مری میں موت کا رقص
کاروباری لوگوں خاص کر ہوٹل مالکان نے انسانی المیے میں جس بے حسی کا مظاہرہ کیا وہ قابل نفرت اور قابل سزا ہے
LONDON:
روئے، چیخے، کانپے، تڑپے، آہ بھر کے مر گئے
کتنے سپنے برف خانے میں ٹھٹھر کے مر گئے
دوش دیتے کس کو اپنے قتل کا معصوم لوگ
خود پہ اپنی موت کا الزام دھر کے مر گئے
مری میں پیش آنے والے المیے نے دل دہلا کر رکھ دیا ہے۔ جنت نظیر وادی درجنوں انسانوں کے لیے موت کی آغوش بن گئی۔ شدید برفباری اور رش میں پھنس کر تادم تحریر درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے، ہزاروں گاڑیاں برف میں پھنس گئیں۔ برفباری میں پھنسے افراد کی آوازیں انتظامیہ تک ضرور پہنچی لیکن نااہل انتظامیہ متاثرہ افراد تک نہیں پہنچی، لوگ 20 گھنٹے تک آسمان سے برستی برف میں پھنسے رہے، ہیوی سنو فال نے مشکلات میں اضافہ کردیا، گاڑیاں کئی کئی فٹ برف میں دھنس گئیں۔
گاڑیوں میں پناہ لیے بے بس افراد حکومتی امداد کے انتظار میں بیٹھے رہے، مگر انتظامیہ نہیں موت آن پہنچی، سیاح گاڑیوں میں دم توڑ گئے۔ ایک گاڑی میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد مردہ پائے گئے جب کہ ایک گاڑی میں 4 دوستوں کو موت نے ایک ساتھ آن دبوچا۔ اگلی صبح ریسکیو اہلکاروں نے گاڑیوں کے دروازے کھولے تو اندر لوگوں کی لاشیں ملیں۔
جس گاڑی سے 8 لاشیں ملیں اس میں جاں بحق افراد میں اے ایس آئی نوید اقبال، ان کی تین بیٹیاں، بیٹا، بہن، بھانجی اور بھتیجا شامل تھے، نوید اقبال کی اپنے محکمے کے دوستوں سے رابطے کی آخری وائرل کال حکمرانوں کے منہ پر تھپڑ برساتی رہے گی اور ان کے عزیز و اقارب کے دل جلاتی رہے گی۔ ایک دوسری گاڑی جس میں چار دوستوں کی لاشیں ملیں، موت سے پہلے ان دوستوں نے برف پر سیلفی بھی لی تھی جو ان کی زندگی کی آخری سیلفی ثابت ہوئی۔ یہی سلفی ان سب کے ماں باپ کو رلاتی رہے گی، سوشل میڈیا کے ذریعے مرنے والوں کی ویڈیوز جس نے بھی دیکھی ان کے دل لرز گئے ہوں گے۔
اتنے بڑے حادثے کا نوحہ کیسے لکھوں؟ یہ سانحہ حکومت کی نااہلی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ حالیہ مسلسل اور شدید برفباری کا ریڈ الرٹ محکمہ موسمیات پہلے دے چکا تھا، پہلا الرٹ 31دسمبر اور دوسرا پانچ جنوری کو جاری کیا گیا۔ اطلاع کے باوجود حکومت اور انتظامی اداروں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا حالانکہ یہ متوقع تھا کہ مری موت کی وادی ثابت ہوسکتی ہے مگر سیاحوں کو موت کے منہ میں جانے سے نہیں روکا گیا۔ گاڑیاں مری میں دھڑا دھڑ آتی رہیں اور رش کی وجہ سے لوگ اپنی گاڑیاں بیچ سڑک چھوڑ کرچلے جاتے رہے۔
کوئی انھیں روکنے والا تھا نہ کوئی گاڑیاں ہٹانے والا۔ جس رات یہ المیہ پیش آیا موسم کی خرابی کے باعث اس رات مری میں بجلی کی فراہمی بند ہوگئی جس سے حالات کی سنگینی مزید بڑھ گئی۔ انتظامیہ کو اس بات کی خبر تھی کہ گاڑیوں میں پھنسے لوگوں کے ساتھ معصوم بچے بھی ہیں اور ان کے پاس کھانے پینے کے لیے سامان تک نہیں ہے مگر کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔
وفاقی وزیر فوادچوہدری نے 5 جنوری کو اپنے ٹوئٹ میں ایک لاکھ گاڑیوں کے مری میں داخلے اور کرایوں کے کئی گنا بڑھ جانے کو خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کا نتیجہ قرار دیا تھا مگر اس سانحے کے بعد کسی وزیر نے شرمندگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کسی نے ذمے داری قبول کی۔ یہ المیہ کسی اور ملک میں ہوتا تو متعلقہ وزیر استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جاتا اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب ذمے داران کو نشان عبرت بنا دیا جاتا۔ اللہ خیر کرے وزیر اعظم نے ایک بار پھر نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، ایسے احکامات اور ان احکامات کی روشنی میں ہونے والے ایکشن کتنے سنجیدہ اور مؤثر ہوتے ہیں یہ قوم کو پتہ ہے۔
اتنے بڑے سانحہ میں جہاں حکومت نے غفلت کی وہاں مقامی ہوٹل مالکان اور میڈیا نے بے حسی اور سیاحوں نے بے وقوفی کا مظاہرہ کیا۔اس بار میڈیا نے برفباری کو ایسے افسانوی رنگ میں پیش کیا اور تبدیلی سرکار نے اس پر شادیانے بجائے جس کی وجہ سے لوگوں کا جم غفیر امنڈ آیا۔ اگر میڈیا اور صحافتی طبقہ موسم کی حساسیت کے پیش نظر حفاظتی انتظامات، تدابیر یا موسم کی شدت کے باعث سیاحوں کو فی الحال نہ آنے کے بارے میں آگاہی دیتے رہتا تو شاید اس نقصان میں کمی آجاتی۔
مبینہ طور پر اس رات ہوٹل والوں نے ایک کمرے کا کرایہ 50 ہزار تک کردیا تھا جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں نے گاڑی میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ حکومتی نااہلی، بے حسی، انتظامی لاپروائی اور ہوٹل والوں کی کاروبار کو ترجیح انسانیت کو لے ڈوبی۔ میکڈونلڈ مری میں بھی سیکڑوں سیاحوں موجود تھے مگر یہاں صورت حال اور رویہ بالکل مختلف تھا۔ میکڈونلڈز کے ڈائریکٹر جمیل مغل کی ہدایت پر ریسٹورنٹ منیجر نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریسٹورنٹ ساری رات کھلا رکھا۔
مصیبت کے اس موقع پر مقامی ہوٹل مالکان جہاں مصیبت زدہ سیاحوں کو لوٹ رہے تھے وہاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے اپنی برانچ 48 گھنٹے کھلا رکھی، سیاحوں کو کافی، چائے اور کھانے پینے کی اشیاء اور بچوں کا دل بہلانے کے لیے گفٹ دیتے رہے۔ میکڈونلڈ میں موجود یونیسف کی ٹیم میں موجود ڈاکٹروں نے وہاں باقاعدہ ایک میڈیکل کیمپ لگایا اور لور ٹوپا کے قریب ایئر فورس کے ریسکیو کیمپ کے ذمے داران کو یونیسف کے ڈاکٹرز نے اپنے ایمرجنسی میڈیکل کیمپ کے لیے ضروری ادویات کی لسٹ دی اور تمام ضروری ادویات ایئرفورس والوں نے مہیا کیں تو یونیسف کے ڈاکٹرز نے میکڈونلڈ میں موجود اور آس پاس کے متاثرہ سیاحوں خاص کر خواتین اور بچوں کو ابتدائی طبی امداد مہیا کی۔
یونیسف ٹیم اور میکڈونلڈ نے مل کر ایک قابل تقلید مثال قائم کی۔ ماضی میں جب بھی ہنگامی صورتحال پیش آئی چاہے سیلاب ہوا یا زلزلہ تو پاک فوج کے جوان اور افسران سب سے پہلے موقع پر پہنچے اور اپنے وسائل اور تجربے کی وجہ سے سب سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ اگر فوج کو ایک دن پہلے بلایا گیا ہوتا تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ مگر مدہوش تبدیلی سرکار نے صورتحال بگڑنے کے بعد اسے بلایا۔ جیسے ہی فوج آئی تو صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی۔
