شہباز شریف پر ایک اور سیاسی حملہ
حکومت کو دو سال بعد یاد آیا ہے کہ ضامن شہباز شریف ہیں اور ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے
LONDON:
وفاقی کابینہ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے خلاف میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر ضمانت دینے پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس حوالے سے تفصیل سے بات ہوئی اور کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات نے قوم اور میڈیا کو آگاہ کیا۔ نواز شریف کو بیرون ملک گئے اب دو سال سے زائد ہو گئے ہیں اور حکومت کو دو سال بعد یاد آیا ہے کہ ضامن شہباز شریف ہیں اور ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ دو سال کی تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کو تو ضمانت کی مدت ختم ہوتے ہی اگلے دن لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ دو سال کی تاخیر ظاہر کر رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
اب جب میاں نواز شریف نے وطن واپسی کا اعلان کر رکھا ہے اور ہر طرف ان کی واپسی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں منعقدہ ایک اجلاس میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر تفصیل سے غور ہوا۔ اس اجلاس کی جو کہانی میڈیا کو بتائی گئی اس میں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
افسوس کا اظہار کیا گیا کہ نواز شریف کے لیے راستے بنائے جا رہے ہیں۔ اس اجلاس اور اس سے باہر آنی والی خبریں ظاہر کر ہی ہیں کہ حکومت کو نواز شریف کی واپسی قبول نہیں ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ نواز شریف لندن ہی رہیں۔
دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ حکومت کا شہباز شریف پر تیسرا بڑا سیاسی حملہ ہو گا۔ دو دفعہ نیب شہباز شریف کو گرفتار کر چکی ہے۔ انھیں ایک طویل عرصہ جیل میں رکھا گیا ہے۔ جب شہباز شریف کو مائنس کرنے کا اسکرپٹ ناکام ہو گیا تو ایف آئی اے کو حرکت میں لایا گیا۔
ایف آئی اے سے بھی وہی کیس بنانے کی کوشش کی گئی جو پہلے نیب سے بنانے کی کوشش کی گئی۔ تا ہم حکومت کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب بھی ہدف نواز شریف نہیں بلکہ شہباز شریف ہیں۔ حکومت ساڑھے تین سال سے شہباز شریف کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں تقاریر ان کی جانب سے سی وی پیش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں عمران خان کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ شہباز شریف کی تقاریر کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ عمران خان جب سے وزیر اعظم بنے ہیں وہ مسلسل شہباز شریف کو اپنا متبادل سمجھتے ہیں۔ اسی لیے شہباز شریف کو ملک کے سیاسی منظر نامہ سے مائنس کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
میری رائے میں شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ جانے کا اعلان حکومت کی جانب سے آخری کوشش ہے۔ شاید حکومت کو بھی علم ہے کہ ان کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن پھر بھی حکومت آخری چانس لینا چاہتی ہے۔ شاید کچھ ہو جائے کے مصداق کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ ہم احتساب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آپ دیکھیں تو وہ کس ناکامی کی بات کر رہے ہیں۔ حکومت نے ان ساڑھے تین سال میں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ کسی پر اتنے مقدمات نہیں بنائے۔ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی کو بھی شکایت کی گئی'حکومت کو بہت امید تھی کہ وہ برطانیہ میں پھنس جائیں گے۔
لیکن یہ حملہ بھی ناکام ہو گیا۔ اور شہباز شریف اور سلمان شہباز کو وہاں سے بھی کلین چٹ مل گئی۔یہ حکومت کے لیے بڑی ناکامی تھی۔ کیونکہ اس پر کافی محنت کی گئی تھی۔ برطانیہ کی حکومت کو تمام چیزیں مہیا کی گئی تھیں۔ تا ہم کچھ بھی نہیں نکل سکا۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے حکومت کے تیار کردہ شواہد کو غلط قرار دے دیا۔
اسی دوران شہباز شریف کے خلاف برطانیہ میں میڈیا ٹرائل بھی کروایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بڑی مہم کی تیاری تھی۔ ایک کے بعد ایک خبریں آنی تھیں۔ لیکن پہلی خبر کے بعد ہی شہباز شریف نے برطانیہ میں متعلقہ میڈیا ہاؤس اور صحافی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ یہ مقدمہ اتنا مضبوط تھا کہ اس کے بعد کوئی بھی خبر چھاپنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ بلکہ جن کے خلاف مقدمہ کیا گیا ہے وہ بھی عدالت سے التوا پر التوا مانگ رہے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہوتا تو وہ پہلے دن ہی پیش کر دیتے اس طرح بار بار التوا نہ مانگتے۔ تا ہم شہباز شریف کے میڈیا ٹرائل کی مہم بھی ناکام ہوئی۔
شہباز شریف کو سیاسی طور پر ڈس کریڈٹ کرنے کے لیے بھی بہت کوشش کی گئی ہے۔ تمام حکومتی وزرا دو سال تک ن میں سے ش نکالنے کی گردان پڑھتے رہے۔ ہر پریس کانفرنس میں اعلان کیا جاتا کہ ن میں سے ش نکل رہی ہے۔ اس مہم کا مقصد بھی شہباز شریف کی پوزیشن اس قدر خراب کرنا تھا کہ وہ ن لیگ سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہ رہیں۔
یہ ایک مشکل حملہ تھا۔ شہباز شریف نے مفاہمت کی بات بھی کرنی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور لیڈروں کو یہ باور بھی کروانا تھا کہ ان کی سوچ کا مقصد پارٹی کو تقسیم کرنا نہیں ہے۔ بہر حال آج پارٹی میں مفاہمت کی سوچ مضبوط نظر آرہی ہے۔ اور ن لیگ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہونے پر بھی متفق نظر آرہی ہے۔ شاہد خاقان عباسی سمیت سب اعلان کر چکے ہیں شہباز شریف ہی ن لیگ میں سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ اس لیے یہ حکمت عملی بھی ناکام ہی نظر آئی ہے۔بلکہ اگر دیکھا جائے تو شہباز شریف کو اس کا فائدہ ہی ہوا ہے۔
حکومت کو شہباز شریف سے یہ بھی پریشانی ہے کہ بڑی مشکل سے اپوزیشن کو تقسیم کیا گیا تھا۔ پی ڈی ایم کو توڑا گیا تھا لیکن جیل سے رہائی کے بعد شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو دوبارہ متحد کر دیا ہے۔ساری اپوزیشن شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف مان رہی ہے اور ان کی سربراہی میں چلنے کے لیے تیار نظر آئی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی ان کے ساتھ چل رہی ہے۔ جو حکومت کے لیے پریشان کن ہے۔ اسی لیے شہباز شریف ہدف ہیں۔ اور ان کو مائنس کرنے کی بار بار کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وفاقی کابینہ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے خلاف میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر ضمانت دینے پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس حوالے سے تفصیل سے بات ہوئی اور کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات نے قوم اور میڈیا کو آگاہ کیا۔ نواز شریف کو بیرون ملک گئے اب دو سال سے زائد ہو گئے ہیں اور حکومت کو دو سال بعد یاد آیا ہے کہ ضامن شہباز شریف ہیں اور ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ دو سال کی تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کو تو ضمانت کی مدت ختم ہوتے ہی اگلے دن لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ دو سال کی تاخیر ظاہر کر رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
اب جب میاں نواز شریف نے وطن واپسی کا اعلان کر رکھا ہے اور ہر طرف ان کی واپسی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں منعقدہ ایک اجلاس میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر تفصیل سے غور ہوا۔ اس اجلاس کی جو کہانی میڈیا کو بتائی گئی اس میں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
افسوس کا اظہار کیا گیا کہ نواز شریف کے لیے راستے بنائے جا رہے ہیں۔ اس اجلاس اور اس سے باہر آنی والی خبریں ظاہر کر ہی ہیں کہ حکومت کو نواز شریف کی واپسی قبول نہیں ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ نواز شریف لندن ہی رہیں۔
دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ حکومت کا شہباز شریف پر تیسرا بڑا سیاسی حملہ ہو گا۔ دو دفعہ نیب شہباز شریف کو گرفتار کر چکی ہے۔ انھیں ایک طویل عرصہ جیل میں رکھا گیا ہے۔ جب شہباز شریف کو مائنس کرنے کا اسکرپٹ ناکام ہو گیا تو ایف آئی اے کو حرکت میں لایا گیا۔
