ایک کہانی بڑی پرانی
گھوسٹ ملازمین اور گھوسٹ اسکولز کی اصطلاح اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ ایک عام کم پڑھا لکھا شخص بھی ان سے واقف ہو چکا ہے
ایک دوسرے کا مال ناحق کھانا اور رشوت کے طور پر اس ناجائز مال کو اپنے حاکموں کو، جن میں افسران بالا بھی آتے ہیں، پہنچانا شرعاً ناجائز ہے۔ اس طرح سے یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ اوپر کے کمیشن جو کہ ہمارے یہاں سرکاری دفاتر میں عام ہے کس حد تک ایک مسلمان کے لیے جائز ہو سکتے ہیں، لیکن اگر بات افسران بالا سے بھی بالا چلی جائے تو پھر۔۔۔
ہمارے یہاں افسران بالا کے خلاف کارروائیاں کس حد تک کارگر ثابت ہوتی ہیں یہ ہم کیا جانیں لیکن اسلام آباد میں ایک اسی قسم کے سرکاری کیس جس کی انکوائری اعلیٰ درجوں پر ہو رہی تھی ایک ایماندار محنتی افسر کا خون جسے خودکشی کر رنگ دینے کی کوششیں کی جاتی رہیں یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہاں عوام اور محنتی ایماندار افسران اور کارکنوں کا خون ارزاں قیمتوں پر دستیاب ہے اب کیا اور کہیے کہ اس راکھ میں ابھی بھی چنگاریاں بہت ہیں۔
ایک معمولی درجے سے لے کر اعلیٰ گریڈوں کی چکا چوند میں زندگی گزارنے والے لوگ کس طرح اوپر کی آمدنی سے خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اس آلودہ آمدنی سے نوازتے رہتے ہیں یہ ایک ایسا پہیہ ہے جسے روکنے کے لیے نجانے کہاں کہاں کس کس ادارے میں کس کس طرح سے جیمرز لگائے جائیں کہ کچھ تو اس پیسے کی گردش پر اثر پڑے ورنہ اگر اس کی رفتار بڑھتی ہی گئی تو کل کلاں یہ حرام آمدنی حلال آمدنی کے ساتھ بنا کسی رعایت اور جھجک کے وصول کی جائے گی اس قسم کی آمدنی سننے میں تو آیا ہے کہ ہمارے بہت سے عام بلز کے ذریعے وصول تو ہو رہی ہے اور ہم سب اسے ادا کر رہے ہیں اس پیسے کی گردش پر ہم کس طرح سے اپنے اعمال سے کسی قسم کا کنٹرول کر سکتے ہیں یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ کچھ عرصہ قبل ہی سرکاری تعلیمی محکموں کی اعلیٰ کارکردگی جس سے ہم سب واقف ہی ہیں کسی نیوز چینل سے کوئی پروگرام چلا جس میں شکایت کرنے والوں نے اپنے منہ کھول دیے بات حق بجانب تھی سب لوگوں میں فسانے بن گئے انگلیاں اٹھنے لگیں ذرا وقت گزرا باتیں اور پھیلیں اور پھر وقت گزرتا گیا باتیں دب گئیں لیکن جن لوگوں نے شکایتی انداز میں منہ کھولا تو سب کو فراغت کا نوٹس مل گیا۔ آخر کب تک اس افسر شاہی کے زہر کا لوگ نشانہ بنتے رہیں گے؟ شاید ابھی مزید وقت درکار ہے۔۔۔ برداشت کیجیے۔
گھوسٹ ملازمین اور گھوسٹ اسکولز کی اصطلاح اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ ایک عام کم پڑھا لکھا شخص بھی ان سے واقف ہو چکا ہے ان گھوسٹ ملازمین کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ہماری سرکار کے تقریباً تمام ہی اداروں میں ایسے بہت سے ملازمین ہیں جن کا یا تو سرے سے وجود ہی نہیں ہے یا ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہر مہینے تنخواہ تو وصول کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ان کے اداروں میں کام کیسے ہوتا ہے اس لیے کہ تنخواہیں انھیں گھر بیٹھے مل جاتی ہیں۔ اسی طرح سے بہت سے ملازمین وہ بھی ہیں جو لمبی لمبی چھٹیاں لے کر بیرون ملک رہ رہے ہیں ان میں خواتین اور مرد حضرات دونوں ہی شامل ہیں لیکن ان کے حصے کی تنخواہیں دوسرے حضرات یعنی محکمے کے ہی کرتا دھرتا باقاعدگی سے وصول کر رہے ہیں اس پر ان حضرات کو ہرگز اعتراض نہیں ہے اس لیے کہ نوکری کا پورا دورانیہ گزارنے کے بعد ایک بڑا حصہ وہ فراغت سے آ کر مختلف فنڈز کی صورت میں وصول کرتے ہیں ان میں بہت سے حضرات کے گریڈ سترہ تک کے ہیں جن کی تنخواہیں ہزاروں سے اوپر ہو رہی ہیں بنا حاضری کے نوکری میں یہ ترقی صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سرکاری اسکولوں میں جہاں عربی زبان کے لیے باقاعدہ اونچی اونچی تنخواہوں پر اساتذہ کو اپائنٹ کیا گیا لیکن مفت میں ملنے والی کتابیں اور بڑی لمبی چوڑی تنخواہیں پانے والے اساتذہ بے چارے اس حوالے سے سوالیہ نشان والی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، لیکن اب سب اس سرد مہری کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ مندی آنکھوں سے جمائیاں لینا بھی ایک پروفیشن بن چکا ہے۔
کراچی ہی کے ایک اعلیٰ تعلیمی عہدے پر فائز افسر اپنی بے ضابطگیوں کی وجہ سے دور دور تک مشہور ہیں لیکن ان کے دامن پر کتنے ہی چھینٹے بدعنوانیوں کے پڑے ہوں کس کو کسی کی فکر کہ ان کے خاندان والے دور دور تک اس اعلیٰ ظرف محکمے کے ملازمین ہیں اب اس خود غرضی کے دور میں کوئی اپنے غریب رشتہ داروں کو پوچھ لے بڑی بات ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس طرح وہ اعلیٰ افسر اپنی سرکاری نوکری سے بے انصافی کر رہے ہیں لیکن چلیے کسی لیول پر تو وہ اچھا کام کر رہے ہیں اب تھوڑی سی گاڑیوں اور تھوڑی سی ملازمتوں کے ہیر پھیر میں لاکھوں روپے ادھر سے ادھر ہو جائیں تو کسی کا کیا جاتا ہے آخر بھائی چارہ بھی کوئی چیز ہے جناب!
سنا ہے محکمہ صحت میں بھی گھوسٹ اور غیر حاضر ملازمین کے خلاف کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں چلیے اچھا ہے کچھ تو ہوتا۔ ورنہ سندھ میں کراچی تک کی تو پھر بھی خیر ہی ہے لیکن اندرون سندھ کے حوالے سے یہ صورت حال خاصی تکلیف دہ ہو جاتی ہے نوکریاں بانٹتے وقت اگر ملازمین سے ایک بانڈ بھی بھروا لیا جائے کہ ایک خاص مدت تک اپنی نوکری سے غیر حاضر رہنے پر نوکری سے برخاست کیا جا سکتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس گھوسٹ قسم کی اصطلاح سے چھٹکارہ مل جائے لیکن اس بانڈ پر بھی اگر ایک نئی کمیشن خوری شروع ہو جائے تو پھر۔۔۔؟
بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی اندھیر نگری چوپٹ راج۔ کچھ خاکہ سا ہے ذہن میں ہے کہ کسی محنت کش کا بیٹا محنت سے جی چراتا تھا جب کہ باپ اسے کہتا رہتا تھا کہ اگر پڑھو گے نہیں کام نہیں کرو گے ، یوں ہی سستی کاہلی میں وقت گزار دو گے تو تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ایک دن باپ کے طعنوں سے تنگ آ کر بیٹے نے فیصلہ کیا کہ وہ اس شہر کو ہی چھوڑ دے گا جہاں بنا کام کھانے کو نہیں ملتا اور نہ ہی آرام سے پڑ کر سویا جا سکتا ہے، اس کے کسی دوست نے اسے کسی ایسے شہر کے بارے میں بتایا تھا جہاں عیش ہی عیش تھے نہ کام نہ کاج۔ آرام سے سب کچھ بیٹھے بیٹھے آرام سے کھانے کو مل جاتا ہے اس نے اپنی چھوٹی سی پوٹلی اٹھائی اور نکل پڑا اس شہر کی تلاش میں بالآخر کسی نہ کسی طرح اسے وہ شہر شہر مل ہی گیا شہر کے دروازے میں داخل ہوا تو اس کا بڑا پرتپاک استقبال کیا گیا ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
کھانے کو بھی اعلیٰ اعلیٰ قسم کے پکوان اور پہننے کو شاندار لباس فراہم کیا گیا وہ لڑکا بہت خوش ہوا سب کچھ اس کی خواہشات سے بڑھ کر تھا، آرام سے کھایا پیا اور نرم بستر پر پڑ کر سو گیا۔ سو کر اٹھا پھر کھایا پیا اور شہر میں گھومنے پھرنے کا ارادہ کیا ادھر ادھر گھوما شہر میں رنگینی ہی رنگینی تھی اچانک اس نے دیکھا کہیں سے ایک قذاق آیا اور ایک آدمی کو خنجر سے وار کر کے یہ جا وہ جا، شور مچ گیا، سب لوگ جمع ہو گئے وہ بھی تماشہ دیکھنے کھڑا ہو گیا شہر کا داروغہ آیا سب سے پوچھ گچھ کی اور جب اس پر پہنچا تو پتہ چلا کہ وہ یہاں نووارد ہے بس یہی قاتل ہے داروغہ نے چیخ کر کہا سپاہی آئے اور اسے پکڑ لیا وہ چیختا رہا لیکن کسی نے ایک نہ سنی اور اسے جیل میں بند کر دیا تب لڑکے کو اپنے باپ کی باتیں یاد آئیں لیکن وقت گزر چکا تھا اس نے سر پیٹ لیا اس کی سمجھ میں یہ بات بہت دیر سے آئی کہ اس شہر کے بارے میں کیوں مشہور ہے اندھیر نگری چوپٹ راج۔ تب اسے اپنا شہر بہت یاد آیا جہاں روکھی سوکھی کھانے کو مل جاتی تھی لیکن کسی اور کے جرم کا الزام تو نہ لگتا تھا ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ کہانی فضول لگی ہو لیکن یہ عجیب ضرور ہے اس سے آپ ضرور اتفاق کریں گے۔
ہمارے یہاں افسران بالا کے خلاف کارروائیاں کس حد تک کارگر ثابت ہوتی ہیں یہ ہم کیا جانیں لیکن اسلام آباد میں ایک اسی قسم کے سرکاری کیس جس کی انکوائری اعلیٰ درجوں پر ہو رہی تھی ایک ایماندار محنتی افسر کا خون جسے خودکشی کر رنگ دینے کی کوششیں کی جاتی رہیں یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہاں عوام اور محنتی ایماندار افسران اور کارکنوں کا خون ارزاں قیمتوں پر دستیاب ہے اب کیا اور کہیے کہ اس راکھ میں ابھی بھی چنگاریاں بہت ہیں۔
ایک معمولی درجے سے لے کر اعلیٰ گریڈوں کی چکا چوند میں زندگی گزارنے والے لوگ کس طرح اوپر کی آمدنی سے خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اس آلودہ آمدنی سے نوازتے رہتے ہیں یہ ایک ایسا پہیہ ہے جسے روکنے کے لیے نجانے کہاں کہاں کس کس ادارے میں کس کس طرح سے جیمرز لگائے جائیں کہ کچھ تو اس پیسے کی گردش پر اثر پڑے ورنہ اگر اس کی رفتار بڑھتی ہی گئی تو کل کلاں یہ حرام آمدنی حلال آمدنی کے ساتھ بنا کسی رعایت اور جھجک کے وصول کی جائے گی اس قسم کی آمدنی سننے میں تو آیا ہے کہ ہمارے بہت سے عام بلز کے ذریعے وصول تو ہو رہی ہے اور ہم سب اسے ادا کر رہے ہیں اس پیسے کی گردش پر ہم کس طرح سے اپنے اعمال سے کسی قسم کا کنٹرول کر سکتے ہیں یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ کچھ عرصہ قبل ہی سرکاری تعلیمی محکموں کی اعلیٰ کارکردگی جس سے ہم سب واقف ہی ہیں کسی نیوز چینل سے کوئی پروگرام چلا جس میں شکایت کرنے والوں نے اپنے منہ کھول دیے بات حق بجانب تھی سب لوگوں میں فسانے بن گئے انگلیاں اٹھنے لگیں ذرا وقت گزرا باتیں اور پھیلیں اور پھر وقت گزرتا گیا باتیں دب گئیں لیکن جن لوگوں نے شکایتی انداز میں منہ کھولا تو سب کو فراغت کا نوٹس مل گیا۔ آخر کب تک اس افسر شاہی کے زہر کا لوگ نشانہ بنتے رہیں گے؟ شاید ابھی مزید وقت درکار ہے۔۔۔ برداشت کیجیے۔
گھوسٹ ملازمین اور گھوسٹ اسکولز کی اصطلاح اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ ایک عام کم پڑھا لکھا شخص بھی ان سے واقف ہو چکا ہے ان گھوسٹ ملازمین کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ہماری سرکار کے تقریباً تمام ہی اداروں میں ایسے بہت سے ملازمین ہیں جن کا یا تو سرے سے وجود ہی نہیں ہے یا ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہر مہینے تنخواہ تو وصول کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ان کے اداروں میں کام کیسے ہوتا ہے اس لیے کہ تنخواہیں انھیں گھر بیٹھے مل جاتی ہیں۔ اسی طرح سے بہت سے ملازمین وہ بھی ہیں جو لمبی لمبی چھٹیاں لے کر بیرون ملک رہ رہے ہیں ان میں خواتین اور مرد حضرات دونوں ہی شامل ہیں لیکن ان کے حصے کی تنخواہیں دوسرے حضرات یعنی محکمے کے ہی کرتا دھرتا باقاعدگی سے وصول کر رہے ہیں اس پر ان حضرات کو ہرگز اعتراض نہیں ہے اس لیے کہ نوکری کا پورا دورانیہ گزارنے کے بعد ایک بڑا حصہ وہ فراغت سے آ کر مختلف فنڈز کی صورت میں وصول کرتے ہیں ان میں بہت سے حضرات کے گریڈ سترہ تک کے ہیں جن کی تنخواہیں ہزاروں سے اوپر ہو رہی ہیں بنا حاضری کے نوکری میں یہ ترقی صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سرکاری اسکولوں میں جہاں عربی زبان کے لیے باقاعدہ اونچی اونچی تنخواہوں پر اساتذہ کو اپائنٹ کیا گیا لیکن مفت میں ملنے والی کتابیں اور بڑی لمبی چوڑی تنخواہیں پانے والے اساتذہ بے چارے اس حوالے سے سوالیہ نشان والی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، لیکن اب سب اس سرد مہری کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ مندی آنکھوں سے جمائیاں لینا بھی ایک پروفیشن بن چکا ہے۔
کراچی ہی کے ایک اعلیٰ تعلیمی عہدے پر فائز افسر اپنی بے ضابطگیوں کی وجہ سے دور دور تک مشہور ہیں لیکن ان کے دامن پر کتنے ہی چھینٹے بدعنوانیوں کے پڑے ہوں کس کو کسی کی فکر کہ ان کے خاندان والے دور دور تک اس اعلیٰ ظرف محکمے کے ملازمین ہیں اب اس خود غرضی کے دور میں کوئی اپنے غریب رشتہ داروں کو پوچھ لے بڑی بات ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس طرح وہ اعلیٰ افسر اپنی سرکاری نوکری سے بے انصافی کر رہے ہیں لیکن چلیے کسی لیول پر تو وہ اچھا کام کر رہے ہیں اب تھوڑی سی گاڑیوں اور تھوڑی سی ملازمتوں کے ہیر پھیر میں لاکھوں روپے ادھر سے ادھر ہو جائیں تو کسی کا کیا جاتا ہے آخر بھائی چارہ بھی کوئی چیز ہے جناب!
