کیا جنوبی پنجاب آئندہ بھی اقتدارکا محوربن سکے گا
سابق وزیراعظم خود اور ان کے صاحبزادے ایفی ڈرین کیس کو بھی اپنے خلاف سیاسی انتقامی۔۔۔
SWAT:
اقتدار بہت ظالم چیز ہے ،کرسی کا نشہ سب نشوں پر بھاری ہے اور اترتے اترتے اترتا ہے۔
کرسی پر بیٹھنے والا اترنے کے بعد بھی اسی فضیلت' عزت اور فرمانروائی کا متمنی ہوتا ہے جو اس نے اقتدار میں دیکھی ہوتی ہے۔ اس میں بھلا سید یوسف رضا گیلانی کا کیا قصور، انہیں تو مسند اقتدار سے ہٹے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور وہ بھی ایسا مسند جہاں دنیا سمٹ کر جھولی میں آجاتی ہے۔
ارد گرد کھڑے برسوں کی ریاضت سے بال سفید کئے اعلیٰ سرکاری افسر بے حیثیت معلوم ہوتے ہیں۔ اربوں کا صوابدیدی فنڈ لٹانے کے لئے موجود ہوتا ہے ۔ جلسوں میں کھڑے کھڑے کروڑوں کے اعلانات' امداد' فنڈز بندے کو کسی اور دنیا میں پہنچا دیتے ہیں اب بھلا یہ کرسی کا خمار یکلخت کیسے چلا جائے یہاں تو ان کے خمار نہیں اترے جنہیں کرسی سے اترے مدت بیت گئی' کئی سپیکر آج بھی سپیکر ہیں تو کئی گورنر آج بھی اپنے اندر گورنری کی حدت محسوس کرتے ہیں۔
یہ سراب ہے ہی اتنا خوفناک کہ دھوکہ کھانے والا کھائے چلا جاتا ہے نبھانے والے اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں تو حقیقی بادشاہی اور وہ بھی پاکستان کی بادشاہی بھلا اپنا خمار کیسے اور کیونکر جلدی اترنے دے گی۔
سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور اقتدار کی عیدیں ملتان ہی میں گزاریں اور کئی دورے کئے، جب وہ ملتان آتے تو گویا ایک نیا شہر ان کے گھر کے ارد گرد اور سرکٹ ہائوس میں آبستا تھا۔
گاڑیوں کے قافلے' خوشامدیوں کے ٹھٹ' قطار اندر قطار کھڑے سرکاری افسر کورنش بجا لاتے اور لاکھوں کے ٹی اے ڈی اے بناتے' سید یوسف رضا گیلانی بھی اپنے مصاحبوں کے ہمراہ تین ہیلی کاپٹروں میں شہر کے اندر ایک مقام سے دوسرے مقام تک آتے جاتے' ہر لمحے افتتاحی تختیاں ایک منصوبے پر کئی کئی تختیاں' دوستیاں نبھانے ار لوگوں کو خوش کرنے کے لئے دورے' یہ مناظر اب بھلا وزارت عظمٰی سے ہٹنے کے بعد کہاں مل سکتے ہیں۔
اب میڈیا سے بھی کیا گلہ جو صحافت کے طے شدہ اصولوں پر خبر کو جگہ دیتا ہے اور جس کا پہلا اصول یہ ہے کہ کہنے والی بات کون کہہ رہا ہے اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو فی الوقت سید یوسف رضا گیلانی کو ان کے ارد گرد موجود لوگ نہیں سمجھنے دیں گے۔ یہ فرق ہے وزیراعظم اور سابق وزیراعظم کا،یہ ایک لکیر کا فرق نہیں بلکہ بے اختیاری کا فرق ہے، سالوں کا فرق ہے جسے پر کرنے میں بھی برسوں درکار ہوتے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی وزارت عظمٰی سے ہٹنے کے بعد اب بھی ملتان آتے ہیں لیکن افراتفری نہیں ہوتی خود سید یوسف رضا گیلانی تو پرانے کروفر اور گہما گہمی کی خواہش کرتے ہیں اور ابھی تو حکومت بھی اپنی ہے لیکن وہ سب ہونہیں پاتا جو اپنی بادشاہی میں تھا اب تو سخت اور تندوتیز سوالات ہوتے ہیں اور ان میں اہم اور سخت سوال سید علی موسٰی گیلانی کے بارے میں ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم گزشتہ ہفتے بھی ملتان آئے اور تین دن ملتان میں گزارے اور سید علی موسٰی گیلانی کی ضمانت خارج ہونے اور مفرور قرار دیئے جانے کو کمپنی کی مشہوری کا شاخسانہ قرار دیا۔
