بلیو پوٹری ملتان کی خاص پہچان
نیلے نقش ونگار والے برتنوں کی زیادہ تر تیاری آج بھی ہاتھوں سے کی جاتی ہے
محکمہ سیاحت پنجاب نے ملتان کے ایک معروف ہوٹل میں ہمارے قیام کا انتظام کیا تھا۔ ہوٹل میں چیک اِن کے بعد کمروں میں سامان منتقل کیا اور تروتازہ ہونے کے بعد رات کا کھانا کھایا گیا۔ کھانا بھی کافی مزیدارتھا۔ ہم لوگ چونکہ صبح سات بجے گھر سے نکلے تھے اور اب رات کے 9 بج چکے تھے، تھکاوٹ ہورہی تھی، اس لیے میں اپنے کولیگ کے ساتھ کمرے میں سونے کے لیے چلا گیا، جبکہ گروپ میں شامل کچھ دوست ملتان کی سیر کےلیے نکل گئے۔
بلاگ کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھئے: جنوبی پنجاب میں سیاحت کا فروغ؛ اولیاء کے شہر میں حاضری
اگلی صبح 9 بجے ہم لوگ ناشتے کی ٹیبل پر جمع ہوئے۔ ناشتے کے بعد ہوٹل سے چیک آؤٹ شروع ہوا۔ سامان دوبارہ گاڑی میں رکھا گیا اور تقریباً دس بجے ہوٹل سے اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہمارے گائیڈ ملتان کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہمیں مختلف تاریخی عمارتوں، علاقوں کے بارے میں بتاتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملتان کی گرد، گرمی، گدا اور گورستان یہاں کے خاص تحفے ہیں۔ کئی علاقوں کے نام بھی سورج یعنی شمس سے منسوب ہیں۔
تھوڑی دیر بعد ہی ہم انسٹی ٹیوٹ آف بلیو پوٹری ڈیولپمنٹ ملتان پہنچ گئے۔ خوبصورت نقش و نگار اور پھول بوٹوں سے مزین برتن ملتان شہر کی خاص پہچان ہیں۔ ان دیدہ زیب برتنوں کو بلیو پوٹری بھی کہا جاتا ہے۔ ملتانی مٹی سے بلیو پوٹری کا ہنر تو دم توڑ چکا ہے تاہم اب پلاسٹر آف پیرس اور جپسم پاؤڈر سے نہ صرف برتن بلکہ مختلف اقسام کی زیبائشی ٹائلیں بھی تیار ہوتی ہیں۔ کاریگروں کا دعویٰ ہے کہ مٹی کے روایتی برتنوں کے مقابلے میں جدید طریقے سے بنائے جانے والے برتن سو سال بعد بھی خراب نہیں ہوتے۔
پاکستان میں اس وقت ظروف سازی کے تین بڑے مراکز ہیں۔ ملتان، گجرات اور شاہدرہ (لاہور) لیکن برِصغیر میں جو شہرت ملتان کی کاشی گری کو نصیب ہوئی وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔
بلیو پوٹری کا رنگ ہمیں ملتان کے مزارات اور عمارتوں پر بھی نظر آتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف بلیو پوٹری ڈیولپمنٹ ملتان کے نمائندے نے بتایا کہ صدیوں سے کاشی گری کا فن اس خطے کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ مٹی کے ظروف، روغنی ٹائلوں اور دیگر آرائشی مصنوعات پر جب کاشی گر ہاتھ سے خوبصورت پھول، پتیاں اور دلکش نقوش اجاگر کرتا ہے تو بلیو پوٹری وجود میں آتی ہے۔
کاشی گری ایک مخصوص روایتی فن ہے۔ ابتدا میں کاریگر برتنوں پر نقش ونگار بنانے کےلیے نیلے رنگ کا استعمال زیادہ کرتے تھے، اس لیے بلیو پوٹری کی اصطلاح مشہور ہوگئی تھی، تاہم کئی اور رنگ بھی استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ انسٹی ٹیوٹ میں نوجوان کاریگروں کو مختلف کام سکھائے جاتے ہیں جن میں برتن بنانا، کاشی گری، گلیئرنگ سمیت دیگر کام شامل ہیں۔ فیکٹری میں کام کرنے والے زیادہ تر کاریگروں نے یہاں سے ہی کام سیکھا ہے۔
ایک کاریگر نے بتایا کہ وہ 30 برس سے یہاں کام کررہے ہیں۔ پہلے ملتانی مٹی سے برتن تیار ہوتے تھے۔ برتن تیار کرنے والوں کو کمہار کہا جاتا ہے۔ ملتان میں آج بھی چوک کمہاراں مشہور ہے۔ وہ لوگ مٹی سے برتن تیار کرتے اور پھر چھوٹی چھوٹی بھٹیوں میں انہیں پکاتے تھے۔ لیکن اب چند ایک کاریگر ہی زندہ ہیں۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ہنر کو فروغ اور پذیرائی نہیں مل سکی۔ اب سرامکس کا کام ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ ادارہ ہی سب سے بڑی فیکٹری ہے جہاں تیار ہونے والے برتن نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔
فیکٹری میں کاریگر جپسم پاؤڈر کے محلول کو مختلف سانچوں میں ڈال کر برتنوں کی شکل دیتے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں یہ برتن خشک ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ماہر کاریگروں کی انگلیاں بڑی مہارت سے برتن کی سطح کو صاف کرتی ہیں۔ سانچے میں ڈھلائی کے دوران اگر کسی برتن پر کوئی کھردرا پن رہ جاتا ہے تو اسے ہاتھوں سے صاف کرکے برتن کی سطح کو ملائم کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح برتن کے اندرونی حصے کی صفائی کی جاتی ہے۔ بعض برتن دو سانچوں میں تیار ہوتے ہیں اور پھر ان دونوں حصوں کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ برتنوں کی صفائی کے بعد کاشی گر ان پر نقش ونگار بناتے ہیں۔
نوجوان کاشی گر خاتون نے بتایا کہ وہ گزشتہ 8 سال سے یہاں کاشی گری کررہی ہیں۔ انہوں نے 6 ماہ کا کورس کیا تھا۔ اس وقت انہیں مختلف ڈیزائن اور ان کے نام بتائے گئے تھے۔ مختلف برتنوں پر برش اور رنگوں سے مختلف ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ یہ مخصوص قسم کے رنگ ہیں جو پاؤڈر کی شکل میں ملتے ہیں۔ انہیں پھر ضرورت کے مطابق مکس کرکے لیکوئیڈ شکل دی جاتی ہے۔ ایک بڑے ظروف پر نقش ونگار بنانے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
ان برتنوں پر کوبالٹ آکسائیڈ کی لیئر چڑھانے والے کاریگر نے بتایا کہ جب کاشی گری کے بعد برتن ان کے پاس آتے ہیں تو ان پر گلیئرنگ کی جاتی ہے۔ برتنوں کو کوبالٹ آکسائیڈ کے محلول میں ڈبو کر برتنوں پر ایک لیئر چڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان برتنوں کو بھٹی میں رکھا جاتا ہے۔ جدید قسم کی بھٹی میں بیک وقت 800 سے 900 برتن رکھے جاسکتے ہیں۔ آگ کےلیے گیس اور ایل پی جی سلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔ 1250 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر کوبالٹ آکسائیڈ برتنوں میں ضم ہوجاتی اور لیئر پختہ ہوجاتی ہے۔ 1270 ڈگری سینٹی گریڈ پر برتنوں کو پختہ کرنے کا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد چوبیس گھنٹے تک ان برتنوں کو ٹھنڈا ہونے کےلیے رکھا جاتا ہے اور پھر یہ شاہکار تیار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس برتن کو اگر سو سال تک پانی میں بھگو کر رکھ دیں یا مٹی میں دبادیں تو بھی یہ برتن خراب نہیں ہوگا۔
کاشی گری کی تاریخ ملتان شہر کی تاریخ کی طرح قدیم بتائی جاتی ہے۔ نقش و نگار میں پتوں، شاخوں اور پھولوں کا استعمال اس فن پر ایرانی اثرات کا غماز کہا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم نے جب سندھ اور ملتان کو فتح کیا تو اسلامی لشکر کے ساتھ کئی کاشی گر بھی یہاں آئے اور انہوں نے اولیااللہ کی اس دھرتی کو ہی اپنا مسکن بنالیا۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی اس فن کی حوصلہ افزائی اور قدر کی گئی۔
ملتان میں روایتی ظروف سازی اور کاشی گری کا تقریباً ایک ہزار سال پرانا ہنر اب آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اب صرف گنتی کے چند لوگ باقی بچے ہیں، جو اپنی محنت اور جانفشانی سے اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کاشی گری کے فن کو وہ پذیرائی نہیں ملی، جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ کاشی گری کا خوبصورت ہنر نسل در نسل منتقل ہوا ہے جس کی وجہ سے اسے مورثی فن بھی کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ کاشی گری میں استعمال ہونے والے نباتاتی رنگوں کی آمیزش کا فارمولا خاندانوں کی میراث ہوتا تھا اور وہ اس میں اس قدر سخت گیر تھے کہ اپنی بہو کو تو فارمولا بتا دیتے تھے مگر بیٹی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے کیونکہ اس نے بیاہ کر دوسرے گھر جانا ہوتا تھا۔ اس فارمولے کی حفاظت قیمتی کاروباری راز کی طرح کی جاتی تھی لیکن اب منظر بدل گیا ہے کیونکہ اس فن کو سکھانے کےلیے انسٹی ٹیوٹ آف بلیو پوٹری ڈیولپمنٹ کی طرح باقاعدہ ادارے بھی وجود میں آچکے ہیں۔
نیلے نقش ونگار والے برتنوں کی زیادہ تر تیاری آج بھی ہاتھوں سے کی جاتی ہے، تاہم جپسم پاؤڈر اور پلاسٹر آف پیرس کو محلول کی شکل میں تیار کرنا، اسے سانچوں میں ڈھالنا اور جدید بھٹی کے استعمال کی وجہ سے برتنوں کی تیاری کا عمل آسان اور تیز ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ان برتنوں کی تیاری جس قدر مشکل کام ہے اس قدر ہی یہ برتن مہنگے بھی ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف بلیو پوٹری ڈیولپمنٹ میں ان برتنوں کا ڈسپلے سینٹر بھی ہے جہاں سے اپنی پسند کے برتن جن میں گلدان، صراحی، کپ، عمارتوں، چھتوں، دیواروں اور فرش پر استعمال ہونے والے زیبائشی ٹائلز، ڈیکوریشن پیس اور چائے دانیاں شامل ہیں، خرید سکتے ہیں۔ ایک چھوٹے چائے کے کپ کی قیمت بھی 500 روپے سے شروع ہوتی ہے۔ منتظمین نے بتایا کہ بلیوپوٹری یا تو گھر کے ڈرائنگ رومز کی سجاوٹ کےلیے خریدے جاتے ہیں یا پھر بڑے ہوٹل، نواب اور خاندان استعمال کرتے ہیں۔
لاہور کے قریب شاہدرہ میں بھی سرامکس تیار کرنے والی فیکٹری ہے، تاہم یہاں زیادہ تر صاف برتن ہی تیار ہوتے ہیں۔ ان پر ملتان کی طرح کے نقش ونگار بہت کم بنائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ان برتنوں کو عام طور پر چینی کے برتن کہا جاتا ہے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ ہے کہ اس ہنر کی ابتدا چین سے ہوئی تھی۔ ملتان میں بلیوپوٹری فیکٹری کے وزٹ کے بعد ہم بہاولپور کی طرف روانہ ہوگئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بلاگ کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھئے: جنوبی پنجاب میں سیاحت کا فروغ؛ اولیاء کے شہر میں حاضری
اگلی صبح 9 بجے ہم لوگ ناشتے کی ٹیبل پر جمع ہوئے۔ ناشتے کے بعد ہوٹل سے چیک آؤٹ شروع ہوا۔ سامان دوبارہ گاڑی میں رکھا گیا اور تقریباً دس بجے ہوٹل سے اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہمارے گائیڈ ملتان کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہمیں مختلف تاریخی عمارتوں، علاقوں کے بارے میں بتاتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملتان کی گرد، گرمی، گدا اور گورستان یہاں کے خاص تحفے ہیں۔ کئی علاقوں کے نام بھی سورج یعنی شمس سے منسوب ہیں۔
تھوڑی دیر بعد ہی ہم انسٹی ٹیوٹ آف بلیو پوٹری ڈیولپمنٹ ملتان پہنچ گئے۔ خوبصورت نقش و نگار اور پھول بوٹوں سے مزین برتن ملتان شہر کی خاص پہچان ہیں۔ ان دیدہ زیب برتنوں کو بلیو پوٹری بھی کہا جاتا ہے۔ ملتانی مٹی سے بلیو پوٹری کا ہنر تو دم توڑ چکا ہے تاہم اب پلاسٹر آف پیرس اور جپسم پاؤڈر سے نہ صرف برتن بلکہ مختلف اقسام کی زیبائشی ٹائلیں بھی تیار ہوتی ہیں۔ کاریگروں کا دعویٰ ہے کہ مٹی کے روایتی برتنوں کے مقابلے میں جدید طریقے سے بنائے جانے والے برتن سو سال بعد بھی خراب نہیں ہوتے۔
پاکستان میں اس وقت ظروف سازی کے تین بڑے مراکز ہیں۔ ملتان، گجرات اور شاہدرہ (لاہور) لیکن برِصغیر میں جو شہرت ملتان کی کاشی گری کو نصیب ہوئی وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔
بلیو پوٹری کا رنگ ہمیں ملتان کے مزارات اور عمارتوں پر بھی نظر آتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف بلیو پوٹری ڈیولپمنٹ ملتان کے نمائندے نے بتایا کہ صدیوں سے کاشی گری کا فن اس خطے کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ مٹی کے ظروف، روغنی ٹائلوں اور دیگر آرائشی مصنوعات پر جب کاشی گر ہاتھ سے خوبصورت پھول، پتیاں اور دلکش نقوش اجاگر کرتا ہے تو بلیو پوٹری وجود میں آتی ہے۔
کاشی گری ایک مخصوص روایتی فن ہے۔ ابتدا میں کاریگر برتنوں پر نقش ونگار بنانے کےلیے نیلے رنگ کا استعمال زیادہ کرتے تھے، اس لیے بلیو پوٹری کی اصطلاح مشہور ہوگئی تھی، تاہم کئی اور رنگ بھی استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ انسٹی ٹیوٹ میں نوجوان کاریگروں کو مختلف کام سکھائے جاتے ہیں جن میں برتن بنانا، کاشی گری، گلیئرنگ سمیت دیگر کام شامل ہیں۔ فیکٹری میں کام کرنے والے زیادہ تر کاریگروں نے یہاں سے ہی کام سیکھا ہے۔
ایک کاریگر نے بتایا کہ وہ 30 برس سے یہاں کام کررہے ہیں۔ پہلے ملتانی مٹی سے برتن تیار ہوتے تھے۔ برتن تیار کرنے والوں کو کمہار کہا جاتا ہے۔ ملتان میں آج بھی چوک کمہاراں مشہور ہے۔ وہ لوگ مٹی سے برتن تیار کرتے اور پھر چھوٹی چھوٹی بھٹیوں میں انہیں پکاتے تھے۔ لیکن اب چند ایک کاریگر ہی زندہ ہیں۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ہنر کو فروغ اور پذیرائی نہیں مل سکی۔ اب سرامکس کا کام ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ ادارہ ہی سب سے بڑی فیکٹری ہے جہاں تیار ہونے والے برتن نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔
فیکٹری میں کاریگر جپسم پاؤڈر کے محلول کو مختلف سانچوں میں ڈال کر برتنوں کی شکل دیتے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں یہ برتن خشک ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ماہر کاریگروں کی انگلیاں بڑی مہارت سے برتن کی سطح کو صاف کرتی ہیں۔ سانچے میں ڈھلائی کے دوران اگر کسی برتن پر کوئی کھردرا پن رہ جاتا ہے تو اسے ہاتھوں سے صاف کرکے برتن کی سطح کو ملائم کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح برتن کے اندرونی حصے کی صفائی کی جاتی ہے۔ بعض برتن دو سانچوں میں تیار ہوتے ہیں اور پھر ان دونوں حصوں کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ برتنوں کی صفائی کے بعد کاشی گر ان پر نقش ونگار بناتے ہیں۔
نوجوان کاشی گر خاتون نے بتایا کہ وہ گزشتہ 8 سال سے یہاں کاشی گری کررہی ہیں۔ انہوں نے 6 ماہ کا کورس کیا تھا۔ اس وقت انہیں مختلف ڈیزائن اور ان کے نام بتائے گئے تھے۔ مختلف برتنوں پر برش اور رنگوں سے مختلف ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ یہ مخصوص قسم کے رنگ ہیں جو پاؤڈر کی شکل میں ملتے ہیں۔ انہیں پھر ضرورت کے مطابق مکس کرکے لیکوئیڈ شکل دی جاتی ہے۔ ایک بڑے ظروف پر نقش ونگار بنانے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
ان برتنوں پر کوبالٹ آکسائیڈ کی لیئر چڑھانے والے کاریگر نے بتایا کہ جب کاشی گری کے بعد برتن ان کے پاس آتے ہیں تو ان پر گلیئرنگ کی جاتی ہے۔ برتنوں کو کوبالٹ آکسائیڈ کے محلول میں ڈبو کر برتنوں پر ایک لیئر چڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان برتنوں کو بھٹی میں رکھا جاتا ہے۔ جدید قسم کی بھٹی میں بیک وقت 800 سے 900 برتن رکھے جاسکتے ہیں۔ آگ کےلیے گیس اور ایل پی جی سلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔ 1250 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر کوبالٹ آکسائیڈ برتنوں میں ضم ہوجاتی اور لیئر پختہ ہوجاتی ہے۔ 1270 ڈگری سینٹی گریڈ پر برتنوں کو پختہ کرنے کا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد چوبیس گھنٹے تک ان برتنوں کو ٹھنڈا ہونے کےلیے رکھا جاتا ہے اور پھر یہ شاہکار تیار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس برتن کو اگر سو سال تک پانی میں بھگو کر رکھ دیں یا مٹی میں دبادیں تو بھی یہ برتن خراب نہیں ہوگا۔
کاشی گری کی تاریخ ملتان شہر کی تاریخ کی طرح قدیم بتائی جاتی ہے۔ نقش و نگار میں پتوں، شاخوں اور پھولوں کا استعمال اس فن پر ایرانی اثرات کا غماز کہا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم نے جب سندھ اور ملتان کو فتح کیا تو اسلامی لشکر کے ساتھ کئی کاشی گر بھی یہاں آئے اور انہوں نے اولیااللہ کی اس دھرتی کو ہی اپنا مسکن بنالیا۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی اس فن کی حوصلہ افزائی اور قدر کی گئی۔
ملتان میں روایتی ظروف سازی اور کاشی گری کا تقریباً ایک ہزار سال پرانا ہنر اب آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اب صرف گنتی کے چند لوگ باقی بچے ہیں، جو اپنی محنت اور جانفشانی سے اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کاشی گری کے فن کو وہ پذیرائی نہیں ملی، جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ کاشی گری کا خوبصورت ہنر نسل در نسل منتقل ہوا ہے جس کی وجہ سے اسے مورثی فن بھی کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ کاشی گری میں استعمال ہونے والے نباتاتی رنگوں کی آمیزش کا فارمولا خاندانوں کی میراث ہوتا تھا اور وہ اس میں اس قدر سخت گیر تھے کہ اپنی بہو کو تو فارمولا بتا دیتے تھے مگر بیٹی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے کیونکہ اس نے بیاہ کر دوسرے گھر جانا ہوتا تھا۔ اس فارمولے کی حفاظت قیمتی کاروباری راز کی طرح کی جاتی تھی لیکن اب منظر بدل گیا ہے کیونکہ اس فن کو سکھانے کےلیے انسٹی ٹیوٹ آف بلیو پوٹری ڈیولپمنٹ کی طرح باقاعدہ ادارے بھی وجود میں آچکے ہیں۔
نیلے نقش ونگار والے برتنوں کی زیادہ تر تیاری آج بھی ہاتھوں سے کی جاتی ہے، تاہم جپسم پاؤڈر اور پلاسٹر آف پیرس کو محلول کی شکل میں تیار کرنا، اسے سانچوں میں ڈھالنا اور جدید بھٹی کے استعمال کی وجہ سے برتنوں کی تیاری کا عمل آسان اور تیز ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ان برتنوں کی تیاری جس قدر مشکل کام ہے اس قدر ہی یہ برتن مہنگے بھی ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف بلیو پوٹری ڈیولپمنٹ میں ان برتنوں کا ڈسپلے سینٹر بھی ہے جہاں سے اپنی پسند کے برتن جن میں گلدان، صراحی، کپ، عمارتوں، چھتوں، دیواروں اور فرش پر استعمال ہونے والے زیبائشی ٹائلز، ڈیکوریشن پیس اور چائے دانیاں شامل ہیں، خرید سکتے ہیں۔ ایک چھوٹے چائے کے کپ کی قیمت بھی 500 روپے سے شروع ہوتی ہے۔ منتظمین نے بتایا کہ بلیوپوٹری یا تو گھر کے ڈرائنگ رومز کی سجاوٹ کےلیے خریدے جاتے ہیں یا پھر بڑے ہوٹل، نواب اور خاندان استعمال کرتے ہیں۔
لاہور کے قریب شاہدرہ میں بھی سرامکس تیار کرنے والی فیکٹری ہے، تاہم یہاں زیادہ تر صاف برتن ہی تیار ہوتے ہیں۔ ان پر ملتان کی طرح کے نقش ونگار بہت کم بنائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ان برتنوں کو عام طور پر چینی کے برتن کہا جاتا ہے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ ہے کہ اس ہنر کی ابتدا چین سے ہوئی تھی۔ ملتان میں بلیوپوٹری فیکٹری کے وزٹ کے بعد ہم بہاولپور کی طرف روانہ ہوگئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