رشاد محمود تاریخ کی راہداریوں میں پہلا حصہ
وہ ان سب کے بارے میں گھنٹوں گفتگو کرسکتے ہیں اور اس پر طرز بیان ایسا کہ دل چاہے کہ وہ بولتے جائیں اور ہم سنتے رہیں
CANBERRA:
دنیا میں کیا صورتحال ہے ، اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی لیکن جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم اس وقت سیاسی، فکری، معاشرتی اور معاشی انتشار کے دور سے گزر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے نظریے سے والہانہ لگاؤ رکھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی ہورہی ہے۔
اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں ، یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ اس وقت ذہن میں اس خیال کے ابھرنے کی وجہ رشاد محمود بھائی کی کتاب ''مارکسزم اور آج کی دنیا '' ہے ، جس میں مختلف ادوار میں ان کے لکھے گئے مضامین کو بڑی خوبی سے یکجا کیا گیا ہے۔ ترقی پسند فکر پر ان کا غیر متزلزل یقین ہے۔
ان کی یاد داشت کمال کی ہے۔ وہ آج بھی 70، 80 سال پرانے سیاسی واقعات کا ذکر تمام تر جزئیات کے ساتھ اتنی تفصیل سے کرتے ہیں کہ سامع حیران رہ جاتا ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو دراصل ایک تاریخ بولتی ہے، ایک عہد آپ سے کلام کرتا ہے۔ یہ امر میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ انھوں نے پیش لفظ لکھنے کے لیے میرا انتخاب کیا تھا۔
رشاد صاحب کی نوجوانی کے دن بمبئی میں گزرے۔ سات جزیروں پر مشتمل اس علاقے پر سب سے پہلے پرتگیزیوں نے قبضہ کیا تھا۔ برطانیہ کے بادشاہ چارلس دوم نے جب پرتگال کی شہزادی انفانتا کیترینہ سے 1661 میں شادی کی تو یہ علاقہ تحفے میں بادشاہ کو دے دیا گیا۔ 1665 میں برطانیہ کے شاہی فوجی دستوں نے بمبئی پر براہ راست اپنا قبضہ جما لیا۔ یہ شہر تحریک آزادی کا گڑھ تھا۔
گاندھی سے لے کر جناح تک ان گنت سیاسی رہنماؤں نے اس شہر کو طویل عرصے تک اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے رکھا۔ یہ ہندوستان کا غالباً سب سے بڑا صنعتی شہر اور ٹیکسٹائل صنعت کا مرکز تھا۔ اسے ہندوستان کا مانچسٹر کہا جاتا تھا۔ یہاں ہندوستان کے بڑے صنعت کار رہا کرتے تھے جو آزادی کی تحریک کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ بمبئی میں صنعتی کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی اور ہزاروں محنت کش ملوں اور کارخانوں میں اپنی محنت فروخت کرتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ بمبئی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا گہرا اثر تھا۔ پارٹی کا مرکزی دفتر تو دہلی میں تھا لیکن سیاسی مرکز بمبئی تھا۔ 1908 میں یہاں مزدوروں کی ایک بہت بڑی ہڑتال ہوئی تھی جس کے بعد ٹریڈ یونین تحریک مضبوط ہوتی چلی گئی۔ بمبئی سے کئی سیاسی تحریکوں کا آغاز ہوا تھا جن میں '' ہندوستان چھوڑ دو '' کے علاوہ ''سول نافرمانی، ستیہ گرہ، سودیشی، کھڈی اور خلافت تحریک بہت نمایاں تھیں۔
اس وقت ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوگی جو مشہور و معروف '' جہازیوں کی بغاوت '' کے وقت نوجوان رہے ہوں گے۔ رشاد صاحب اس بغاوت کے نہ صرف چشم دید گواہ ہیں بلکہ انھوں نے اس کی سرگرم حمایت بھی کی تھی۔ 1946 میں ہونے والی یہ بغاوت 18 سے 25 فروری تک جاری رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی اور ہندوستانی فوجیوں میں اس بات پر شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا کہ انھیں اس جنگ کا ایندھن کیوں بنایا گیا تھا۔ مزید برآں، اس وقت ہندوستان میں آزادی کی تحریک بھی زوروں پر تھی اور فوجی بھی سیاسی طور پر اس کے حامی تھے۔
دہلی کے لال قلعہ میں سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کے لوگوں پر بغاوت کا مقدمہ چل رہا تھا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بمبئی سے شروع ہونے والی یہ بغاوت کراچی، کلکتہ، وشاکا پٹنم سمیت نیوی کے دیگر مراکز تک پھیل گئی اور اس میں زمینی اور ہوائی افواج کے سپاہی بھی شامل ہوگئے ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسے ختم کرانے کے لیے پنڈت نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔ اس تاریخی بغاوت کے واقعات رشاد صاحب انتہائی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
ایک اچھے اور بڑے انسان کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی مشکلات کو ہمیشہ پردے میں رکھتا ہے۔ تاہم، اس حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے کہ رشاد صاحب نے بمبئی میں انتہائی مشکل اور عسرت کی کیفیت میں زندگی بسر کی تھی۔
انھوں نے کڑی محنت کرکے اپنی گھریلو ذمے داریاں پوری کیں اور اس کے ساتھ ہی انقلابی مارکسی جدوجہد سے عملی وابستگی کے ذریعے اپنا تاریخی فریضہ بھی ادا کیا۔ ان کی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں ہم جیسے ان لوگوں کو ضرور جاننا چاہیے جو ذرا سا مشکل اور کٹھن وقت پڑنے پر گھبرا جاتے ہیں اور جدوجہد سے کنارا کرلیتے ہیں اور ایسا کرنے کی تاویلات بھی پیش کرتے ہیں۔
رشاد محض ایک فرد کا نام نہیں ، ان کے اندر ایک جہان آباد ہے، وہ ہندوستان کی ترقی پسند سیاست کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہیں ، جو معلومات کئی درجن کتابیں پڑھ کر بھی حاصل نہیں ہوتیں وہ ان سے چند گھنٹوں کی گفت گو میں مل جاتی ہیں۔ وہ بولتے ہیں اور تاریخ کے اوراق الٹتے جاتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کا ہندوستان کیسا تھا ، برطانیہ کی غلامی سے نجات پانے کے لیے کون سی تحریکیں چلیں، ان تحریکوں کی نظریاتی اساس کیا تھی ان کے رہنما اور سرگرم کارکن کون تھے۔ کمیونسٹ پارٹی نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں کیا کردار ادا کیا تھا اور پارٹی کی داخلی سیاست کی کیا صورتحال تھی۔
پارٹی کے مختلف رہنماؤں کے درمیان اختلافات کی نظریاتی وجوہ کیا تھیں، کس پارٹی رہنما کا تجزیہ درست اور کس کا غلط ثابت ہوا ، تقسیم ہند کے مسئلے پر پارٹی کا کیا موقف تھا ، اس حوالے سے پارٹی کے اندر کیا اختلافات پائے جاتے تھے، ان تمام معاملات کے بارے میں رشاد صاحب بڑی تفصیل سے وہ سب باتیں مکمل جزیات کے ساتھ بتاسکتے ہیں جو آپ کو کتابوں میں بھی مشکل سے ہی ملیں گی۔ زیادہ تر واقعات ایسے ہیں جن میں وہ شامل رہے ہیں یا وہ ان کے سامنے پیش آئے ہیں۔
تقسیم کے بعد پاکستان میں پارٹی کس طرح منظم کی گئی، پارٹی کے کون سے کارکن ترکِ وطن کرکے پاکستان آئے یا انھیں پاکستان روانہ کیا گیا ، اس کے بارے میں رشاد صاحب اتنا کچھ جانتے ہیں جتنا شاید آج کی پارٹی کے کسی نوجوان رہنما کو بھی معلوم نہیں ہوگا۔
ترقی پسند تحریک کے زیادہ تر سینئر رہنما جو اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں رشاد صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ ان تمام رہنماؤں کے بارے میں آپ کو کچھ جاننا ہوتو ادھر ادھر بھٹکنے اور پرانے اخبارات اور جرائد کی کاپیاں کھنگالنے کی ضرورت نہیں، رشاد صاحب کی خدمت میں حاضری دیں اور دنیا سے گزر جانے والے کامریڈوں کے بارے میں آپ وہ سب کچھ جان جائیں گے جن کا شاید آپ نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔
ترقی پسند ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ ترقی پسند ادب میں اعلیٰ مقام رکھنے والے تقریباً تمام ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں سے نہ صرف مل چکے ہیں بلکہ ان کی طویل صحبتوں سے خوب فیض بھی اٹھا چکے ہیں۔ وہ ان سب کے بارے میں گھنٹوں گفتگو کرسکتے ہیں اور اس پر طرز بیان ایسا کہ دل چاہے کہ وہ بولتے جائیں اور ہم سنتے رہیں۔
تحریک آزادی میں کون سے نعرے مزدوروں اور نوجوانوں میں بہت مقبول تھے، کارکن کن انقلابی ترانوں کو بڑے جذبے سے گایا کرتے تھے، کون سی نظمیں سب کو ازبر تھیں، کب لاٹھی چارج ہوا، کہاں گولی چلی، کون شہید ہوا، کسے زخم لگے، کون جیل گیا اور کس نے نعرے لگاتے ہوئے موت کو گلے لگایا، جو کوئی بھی یہ سب جاننے کی خواہش رکھتا ہو وہ رشاد صاحب کے گھر کا رخ کرے جس کے دروازے علم کی پیاس رکھنے والے ہرنوجوان کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
(جاری ہے)