سابق وزیراعظم خود اور ان کے صاحبزادے ایفی ڈرین کیس کو بھی اپنے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں اور اسے سرائیکی صوبے کے معاملے پر آواز اٹھانے کا ردعمل کہتے ہیں لیکن الزام سنگین ہے اور معاملہ عدالت میں، اس خطرناک کیس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس سے قطع نظر اس معاملے نے جنوبی پنجاب کے دو اہم سیاسی لوگوں کی ساکھ پر بڑا دھبہ لگا دیا ہے۔
مخدوم شہاب الدین اور سید علی موسیٰ گیلانی پر لگنے والے اس الزام نے جنوبی پنجاب بھر کے لوگوں کے سر شرم سے جھکا دیئے۔ اس سے قبل بھی اس خطے میں موجودہ دور میں ہی کئی اہم سیاسی شخصیات پر سنگین الزامات عائد ہوتے ہیں اور کچھ کو اپنے طرز عمل کی وجہ سے اہم مناصب سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
کچھ خود کو معاملات سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں لیکن کردہ اور ناکردہ کاموں کی سزا پانے والوں کی فہرست مرتب کی جائے تو بڑی تعداد میں اس خطے کے سیاستدان قلیل عرصہ میں اپنے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس کا نقصان ان شخصیات کو تو ہوا سو ہوا جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بھی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اہم مناصب چھن جانے سے اس خطے کو اقتدار میں جو حصہ ملا تھا وہ گھٹتے گھٹتے بہت کم رہ گیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہاں کے لوگ اپنے طرز عمل سے نیک نامی کما لیتے اور کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات کی بجائے اعلیٰ انتظامات اور شفاف بندوبست کی شہرت حاصل کرتے۔ سیاستدان لاکھ نفی کرتے رہیں لیکن جو الزامات ان پر لگتے رہے ہیں ان کا سیاسی نقصان بھی انہیں سہنا پڑے گا اور لوگ اس خدشے کا بھی شکار ہیں کہ ایفی ڈرین کیس سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان کی سیاسی ساکھ کو مزید نقصان پہنچائے گا۔
اقتدار بہت ظالم چیز ہے ،کرسی کا نشہ سب نشوں پر بھاری ہے اور اترتے اترتے اترتا ہے۔
کرسی پر بیٹھنے والا اترنے کے بعد بھی اسی فضیلت' عزت اور فرمانروائی کا متمنی ہوتا ہے جو اس نے اقتدار میں دیکھی ہوتی ہے۔ اس میں بھلا سید یوسف رضا گیلانی کا کیا قصور، انہیں تو مسند اقتدار سے ہٹے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور وہ بھی ایسا مسند جہاں دنیا سمٹ کر جھولی میں آجاتی ہے۔
ارد گرد کھڑے برسوں کی ریاضت سے بال سفید کئے اعلیٰ سرکاری افسر بے حیثیت معلوم ہوتے ہیں۔ اربوں کا صوابدیدی فنڈ لٹانے کے لئے موجود ہوتا ہے ۔ جلسوں میں کھڑے کھڑے کروڑوں کے اعلانات' امداد' فنڈز بندے کو کسی اور دنیا میں پہنچا دیتے ہیں اب بھلا یہ کرسی کا خمار یکلخت کیسے چلا جائے یہاں تو ان کے خمار نہیں اترے جنہیں کرسی سے اترے مدت بیت گئی' کئی سپیکر آج بھی سپیکر ہیں تو کئی گورنر آج بھی اپنے اندر گورنری کی حدت محسوس کرتے ہیں۔
یہ سراب ہے ہی اتنا خوفناک کہ دھوکہ کھانے والا کھائے چلا جاتا ہے نبھانے والے اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں تو حقیقی بادشاہی اور وہ بھی پاکستان کی بادشاہی بھلا اپنا خمار کیسے اور کیونکر جلدی اترنے دے گی۔
سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور اقتدار کی عیدیں ملتان ہی میں گزاریں اور کئی دورے کئے، جب وہ ملتان آتے تو گویا ایک نیا شہر ان کے گھر کے ارد گرد اور سرکٹ ہائوس میں آبستا تھا۔