سنا ہے محکمہ صحت میں بھی گھوسٹ اور غیر حاضر ملازمین کے خلاف کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں چلیے اچھا ہے کچھ تو ہوتا۔ ورنہ سندھ میں کراچی تک کی تو پھر بھی خیر ہی ہے لیکن اندرون سندھ کے حوالے سے یہ صورت حال خاصی تکلیف دہ ہو جاتی ہے نوکریاں بانٹتے وقت اگر ملازمین سے ایک بانڈ بھی بھروا لیا جائے کہ ایک خاص مدت تک اپنی نوکری سے غیر حاضر رہنے پر نوکری سے برخاست کیا جا سکتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس گھوسٹ قسم کی اصطلاح سے چھٹکارہ مل جائے لیکن اس بانڈ پر بھی اگر ایک نئی کمیشن خوری شروع ہو جائے تو پھر۔۔۔؟
بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی اندھیر نگری چوپٹ راج۔ کچھ خاکہ سا ہے ذہن میں ہے کہ کسی محنت کش کا بیٹا محنت سے جی چراتا تھا جب کہ باپ اسے کہتا رہتا تھا کہ اگر پڑھو گے نہیں کام نہیں کرو گے ، یوں ہی سستی کاہلی میں وقت گزار دو گے تو تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ایک دن باپ کے طعنوں سے تنگ آ کر بیٹے نے فیصلہ کیا کہ وہ اس شہر کو ہی چھوڑ دے گا جہاں بنا کام کھانے کو نہیں ملتا اور نہ ہی آرام سے پڑ کر سویا جا سکتا ہے، اس کے کسی دوست نے اسے کسی ایسے شہر کے بارے میں بتایا تھا جہاں عیش ہی عیش تھے نہ کام نہ کاج۔ آرام سے سب کچھ بیٹھے بیٹھے آرام سے کھانے کو مل جاتا ہے اس نے اپنی چھوٹی سی پوٹلی اٹھائی اور نکل پڑا اس شہر کی تلاش میں بالآخر کسی نہ کسی طرح اسے وہ شہر شہر مل ہی گیا شہر کے دروازے میں داخل ہوا تو اس کا بڑا پرتپاک استقبال کیا گیا ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
کھانے کو بھی اعلیٰ اعلیٰ قسم کے پکوان اور پہننے کو شاندار لباس فراہم کیا گیا وہ لڑکا بہت خوش ہوا سب کچھ اس کی خواہشات سے بڑھ کر تھا، آرام سے کھایا پیا اور نرم بستر پر پڑ کر سو گیا۔ سو کر اٹھا پھر کھایا پیا اور شہر میں گھومنے پھرنے کا ارادہ کیا ادھر ادھر گھوما شہر میں رنگینی ہی رنگینی تھی اچانک اس نے دیکھا کہیں سے ایک قذاق آیا اور ایک آدمی کو خنجر سے وار کر کے یہ جا وہ جا، شور مچ گیا، سب لوگ جمع ہو گئے وہ بھی تماشہ دیکھنے کھڑا ہو گیا شہر کا داروغہ آیا سب سے پوچھ گچھ کی اور جب اس پر پہنچا تو پتہ چلا کہ وہ یہاں نووارد ہے بس یہی قاتل ہے داروغہ نے چیخ کر کہا سپاہی آئے اور اسے پکڑ لیا وہ چیختا رہا لیکن کسی نے ایک نہ سنی اور اسے جیل میں بند کر دیا تب لڑکے کو اپنے باپ کی باتیں یاد آئیں لیکن وقت گزر چکا تھا اس نے سر پیٹ لیا اس کی سمجھ میں یہ بات بہت دیر سے آئی کہ اس شہر کے بارے میں کیوں مشہور ہے اندھیر نگری چوپٹ راج۔ تب اسے اپنا شہر بہت یاد آیا جہاں روکھی سوکھی کھانے کو مل جاتی تھی لیکن کسی اور کے جرم کا الزام تو نہ لگتا تھا ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ کہانی فضول لگی ہو لیکن یہ عجیب ضرور ہے اس سے آپ ضرور اتفاق کریں گے۔