میوہ جات اور پھل سے زیادہ فوائد کیسے حاصل کریں
خوراک کو اصل وقت پر نہ کھانے کے سبب انسان بعض خطرناک بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے
لاہور:
آج کل کے دور میں اکثر خوراک ٹھیک وقت پر نہیں کھائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت ریح ، موٹاپا ، فشارالدم ، اعصابی کمزوری، ہڈیوں کے امراض وغیرہ جیسے عوارضات کا شکار ہیں۔
جدید سائنس نے تحقیق کے بعد قدیم اطباء کے بتائے ہوئے قوانین کو تسلیم کیا ہے،مگر بعض نام نہاد ماہرین نے صرف اپنے پرچار کی خاطراپنے خیالات انٹرنیٹ پر پھیلائے،جن کا کوئی حوالہ بھی نہیں ہوتا ۔ صرف ایک جملہ ''جدید سائنس کے مطابق ماہرین نے بتایا'' کا استعمال کیا جاتا ہے اور ہمارے ایسے اشخاص جو تحقیق پسند ہیں وہ بغیر حوالہ پوچھے عمل کرنے لگتے ہیں۔
یہی وجہ ایک ایک کر کے کئی لوگوں کو مختلف مسائل کا شکار کر گئی ۔ مثلاً نہار منہ پانی پینا ، جسے آج کل کے معالجوں نے ضروری قرار دیا ہے، حالانکہ پانی کی طبعیت سرد اور تر ہے۔ جب انسان سو کر اُٹھتا ہے تو اپنی طبعیت میں گرمی اور خشکی محسوس کرتا ہے، اب عقل سے یہ امر ثابت ہے کہ گرم چیز پر ایک دم ٹھنڈا پانی پھینکا جائے تو آگ بجھ جاتی ہے۔ یہی کیفیت انسانی طبیعت کی ہے کہ جس وقت طبیعت میںگرمی اورخشکی ہوتی ہے تو لازماً قوتیں بھی اپنی عروج پر ہوتی ہیں۔ لہذا بوعلی سینا کے قول کے مطابق نیم گرم پانی گھونٹ گھونٹ کر کے پی سکتے ہیں، مگر ٹھنڈا پانی نہ پئیں۔
بعض اشخاص کا کہنا ہے کہ انہیں نہار منہ پانی پینے سے سکون آتا ہے ورنہ دن بھر خشکی رہتی ہے۔ یہ ہر ایک کے ساتھ تو نہیں ہوتا ۔ مگر یہ عمل ایسے پھیلایا جا رہا ہے کہ کوئی ٹوٹکہ ہو ، بہرحال یہ غلط ہے۔ امام شافعی کے مطابق چار چیزیں انسان کو کمزور کرتی ہیں : غموں کی کثرت ، جماع کی کثرت ، نہار منہ پانی پینے کی کثرت اور کھٹی چیزیں زیادہ کھانا۔ اب اگر ان کی اہمیت پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غم ایک حد تک طبیعت میں گرمی پیدا کرتا ہے مگر سخت اور با کثرت غم اسٹریس ہارمون کی مقدار خون میں بڑھاتا ہے جو اعصابی امراض ، شوگر ، فشارالدم جیسے امراض کا موجب بنتا ہے۔
اسی طرح کثرتِ جماع سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں ۔ ٹھنڈا پانی اگر چوس چوس کر پئیں تو دہن کی گرمی ہی اسے معتدل کردیتی ہے اور بڑا گھونٹ پئیں تو معدے کی طبعی گرمی ختم کر کے ریح پیدا کرنے کا موجب ہے۔ کھٹی اشیاء تیزابیت بڑھاتی ہیں، لہٰذا خون میں تیزابیت زیادہ ہو جاتی ہے جو گردوں کو کمزور بناتی ہے۔ اسی طرح میوہ جات اور پھلوں کی بھی کیفیت ہے۔
میوہ جات اور پھل، کس وقت کھانا مفید ہے ؟
رب تعالی فرماتا ہے کہ وہی ہے جس نے رات دن سورج اور چاند کو پیدا کیا سب ایک گھیرے میں تیر رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان سب کی اہمیت ہے۔ رات کا وقت اس میں چاند ہوتا ہے آرام کے لیے، سورج کا وقت دن کام کرنے کے لیے۔ چنانچہ سورج اور چاند کی اپنی اپنی منازل ہیں اور بقول حکیم عبدل الوہاب انصاریؒ چاند کی منازل سے بیماریوں کے بحران کا پتہ چلتا ہے۔
سورج کی منازل کا بدن کی کیفیت پر اثر ہے۔ جو اشیاء قوت پہنچاتی ہیں وہ صبح کے وقت بہتر کام کرتی ہیں، مثلاً حدیث پاک ہے کہ جس نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھائیںاسے جادو اور زہر نقصان نہیں دے گا، اسی طرح ماء العسل (شہد کا پانی) کے بارے میں فرمان ہے کہ صبح ماء العسل کا پینا معدے کو دھو دیتا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ صبح لی جانے والی خوراک کا طبیعت پر اثر ہے۔
چنانچہ حکماء کے مطابق میوہ جات کیوںکہ قوت پہنچاتے ہیں، اس لیے صبح کے وقت موزوں ہیں۔ باقی اوقات دوپہر ، رات کو انہیں کھانا طبیعت پر بوجھ ڈالتا ہے۔ دوپہر کے آخری وقت (عصرکے وقت) سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہوتا ہے مگر زمین اس کی شعاعیں عصر کے وقت سے پہلے تک جذب کر چکی ہوتی ہیں، اب یہ واپس انہیں آسمان کی جانب پھینک رہی ہوتی ہیںاس کیفیت کو ابخرہ کہتے ہیں ۔ چنانچہ انسانی طبیعت میں یہ اثر ہوتا ہے کہ تبخیر (تیزابیت) بڑھ جاتی ہے، یوں اس وقت اتنا خوراک استعمال کرنی جائز ہے کہ معدہ بھاری نہ ہو۔
کیونکہ اس وقت تیزابیت زیادہ پیدا ہوتی ہے لہذا ترش پھل اور ترش خوراک کے استعمال سے ممانعت ہے، مثلاً سنگترے، انناس، تربوز ( ان میں سٹرک ایسڈ کی مقدار ہے ) ۔ اب اگر مغرب کے وقت سے رات بارہ بجے تک کے وقت کو زیر غور لایا جائے تو یہ سورج کی تنزلی کا وقت ہے، اس وقت انسان کی طبیعت سست ہوجاتی ہے، لہذا جلد ہضم ہونے والی اور ریح کم پیدا کرنے والی خوراک جائز ہے مثلاً یخنی، کم تیل والے حلوہ جات وغیرہ، مگر مغرب کے بعد کھانا درست نہیں، عشاء کے بعد تو سونے کا حکم ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم طبی طریقوں پر عمل سے کیوں محروم رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمیں کیا نقصانات پہنچتے ہیں؟ ہمارے ہاں صبح کا وقت اپنے جاگنے کے وقت کوسمجھا جاتا ہے، جبکہ اصل میں سورج کے طلوع ہونے سے صبح کا آغاز ہوتا ہے، اسی طرح اپنی تھکان کے وقت کو سونے کا وقت قرار دیا جاتا ہے، جبکہ اصطلاح میں سورج کے ڈوبنے سے سونے کا وقت شروع ہوتا ہے، چنانچہ موسمِ گرما میں سورج زیادہ دیر رہتا ہے، اسی لیے دن لمبا کہا جاتا ہے اور موسمِ سرما میں اس کے برعکس ہوتا ہے ۔
ہمارے یہاں لوگ ناشتے والی خوراک دوپہر کو اور دوپہر والی خوراک رات میں اور رات والی خوراک عین سوتے وقت کھا رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے موٹاپا ، ہضم کی خرابی اور اعصابی کمزوری معاشرے میں تیزی سے جنم لے رہی ہیں۔ بروقت خوراک اپنے اجزاء میں ستحیل (میٹابولائز ) ہونے کی بجائے ایڈی پوز خلیات میں جمع ہو جاتی ہے اور بہت مشکل سے ہضم ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں اکثر لوگوں کا پیٹ بڑھ جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے حضرات جو صبح ، شام اور ورزش کا دھیان رکھتے ہیںوہ لمبی عمر تک صحت مند زندگی اور خوش نما ساخت کے مالک رہتے ہیں۔
نقصانات کا ازالہ کسے کریں؟
جو خوراک بے وقت کھائی جاتی ہے ، اس کی مثال ایسی ہے کہ انسان جوانی کی عمر میں اپنا دھیان نہ رکھے۔ بڑھاپے میں اچھی صحت کا خواہش مند ہو اور بغیر کاروبار کے مال دار ہونے کا آرزو مند ہو۔ جدید اطباء نے بتایا ہے کہ کھانے کے بعد ہاضم ادویہ مثلاً اجوائن دیسی، زیرہ ، دارچینی کا استعمال حسبِ ضرورت کر لیں مگر دیکھا جاتا ہے کی کئی حضرات سوتے وقت بے چینی اور پیاس کی شکایت کرتے ہیںکیونکہ ہاضم بوٹیاں مزاج گرم ہوتی ہیں۔