گاڑیوں کے قافلے' خوشامدیوں کے ٹھٹ' قطار اندر قطار کھڑے سرکاری افسر کورنش بجا لاتے اور لاکھوں کے ٹی اے ڈی اے بناتے' سید یوسف رضا گیلانی بھی اپنے مصاحبوں کے ہمراہ تین ہیلی کاپٹروں میں شہر کے اندر ایک مقام سے دوسرے مقام تک آتے جاتے' ہر لمحے افتتاحی تختیاں ایک منصوبے پر کئی کئی تختیاں' دوستیاں نبھانے ار لوگوں کو خوش کرنے کے لئے دورے' یہ مناظر اب بھلا وزارت عظمٰی سے ہٹنے کے بعد کہاں مل سکتے ہیں۔
اب میڈیا سے بھی کیا گلہ جو صحافت کے طے شدہ اصولوں پر خبر کو جگہ دیتا ہے اور جس کا پہلا اصول یہ ہے کہ کہنے والی بات کون کہہ رہا ہے اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو فی الوقت سید یوسف رضا گیلانی کو ان کے ارد گرد موجود لوگ نہیں سمجھنے دیں گے۔ یہ فرق ہے وزیراعظم اور سابق وزیراعظم کا،یہ ایک لکیر کا فرق نہیں بلکہ بے اختیاری کا فرق ہے، سالوں کا فرق ہے جسے پر کرنے میں بھی برسوں درکار ہوتے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی وزارت عظمٰی سے ہٹنے کے بعد اب بھی ملتان آتے ہیں لیکن افراتفری نہیں ہوتی خود سید یوسف رضا گیلانی تو پرانے کروفر اور گہما گہمی کی خواہش کرتے ہیں اور ابھی تو حکومت بھی اپنی ہے لیکن وہ سب ہونہیں پاتا جو اپنی بادشاہی میں تھا اب تو سخت اور تندوتیز سوالات ہوتے ہیں اور ان میں اہم اور سخت سوال سید علی موسٰی گیلانی کے بارے میں ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم گزشتہ ہفتے بھی ملتان آئے اور تین دن ملتان میں گزارے اور سید علی موسٰی گیلانی کی ضمانت خارج ہونے اور مفرور قرار دیئے جانے کو کمپنی کی مشہوری کا شاخسانہ قرار دیا۔
سابق وزیراعظم خود اور ان کے صاحبزادے ایفی ڈرین کیس کو بھی اپنے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں اور اسے سرائیکی صوبے کے معاملے پر آواز اٹھانے کا ردعمل کہتے ہیں لیکن الزام سنگین ہے اور معاملہ عدالت میں، اس خطرناک کیس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس سے قطع نظر اس معاملے نے جنوبی پنجاب کے دو اہم سیاسی لوگوں کی ساکھ پر بڑا دھبہ لگا دیا ہے۔
مخدوم شہاب الدین اور سید علی موسیٰ گیلانی پر لگنے والے اس الزام نے جنوبی پنجاب بھر کے لوگوں کے سر شرم سے جھکا دیئے۔ اس سے قبل بھی اس خطے میں موجودہ دور میں ہی کئی اہم سیاسی شخصیات پر سنگین الزامات عائد ہوتے ہیں اور کچھ کو اپنے طرز عمل کی وجہ سے اہم مناصب سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
کچھ خود کو معاملات سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں لیکن کردہ اور ناکردہ کاموں کی سزا پانے والوں کی فہرست مرتب کی جائے تو بڑی تعداد میں اس خطے کے سیاستدان قلیل عرصہ میں اپنے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس کا نقصان ان شخصیات کو تو ہوا سو ہوا جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بھی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اہم مناصب چھن جانے سے اس خطے کو اقتدار میں جو حصہ ملا تھا وہ گھٹتے گھٹتے بہت کم رہ گیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہاں کے لوگ اپنے طرز عمل سے نیک نامی کما لیتے اور کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات کی بجائے اعلیٰ انتظامات اور شفاف بندوبست کی شہرت حاصل کرتے۔ سیاستدان لاکھ نفی کرتے رہیں لیکن جو الزامات ان پر لگتے رہے ہیں ان کا سیاسی نقصان بھی انہیں سہنا پڑے گا اور لوگ اس خدشے کا بھی شکار ہیں کہ ایفی ڈرین کیس سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان کی سیاسی ساکھ کو مزید نقصان پہنچائے گا۔