سیاسی کھیل

کھیل کے سیاسی فریقین تبدیل ہوجاتے ہیں مگر کھیل کا رنگ وہی رہتا ہے جوہمیشہ سے ہماری نام نہادجمہوری سیاست کا خاصہ رہا ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی مجموعی سیاست اور جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ و ہ ہمیشہ سے پس پردہ قوتوں کے کھیل اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی مختلف نوعیت کی سیاسی ڈیل میں الجھی رہتی ہے ۔طاقت کے مراکز اور سیاسی فریقین کے درمیان سیاسی ڈیل کی آنکھ مچولی کا کھیل بھی سیاسی منظرنامہ پر ہمیشہ سے غالب رہا ہے ۔

فرق اتنا ضرور پڑتا ہے کہ کھیل کے سیاسی فریقین تبدیل ہوجاتے ہیں مگر کھیل کا رنگ وہی رہتا ہے جو ہمیشہ سے ہماری نام نہاد جمہوری سیاست کا خاصہ رہا ہے۔ پاکستانی سیاسی منظرنامہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی اور ان کی ڈیل کی خبریں گردش کررہی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس خدشہ کا اظہارکیا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لیے واپسی کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔

نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ ن اور ان کے حامی قبیلہ میڈیا میںکچھ دنوں سے اس بیانیہ کو طاقت دے رہا ہے کہ معاملات کافی حد تک طے ہوچکے ہیں ۔ ان کے بقول اسٹیبلیشمنٹ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور اس بحران سے نکلنے کے لیے ان کے پاس نواز شریف یا حزب اختلاف کے ساتھ مفاہمت یا ڈیل کے سوا کوئی آپشن نہیں۔جب کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی ڈیل سے انکار کر چکی ہے۔ اس کے برعکس آصف علی زرداری نے بھی یہ ہی اشارہ دیا ہے کہ ہم نے پس پردہ رابطوں کے جواب میں صاف کہا ہے کہ پہلے جن کو لائے تھے ان کو نکالیں پھر ہم بات چیت کریں گے اور متبادل سیاسی نظام بھی پیش کریں گے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مفاہمت یا سیاسی ڈیل کا طوفان میڈیا اور بالخصوص ہمیں سوشل میڈیا پر زیادہ غالب نظر آیا۔ڈیل کی خبریں دینے والوں میں بھی کچھ صحافی نمایاں ہیں۔ان کے بقول عمران خان کے مقابلے میں حزب اختلاف میں سے کسی کو اقتدار میں لانا پس پردہ قوتوں کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے اور اسی تبدیلی سے ریاستی بحران سے نمٹا جاسکتا ہے۔ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کچھ صحافی مسلم لیگ ن اور کچھ پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملات طے ہونے کا پیغام دے رہے ہیں۔


ایک سوال جو بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا واقعی سابق وزیر اعظم نواز شریف وطن واپس آرہے ہیں۔ یہ پہلو کافی تضاد کا شکار بھی ہے۔کیونکہ مسلم لیگی قیادت ان کی واپسی اور واپسی نہ ہونے پر دوعملی کا شکار ہے ۔

بعض مسلم لیگی رہنماؤں کے بیانات کو دیکھیں تو لگتا ہے اس مسئلہ پر خود ان کے اندر کچھڑی پک رہی ہے ۔ کیونکہ نواز شریف کی واپسی پر ہر کسی کا بیان ایک دوسرے سے مختلف بھی ہے اور تضاد پر مبنی بھی۔ مسلم لیگ ن میں کچھ لوگ ان کی واپسی کی تاریخیں اور کچھ لوگوں کے بقول ان کی واپسی موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتی۔

یہ بات بھی وزنی لگتی ہے کہ اگر واقعی نواز شریف نے واپس آنا ہے تو ان کی واپسی کسی مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ وہ کسی مفاہمت کے بغیر واپسی کے حامی نہیں۔اہم بات یہ ہے کہ سیاسی محاذ پر جو بھی ڈیل یا رابطوں یا سیاسی منتیں کرنے کی بات کررہا ہے وہ ان افراد کے نام بتانے کے لیے تیار نہیں۔مگر اس کھیل کو میڈیا میں ایک بڑی مہم جوئی کے طور پر پیش کرکے سیاسی ماحول میں یقینی طور پر ایک بڑے سیاسی تناؤ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔

ہمارے ایک صحافی دوست نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ نواز شریف واپسی پر پہلے جیل جائیں گے اور اس کے بعد ان کو قانونی ریلیف اور ان کی سابقہ سزاؤں کے بارے میں اپیلیں ہونگی اور لاہور ڈی جی نیب کی تبدیلی بھی اسی کھیل کا حصہ ہے ۔

لگتا ایسا ہے کہ ڈیل کی خبروں میں جتنا سیاسی مصالحہ لگایا جارہا ہے یا چائے کی پیالی میں جو طوفان ہے اس کی شدت یہ نہیں جو ہمیں دکھائی جا رہی ہے ۔کچھ معاملات میں تو ہمیں سیاسی تجزیہ سے زیادہ سیاسی خواہشات کا غلبہ زیادہ نظر آتا ہے اور یہ سمجھنا کہ اسٹیبلیشمنٹ بڑے بحران کا شکار ہوکر سیاسی فریقین کی بڑی منتیں کررہی ہیں بھی خوش فہمی کی عکاسی کرتا ہے۔
Load Next Story