پنڈورا پیپرز کے انکشافات
2020ء میں سامنے آنے والی سب سے بڑی بین الاقوامی مالیاتی لیکس کی حیرت انگیز و سبق آموز داستان
لاہور:
''ایک لالچی کے لیے پوری کائنات بھی تھوڑی ہے۔''(یونانی فلسفی سنیکا)
قدیم یونان کی روایت ہے کہ پرومیتھس نامی ایک دیوتا بنی نوع انسان کا ہمدرد تھا۔اس نے انسانوں کو علم وشعور کی دولت دی، انھیں تہذیب سے جینا سکھایا اور اپنے بادشاہ، زیوس دیوتا سے چھپ کر آگ کا تحفہ دے ڈالا۔یہ تحفہ پا کر انسان بہت خوش ہوئے اور ان کی تمدنی وتہذیبی ترقی کا آغاز ہو گیا۔مگر زیوس کو جب چوری کا پتا چلا تو اسے بہت غصہ آیا۔اس نے پرومیتھس کو دائمی طور پہ قید کر دیا۔زیوس کو انسان کی خوشیاں بھی ایک آنکھ نہ بھائیں۔
چناں چہ انسانوں کی زندگیاں عذاب بنانے کی خاطر زیوس نے ایک دیوتا سے عورت تیار کرائی جس کا نام پنڈورا رکھا۔ پھر پنڈورا کی شادی ایک احمق دیوتا سے کرائی اور تب اسے ایک مرتبان بطور تحفہ دیا۔ مرتبان میں ساری برائیاں...لالچ، ہوس، حسد، مکاری، دغا بازی وغیرہ موجود تھیں۔پنڈورا نے متجسّس ہو کر اسے کھولا تو ساری برائیاں مرتبان سے نکل کر دنیا میں پھیل گئیں۔تب سے وہ انسان کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
سیاہ کارنامے افشا: اکتوبر 2021ء میں صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم''انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (International Consortium of Investigative Journalists)نے امرا کے کرتوت افشا کرتی دستاویز دنیا والوںکے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تو انھیں ''پنڈورا پیپرز'' کا نام دیا۔ پنڈورا کے مرتبان سے تو برائیاں نکلی تھیں مگر یہ پیپرز مختلف ثابت ہوئے کیونکہ انھوں نے ہمارے سامنے دنیا بھر کی طاقتور شخصیات کے سیاہ کارنامے افشا کر دئیے۔سب سے بڑا انکشاف یہی ہوا کہ اول کئی دولت مند اپنی جائز یا ناجائز رقم غیر ملکی بینکوں میں رکھنے کے بہت شوقین ہیں۔
دوسرے ہر ملک میں کرپٹ شخصیات کا وتیرہ ہے کہ وہ بیرون ممالک ''کاغذی کمپنیاں ''کھول کر اپنے سیاہ دھن کو سفید بناتے ہیں۔ یہ کاغذی یا آف شور کمپنیاں ایسے ممالک میں کھولی جاتی ہیں جہاں انھیں کھولنے پر کوئی روک ٹوک نہیں اور نہ ان پہ ٹیکس عائد ہوتے ہیں۔ان دستاویزات کا حجم ''3ٹیرابائٹس ''تھا۔ گویا صحافیوں کی عالمی تنظیم نے ،2016ء میں ''پانامہ پیپرز''پیش کر کے اپنا بنایا ریکارڈ توڑ ڈالا۔پانامہ پیپرز کے ذریعے بھی بیرون ممالک کے اکائونٹس اور کمپنیوں میں چھپی امرا کی دولت افشا کی گئی تھی۔اس کی دستاویز کا حجم ''2.6ٹیرا بائٹس'' تھا۔
چودہ کمپنیاں: پانامہ پیپرز کی بیشتر دستاویزدراصل محض ایک کمپنی(موسیک فونسیکا)سے تعلق رکھتی تھیں۔جبکہ پنڈورا پیپرز کی دستاویز کا تعلق چودہ ایسی کمپنیوں سے ہے جو اپنے گاہکوںکو غیرملکی بینکوں میں اکائونٹس کھولنے کے لیے خدمات فراہم کرتی رہیں۔ان میں سے تین کیرئبین ملک، بیلیز، تین برٹش ورجن آئی لینڈز، دو ہانگ کانگ، دو پانامہ، دو سیشلیز، ایک قبرض ،ایک سوئٹزرلینڈ اور ایک متحدہ عرب امارات میں واقع ہیں۔پنڈورا پیپرز کی رو سے دنیا کے ایک سو ممالک سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں صدور، وزرائے اعظم، سیاست دانوں، سرکاری افسروں، جرنیلوں، ججوں، صنعت کاروں، کاروباریوں اور دیگر طاقتور شخصیات کے غیر ملکی اکائونٹس بیرون ملکوں کے بینکوں میں پائے گئے۔
