مٹھاس اُس جذبے کی
ایک دن خوب صورت ترین جذبے کے نام
14 فروری کو ویلنٹائن ڈے یا عالمی یوم محبت منایا جاتا ہے۔ اس دن کی روایات صدیوں پرانی بتائی جاتی ہیں، تاہم ہمارے ہاں اس تہوار کا سلسلہ زیادہ پرانا نہیں۔
اس دن کا شمار بھی انہی دنوں میں ہوتا ہے، جو ذرایع ابلاغ کے ذریعے ہم تک پہنچے اور تیزی سے رواج پائے۔ ہر معاشرے کی اپنی اقدار ہوتی ہیں اور اس کے رسم ورواج اسی کا عکس ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے معاشرے کی مناسبت سے بہت سے لوگ اس دن کومرد اورعورت کی محبت سے وسیع کر کے دیکھتے ہیں، بالخصوص والدین کی ایک بہت بڑی تعداد کا موقف یہ ہے کہ اسے سب سے محبت کا دن سمجھا جائے۔ محبت کسی ایک رشتے تک محدود نہیں۔ اس لیے یہ دن کسی ایک کے بہ جائے تمام عزیزوںکے نام ہونا چاہیے۔ یہ پُر حلاوت جذبہ زندگی کے لیے آکسیجن کی طرح ضروری ہے۔ اس جذبے پر ہماری بقا کا دارومدار ہے۔ محبت گویا ایک پہیے کی مانند ہے، جس پر یہ دنیا رواں دواں ہے۔ کوئی بھی انسان اس جذبے کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔
اس دن دنیا بھر میں اپنے چاہنے والوں کو کارڈز، چھوٹے چھوٹے خوب صورت تحائف اورسرخ گلاب دینے کا رواج ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس دن کی مناسبت سے بازاروں میں خصوصی اہتمام کیے جاتے ہیں۔ اس دن پھولوں اور گل دستوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی حال غباروں اورتحائف کا بھی ہوتا ہے، اس کے باوجود محبت کے شائقین یہ گراں قیمت چیزیں خرید کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک مغربی تحقیق کے مطابق مغربی ممالک میں خواتین کو اگر اس دن اپنے سرتاج کی جانب سے تحفہ نہ دیا جائے تو وہ سخت برا مناتی ہیں اور 50 سے 60 فی صد خواتین صرف اسی بنا پر ان سے علیحدگی تک کا سوچنے لگتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس دن ہر طرف محبت کا پرچار دیکھ کر نوجوانوں میں کسی محبوب کی کمی کا احساس انہیں نفسیاتی مسائل سے دوچار کر سکتا ہے۔ اس دن کا شمار سب سے زیادہ تنقید کا شکار ہونے والے تہواروں میں ہوتا ہے۔ اس دن پر بحث سے قطع نظر کسی کے لیے بھی محبت جیسے آفاقی جذبے سے نگاہیں چرانا ممکن نہیں ہے۔ یہ تو ہر اس فرد کا دن ہے، جس سے ہم پیار کرتے ہیں۔
خونی رشتوں کے ساتھ زندگی کا ایک رشتہ دوستی ہے، جس کی بنیاد ہی محبت پر استوار ہے۔ کسی سے بھی دوستی کا احساس ہونا اور پھر اس کا پروان چڑھنا ہمارے دل کے اسی تعلق کی دلیل ہے کہ ہم اس سے پیار کرتے ہیں۔ دوستی کا یہ ناتا اسی جذبے کی وجہ سے مضبوط تر ہے۔
اس دن نوجوان نسل بہت زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ کرتی ہے، لیکن محبت کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ اس لیے ہر عمر کا فرد اس دن کو منا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس دن اپنی زندگی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آج تک کس کس ہستی نے آپ سے محبت کی اور کیا آپ نے اس شخصیت سے محبت کا حق ادا کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کبھی آپ محبت کرنے والوں کو دکھ دینے کا باعث بنے ہوں۔۔۔ کبھی کسی کی بھلائی کا جواب دیتے ہوئے کہیں آپ کے قدم چوک تو نہیں گئے تھے۔۔۔ کہیں کسی سے اس پرخلوص تعلق کے درمیان انا کے بیج تو نہیں بو دیے گئے۔۔۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس دن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، آج اپنے چاہنے والوں کی محبت کا کھل کر اعتراف کیجیے۔ انہیں بتائیے کہ وہ بھی آپ کو بہت عزیز ہیں۔ دلوں کے بیچ حائل فاصلوں کو پاٹنے کے لیے آج کے دن کو خالی نہ جانے دیجیے۔ یاد رکھیے، محبت بہت اَن مول جذبہ ہے۔ بالخصوص آج کے دور کے لیے، جب ہمیں وقت ہی نہیں ملتا کہ محبت کی حلاوت کو صحیح طرح محسوس کر سکیں۔