آج کل کے دور میں اکثر خوراک ٹھیک وقت پر نہیں کھائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت ریح ، موٹاپا ، فشارالدم ، اعصابی کمزوری، ہڈیوں کے امراض وغیرہ جیسے عوارضات کا شکار ہیں۔
جدید سائنس نے تحقیق کے بعد قدیم اطباء کے بتائے ہوئے قوانین کو تسلیم کیا ہے،مگر بعض نام نہاد ماہرین نے صرف اپنے پرچار کی خاطراپنے خیالات انٹرنیٹ پر پھیلائے،جن کا کوئی حوالہ بھی نہیں ہوتا ۔ صرف ایک جملہ ''جدید سائنس کے مطابق ماہرین نے بتایا'' کا استعمال کیا جاتا ہے اور ہمارے ایسے اشخاص جو تحقیق پسند ہیں وہ بغیر حوالہ پوچھے عمل کرنے لگتے ہیں۔
یہی وجہ ایک ایک کر کے کئی لوگوں کو مختلف مسائل کا شکار کر گئی ۔ مثلاً نہار منہ پانی پینا ، جسے آج کل کے معالجوں نے ضروری قرار دیا ہے، حالانکہ پانی کی طبعیت سرد اور تر ہے۔ جب انسان سو کر اُٹھتا ہے تو اپنی طبعیت میں گرمی اور خشکی محسوس کرتا ہے، اب عقل سے یہ امر ثابت ہے کہ گرم چیز پر ایک دم ٹھنڈا پانی پھینکا جائے تو آگ بجھ جاتی ہے۔ یہی کیفیت انسانی طبیعت کی ہے کہ جس وقت طبیعت میںگرمی اورخشکی ہوتی ہے تو لازماً قوتیں بھی اپنی عروج پر ہوتی ہیں۔ لہذا بوعلی سینا کے قول کے مطابق نیم گرم پانی گھونٹ گھونٹ کر کے پی سکتے ہیں، مگر ٹھنڈا پانی نہ پئیں۔
بعض اشخاص کا کہنا ہے کہ انہیں نہار منہ پانی پینے سے سکون آتا ہے ورنہ دن بھر خشکی رہتی ہے۔ یہ ہر ایک کے ساتھ تو نہیں ہوتا ۔ مگر یہ عمل ایسے پھیلایا جا رہا ہے کہ کوئی ٹوٹکہ ہو ، بہرحال یہ غلط ہے۔ امام شافعی کے مطابق چار چیزیں انسان کو کمزور کرتی ہیں : غموں کی کثرت ، جماع کی کثرت ، نہار منہ پانی پینے کی کثرت اور کھٹی چیزیں زیادہ کھانا۔ اب اگر ان کی اہمیت پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غم ایک حد تک طبیعت میں گرمی پیدا کرتا ہے مگر سخت اور با کثرت غم اسٹریس ہارمون کی مقدار خون میں بڑھاتا ہے جو اعصابی امراض ، شوگر ، فشارالدم جیسے امراض کا موجب بنتا ہے۔
اسی طرح کثرتِ جماع سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں ۔ ٹھنڈا پانی اگر چوس چوس کر پئیں تو دہن کی گرمی ہی اسے معتدل کردیتی ہے اور بڑا گھونٹ پئیں تو معدے کی طبعی گرمی ختم کر کے ریح پیدا کرنے کا موجب ہے۔ کھٹی اشیاء تیزابیت بڑھاتی ہیں، لہٰذا خون میں تیزابیت زیادہ ہو جاتی ہے جو گردوں کو کمزور بناتی ہے۔ اسی طرح میوہ جات اور پھلوں کی بھی کیفیت ہے۔
میوہ جات اور پھل، کس وقت کھانا مفید ہے ؟
رب تعالی فرماتا ہے کہ وہی ہے جس نے رات دن سورج اور چاند کو پیدا کیا سب ایک گھیرے میں تیر رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان سب کی اہمیت ہے۔ رات کا وقت اس میں چاند ہوتا ہے آرام کے لیے، سورج کا وقت دن کام کرنے کے لیے۔ چنانچہ سورج اور چاند کی اپنی اپنی منازل ہیں اور بقول حکیم عبدل الوہاب انصاریؒ چاند کی منازل سے بیماریوں کے بحران کا پتہ چلتا ہے۔
سورج کی منازل کا بدن کی کیفیت پر اثر ہے۔ جو اشیاء قوت پہنچاتی ہیں وہ صبح کے وقت بہتر کام کرتی ہیں، مثلاً حدیث پاک ہے کہ جس نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھائیںاسے جادو اور زہر نقصان نہیں دے گا، اسی طرح ماء العسل (شہد کا پانی) کے بارے میں فرمان ہے کہ صبح ماء العسل کا پینا معدے کو دھو دیتا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ صبح لی جانے والی خوراک کا طبیعت پر اثر ہے۔