حکومتی ذمے داران، وزرا اور کاروباری لوگوں خاص کر ہوٹل مالکان نے انسانی المیے میں جس بے حسی کا مظاہرہ کیا وہ قابل نفرت اور قابل سزا ہے مگر اس سانحہ کے دوران چند حوصلہ افزا اور مثبت خبریں بھی ملیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ اکثر سیاحتی مقامات پر مقامی لوگ بھی کمرشل، کاروباری اور بے حس ہوجاتے ہیں مگر مری کے کچھ رہائشیوں نے جس طرح اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر سیاحوں کی خدمت اور مدد کی وہ قابل تحسین ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب، وفاق المدارس العربیہ کے صدر مفتی تقی عثمانی اور جنرل سیکریٹری قاری حنیف جالندھری نے مری اور گلیات کے تمام مدارس کے منتظمین اور جمعیت کے ذمے داران کو ہدایت کی ہے کہ وہ مدارس ومساجد کو ریسکیو سینٹر بنا دیں، مساجد ومدارس کے دروازے بلا تفریق مذہب اور قومیت تمام سیاحوں کے لیے کھول دیں۔
جس وقت تمام ہوٹل سیاحوں کو لوٹ رہے تھے، تبدیلی سرکار کے وزرا اور اپوزیشن کے سیاست دان اپنی سیاسی دکانداری چمکانے اورٹویٹر پر تبصروں میں مصروف تھے اس وقت مساجد و مدارس ریسکیو سینٹر بن گئے تھے۔ جمعیت کے علاوہ جماعت اسلامی اور ان کی ذیلی تنظیم الخدمت کے کارکنوں نے دن رات اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ماضی کی طرح متاثرین کی مدد کی اور اس سانحہ کی شدت میں کمی کا باعث بنے۔ بحیثیت سیاسی جماعت، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کا کردار لائق تحسن و قابل تقلید ہے۔ نجانے اس ملک سے نحوست کے یہ سایے کب ختم ہوں گے، یا رب العالمین ہم گناہگار تھک چکے ہیں مزید کوئی حادثہ دیکھنے کے متحمل نہیں۔ اللہ کریم پاکستان اور عوام پر رحم فرمائے، مری میں جاں بحق ہونے والوں کی کامل مغفرت فرمائے اور جو ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں ان کی مدد فرمائے۔( آمین)
روئے، چیخے، کانپے، تڑپے، آہ بھر کے مر گئے
کتنے سپنے برف خانے میں ٹھٹھر کے مر گئے
دوش دیتے کس کو اپنے قتل کا معصوم لوگ
خود پہ اپنی موت کا الزام دھر کے مر گئے
مری میں پیش آنے والے المیے نے دل دہلا کر رکھ دیا ہے۔ جنت نظیر وادی درجنوں انسانوں کے لیے موت کی آغوش بن گئی۔ شدید برفباری اور رش میں پھنس کر تادم تحریر درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے، ہزاروں گاڑیاں برف میں پھنس گئیں۔ برفباری میں پھنسے افراد کی آوازیں انتظامیہ تک ضرور پہنچی لیکن نااہل انتظامیہ متاثرہ افراد تک نہیں پہنچی، لوگ 20 گھنٹے تک آسمان سے برستی برف میں پھنسے رہے، ہیوی سنو فال نے مشکلات میں اضافہ کردیا، گاڑیاں کئی کئی فٹ برف میں دھنس گئیں۔
گاڑیوں میں پناہ لیے بے بس افراد حکومتی امداد کے انتظار میں بیٹھے رہے، مگر انتظامیہ نہیں موت آن پہنچی، سیاح گاڑیوں میں دم توڑ گئے۔ ایک گاڑی میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد مردہ پائے گئے جب کہ ایک گاڑی میں 4 دوستوں کو موت نے ایک ساتھ آن دبوچا۔ اگلی صبح ریسکیو اہلکاروں نے گاڑیوں کے دروازے کھولے تو اندر لوگوں کی لاشیں ملیں۔
جس گاڑی سے 8 لاشیں ملیں اس میں جاں بحق افراد میں اے ایس آئی نوید اقبال، ان کی تین بیٹیاں، بیٹا، بہن، بھانجی اور بھتیجا شامل تھے، نوید اقبال کی اپنے محکمے کے دوستوں سے رابطے کی آخری وائرل کال حکمرانوں کے منہ پر تھپڑ برساتی رہے گی اور ان کے عزیز و اقارب کے دل جلاتی رہے گی۔ ایک دوسری گاڑی جس میں چار دوستوں کی لاشیں ملیں، موت سے پہلے ان دوستوں نے برف پر سیلفی بھی لی تھی جو ان کی زندگی کی آخری سیلفی ثابت ہوئی۔ یہی سلفی ان سب کے ماں باپ کو رلاتی رہے گی، سوشل میڈیا کے ذریعے مرنے والوں کی ویڈیوز جس نے بھی دیکھی ان کے دل لرز گئے ہوں گے۔
اتنے بڑے حادثے کا نوحہ کیسے لکھوں؟ یہ سانحہ حکومت کی نااہلی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ حالیہ مسلسل اور شدید برفباری کا ریڈ الرٹ محکمہ موسمیات پہلے دے چکا تھا، پہلا الرٹ 31دسمبر اور دوسرا پانچ جنوری کو جاری کیا گیا۔ اطلاع کے باوجود حکومت اور انتظامی اداروں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا حالانکہ یہ متوقع تھا کہ مری موت کی وادی ثابت ہوسکتی ہے مگر سیاحوں کو موت کے منہ میں جانے سے نہیں روکا گیا۔ گاڑیاں مری میں دھڑا دھڑ آتی رہیں اور رش کی وجہ سے لوگ اپنی گاڑیاں بیچ سڑک چھوڑ کرچلے جاتے رہے۔
کوئی انھیں روکنے والا تھا نہ کوئی گاڑیاں ہٹانے والا۔ جس رات یہ المیہ پیش آیا موسم کی خرابی کے باعث اس رات مری میں بجلی کی فراہمی بند ہوگئی جس سے حالات کی سنگینی مزید بڑھ گئی۔ انتظامیہ کو اس بات کی خبر تھی کہ گاڑیوں میں پھنسے لوگوں کے ساتھ معصوم بچے بھی ہیں اور ان کے پاس کھانے پینے کے لیے سامان تک نہیں ہے مگر کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔
وفاقی وزیر فوادچوہدری نے 5 جنوری کو اپنے ٹوئٹ میں ایک لاکھ گاڑیوں کے مری میں داخلے اور کرایوں کے کئی گنا بڑھ جانے کو خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کا نتیجہ قرار دیا تھا مگر اس سانحے کے بعد کسی وزیر نے شرمندگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کسی نے ذمے داری قبول کی۔ یہ المیہ کسی اور ملک میں ہوتا تو متعلقہ وزیر استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جاتا اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب ذمے داران کو نشان عبرت بنا دیا جاتا۔ اللہ خیر کرے وزیر اعظم نے ایک بار پھر نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، ایسے احکامات اور ان احکامات کی روشنی میں ہونے والے ایکشن کتنے سنجیدہ اور مؤثر ہوتے ہیں یہ قوم کو پتہ ہے۔
اتنے بڑے سانحہ میں جہاں حکومت نے غفلت کی وہاں مقامی ہوٹل مالکان اور میڈیا نے بے حسی اور سیاحوں نے بے وقوفی کا مظاہرہ کیا۔اس بار میڈیا نے برفباری کو ایسے افسانوی رنگ میں پیش کیا اور تبدیلی سرکار نے اس پر شادیانے بجائے جس کی وجہ سے لوگوں کا جم غفیر امنڈ آیا۔ اگر میڈیا اور صحافتی طبقہ موسم کی حساسیت کے پیش نظر حفاظتی انتظامات، تدابیر یا موسم کی شدت کے باعث سیاحوں کو فی الحال نہ آنے کے بارے میں آگاہی دیتے رہتا تو شاید اس نقصان میں کمی آجاتی۔
مبینہ طور پر اس رات ہوٹل والوں نے ایک کمرے کا کرایہ 50 ہزار تک کردیا تھا جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں نے گاڑی میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ حکومتی نااہلی، بے حسی، انتظامی لاپروائی اور ہوٹل والوں کی کاروبار کو ترجیح انسانیت کو لے ڈوبی۔ میکڈونلڈ مری میں بھی سیکڑوں سیاحوں موجود تھے مگر یہاں صورت حال اور رویہ بالکل مختلف تھا۔ میکڈونلڈز کے ڈائریکٹر جمیل مغل کی ہدایت پر ریسٹورنٹ منیجر نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریسٹورنٹ ساری رات کھلا رکھا۔
