تعلیم ممکن ایک مثبت پیش رفت

ہماری تعلیم یا یونیورسٹیوں کے صنعت کے ساتھ کمزور رابطے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں


سلمان عابد January 11, 2022
[email protected]

PESHAWAR: اگرچہ بچوں اور بچیوں کی تعلیم کی بنیادی ذمے داری ریاست اور اس سے جڑے اداروں کی بنتی ہے کہ وہ ہر فرد کے تعلیم کے حق کو نہ صرف تسلیم کرے بلکہ اس پر عملدرآمد کے عمل کو یقینی بھی بنائے۔

پاکستان میں کئی بچے اور بچیاں ایسی ہیں جو اول پرائمری تعلیم سے ہی محروم ہیں اور اس کی مالی وجوہات سمیت دیگر سیاسی ، سماجی اور انتظامی وجوہات بھی ہیں ۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بھی بے شمار بچے اور بچیاں محض مالی وسائل نہ ہونے کے باعث اعلیٰ تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔خاص طور پر آج کے تعلیم اور کمرشل ازم کے دور میں ہمیں بچوں اور بچیوں کے اعلیٰ تعلیم کے مواقع محدود نظر آتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے بچے اور بچیاں گریجویشن یا ماسٹرز کی تعلیم کو مکمل کرنے کے بجائے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہوکر اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔کئی ہونہار بچے اور بچیاں ایسی موجود ہوتی ہیں جو واقعی آگے پڑھنا چاہتی ہیں مگر مالی وسائل کی کمی ان کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے سے روکتی ہے ۔

ایک زمانے میں سرکاری تعلیمی اداروں یعنی کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح پر تعلیمی فیس بہت کم ہوتی تھی مگر اب سرکاری اداروں کی سمسٹر پر مبنی فیسوں کا جائزہ لیں تو اس میں بھی ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ان ہی مسائل کا جائزہ لے کر اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قاسم علی شاہ فاونڈیشن نے بھی کام شروع کیا۔ اس نے طلبہ و طالبات کو تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ماہانہ بنیادوں پر اسکالر شپ پروگرام '' تعلیم ممکن '' کا آغاز کیا۔

اس فاونڈیشن کے مدارالمہام کی جانب سے کہا یہ گیا کہ اس پروگرام سے ایک طرف طلبہ و طالبات کی تعلیمی میدان میں تعلیمی ضرورت پوری ہوتی ہے وہیں ان کو عملی بنیادوں پر بہت سے مہارتوں کو سیکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے ۔ ماہرین طلبہ وطالبات کو مختلف تعلیمی یا تربیتی سیشن کے دوران مختلف صلاحیتوں کو سکھاتے بھی ہیں اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی دیتے ہیں۔

ان تربیتی سیشن میں بولنے، لکھنے اور سیکھنے کی مہارتیں ، تنازعات سے کیسے نمٹا جاتا ہے اور اپنے اندر ایسی کونسی صلاحیتوں کو پیدا کرنا چاہیے جو ان کے مستقبل کے لیے ضروری ہیں، کیسے یہ بچے اور بچیاں اپنے اندر موجود بہت سی اہم صلاحیتوں کو بنیاد بنا کر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں، وہ بچوں اور بچیوں کو اس انداز سے تربیت فراہم کرتے ہیں جس سے وہ مقابلہ کے امتحانات میں بھی حصہ لے سکیں۔ اس پروگرام میں بچوں اور بچیوں کی مختلف پروفیشن کے تناظر میں گروپ بندی کردی جاتی ہے تاکہ وہ ان ہی صلاحیتوں کو سیکھ سکیں جو ان کے لیے مستقبل کی ضرورت بنتے ہیں۔

اس '' تعلیم ممکن '' پروگرام میں لاہور کی چھ بڑی جامعات کو منتخب کیا گیا ہے جن میں پنجاب یونیورسٹی ، گورنمنٹ کالج اینڈ یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف ایجوکشن ، لاہورکالج اینڈ ویمن یونیورسٹی ،کالج آف ہوم اکنامکس یونیورسٹی ،انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور شامل ہیں۔ اس وقت دو سو سے زیادہ بی ایس پروگرام کے طلبہ وطالبات باقاعدگی سے اس پروگرام کا حصہ ہیں۔جو بھی اس پروگرام میں طالب علم منتخب ہوتے ہیں وہ نہ صرف اسکالر شپ حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کا تعلیمی ریکارڈ بھی شاندار ہوتا ہے ۔

مجھے بھی اس اہم پروگرام میں مختلف سیشن لینے کا موقع ملا اور بڑی خوشی ہوئی کہ جس انداز سے بچوں اور بچیوں کی تعلیمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی تربیتی عمل میں تیاری کروائی جاتی ہے وہ واقعی اہم پہلو ہے۔ اس ادارے کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے ہم بچوں اور بچیوں کو اپنے تربیتی عمل سے اس انداز سے تیار کریں کہ یہ لوگ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فوراً بہتر طور پر پروفیشنل کام کا حصہ بن سکیں ۔

بچوں اور بچیوں کے خیالات کو سنیں تو ان کے پاس بہت سے خواب ہیں یا آگے بڑھنے کی خواہشیں لیکن اصل چیلنج ان کے لیے مناسب طور پر گائیڈ لائن فراہم کرنا ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں نہ تو کیرئیر کونسلنگ ہوتی ہے اور نہ ہی ایسے مواقع دیے جاتے ہیں جو ان کو آگے بڑھنے میں مدد دے سکیں۔

اسی طرح ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہماری تعلیم یا یونیورسٹیوں کے صنعت کے ساتھ کمزور رابطے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں۔کیونکہ تعلیمی ادارے اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ صنعت کو کس قسم کے لوگ درکار ہیں اور کیا وہ ایسی صلاحیتیں ہیں جو صنعت کی ضرورت بنتی ہے۔بالخصوص جس انداز سے جو ڈیجیٹل دنیا میں انقلاب آیا ہوا ہے اس سے نئی نسل کیسے استفادہ کرسکتی ہے اور کیسے اس کی مدد سے اپنے لیے معاشی مواقعوں کو پیدا کرسکتی ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رسمی تعلیم کو مختلف مہارتوں کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھیں تو یہ عمل یقینی طور پر ان کی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ بہرحال '' تعلیم ممکن'' ایک اچھی کاوش ہے اور اس طرح کی کوششوں سے ایسے طالب علموں کو بہت زیادہ مدد ملتی ہے تو جو تعلیمی معاملات میں بہت کچھ اچھا کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر وسائل کی کمی کے باعث ان کو اپنے بہت سے خوابوں کو چھوڑ کر وہ کچھ کرنا پڑتا ہے جو وہ نہیں کرنا چاہتے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں