افغانستان کی صورتحال

غلامی کی زنجیریں اصل میں معاشی ہوتی ہیں جو نظر نہیں آتیں

www.facebook.com/shah Naqvi

PESHAWAR:
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر امریکا کی جانب سے تجویز کردہ ایک قرار داد کو منظور کر لیا ہے جس کے تحت افغانستان کے لیے انسانی امداد کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

منظور کی گئی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ فنڈز کی ادائیگی دیگر مالیاتی اثاثوں یا اقتصادی وسائل اور امداد کی فراہمی بروقت یقینی بنانے یا ضروری سامان اور خدمات کی اجازت ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی امداد افغانستان میں بنیادی انسانی ضروریات سے متعلق ہے اور یہ طالبان سے منسلک اداروں پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

دوسری طرف اقوام متحدہ میں چین کے سفیر نے کہا کہ انسانی جان بچانے والی امداد افغان عوام تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچائی جائے۔ قرار داد واضح کر رہی ہے کہ انسانی امداد پابندیوں سے مستثنیٰ ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا کی درخواست اور سلامتی کونسل کی متفقہ حمایت ان خدشات کے پیش نظر کی گئی کہ افغان معیشت ملک میں نقد رقم کے بغیر تباہی کے دہانے پر ہے۔

امریکا کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی افغانستان کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کی میزبانی پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان پر او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس ہمارے مشترکہ عزم اور مستحقین کی مدد کے لیے اقدامات کی اہم مثال ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس اہم اجلاس کی میزبانی کرنے اور عالمی برادری کو افغانستان کے لوگوں سے تعاون جاری رکھنے کے لیے شرکت کی دعوت دینے پر ہم پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ نے افغان وزارت داخلہ کو سیکیورٹی کے لیے ساٹھ لاکھ ڈالر دینے کی تجویز دی ہے۔ یہ فنڈ یو این تنصیبات کی حفاظت پر مامور طالبان کی اجرتوں کے لیے دیا جائے گا۔ نہ صرف بلکہ اس فنڈ سے طالبان کا ماہانہ خوراک الاؤنس بھی مقرر کیا جائے گا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موجودہ افغان حکومت کی معاشی حالت کتنی کمزور ہے۔

امریکا کے نمایندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے کہا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال گزشتہ کئی سالوں کی خشک سالی اور خانہ جنگی کا نتیجہ ہے۔ اور بتایا کہ سال گزشتہ میں امریکا افغان عوام کی پچاس کروڑ ڈالر مدد کر چکا ہے۔


یاد رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس امریکی اور سعودی تعاون سے پاکستان میں منعقد ہوا۔ ورنہ یہ اجلاس کہیں اور بھی ہو سکتا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پلاک امریکا تعلقات پر جمی برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے۔ طالبان کے لیے لڑنا آسان ہے لیکن افغان طالبان معاشی اور سفارتی طور پر اس وقت امریکی شکنجے میں ہیں جس سے نکلنا ممکن نہیں۔

ویسے بھی اس وقت پوری دنیا چاہے سینٹرل ایشین ریاستیں ہوں یا چین، روس ، ایران ، پاکستان سب امریکا کی ہمنوا ہیں کہ جب تک افغان طالبان وسیع البنیاد حکومت انسانی حقوق اور خواتین کے حوالے سے عالمی مطالبات تسلیم نہیں کرتے ۔ ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ آج کی دنیا میں اصل آزادی معاشی آزادی میں چھپی ہوئی ہے۔

کوئی فرد، گروہ یا قوم اس وقت تک حقیقی معاشی آزادی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ معاشی طور پر خود مختار نہ ہو۔ پاکستان افغانستان کی کتنی مدد کر سکتا ہے جب کہ خود اپنا اس کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی مالیتی اداروں کے پاس اس کی معاشی آزادی، رہن رکھی جا چکی ہے۔ ایک طرف افغان معیشت کی تباہ کن صورتحال جہاں 95 فیصد عوام قحط سالی کا شکار ہیں دوسری طرف پاکستان کی دیوالیہ پن کو چھوتی ہوئی معیشت۔ دونوں کا حال برا ہے۔

اوپر سے افغان طالبان کی تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی۔ گزشتہ 20برسوں میں افغان بجٹ کا 75 فیصد حصہ امریکی امداد پر منحصر تھا۔ ہمارے وزیر اعظم نے غلامی کی زنجیریں توڑنے پر افغان طالبان کو مبارکباد دی۔ غلامی کی زنجیریں اصل میں معاشی ہوتی ہیں جو نظر نہیں آتیں۔ فرد یا گروہ یا قوم اگر معاشی طور پر آزاد نہیں تو یہ پھر نظر کا دھوکا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ افغان طالبان امریکا سے اپنی بقاء کے لیے نان جویں کے طلب گار ہیں۔

افغان طالبان اس ساڑھے نو ارب ڈالر کے طلبگار ہیں جو ان کا اثاثہ نہیں بلکہ امریکی امداد تھی۔ گزشتہ برس کے آخر میں افغان وزیر خارجہ تشریف لائے۔ فرمایا کہ ہم ایسا کیا کریں کہ امریکا ہماری حکومت کو تسلیم کر لے۔

کیا اسٹرٹیجک گہرائی کا خواب پورا ہو گیا۔ ابھی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر خوشگوار نہیں۔ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کا خاتمہ، اٹک تک سرحدوں کی توسیع ،ماضی میں پنجاب ، برصغیر پر حملے اب خواب ہی رہیں گے۔
Load Next Story