یہ عمل بینکاری کی اصطلاح میں ''آف شور بینکاری'' کہلاتا ہے۔درج بالا شخصیات میں بارہ صدور، دس سابق صدور، چار وزرائے اعظم اور گیارہ سابق پرائم منسٹر شامل ہیں۔سیاست انسانیت کی خدمت کرنے کا نام ہے۔ صد افسوس کہ حکمران طبقے سے متعلق بہت سے لوگ سیاست کو ناجائز طریقے سے دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ ان لالچی لوگوں کی وجہ سے سیاست دور حاضر کا بدنام ترین شعبہ بن چکا۔
خوبیاں بھی ہیں: یہ واضح رہے کہ آف شور بینکاری بذات خود منفی عمل نہیں...اسے انجام دینے والے اپنے کرتوتوں سے اس کو شر انگیز عمل بنا لیتے ہیں۔جی ہاں، آف شور بینکاری خوبیاں بھی رکھتی ہے۔ مگر یہ صرف انہی کو میّسر ہیں جو جائز طریقے سے اس کو اپنا لیں۔سب سے بڑھ کر یہ ایمان داری سے کمائی دولت کو جائز طور پہ تحفظ دیتی ہے۔ معنی یہ کہ غیر ملکی بینکوں میں اکائونٹس کھولنا منفی عمل نہیں ، اس کو قانونی اور دیانت دارانہ طریقے سے کھولا جائے تو وہ جائز ہوتا ہے۔دنیا کے بعض ملکوں میں قائم بینک جو منافع دیتے ہیں۔
اس پہ کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔سوئٹزر لینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں اس عمل کو قانونی تحٖفظ دینے کی خاطر باقاعدہ قوانین بنائے گئے۔چناں چہ کئی ممالک کے دولت مند دھڑادھڑ اپنا سرمایہ سوئس بینکوں میں جمع کرانے لگے تاکہ انھیں اپنے منافع پہ ٹیکس نہ دینا پڑے اور دولت بڑھتی چلی جائے۔مگر ان پہ لازم تھا کہ وہ اپنے وطن کی حکومت کو ان اکائونٹس سے مطلع کریں تاکہ منافع کی صورت ملنے والی آمدن جائز و قانونی قرار پائے۔مثال کے طور پر امریکا میں یہ قانون ہے کہ جس امریکی کی دس ہزار ڈالر سے زائد رقم غیرملکی اکائونٹس میں ہو، وہ اس کی بابت حکومت کو بتائے گا۔غیر ملکی اکائونٹس سے ملے منافع کی رقم مخصوص حد تک ٹیکس فری ہے۔ حد پار ہو جائے تو منافع پر بھی ٹیکس لگ جاتا ہے۔اسی قسم کے قانون دیگر بڑے یورپی ممالک میں بھی موجود ہیں۔
ہوا یہ کہ لالچی اور کرپٹ افراد خصوصاً ناجائز طریقے سے حاصل کردہ اپنی رقم غیر ملکی بینکوں میں پوشیدہ رکھنے لگے۔بینکوں کو تو کاروبار چاہیے تھا لہذا انھوں نے کرپٹ شخصیات سے زیادہ پوچھ گچھ نہ کی اور یوں ان کے اکائونٹس کھول کر جرم میں حصے دار بن گئے۔اس افسوس ناک شراکت داری سے دنیا بھر میں پھیلے کرپٹ مردوزن کو حوصلہ ملا۔وہ اپنے ملک میں مختلف جرائم انجام دے اور رقم جمع کر کے اسے غیر ملکی بینکوں میں چھپا کر بھاری منافع پانے لگے۔یوں آف شور بینکاری ہوس پرستوں کے لیے کمائی کا نیا دھندا بن گیا۔
آف شور بینکاری کے فوائد: اس نئے عجوبے نے ان دولت مندوں کو نقصان پہنچایا جو جائز ضرورت کے تحت آف شور بینکاری کرنے کے خواہاں تھے۔مثال کے طور پہ ایک کاروباری یا صنعت کار ایسے ملک مثلاً لبنان یا وینزویلا میں مقیم ہے جہاں معاشی وسیاسی حالات اچھے نہیں۔حکومت و معاشرے میں استحکام عنقا ہے اور آئے دن عوام کو معاشی وسیاسی جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔ایسی ناگفتہ صورت حال میں صنعت کار اپنی کمائی گئی دولت کو تحٖفظ دینے کی خاطر بیرون ملک کسی بینک میں جمع کرا دے تو یہ جائز بات ہو گی۔ اسے یہ ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔(تاہم غیر ملکی بین اکائونٹس ٹیکس فائلنگ کے وقت دکھانے ہوں گے)ظاہر ہے، تب ملک میں بغاوت ہو جائے یا خانہ جنگی چھڑ جائے تب بھی اس کی رقم محفوظ رہے گی۔ حتی کہ مخالف حکومت اس کی رقم پہ ناجائز قبضہ بھی نہیں کر سکتی۔اسی طرح پُرامن اور خوشحال ملک میں قانونی طریقے سے جائیدایں خرید کر بھی سرمایہ محفوظ بنانا ممکن ہے۔
غیر ملکی بینکوں میں دولت رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کا مالک پھر بین الاقوامی منصوبوں پر آسانی سے سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ بینک اس سلسلے میں اسے معاونت بھی فراہم کرتے ہیں۔غیرملکی اکائونٹس میں رکھی رقم اگر طاقتور کرنسیوں مثلاً ڈالر، یورو یا پائونڈ میں ہے تو اس سے بھی رقم جمع کرانے کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔خاص طور پہ اگر وہ کمزور کرنسی رکھنے والے ملک کا شہری ہو۔مثال کے طور پر پچھلے تین سال میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کافی گر چکی۔
اب جن پاکستانیوں کی رقم بصورت ڈالر یا پائونڈ غیرملکی بینکوں میں موجود تھی، وہ پاکستانی کرنسی کی گراوٹ کی زد میں آنے سے بچ گئی۔اپنے سرمائے کو کرنسی کی گراوٹ سے بچانا بھی ہر شخص کا حق ہے۔ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ڈالر یا پائونڈ میں جمع رقم کرنسی کی قدر بڑھنے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔اگر یہ قانونی طریقے سے جمع ہے تو اس فعل سے بھی اس کے مالک کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔اور وہ اس کا حقدار ہے۔اگر وہ اپنی صلاحیتوں ومحنت کے بل بوتے پہ امیرہوا ہے تو اسے میٹھا پھل ملنا چاہیے۔
سختی کا دور: ماضی میں غیرملکی بینکوں میں اکائونٹس اور غیر ممالک میں کاغذی کمپنیاں کھولنا آسان تھا۔مگر جب دہشت گرد اور جرائم پیشہ لوگ ان سے مستفید ہونے لگے تو ہر ملک اور عالمی قانونی اداروں نے اکائونٹس اور کاغذی کمپنیاں کھولنے کے قوانین سخت کر دئیے۔ورنہ پہلے چند ڈالر سے بھی اکائونٹ کھل جاتا تھا۔
اب تو آف شور بینکاری، تجارت اور کاروبار دنیا بھر میں بدنام ہو چکے۔اسی لیے خاص طور پہ غیرملکی بینک میں اکائونٹ کھولنا پیچیدہ و طویل عمل بن چکا۔امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں تو یہ قانون بن گیا کہ جو امریکی کسی غیرملکی بینک میں اکائونٹ کھولے، تو بینک پہ لازم ہے کہ وہ تمام متعلقہ تفصیل حکومت کو فراہم کرے۔جو غیرملکی بینک ایسا نہ کرے، حکومتیں اس پہ بھاری جرمانہ کرتی ہیں۔نیز اسے وطن میں کام کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتیں۔ماضی میں سوئٹزر لینڈ میں بینک قانونی طور پہ اپنے کلائنٹس کے نام وپتے پوشیدہ رکھنے کے مجاز تھے۔ اب سوئس حکومت نے بھی ایسے قوانین بنا لیے ہیں کہ اگر ثابت ہو جائے ،کسی سوئس اکائونٹ میں کرپشن کی رقم پڑی ہے تو اس کے مالک کی ساری تفصیل غیرملکی حکومت کو فراہم کی جا سکتی ہے۔گویا سوئٹزرلینڈ میں بھی خفیہ آف شور بینکاری کا دور ختم ہو چکا۔
آسان نہیں رہا: پچھلے تیس چالیس برس کے دوران کرپٹ حکمرانوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی ناجائز کمائی کو غیرملکی بینکوں میں جمع کرانا باقاعدہ کاروبار بن گیا تھا۔وکلا اور اکائونٹنٹوں کی ایسی کمپنیاں وجود میں آ گئیں جو کرپٹ مردوزن کو غیرقانونی طور پہ کمائی رقم غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے کے لیے نت نئے طریقے بتاتی تھیں۔
عام طریق واردات یہ تھا کہ ٹیکس فری ملکوں میں کاغذی کمپنیاں کھول لی جاتیں۔معنی یہ کہ یہ کمپنیاں صرف کاغذوں تک محدود ہوتیں، ویسے ایک ٹکے کا بھی کام نہ کرتیں۔ کمپنیوں کے ڈائرکٹر یا حصص کنندگان بن کر لوگ پھر اپنی ناجائز کمائی ان کے غیرملکی اکائونٹس میں جمع کرا دیتے۔ یوں کالا دھن سفید ہو جاتا۔ سابق صدر آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر الزام لگتا ہے کہ انھوں نے کاغذی کمپنیاں کھول کر ہی پاکستانی خزانے سے لوٹی گئی رقم بیرون ملک منتقل کی تھی۔بہرحال اب حکومتوں اور عالمی اداروں کی سختی اور کڑی جانچ پڑتال کے باعث کاغذی کمپنیاں کھولنا اور ان کے ذریعے ناجائز دولت سفید بنانا آسان نہیں رہا۔
پاکستان کی صورت حال: پانامہ اور پنڈورا پیپرز کے ذریعے افشا ہو چکا کہ بہت سی پاکستانی شخصیات بھی غیرملکی بینکوں میں اکائونٹ رکھتی ہیں یا پھر وہ کاغذی کمپنیوں کے مالک نکلے۔کچھ لوگوں نے ٹیکس فائل میں یہ اکائونٹس یا کمپنیاں ڈکلئیر کر رکھی تھیں۔مگر اکثر لوگوں نے ان کی بابت متعلقہ سرکاری اداروں مثلاً ایف بی آر کو کچھ نہیں بتایا تھا۔لیکن ان لوگوں کا دعوی ہے کہ انھوں نے اپنی جائز کمائی غیرملکی بینکوں میں جمع کرائی۔مقصد یہ تھا کہ وہ محفوظ ہو سکے ۔پاکستان میں رکھتے تو معاشی و سیاسی جھٹکوں سے اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔اس ضمن میں پی ٹی آئی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کے ارکان ان کے دعوی کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان ہر معاملے میں قانون کی پاس داری کرے تو پُرسکون و مطمئن رہتا ہے۔وہ ٹیکس چوری کا فیصلہ کرے تو پھر اسے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔سب سے بڑھ کر ناجائز طور طریقے اپنانے پر ضمیر کی ملامت ہر وقت اسے پریشان اور انتشار زدہ رکھتی ہے۔ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے کے شوقین مردوزن نجانے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ چاہے کھربوں روپے اکھٹے کر لیں، آخرکار ان کا دائمی مسکن تین گز کی قبر ہی بننا ہے جہاں ایک پیسا بھی کام نہیں آتا بلکہ اعمال دیکھے جائیں گے۔
بھارتی قوم کہیں آگے: پنڈورا پیپرز سے ایک بہت بڑا انکشاف یہ ہوا کہ ٹیکس چور ی اور دیگر کالے دھندوں میں بھارتی قوم کہیں آگے ہے۔اس کے باوجود فیٹف پاکستان کے پیچھے پڑا ہوا ہے کیونکہ وہ ایک کمزور مملکت ہے۔فیٹف کی اتنی ہمت نہیں کہ معاشی وعسکری طور پہ طاقتور بھارت کے خلاف تحقیقات کر سکے جہاں ہزارہا بھارتی ٹیکس چور اور کالے دھندوں میں ملوث ہیں۔اس مثال سے عیاں ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں قانون وانصاف نہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے۔اسی ناانصافی سے کشمیر، فلسطین او ر بوسنیا جیسے عالمی مسائل نے جنم لیا۔اور طاقتور ملک کمزور ملکوں پہ دھاوا بول کر انھیں پامال کر ڈالتے ہیں۔پانامہ و پنڈورا سے افشا ہوا کہ کئی بھارتی دولت مندوں پر بھارت اور بیرون ممالک بھی ٹیکس چوری اور فراڈ کے مقدمے چل رہے ہیں۔
ویسے وہ دیوالیہ ہو چکے مگر ان کی بے پناہ دولت غیرملکی اکائونٹس میں پوشیدہ ہے۔یہ دولت حاصل کرنا طویل، پیچیدہ اور مہنگا عمل ہے، اسی لیے بھارتی حکومت اسے پانے کی کوشش نہیں کرتی۔ممتاز بھارتی اخبار، انڈین ایکسپریس کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پنڈورا پیپرز میں ''تین سو سے زائد'' بھارتیوں کے نام شامل ہیں۔اخبار نے ان دولت مند بھارتیوں پر ایک تہلکہ خیز رپورٹ مرتب کی جس میں ان کے طریق واردات پہ تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔
ٹرسٹ بنانے کا نیا دھندا: رپورٹ میں درج ہے کہ امیر بھارتی کاروبار، صنعت کار، سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر اور دیگر افراد اپنی جائز یا ناجائز دولت غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے کی خاطر مختلف ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔فی الوقت کسی غیر ملک میں ٹرسٹ قائم کر کے اسے اپنی بیشتر دولت دے دینا بھارتی امرا کا مرغوب عمل بن چکا ہے۔وجہ یہ کہ بھارتی حکومت کوئی مسئلہ کھڑا ہونے پر قانوناً کسی غیر ملکی ٹرسٹ سے ان کی رقم حاصل نہیں کر سکتی۔
رپورٹ نے افشا کیا کہ مشہور بھارتی صنعت کار، انیل امبانی کو برطانوی عدالتیں دیوالیہ قرار دے چکی ہیں۔مگر پنڈورا پیپرز کی رو سے وہ ''اٹھارہ غیر ملکی اکائونٹس''کا مالک ہے جن میں کثیر دولت پوشیدہ ہے۔قبل ازیں بتایا گیا کہ بعض ممالک میں بینکوں کے منافع پر ٹیکس نہیں لگتا۔آج کل اسے ملکوں میں سیموا(بحرالکاہل کا جزیرہ)، بیلیز، کک آئی لینڈز، برٹش ورجن آئی لینڈز اور پانامہ نمایاں ہیں۔چناں چہ کرپٹ بھارتی اپنا کالا مال انہی ملکوں کے بینکوں میں جمع کراتے اور دولت میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ایسے بھارتیوں کی فہرست میں بظاہر نیک نام بھارتی بھی شامل ہیں۔مثلاً پانامہ پیپرز سے منکشف ہوا تھا کہ امیتابھ بچن اور سچن ٹنڈولکر نے بھی چوری چھپے کاغذی کمپنیاں کھول کر اپنا سرمایہ غیرملکی اکائونٹس میں جمع کرا دیا۔ وہ اس ساری کارروائی کو متعلقہ سرکاری اداروں سے پوشیدہ رکھ کر جرم کے مرتکب ہوئے۔نیز بھارتی معاشرے میں ان کی اخلاقی حیثیت کو بھی ضعف پنچا۔
بھارتی سیاست دانوں کی چالبازی: بھارتی اخبار کی رپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ پانامہ اور پنڈورا پیپرز کے مطابق کئی بھارتی سیاست دانوں نے بھی آف شور اکائونٹس کھول رکھے تھے۔یہی وجہ ہے، یہ سیاست داں اسمبلیوں میں پہنچ کر ایسے قوانین بناتے ہیں کہ بیرون ممالک کاغذی کمپنیاں اور آف شور اکائونٹس کھولنا آسان عمل بن جائے۔وہ ایسے قوانین کو بے اثر بنا ڈالتے ہیں جن سے آف شور اکائونٹس کی تفتیش ممکن ہوتی ہے۔