ایف آئی اے سے بھی وہی کیس بنانے کی کوشش کی گئی جو پہلے نیب سے بنانے کی کوشش کی گئی۔ تا ہم حکومت کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب بھی ہدف نواز شریف نہیں بلکہ شہباز شریف ہیں۔ حکومت ساڑھے تین سال سے شہباز شریف کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں تقاریر ان کی جانب سے سی وی پیش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں عمران خان کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ شہباز شریف کی تقاریر کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ عمران خان جب سے وزیر اعظم بنے ہیں وہ مسلسل شہباز شریف کو اپنا متبادل سمجھتے ہیں۔ اسی لیے شہباز شریف کو ملک کے سیاسی منظر نامہ سے مائنس کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
میری رائے میں شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ جانے کا اعلان حکومت کی جانب سے آخری کوشش ہے۔ شاید حکومت کو بھی علم ہے کہ ان کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن پھر بھی حکومت آخری چانس لینا چاہتی ہے۔ شاید کچھ ہو جائے کے مصداق کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ ہم احتساب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آپ دیکھیں تو وہ کس ناکامی کی بات کر رہے ہیں۔ حکومت نے ان ساڑھے تین سال میں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ کسی پر اتنے مقدمات نہیں بنائے۔ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی کو بھی شکایت کی گئی'حکومت کو بہت امید تھی کہ وہ برطانیہ میں پھنس جائیں گے۔
لیکن یہ حملہ بھی ناکام ہو گیا۔ اور شہباز شریف اور سلمان شہباز کو وہاں سے بھی کلین چٹ مل گئی۔یہ حکومت کے لیے بڑی ناکامی تھی۔ کیونکہ اس پر کافی محنت کی گئی تھی۔ برطانیہ کی حکومت کو تمام چیزیں مہیا کی گئی تھیں۔ تا ہم کچھ بھی نہیں نکل سکا۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے حکومت کے تیار کردہ شواہد کو غلط قرار دے دیا۔
اسی دوران شہباز شریف کے خلاف برطانیہ میں میڈیا ٹرائل بھی کروایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بڑی مہم کی تیاری تھی۔ ایک کے بعد ایک خبریں آنی تھیں۔ لیکن پہلی خبر کے بعد ہی شہباز شریف نے برطانیہ میں متعلقہ میڈیا ہاؤس اور صحافی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ یہ مقدمہ اتنا مضبوط تھا کہ اس کے بعد کوئی بھی خبر چھاپنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ بلکہ جن کے خلاف مقدمہ کیا گیا ہے وہ بھی عدالت سے التوا پر التوا مانگ رہے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہوتا تو وہ پہلے دن ہی پیش کر دیتے اس طرح بار بار التوا نہ مانگتے۔ تا ہم شہباز شریف کے میڈیا ٹرائل کی مہم بھی ناکام ہوئی۔
شہباز شریف کو سیاسی طور پر ڈس کریڈٹ کرنے کے لیے بھی بہت کوشش کی گئی ہے۔ تمام حکومتی وزرا دو سال تک ن میں سے ش نکالنے کی گردان پڑھتے رہے۔ ہر پریس کانفرنس میں اعلان کیا جاتا کہ ن میں سے ش نکل رہی ہے۔ اس مہم کا مقصد بھی شہباز شریف کی پوزیشن اس قدر خراب کرنا تھا کہ وہ ن لیگ سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہ رہیں۔
یہ ایک مشکل حملہ تھا۔ شہباز شریف نے مفاہمت کی بات بھی کرنی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور لیڈروں کو یہ باور بھی کروانا تھا کہ ان کی سوچ کا مقصد پارٹی کو تقسیم کرنا نہیں ہے۔ بہر حال آج پارٹی میں مفاہمت کی سوچ مضبوط نظر آرہی ہے۔ اور ن لیگ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہونے پر بھی متفق نظر آرہی ہے۔ شاہد خاقان عباسی سمیت سب اعلان کر چکے ہیں شہباز شریف ہی ن لیگ میں سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ اس لیے یہ حکمت عملی بھی ناکام ہی نظر آئی ہے۔بلکہ اگر دیکھا جائے تو شہباز شریف کو اس کا فائدہ ہی ہوا ہے۔
حکومت کو شہباز شریف سے یہ بھی پریشانی ہے کہ بڑی مشکل سے اپوزیشن کو تقسیم کیا گیا تھا۔ پی ڈی ایم کو توڑا گیا تھا لیکن جیل سے رہائی کے بعد شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو دوبارہ متحد کر دیا ہے۔ساری اپوزیشن شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف مان رہی ہے اور ان کی سربراہی میں چلنے کے لیے تیار نظر آئی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی ان کے ساتھ چل رہی ہے۔ جو حکومت کے لیے پریشان کن ہے۔ اسی لیے شہباز شریف ہدف ہیں۔ اور ان کو مائنس کرنے کی بار بار کی کوشش کی جا رہی ہے۔