اس دن کا شمار بھی انہی دنوں میں ہوتا ہے، جو ذرایع ابلاغ کے ذریعے ہم تک پہنچے اور تیزی سے رواج پائے۔ ہر معاشرے کی اپنی اقدار ہوتی ہیں اور اس کے رسم ورواج اسی کا عکس ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے معاشرے کی مناسبت سے بہت سے لوگ اس دن کومرد اورعورت کی محبت سے وسیع کر کے دیکھتے ہیں، بالخصوص والدین کی ایک بہت بڑی تعداد کا موقف یہ ہے کہ اسے سب سے محبت کا دن سمجھا جائے۔ محبت کسی ایک رشتے تک محدود نہیں۔ اس لیے یہ دن کسی ایک کے بہ جائے تمام عزیزوںکے نام ہونا چاہیے۔ یہ پُر حلاوت جذبہ زندگی کے لیے آکسیجن کی طرح ضروری ہے۔ اس جذبے پر ہماری بقا کا دارومدار ہے۔ محبت گویا ایک پہیے کی مانند ہے، جس پر یہ دنیا رواں دواں ہے۔ کوئی بھی انسان اس جذبے کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔
اس دن دنیا بھر میں اپنے چاہنے والوں کو کارڈز، چھوٹے چھوٹے خوب صورت تحائف اورسرخ گلاب دینے کا رواج ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس دن کی مناسبت سے بازاروں میں خصوصی اہتمام کیے جاتے ہیں۔ اس دن پھولوں اور گل دستوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی حال غباروں اورتحائف کا بھی ہوتا ہے، اس کے باوجود محبت کے شائقین یہ گراں قیمت چیزیں خرید کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک مغربی تحقیق کے مطابق مغربی ممالک میں خواتین کو اگر اس دن اپنے سرتاج کی جانب سے تحفہ نہ دیا جائے تو وہ سخت برا مناتی ہیں اور 50 سے 60 فی صد خواتین صرف اسی بنا پر ان سے علیحدگی تک کا سوچنے لگتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس دن ہر طرف محبت کا پرچار دیکھ کر نوجوانوں میں کسی محبوب کی کمی کا احساس انہیں نفسیاتی مسائل سے دوچار کر سکتا ہے۔ اس دن کا شمار سب سے زیادہ تنقید کا شکار ہونے والے تہواروں میں ہوتا ہے۔ اس دن پر بحث سے قطع نظر کسی کے لیے بھی محبت جیسے آفاقی جذبے سے نگاہیں چرانا ممکن نہیں ہے۔ یہ تو ہر اس فرد کا دن ہے، جس سے ہم پیار کرتے ہیں۔
خونی رشتوں کے ساتھ زندگی کا ایک رشتہ دوستی ہے، جس کی بنیاد ہی محبت پر استوار ہے۔ کسی سے بھی دوستی کا احساس ہونا اور پھر اس کا پروان چڑھنا ہمارے دل کے اسی تعلق کی دلیل ہے کہ ہم اس سے پیار کرتے ہیں۔ دوستی کا یہ ناتا اسی جذبے کی وجہ سے مضبوط تر ہے۔
اس دن نوجوان نسل بہت زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ کرتی ہے، لیکن محبت کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ اس لیے ہر عمر کا فرد اس دن کو منا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس دن اپنی زندگی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آج تک کس کس ہستی نے آپ سے محبت کی اور کیا آپ نے اس شخصیت سے محبت کا حق ادا کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کبھی آپ محبت کرنے والوں کو دکھ دینے کا باعث بنے ہوں۔۔۔ کبھی کسی کی بھلائی کا جواب دیتے ہوئے کہیں آپ کے قدم چوک تو نہیں گئے تھے۔۔۔ کہیں کسی سے اس پرخلوص تعلق کے درمیان انا کے بیج تو نہیں بو دیے گئے۔۔۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس دن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، آج اپنے چاہنے والوں کی محبت کا کھل کر اعتراف کیجیے۔ انہیں بتائیے کہ وہ بھی آپ کو بہت عزیز ہیں۔ دلوں کے بیچ حائل فاصلوں کو پاٹنے کے لیے آج کے دن کو خالی نہ جانے دیجیے۔ یاد رکھیے، محبت بہت اَن مول جذبہ ہے۔ بالخصوص آج کے دور کے لیے، جب ہمیں وقت ہی نہیں ملتا کہ محبت کی حلاوت کو صحیح طرح محسوس کر سکیں۔