بے گانگی ذات کیا ہے
اگر ہمارے سماج میں بے گانگی ذات نہ ہو تو لوگوں کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھتی جائیں گی
PESHAWAR:
اپنی ذات کو سماج سے الگ تھلگ کرنا یا ذات کو بے گانہ کرنا،بے گانگی ذات مختلف معنوں، عوامل اور اجزا میں نظر آئے گا۔ جب ایک مزدور ایک ہی کام روزانہ کرتے کرتے اکتا جاتا ہے تو اس کی کوئی تخلیق نہیں بلکہ کولہو کا بیل بن جاتا ہے۔
فرض کیجیے کہ ایک شومیکر یا موچی ہے جس کا کام ہے صرف جوتے کا اپر بنانا تو دوسرے کا کام ہے تلا بنانا اور تیسرے کا کام ہے ایڑی بنانا۔ کوئی مزدور یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ جوتا میں نے بنایا ہے۔ اس جوتے کے کئی حصے مختلف ہاتھوں سے الگ الگ بنائے جاتے ہیں اور ہر ایک مزدور ایک ہی کام کرتے کرتے اکتا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ مجبوراً کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے کہ اسے کھانے کے لیے روٹی چاہیے اور اس کے لیے کوئی محنت مزدوری تو کرنی ہے۔ جب ایک مزدور فیکٹری میں کام کرنے جاتا ہے تو اپنے آپ کو اس ادارے کا قیدی سمجھتا ہے اور جب چھٹی ہوتی ہے تو اپنے آپ کو آزاد تصور کرتا ہے۔ ان عوامل سے وہ اپنے آپ کو بے گانگی ذات میں دھکیل دیتا ہے۔
آئی ایم ایف سے حکومت معاہدہ کرتی ہے اس سے عوام پر کیا اثرات پڑتے ہیں؟ ابھی معاہدے پر عمل بھی نہیں ہوا کہ عوام پر یہ خوف طاری ہوجاتا ہے کہ ہرچیز کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ کل کیسے گزارا ہوگا، بچے کیا کھائیں گے، کیسے پڑھیں گے۔
یہ خوف ہی عوام کو اس کی ذات سے بے گانگی کی جانب لے جاتا ہے اور معاہدے پر عمل ہوتا ہے اور نرخوں میں اضافہ ہو جاتا ہے تو پھر وہ عملاً اس معاہدے کے نتائج بھگتے ہیں۔ انھیں اشیا خور و نوش کم مقدار میں خریدنا پڑتا ہے اس لیے کہ ان کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ جب یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے تو وہ یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ یہ تو نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔ کل کہیں گے کہ فاقہ کشی کی زندگی نہ گزارنی پڑے۔
اس خوف سے عوام یہ جاننا چاہیں گے کہ کل کیسے جئیں گے۔ اس لیے وہ سماج سے کٹا ہوا، خاندان سے کٹا ہوا اور اپنے آپ سے بے گانہ سمجھنے لگتا ہے۔ یہ بے گانگی ذات اسے خودکشی کی جانب لے جاسکتی ہے۔ جو بے روزگار ہوگا وہ ہمہ وقت بے گانگی ذات میں مبتلا رہے گا۔ اپنی ذات میں اس حد تک بے گانہ ہوجائے گا کہ بھوک مٹانے کے لیے سب کچھ کرسکتا ہے۔ یعنی چوری، چھینا جھپٹی، دھوکا دہی، فراڈ یہاں تک کہ اپنے اعضا فروخت کرنے کی حد تک جا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بے گانگی ذات انسان کو سب کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ پاکستان میں روزانہ ہزاروں موبائل فون، موٹرسائیکلیں، گاڑیاں اور رقوم چھن جاتی ہیں۔ پولیس چھاپے مارتی ہے، گرفتار کرتی ہے، عدالتیں سزا دیتی ہیں مگر ان عوامل میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ بے گانگی ذات کو ختم نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ حکومتیں اور سرمایہ دار و جاگیردار ایسے کرتوت کرتے رہتے ہیں کہ بے گانگی ذات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
جب پیٹ بھرنے کے لیے کوئی چوری کرتا ہے اور دوبارہ پھر کرتا ہے تو یہ کام کرتے کرتے اس کا عادی بن جاتا ہے۔ مگر یہ عوامل شروع ہی بے گانگی ذات سے ہوتے ہیں۔ بے گانگی ذات جب انتہا کو پہنچتی ہے تو پھر وہ نشے کا عادی ہو جاتا ہے، نشے کی حالت میں دنیا سے بے خبر اور مدہوشی کے عالم میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے باہر ہو جاتا ہے۔ اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔
اگر ہمارے سماج میں بے گانگی ذات نہ ہو تو لوگوں کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھتی جائیں گی۔ ہم تخلیق کرنے کے بجائے مسلسل ایک ہی کام میں جڑے رہتے ہیں۔ چونکہ بے گانگی ذات کے سامنے مجبور ہیں تو پھر تخلیق کیسے کریں گے؟
ہمیں یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ کل کیا ہوگا، کیا کھائیں گے، کیسے گزارا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ان مسائل سے چونکہ ہم نبرد آزما ہوتے ہیں اس لیے سماج سے کٹ جاتے ہیں۔ اجتماعی زندگی سے ناآشنا ہو جاتے ہیں اور اپنی ذات میں سب کچھ تلاش کرتے ہیں، آخرکار بے گانگی ذات کا شکار ہو کر انفرادی آزادی سے یکسر بے گانہ ہو جاتے ہیں۔
سماج کی اجتماعی زندگی سے بالکل الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو تنہا سمجھتے ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگیں گے اور اجتماعی زندگی گزارنے لگیں گے تو پھر ذاتی خوف سے بے بہرہ ہو جائیں گے۔ اجتماعی طاقت ہی ہماری اپنی طاقت ہوگی اور بے گانگی ذات سے آزاد ہو جائیں گے۔
آج دنیا میں سیکڑوں خطوں، ملکوں کے علاقوں میں کمیون اجتماعی نظام رائج کر رکھا ہے جہاں بے گانگی ذات سے لوگ ناآشنا ہیں۔ اجتماعی پیداوار کرتے ہیں اور مل بانٹ لیتے ہیں۔ کوئی ارب پتی ہے اور نہ کوئی گداگر۔ گداگر کوئی انسان تب ہی بنتا ہے جب اس کے کھانے کمانے کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ اگر ہر فرد کو اس کی ضرورت کے مطابق ہر اشیا میسر ہوگی تو پھر وہ کیوں بھیک مانگے گا۔
ہمارے ملک میں لاکھوں گداگر ہیں۔ اٹلی، ناروے، ہندوستان، میکسیکو، امریکا، فرانس وغیرہ میں بے شمار ملکوں کے مختلف خطوں میں کمیون نظام قائم ہیں۔ جہاں 100 فیصد لوگ خواندہ ہیں، سب مل کر اپنی اپنی بساط کے مطابق کام کرتے ہیں اور اپنی پیداوار کو ہر ایک اپنی ضرورتوں کے مطابق بانٹ لیتا ہے۔ وہاں کوئی بے گانگی ذات نہیں ہے۔ اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ اسے روزانہ ایک ہی کام کرنا ہے۔ آج مٹی کھودتا ہے تو کل وہ مٹی کھودنے کے بجائے دھان کاٹ سکتا ہے، بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ کسی کو کل کی فکر نہیں ہے۔
سب کے پاس رہنے کو جگہ موجود ہے۔ سب ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔بے گانگی ذات کا تصور تب جنم لے گا جب کوئی اپنے آپ کو تنہا سمجھنے لگے گا۔ اس بے گانگی ذات کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ اور چند لوگوں کے اقتدار کا خاتمہ ہو اور غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں آئے۔