چنانچہ حکماء کے مطابق میوہ جات کیوںکہ قوت پہنچاتے ہیں، اس لیے صبح کے وقت موزوں ہیں۔ باقی اوقات دوپہر ، رات کو انہیں کھانا طبیعت پر بوجھ ڈالتا ہے۔ دوپہر کے آخری وقت (عصرکے وقت) سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہوتا ہے مگر زمین اس کی شعاعیں عصر کے وقت سے پہلے تک جذب کر چکی ہوتی ہیں، اب یہ واپس انہیں آسمان کی جانب پھینک رہی ہوتی ہیںاس کیفیت کو ابخرہ کہتے ہیں ۔ چنانچہ انسانی طبیعت میں یہ اثر ہوتا ہے کہ تبخیر (تیزابیت) بڑھ جاتی ہے، یوں اس وقت اتنا خوراک استعمال کرنی جائز ہے کہ معدہ بھاری نہ ہو۔
کیونکہ اس وقت تیزابیت زیادہ پیدا ہوتی ہے لہذا ترش پھل اور ترش خوراک کے استعمال سے ممانعت ہے، مثلاً سنگترے، انناس، تربوز ( ان میں سٹرک ایسڈ کی مقدار ہے ) ۔ اب اگر مغرب کے وقت سے رات بارہ بجے تک کے وقت کو زیر غور لایا جائے تو یہ سورج کی تنزلی کا وقت ہے، اس وقت انسان کی طبیعت سست ہوجاتی ہے، لہذا جلد ہضم ہونے والی اور ریح کم پیدا کرنے والی خوراک جائز ہے مثلاً یخنی، کم تیل والے حلوہ جات وغیرہ، مگر مغرب کے بعد کھانا درست نہیں، عشاء کے بعد تو سونے کا حکم ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم طبی طریقوں پر عمل سے کیوں محروم رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمیں کیا نقصانات پہنچتے ہیں؟ ہمارے ہاں صبح کا وقت اپنے جاگنے کے وقت کوسمجھا جاتا ہے، جبکہ اصل میں سورج کے طلوع ہونے سے صبح کا آغاز ہوتا ہے، اسی طرح اپنی تھکان کے وقت کو سونے کا وقت قرار دیا جاتا ہے، جبکہ اصطلاح میں سورج کے ڈوبنے سے سونے کا وقت شروع ہوتا ہے، چنانچہ موسمِ گرما میں سورج زیادہ دیر رہتا ہے، اسی لیے دن لمبا کہا جاتا ہے اور موسمِ سرما میں اس کے برعکس ہوتا ہے ۔
ہمارے یہاں لوگ ناشتے والی خوراک دوپہر کو اور دوپہر والی خوراک رات میں اور رات والی خوراک عین سوتے وقت کھا رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے موٹاپا ، ہضم کی خرابی اور اعصابی کمزوری معاشرے میں تیزی سے جنم لے رہی ہیں۔ بروقت خوراک اپنے اجزاء میں ستحیل (میٹابولائز ) ہونے کی بجائے ایڈی پوز خلیات میں جمع ہو جاتی ہے اور بہت مشکل سے ہضم ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں اکثر لوگوں کا پیٹ بڑھ جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے حضرات جو صبح ، شام اور ورزش کا دھیان رکھتے ہیںوہ لمبی عمر تک صحت مند زندگی اور خوش نما ساخت کے مالک رہتے ہیں۔
نقصانات کا ازالہ کسے کریں؟
جو خوراک بے وقت کھائی جاتی ہے ، اس کی مثال ایسی ہے کہ انسان جوانی کی عمر میں اپنا دھیان نہ رکھے۔ بڑھاپے میں اچھی صحت کا خواہش مند ہو اور بغیر کاروبار کے مال دار ہونے کا آرزو مند ہو۔ جدید اطباء نے بتایا ہے کہ کھانے کے بعد ہاضم ادویہ مثلاً اجوائن دیسی، زیرہ ، دارچینی کا استعمال حسبِ ضرورت کر لیں مگر دیکھا جاتا ہے کی کئی حضرات سوتے وقت بے چینی اور پیاس کی شکایت کرتے ہیںکیونکہ ہاضم بوٹیاں مزاج گرم ہوتی ہیں۔