہر ہوئی ہے، اگرچہ کہ dejureکی پالیسی یہ ظاہر کی جاتی ہے کہ جو شہری چھ ماہ سے جہاں رہائش پذیر ہے اسے وہیں شمار کیا جاتا ہے لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے، کم ازکم کراچی کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ اگلی مردم شماری کیلیے23ارب روپے اخراجات آئیں گے اور رواں مالی سال 5ارب روپے مختص کردیئے گئے ہیں، نئی مردم شماری کا آغاز 2022میں ہونے جارہا ہے۔
ماہر اقتصادیات اور محقق عاصم بشیر خان کا کہنا ہے کہ اگر اس بار بھیdejure بنیاد یعنی مستقل رہائشی ایڈریس کی بنیاد پر مردم شماری کی گئی تو اس کی نتائج منصفانہ و شفاف نہیں ہونگے، مردم شماری 2017 کے موقع پر کچھ شہروں بالخصوص کراچی کے کئی بلاکس میں بہ ظاہر ادارہ شماریات کی ٹیمیں خانہ شماری و مردم کے لیے گھروں پر آئیں اور فارم بھی پر کیے لیکن عملی طور پر وہ گھر اور افرادکراچی میں شمار نہیں کیے گئے چونکہ ان کے مستقل ایڈریس کسی دوسرے صوبے کے تھے اس لیے انھیں وہاں شمار کیا گیا۔
عاصم بشیر خان نے کہا ہے کہ انھوں نے ایک ہزار 40حلقوں کا تجزیہ کیا ہے جہاں پر بعض حلقوں کے سینسز بلاکس میں خانہ شماری صفر اور آبادی بھی صفرکی گئی ہے جبکہ عملی طور پر اگر اس مقام کا مشاہدہ کیا جائے تو وہاں گھر اور افراد موجود ہیں اور کئی سال سے رہائش پذیر ہیں۔
واضح رہے کہ خانہ شماری کی بنیاد پر بلاکس کا تعین کیا جاتا ہے ایک بلاک کیلیے 200 سے 250 گھرانوں کا اصول بنایا گیا تھا۔
ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ سندھ میں 86 ایسے بلاک ہیں جن میں گھرانوں کی تعداد بھی صفر ہے اور آبادی بھی صفر،1981 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 54 لاکھ 37 ہزار984 تھی جس کی صحت اور اعداد و شمار پر کئی سوالیہ نشان تھے۔
علاوہ ازیں اس ضمن میں جماعت اسلامی نے وفاقی حکومت کی ساتویں مردم شماری کو dejureبنیادوں پر کرانی کی پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے 2017 کی مردم شماری dejureبنیاد پرکی جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی نصف ظاہر ہوئی، تحریک انصاف کی حکومت اگلی مردم شماری بھیdejureبنیادوں پر کرانے کیلیے جارہی ہے جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کے چیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ کچھ سیاسی جماعتوں اوراسٹیک ہولڈر زنے dejureپر اعتراض اٹھایا ہے اور defectoبنیادوں پر مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا ہے، اگرdefectoپر مردم شماری کرانے کے لیے جاتے ہیں توسیکیورٹی کی ضروریات اور بجٹ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، دنیا بھر میں dejure بنیادوں پر ہی مردم شماری کی جاتی ہے، defecto پر دنیا میں صرف ان ممالک میں مردم شماری کرائی جاتی ہے جہاں آبادی بہت کم ہے، پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہے جو defecto پر مردم شماری کرانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