مصیبت کے اس موقع پر مقامی ہوٹل مالکان جہاں مصیبت زدہ سیاحوں کو لوٹ رہے تھے وہاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے اپنی برانچ 48 گھنٹے کھلا رکھی، سیاحوں کو کافی، چائے اور کھانے پینے کی اشیاء اور بچوں کا دل بہلانے کے لیے گفٹ دیتے رہے۔ میکڈونلڈ میں موجود یونیسف کی ٹیم میں موجود ڈاکٹروں نے وہاں باقاعدہ ایک میڈیکل کیمپ لگایا اور لور ٹوپا کے قریب ایئر فورس کے ریسکیو کیمپ کے ذمے داران کو یونیسف کے ڈاکٹرز نے اپنے ایمرجنسی میڈیکل کیمپ کے لیے ضروری ادویات کی لسٹ دی اور تمام ضروری ادویات ایئرفورس والوں نے مہیا کیں تو یونیسف کے ڈاکٹرز نے میکڈونلڈ میں موجود اور آس پاس کے متاثرہ سیاحوں خاص کر خواتین اور بچوں کو ابتدائی طبی امداد مہیا کی۔
یونیسف ٹیم اور میکڈونلڈ نے مل کر ایک قابل تقلید مثال قائم کی۔ ماضی میں جب بھی ہنگامی صورتحال پیش آئی چاہے سیلاب ہوا یا زلزلہ تو پاک فوج کے جوان اور افسران سب سے پہلے موقع پر پہنچے اور اپنے وسائل اور تجربے کی وجہ سے سب سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ اگر فوج کو ایک دن پہلے بلایا گیا ہوتا تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ مگر مدہوش تبدیلی سرکار نے صورتحال بگڑنے کے بعد اسے بلایا۔ جیسے ہی فوج آئی تو صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی۔
حکومتی ذمے داران، وزرا اور کاروباری لوگوں خاص کر ہوٹل مالکان نے انسانی المیے میں جس بے حسی کا مظاہرہ کیا وہ قابل نفرت اور قابل سزا ہے مگر اس سانحہ کے دوران چند حوصلہ افزا اور مثبت خبریں بھی ملیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ اکثر سیاحتی مقامات پر مقامی لوگ بھی کمرشل، کاروباری اور بے حس ہوجاتے ہیں مگر مری کے کچھ رہائشیوں نے جس طرح اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر سیاحوں کی خدمت اور مدد کی وہ قابل تحسین ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب، وفاق المدارس العربیہ کے صدر مفتی تقی عثمانی اور جنرل سیکریٹری قاری حنیف جالندھری نے مری اور گلیات کے تمام مدارس کے منتظمین اور جمعیت کے ذمے داران کو ہدایت کی ہے کہ وہ مدارس ومساجد کو ریسکیو سینٹر بنا دیں، مساجد ومدارس کے دروازے بلا تفریق مذہب اور قومیت تمام سیاحوں کے لیے کھول دیں۔
جس وقت تمام ہوٹل سیاحوں کو لوٹ رہے تھے، تبدیلی سرکار کے وزرا اور اپوزیشن کے سیاست دان اپنی سیاسی دکانداری چمکانے اورٹویٹر پر تبصروں میں مصروف تھے اس وقت مساجد و مدارس ریسکیو سینٹر بن گئے تھے۔ جمعیت کے علاوہ جماعت اسلامی اور ان کی ذیلی تنظیم الخدمت کے کارکنوں نے دن رات اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ماضی کی طرح متاثرین کی مدد کی اور اس سانحہ کی شدت میں کمی کا باعث بنے۔ بحیثیت سیاسی جماعت، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کا کردار لائق تحسن و قابل تقلید ہے۔ نجانے اس ملک سے نحوست کے یہ سایے کب ختم ہوں گے، یا رب العالمین ہم گناہگار تھک چکے ہیں مزید کوئی حادثہ دیکھنے کے متحمل نہیں۔ اللہ کریم پاکستان اور عوام پر رحم فرمائے، مری میں جاں بحق ہونے والوں کی کامل مغفرت فرمائے اور جو ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں ان کی مدد فرمائے۔( آمین)