منی بجٹ اور عوام کے مصائب
منی بجٹ اور امیدیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا
ABBOTTABAD:
ضمنی مالیاتی بل2021 (منی بجٹ) قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، اپوزیشن کی ترامیم مسترد ہوگئیں۔ اپوزیشن بل کی منظوری رکوانے میں ناکام رہی، حکومت نے دو مرتبہ عددی برتری ثابت کی۔ ایوان میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی منظور کر لیا گیا، اپوزیشن نے اسپیکر ڈائس کے سامنے شدید احتجاج اور نعرہ بازی کی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت ہوا، وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی۔ ان کی آمد پر ارکان اسمبلی نے ڈیسک بجا کر استقبال کیا جب کہ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگائے۔
منی بجٹ پر بھی بے ہنگم شور اور نعرے بازی کا انداز سالانہ میزانیے کی روایت کے ساتھ جاری رہا، عوام کی زندگی میں قومی بجٹ ےا منی بجٹ کسی بنیادی معاشی تبدیلی کی کوئی نوید لے کر نہیں آتے، جہاں سالانہ بجٹ میں اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد ہوئیں، وہ تو ہونی تھیں، اس روایت کے تحت موجودہ منی بجٹ میں بھی اپوزیشن کی ترامیم مسترد ہوئیں۔
بلاشبہ عوام کو نہ ان ترامیم سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ حکومت اور اپوزیشن ملکی اقتصادیات کے لیے کوئی غیر معمولی معاشی پالیسی یا نظام کی بنیاد رکھنے میں کوئی بریک تھرو لانے کا ارادہ رکھتی تھیں، یہ محاذ آرائی، کشمکش، ہیر پھیر کی گرم بازاری تھیں یہ کچھ اور، اقتصادی نظام کے سارے معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں، بجٹ اور منی بجٹ کے ہنگامے زےب داستاں ہیں، عوام کو معاشی زندگی مےں کسی تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
عوامی حلقوں کے مطابق پہلے غیراعلانیہ منی بجٹ آتے تھے، پھر منی بجٹ کا سلسلہ شروع ہوا، حکومت چونکہ کسی اخلاقی دباﺅ میں کبھی نہیں تھی اس لیے خاموشی سے منی بجٹ لا کر عوام کو تسلی دی گئی کہ حکومت نے ان کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ ضروری فیصلے کیے ہیں اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے حکومتی حکمت عملی کے تحت منی بجٹ میں غریب طبقات کے لیے مہنگائی کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، غریب آدمی کے لیے سانس لینے کا امکان بڑھ جائے گا، منی بجٹ اور امیدیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا، چیزیں کب سستی ہوں گی اور کب مہنگائی کا دباﺅ بھی قابل برداشت ہوجائے گا، کوئی نہیں جانتا، لیکن مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ منی بجٹ محض وقت گزاری اور مہلت حاصل کرنا ہے۔
مبصرین کو امید تھی کہ منی بجٹ منظور ہوگا، وہ اپوزیشن ارکان جو منی بجٹ کی عدم منظوری کے لیے بیانات دیتے ہیں، چھپ کر حکومت کو رائے شماری میں بھرپور مدد دیتے ہیں، بظاہر ان کی سیاست بھی چلتی ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کا بازار بھی گرم رہتا ہے لیکن عوام کو مہنگائی، غربت اور بےروزگاری کے مسائل کا سامنا رہتا، سال ہا سال سے ملکی سیاست بجٹ اور منی بجٹ کے مخمصے میں گرفتار عوام سے دل لگی کرتی ہے، انھیں سبز باغ دکھاتی ہے، عوام بھی ایک التباس اور امید کے ساتھ منی بجٹ سے بہتری اور تبدیلی کی امید وابستہ کر لیتے ہیں، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے، قوم کو یقین دلایا کہ عوام کو ایک تبدیل شدہ معیشت ملے گی، زندگی کے دکھ کم ہوں گے۔
حکومت ان کے مسائل حل کرنے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملائے گی، پاکستان ترقی کرےگا، غربت کا خاتمہ ہوگا، لیکن عوام کی دنیا کے اس محور اور حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آتی، نہ معلوم یہ کون سے بجٹ اور منی بجٹ ہیں جن سے عوامی زندگی کو کوئی سہولت نہیں ملتی، ستم ظریفی ملاحظہ ہو منی بجٹ کی منظوری کے موقع پر عوام کو یہ خوشخبری ملی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، یہ خدشہ کسی نہ کسی شکل میں صارفین کے ساتھ لگا رہتا ہے۔
تاہم حکومت کا سب سے بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ قوم کو ایک مستحکم اقتصادی اور سماجی نظام نہیں دے سکی، مہنگائی کے خاتمے کی یقین دہانی وزیر اعظم نے کئی بار کی، وفاقی وزیر نے اپنی تقریروں میں معیشت کے استحکام کے وعدے کیے لیکن حقائق اور مہنگائی نے عوام کو صرف بجٹ اور منی بجٹ کے جھانسے دیے، کوئی معاشی پروگرام ملکی معیشت کو اقتصادی استحکام نہیں دے سکا، حکومت نے اپنے کام اور حکمت عملی میں قوم کو شامل نہیں کیا، ان کے معاشی مسیحا بنیادی کاموں سے جان چھڑاتے رہے، مسائل کے حل کے لیے جو فہمیدگی درکار ہے اسے سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے، وقت ضایع کرنے سے مسائل مزید الجھن پیدا کریں گے۔
منی بجٹ پر عوام کی مشکلات پر بحث نہیں ہوئی، مسائل اور مناظرے کی صورتحال نے ملکی معیشت کو ایک دلدل کے سپرد کر دےا ہے جس میں عوام پھنس گئے ہیں جب کہ عوام کو معاشی مسائل کا حل چاہیے، حکومت ادراک کرے کہ عوام مصائب کا شکار ہیں، حکمرانی ایک بند گلی میں ہے، اسے شاندار معاشی ریکوری ہی اس مصیبت سے نکال سکتی ہے، منی بجٹ سے عوام کے مصائب کا خاتمہ ممکن نہیں ہے، ایک بڑے بریک تھرو اور استحکام کی ضرورت ہے، سوال یہ ہے کہ یہ استحکام انھیں کون دے گا؟
ضمنی مالیاتی بل2021 (منی بجٹ) قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، اپوزیشن کی ترامیم مسترد ہوگئیں۔ اپوزیشن بل کی منظوری رکوانے میں ناکام رہی، حکومت نے دو مرتبہ عددی برتری ثابت کی۔ ایوان میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی منظور کر لیا گیا، اپوزیشن نے اسپیکر ڈائس کے سامنے شدید احتجاج اور نعرہ بازی کی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت ہوا، وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی۔ ان کی آمد پر ارکان اسمبلی نے ڈیسک بجا کر استقبال کیا جب کہ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگائے۔
منی بجٹ پر بھی بے ہنگم شور اور نعرے بازی کا انداز سالانہ میزانیے کی روایت کے ساتھ جاری رہا، عوام کی زندگی میں قومی بجٹ ےا منی بجٹ کسی بنیادی معاشی تبدیلی کی کوئی نوید لے کر نہیں آتے، جہاں سالانہ بجٹ میں اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد ہوئیں، وہ تو ہونی تھیں، اس روایت کے تحت موجودہ منی بجٹ میں بھی اپوزیشن کی ترامیم مسترد ہوئیں۔
بلاشبہ عوام کو نہ ان ترامیم سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ حکومت اور اپوزیشن ملکی اقتصادیات کے لیے کوئی غیر معمولی معاشی پالیسی یا نظام کی بنیاد رکھنے میں کوئی بریک تھرو لانے کا ارادہ رکھتی تھیں، یہ محاذ آرائی، کشمکش، ہیر پھیر کی گرم بازاری تھیں یہ کچھ اور، اقتصادی نظام کے سارے معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں، بجٹ اور منی بجٹ کے ہنگامے زےب داستاں ہیں، عوام کو معاشی زندگی مےں کسی تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
