پی ایس ایل فرنچائززکے اچھے دن آگئے

اگرآپ کرکٹ بورڈ کے کسی آفیشل کی کوئی غلطی سامنے لے آئیں تو وہ بھی ناراض ہو جاتا ہے


Saleem Khaliq January 14, 2022
اگرآپ کرکٹ بورڈ کے کسی آفیشل کی کوئی غلطی سامنے لے آئیں تو وہ بھی ناراض ہو جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR: ''یار تم پی سی بی کے اتنے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہو، اب تو رمیز چیئرمین بن کرآ گیا ہے میں اسے جانتا ہوں ایماندار بندہ ہے اچھے کام کرے گا، بورڈ میں فلاں فلاں تم سے بہت ناخوش ہیں،ایسا نہیں ہونا چاہیے''۔

لاہور میں جب ایک سابق کرکٹر نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے جواب دیا کہ یہ انسانی فطرت ہے، اس کی خامیاں سامنے آئیں تو وہ بھڑک اٹھتا ہے، خود میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے،آپ نے مجھے دیکھتے ہی کہاکہ تم نے پھر وزن بہت بڑھا لیا، سچ بتاؤں تو مجھے یہ بات بہت بْری لگی لیکن کیا آپ نے غلط کہا؟ میں آئینہ دیکھوں تو سچ سامنے آجائے گا، ایسا ہی ہوتا ہے۔

اگرآپ کرکٹ بورڈ کے کسی آفیشل کی کوئی غلطی سامنے لے آئیں تو وہ بھی ناراض ہو جاتا ہے،حال ہی میں قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی سی بی کی آڈٹ رپورٹ سامنے آئی جس سے میں نے چند اسٹوریز دیں اس پر بھی کچھ لوگ ناخوش ہیں، بندوق سے جب گولی نکلے تو آپ اسے چلانے والے کو ذمہ دار قراردیں گے یا بندوق و گولی کو؟ آڈٹ والوں سے کہیں کہ رپورٹ میں ایسا کیوں لکھا،اس میں کسی صحافی کا کیا قصور ہے۔ یہ سن کر وہ کرکٹرکہنے لگے کہ ''او چھڈ یار، باتوں میں تم کو میں نہیں ہرا سکتا، ہاں کرکٹ کی بات اور ہے'' ہا ہا ہا۔

ارے میں یہ تو بتانا بھول گیا کہ لاہور گیا کیوں تھا،دراصل پی ایس ایل شروع ہونے والی ہے، بس اسی سلسلے میں جانا ہوا تھا، آج کل فضائی سفر کے حوالے سے لوگوں میں خاصا خوف پایا جاتا ہے، میں امریکا بھی چلے جاؤں کچھ نہیں ہوتا مگر لاہور یا اسلام آباد کی ڈومیسٹک فلائٹس جب تک لینڈ نہ ہو جائے گھر والے فکرمند رہتے ہیں، شاید متواتر فضائی حادثے اس کی وجہ بنے، مجھے ایک دوست کسی صاحب کا بتا رہے تھے کہ انھیں اگر لاہور سے کراچی آنا ہو تو وہ پہلے ایمریٹس ایئرلائنز سے دبئی جاتے ہیں اور پھر وہاں سے کراچی، واپسی پر بھی ایسا ہی روٹ اپناتے ہیں۔

خیر بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، میں پی ایس ایل کا بتا رہا تھا اس بار تاحال روایتی گہما گہمی تو نظر نہیں آ رہی مگر پھر بھی قذافی اسٹیڈیم کے باہر بڑی ٹرافی اور کرکٹرز کے کٹ آؤٹس بیان کر رہے ہیں کہ کھیلوں کا میلہ سجنے والا ہے، کھلاڑی ان دنوں ڈبل ڈیوٹی کر رہے ہیں، پریکٹس کے ساتھ انھیں فرنچائزز کے اشتہارات کی شوٹنگ یا کمرشل معاہدوں کی تقریبات میں بھی شرکت کرنا پڑتی ہے،خیر ان کو پیسے ہی اس کے ملتے ہیں جب لیگ شروع ہو جائے گی تب تو ویسے ہی ایک ماہ تک اسٹیڈیم اور ہوٹل میں رہنا ہے۔

اس بار بائیو ببل زیادہ سخت ہے، آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ بابر اعظم کو اگر محمد رضوان سے بھی ملاقات کرنا ہو تو انھیں بھی کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے میچ کا انتظار کرنا ہوگا،کراچی میں مکمل ہوٹل اور لاہور میں ہوٹل کا ایک پورا ونگ بک کرنے کی وجہ سے بورڈ نے اس بار غیرملکی کمپنی کی خدمات لینے کا ارادہ بدل دیا،گذشتہ دونوں ایڈیشنز میں پی ایس ایل کو درمیان میں ہی روکنا پڑا تھا، حکام اس بار ایسی کسی صورتحال کو دہرانا نہیں چاہتے،اسی لیے سختی برتی جائے گی، البتہ کھلاڑی فیملیزکو ساتھ رکھنے کی اجازت نہ ملنے پر ناخوش ہیں۔

واقعی اگر آپ سوچیں کہ ایک ماہ تک ہوٹل اور اسٹیڈیم تک محدود رہنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہے، اسی لیے کھلاڑی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں، مگر منتظمین کے پاس بھی کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں، ایسے میں کرکٹرز کو اضافی کوویڈ الاؤنس دینا چاہیے تاکہ ان کو کچھ تو تسلی ملے،رواں برس پاکستانی ٹیم کا شیڈول بہت مصروف ہے، اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے لیگ کو روکنا پڑا تو مکمل نہیں ہو سکے گی، یو اے ای میں بھی بہت زیادہ کوویڈ کیسز سامنے آ رہے ہیں۔

وہاں بھی انعقاد ممکن نہ ہوگا،اس لیے سخت انتظامات کر کے لیگ کو شیڈول پر ہی مکمل کرنا چاہیے،ویسے فرنچائزز ان دنوں بہت خوش ہیں، کمرشل کنٹریکٹس پہلے کے مقابلے میں بہت بڑی رقم کے ہوئے ہیں، سینٹرل انکم پول کا95 فیصد حصہ فرنچائزز کو ہی ملے گا، ہر ٹیم کے حصے میں کم از کم 50کروڑ روپے تو آئیں گے،سستی ٹیموں کے وارے نیارے ہیں جبکہ دیگربھی چند برسوں میں سابقہ نقصان پورا کر لیں گی، اس کا کریڈٹ رمیز راجہ کو جاتا ہے، ان کے آتے ہی پی ایس ایل فنانشل ماڈل کا بڑا تنازع حل ہو گیا جو گذشتہ برس عدالت تک پہنچ گیا تھا۔

اب زبردست معاہدے بھی ہوئے ہیں،حالانکہ پاکستان میں اچانک کوئی دودھ کی نہریں نہیں بہنے لگیں نہ ہی بزنس بہت بڑھ گیا،یہ صرف اچھی لیڈر شپ کا کمال ہے،ورنہ جو لوگ اب کریڈٹ لے رہے ہیں وہ تو سابقہ دور میں بھی موجود تھے تب کیوں تیر نہ مارے، نئے معاہدوں میں فرنچائزز کے نمائندوں کا بھی بڑا کردار ہے، خاص طور پر ثمین رانا جو چھپے رستم ہیں اور پس منظر میں رہتے ہوئے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں، اسی طرح حیدر اظہر بھی خاصے متحرک رہے، اس سے پہلے شعیب نوید یہ کام سنبھالا کرتے تھے لیکن پتا نہیں انھوں نے فرنچائزز کے مفادات کا کیوں خیال نہیں رکھا،اب ٹیم مالکان اور بورڈ کے اچھے تعلقات لیگ کو مزید ترقی دلائیں گے۔

آخر میں چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کے ساتھ اپنی غیر رسمی ملاقات کا کچھ ذکر کر دوں،انھوں نے اپنے مستقبل کے منصوبوں وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا، ان کے آنے سے کرکٹ بورڈ میں بہت بہتری نظر آ رہی ہے، پی ایس ایل کے کنٹریکٹس اور ٹیم کی کارکردگی اس کا ثبوت ہے،البتہ میں یہ واضح کر دوں کہ چیئرمین سے اپنی ایکریڈیشن،پی سی بی کے واٹس ایپ گروپس میں انٹری، ای میل لسٹ میں شمولیت،میڈیا ڈپارٹمنٹ سے روابط کی بحالی اور کھلاڑیوں کے انٹرویوزکی اجازت پر کوئی بات نہیں کی، حالانکہ انھوں نے مجھ سے کہا بھی لیکن میں نے واضح کر دیا کہ معاملات جیسے چل رہے ہیں ویسے ہی چلنے دیں، مجھے الحمداللہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا، میرا کام جاری ہے۔ خیر امید ہے کہ رمیز راجہ کچھ عرصے میں ہی پی سی بی کا قبلہ مکمل طور پر درست کر دیں گے، کم از کم بورڈ کی حد تک تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ چکی ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں