اصل اپوزیشن  

شہباز شریف مصلحت پسندی اور زرداری بالاتروں سے نرم رویہ اپنائے ہوئے ہیں


Muhammad Saeed Arain January 11, 2022
[email protected]

PESHAWAR: تحریک انصاف کی قیادت نے حکومت بناتے ہی ملک کی تینوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی طرف دوستانہ ہاتھ بڑھانے کے بجائے اپنا سیاسی دشمن سمجھا تھا کیونکہ وہ جب خود اپوزیشن میں تھے تب بھی ان تینوں ملک گیر جماعتوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے اور خود کو واقعی صادق و امین سمجھ کر کرپشن کے خلاف اپنی سیاسی مہم چلاتے رہے تھے۔

تحقیق کے بعد مولانا فضل الرحمن پر ایسا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تھا مگر تحریک انصاف والے ان پر مسلسل الزامات لگاتے رہے جس کے جواب میں مولانا کو بھی اپنا مخالفانہ رویہ برقرار رکھنے پر مجبور کیے رکھا اور ان کی یہ تنقید اب بھی جاری ہے۔ اپوزیشن کے مطابق 2018ء کے الیکشن میں مولانا کو ناکام بنایا گیا تھا جب کہ ان کے بھائی اور صاحبزادے قومی اسمبلی میں منتخب ہوئے تھے جو قومی اسمبلی میں جے یو آئی کی نمایندگی کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک اہم رکن کا کہنا ہے کہ انھوں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ وزیر اعظم منتخب ہو کر ایوان میں موجود مسلم لیگ (ن)، پی پی اور جے یو آئی قیادت کے پاس جا کر ان سے ملیں گے مگر عمران خان نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا تھا اور اپنا سابقہ رویہ برقرار رکھا تھا جس کے جواب میں انھیں وزیر اعظم بنتے ہی مخالفانہ نعرے سننے پڑے تھے۔

مولانا فضل الرحمن نے دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو حلف نہ اٹھانے کا جو مشورہ دیا تھا وہ دونوں نے نہیں مانا تھا جس پر جے یو آئی بھی حلف اٹھانے پر مجبور ہوئی تھی اور تین سال حکومت کا سیاسی انتقام بھگتنے کے بعد اب مسلم لیگ (ن) کو احساس ہو گیا ہے کہ اس وقت مولانا کا مشورہ درست تھا مگر پی پی سندھ کا اقتدار چھوڑنے کو سیاسی غلطی سمجھتی تھی اس لیے پی پی قیادت نے مولانا کی بات نہیں مانی تھی اور دو سال بعد مولانا کی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز پر مسلم لیگ (ن) رضامند ہوئی مگر پیپلز پارٹی نہیں مانی جب کہ مولانا شروع سے ہی پی ٹی آئی کی اکثریت اور حکومت کو تسلیم کرتے تھے اور نہ اب کرتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا مولانا فضل الرحمن نے پی پی سے زیادہ ساتھ دیا اور ان کی پی ٹی آئی حکومت کی بھرپور اور موثر کردار ادا کرکے مخالفت جتنی مولانا فضل الرحمن نے کی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا کسی اور اپوزیشن رہنما نے نہیں کی۔

مولانا نے 2020 میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور اسلام آباد میں اپنی جماعت کی طاقت سے جو دھرنا دیا تھا وہ مولانا کی تنہا سیاسی طاقت کا عملی مظاہرہ تھا جو حکومت میں شامل ایک جماعت نے اپنی اتحادی حکومت کو بچانے کے لیے مولانا سے مذاکرات کر کے ختم کرایا تھا اور دونوں بڑی پارٹیوں نے مولانا کے دھرنے کی برائے نام ہی حمایت کی تھی مگر عملی طور پر دونوں پارٹیاں دھرنے میں مولانا کا بھرپور ساتھ دیتیں اور2021 میں پیپلز پارٹی پی ڈی ایم نہ چھوڑتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔

مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ میں نہیں جب کہ میاں شہباز شریف اور آصف زرداری و بلال زرداری قومی اسمبلی میں موجود اور شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں جو حالیہ منی بجٹ پیش ہونے پر بھی تینوں قومی اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔

شہباز شریف مصلحت پسندی اور زرداری بالاتروں سے نرم رویہ اپنائے ہوئے ہیں جب کہ مولانا کا سیاسی کردار ان تینوں سے مختلف اور انفرادی طور پر اپوزیشن لیڈر کا ہے جس کی وجہ سے انھیں کے پی کے میں عمران خان کی 8 سال سے حکومت ہوتے ہوئے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں شاندار کامیابی ملی اور (ن) لیگ اور پی پی بہت پیچھے رہ گئیں اور تنہا مولانا نے پی ٹی آئی کا مقابلہ کیا اور ثابت کر دکھایا کہ ملک میں حکومت کے مدمقابل اصل اپوزیشن وہی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کے پی کے کے عوام کو مایوس کیا اور مولانا فضل الرحمن بازی لے گئے۔ اگر کے پی کے میں تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہو کر بلدیاتی الیکشن لڑتیں تو پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر نہ آتی اور ہر جگہ ہارتی۔ کے پی کے عوام نے ثابت کر دکھایا کہ ملک میں اصل اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن ہیں اور عوام نے جے یو آئی کو وفاق اور صوبوں میں کامیابی دلائی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