عوامی حلقوں کے مطابق پہلے غیراعلانیہ منی بجٹ آتے تھے، پھر منی بجٹ کا سلسلہ شروع ہوا، حکومت چونکہ کسی اخلاقی دباﺅ میں کبھی نہیں تھی اس لیے خاموشی سے منی بجٹ لا کر عوام کو تسلی دی گئی کہ حکومت نے ان کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ ضروری فیصلے کیے ہیں اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے حکومتی حکمت عملی کے تحت منی بجٹ میں غریب طبقات کے لیے مہنگائی کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، غریب آدمی کے لیے سانس لینے کا امکان بڑھ جائے گا، منی بجٹ اور امیدیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا، چیزیں کب سستی ہوں گی اور کب مہنگائی کا دباﺅ بھی قابل برداشت ہوجائے گا، کوئی نہیں جانتا، لیکن مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ منی بجٹ محض وقت گزاری اور مہلت حاصل کرنا ہے۔
مبصرین کو امید تھی کہ منی بجٹ منظور ہوگا، وہ اپوزیشن ارکان جو منی بجٹ کی عدم منظوری کے لیے بیانات دیتے ہیں، چھپ کر حکومت کو رائے شماری میں بھرپور مدد دیتے ہیں، بظاہر ان کی سیاست بھی چلتی ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کا بازار بھی گرم رہتا ہے لیکن عوام کو مہنگائی، غربت اور بےروزگاری کے مسائل کا سامنا رہتا، سال ہا سال سے ملکی سیاست بجٹ اور منی بجٹ کے مخمصے میں گرفتار عوام سے دل لگی کرتی ہے، انھیں سبز باغ دکھاتی ہے، عوام بھی ایک التباس اور امید کے ساتھ منی بجٹ سے بہتری اور تبدیلی کی امید وابستہ کر لیتے ہیں، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے، قوم کو یقین دلایا کہ عوام کو ایک تبدیل شدہ معیشت ملے گی، زندگی کے دکھ کم ہوں گے۔
حکومت ان کے مسائل حل کرنے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملائے گی، پاکستان ترقی کرےگا، غربت کا خاتمہ ہوگا، لیکن عوام کی دنیا کے اس محور اور حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آتی، نہ معلوم یہ کون سے بجٹ اور منی بجٹ ہیں جن سے عوامی زندگی کو کوئی سہولت نہیں ملتی، ستم ظریفی ملاحظہ ہو منی بجٹ کی منظوری کے موقع پر عوام کو یہ خوشخبری ملی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، یہ خدشہ کسی نہ کسی شکل میں صارفین کے ساتھ لگا رہتا ہے۔
تاہم حکومت کا سب سے بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ قوم کو ایک مستحکم اقتصادی اور سماجی نظام نہیں دے سکی، مہنگائی کے خاتمے کی یقین دہانی وزیر اعظم نے کئی بار کی، وفاقی وزیر نے اپنی تقریروں میں معیشت کے استحکام کے وعدے کیے لیکن حقائق اور مہنگائی نے عوام کو صرف بجٹ اور منی بجٹ کے جھانسے دیے، کوئی معاشی پروگرام ملکی معیشت کو اقتصادی استحکام نہیں دے سکا، حکومت نے اپنے کام اور حکمت عملی میں قوم کو شامل نہیں کیا، ان کے معاشی مسیحا بنیادی کاموں سے جان چھڑاتے رہے، مسائل کے حل کے لیے جو فہمیدگی درکار ہے اسے سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے، وقت ضایع کرنے سے مسائل مزید الجھن پیدا کریں گے۔
منی بجٹ پر عوام کی مشکلات پر بحث نہیں ہوئی، مسائل اور مناظرے کی صورتحال نے ملکی معیشت کو ایک دلدل کے سپرد کر دےا ہے جس میں عوام پھنس گئے ہیں جب کہ عوام کو معاشی مسائل کا حل چاہیے، حکومت ادراک کرے کہ عوام مصائب کا شکار ہیں، حکمرانی ایک بند گلی میں ہے، اسے شاندار معاشی ریکوری ہی اس مصیبت سے نکال سکتی ہے، منی بجٹ سے عوام کے مصائب کا خاتمہ ممکن نہیں ہے، ایک بڑے بریک تھرو اور استحکام کی ضرورت ہے، سوال یہ ہے کہ یہ استحکام انھیں کون دے گا؟