مسئلہ کشمیر بھارت دانشمندی کا مظاہرہ کرے
حریت پسندوں نے بھارتی مداخلت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ریاست کا ایک تہائی حصہ آزاد کرانے میں کامیاب رہے
مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر تاریخ کا سب سے اہم اور پرانا نوحہ ہے، دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں پانچ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے حصے میں آئے جس کے بموجب کشمیر بھی پاکستان کو ملنا چاہیے تھا کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ بھی ایسا ہی سمجھتا تھا مگر ہندوستان نے برطانوی حکومت پر اپنے گہرے اثر و رسوخ کی بدولت پاکستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق نہیں ہونے دیا، ناچار کشمیریوں نے اکتوبر 1947ء میں پہلی مرتبہ اپنے حق کی خاطر ہتھیار اٹھائے اور مہاراجا کے سپاہیوں کو للکارا اور دارالحکومت سری نگری کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور صرف چند دنوں میں مظفر آباد کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور 24 اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر کے نام سے اپنی حکومت قائم کر لی، حالات کو بگڑتا دیکھ کر مہاراجا 25 اکتوبر 1947ء کو جموں بھاگ گیا کیونکہ اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک روز بہ روز طاقت پکڑتی جا رہی تھی، جموں پہنچ کر اس نے بھارت سے رابطہ کیا اور فوجی مدد مانگ لی جو بھارت کی جانب سے دوسرے ہی دن 27 اکتوبر سے فراہم ہونی شروع ہو گئی اس مدد کے نتیجے میں مہاراجا نے بھارت سے الحاق کا نام نہاد معاہدہ بھی کر لیا مگر یکم نومبر 1947ء کو قائد اعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات میں واضح کر دیا کہ ''کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیاد دھوکہ دہی اور تشدد پر رکھی گئی ہے۔
بہرحال حریت پسندوں نے بھارتی مداخلت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ریاست کا ایک تہائی حصہ آزاد کرانے میں کامیاب رہے، بھارت حریت پسندوں جدوجہد آزادی سے اس قدر خوف زدہ ہوا کہ اس نے اقوام متحدہ سے کشمیر میں رائے شماری کرانے کا وعدہ کر کے یکم جنوری 1949ء میں جنگ بندی کرا لی لیکن بھارت نے وعدہ خلافی کی اور وعدے کی تکمیل کے برعکس کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں لگ گیا اور اپنے آئین میں بذریعہ دفعہ 370 کشمیر کی ریاست کو امتیازی حیثیت دے دی اور ریاست پر اپنی گرفت مستحکم ہونے کے بعد اس نے اس دفعہ کے ذریعے کشمیر کو امتیازی حیثیت دینے والی شق اپنے آئین سے خارج کر دی اور یکم اگست 1953ء کو ریاست کے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ کو جیل میں ڈال دیا، جہاں انھیں پانچ سال تک قید رکھا گیا، بھارت نے مزید برآں کشمیر کو متنازع علاقہ مانتے رہنے سے انکار کر دیا اور اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا تب سے کشمیری حریت پسندوں کا مقابلہ کشمیر کے مہاراجا کے بجائے ہندوستان سے شروع ہو گیا لیکن ہندوستان کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو کی 2 نومبر 1947ء کی تقریر کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے اس تقریر میں نہرو نے کہا تھا ''ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ حتمی طور پر کشمیر کے عوام ہی کریں گے، ہم نہ صرف جموں اور کشمیر بلکہ تمام دنیا سے یہ وعدہ کر چکے ہیں اور مہاراجا نے اس کی حمایت کی ہے، ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ ہٹیں گے، جب امن و امان بحال ہو جائے تو ہم عالمی نگرانی میں، جیسے اقوام متحدہ، ریفرنڈم کرانے کے لیے تیار ہیں ہم چاہتے ہیں کہ یہ عوام کی جانب سے شفاف اور منصفانہ ریفرنس ہو اور ہمیں ان کا فیصلہ قبول ہو گا''۔
لیکن بھارت نے اپنے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کی تقریر کے برعکس کیا۔ اس نے مہاراجا کے ساتھ سازش کر کے نہ صرف کشمیر پر قبضہ کر لیا بلکہ ہولناک ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کر رکھی ہے اور مسلسل کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر پر اپنی ناجائز گرفت قائم رکھنے کی ضد میں بھارت نے پیہم نقصانات بھی اٹھائے ہیں 1965ء کی جنگ اسی وجہ سے ہوئی جس میں بھارت نے ہزیمت اٹھائی، اس کی بحریہ کا ہیڈکوارٹر، دوارکا تباہ ہو گیا، پھر اسے اپنی استطاعت سے بڑی فوج بنانی پڑی، سیاچن اور کارگل کے محاذ کھولنے اور ایٹم بم بنانے پڑے، بھارت اگر رائے شماری کرا دے تو اپنی ہولناک اور بیش قیمت جنگی و دفاعی تیاریوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت کو 2 جولائی 1972ء میں طے پانے والے شملہ معاہدے کی روشنی میں تمام تنازعات کو نمٹانے، مسئلہ کشمیر کے حتمی حل اور پائے دار امن کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے لیکن ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور وعدہ خلافی کی بدولت مسئلہ کشمیر مزید پیچیدہ اور گمبھیر ہوتا جا رہا ہے اور وہاں مظالم کی جو بھیانک تاریخ رقم ہو رہی ہے اس کا اقرار 19 مارچ 1998ء میں مقبوضہ کشمیر کے گورنر کرشا راؤ نے ان الفاظ میں کیا کہ ''بھارتی افواج کشمیر میں قتل عام کی ذمے دار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے''۔
پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہاں سے پاکستانی دریاؤں کو پانی ملتا ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اہل کشمیر خود پاکستان کا حصہ بننے کے دیرینہ خواہش مند ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں کی طرح رواں سال بھی پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف نیز پاکستان اور دنیا بھر میں روایتی جوش و خروش سے منایا گیا، جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں، انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی اور شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی نیز وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بھی یوم یکجہتی کشمیر پر آزاد جموں و کشمیر اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو ایک مرتبہ پھر کشمیر پر مذاکرات کے ذریعے کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ''مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہر تجویز زیر غور لانے کے لیے تیار ہیں، جب تک مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل نہیں ہو گا خطے میں کشمکش اور بے یقینی کی فضا برقرار رہے گی، مسئلہ کشمیر کے حل سے خطے میں امن قائم ہو گا، ترقی اور خوشحالی آئے گی، انھوں نے یقین دلایا کہ حکومت پاکستان کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف پر قائم ہے اور کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی جائے گی، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر پوری دنیا کو تشویش ہے انھوں نے واضح کیا کہ ''ہم اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں، آئیے نئے دور کا آغاز کریں''۔
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور بھارت کی طرح پاکستان بھی ایک عظیم ایٹمی قوت ہے اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک بھی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں اور روز اول کی طرح آج بھی کشمیریوں کی تحریک آزادی جاری ہے اور حریت پسند کشمیری کسی بھی قیمت اور کسی بھی صورت میں اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، ہندوستان کے لیے دانشمندی اسی میں ہے کہ وہ گاندھی جی کے ۔۔۔۔۔ ''فلسفہ عدم تشدد'' کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضد اور ہٹ دھرمی کو ترک کر کے پاکستان کی شہ رگ پر ظلم و بربریت کی تلوار چلانا اب بند کرے اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مذاکرات سے حتی الامکان و حتی المقدور فوری طور پر حل کرے اور خطے کی بقا، سلامتی اور ترقی میں مزید رکاوٹ نہ بنے، یقینی طور پر مستقبل قریب میں اس خطے کی خوشحالی کا تمام تر انحصار بھارت کے مثبت یا منفی رویوں پر ہے، میاں صاحب تو خطے میں قیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ساتھ ہر تجویز زیر غور لانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