اس انکشاف نے پورے بھارت میں سیاست دانوں کو بدنام کر دیا۔عام بھارتی یہی سمجھتا ہے کہ اکثر وزیر،مشیر وبیوروکریٹ کرپشن سے کمائی رقم کاغذی کمپنیاں کھول یا ٹرسٹ بنا کر بیرون ملک چھپاتے ہیں۔بھارتی اخبارات نے تحقیق کی ہے کہ پنڈورا پیپرز میں کن کن بھارتیوں کے نام موجود ہیں۔تفتیش سے پتا چلا کہ جرنیلوں ،سیاست دانوں اور اعلی سرکاری افسروں کے بیٹے بیٹیوں اور قریبی رشتے داروں نے بھی آف شور اکائونٹس کھول رکھے ہیں۔یہ بھی انکشاف ہوا کہ دولت چھپانے پر جن بھارتیوں پہ مقدمے چل رہے ہیں ،وہ ناجائز کمائی کے بل پر عیش وعشرت کی زندگی گذار رہے ہیں۔بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ایک بھارتی کاروباری خاندان بظاہر اربوں روپے کا مقروض ہے۔مگر اس نے بیرون ممالک پوشیدہ اپنی دولت سے ایک ہوائی جہاز خرید لیا۔
بھارت کے قانون کی رو سے بیرون ملک ٹرسٹ قائم کرنا جائز ہے۔چناں چہ اب بیشتر بھارتی امرا آف شور بینکاری کے بجائے بیرون ممالک میں ٹرسٹ بنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔وہ اپنی کثیر دولت ٹرسٹ کے نام کر دیتے ہیں تاکہ اگر وہ سیاہ دھن ہو تو وائٹ ہو سکے یا پھر جائز دولت کو تحفظ مل جائے۔غرض بھارت میں قوانین اتنے طاقتور نہیں کہ کرپٹ افراد کی سرگرمیوںکو پوری طرح روک سکیں۔یہی وجہ ہے، بھارت میں امرا اور غربا کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کی رو سے صرف ''دس فیصد''بھارتی شہری مملکت کی ''پچاس فیصد''سے زائد دولت کے مالک ہیں۔یہ ایک الم ناک صورت حال اور بھارتی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام پہ تنقید: مائیکل مورے امریکا کا ممتاز ادیب، فلم ساز اور دانشور ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے پوری دنیا میں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہے۔کہتا ہے:'' اس نظام میں لالچ و ہوس بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔جو بھی اس نظام کا حصہ بنے، وہ زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کی خواہش پال لیتا ہے۔
زندگی کی اعلی اقدار مثلاً سادگی،قناعت، سچائی، ایثار، پیار محبت ،ہمدردی وغیرہ اسے ہیچ لگنے لگتی ہیں۔وہ سر تا پا مادہ پرست بن جاتا ہے۔''امریکا اور برطانیہ کے حکمران اپنے آپ کو حق گو، جمہوریت پسند اور اصول پرست ثابت کرنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔ مگر جب قانون سے کھلواڑ کر کے رقم بچانے کا معاملہ آئے، تو وہ بھی پیچھے نہیں رہتے۔تب ان کی ساری اصول پرستی ہوّا ہو جاتی ہے۔مثال کے طور پہ سابق برطانوی وزیراعظم، ٹونی بلئیر ہی کو لیجیے۔موصوف افغانستان، عراق اور یمن میں جنگیں چھیڑنے والے امریکی صدر، بش جونئیر کے دست راست تھے۔
پنڈورا پیپرز سے منکشف ہواکہ 2017ء میں ٹونی صاحب نے آف شور بینکاری سے مدد لے کر اپنے دیس میں ٹیکس کی کثیر رقم بچا لی۔ہوا یہ کہ ٹونی بلئیر اور ان کی وکیل بیوی کو لندن میں ایک عمارت خریدنی تھی۔یہ عمارت برٹش ورجن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ ایک کاغذی کمپنی کی ملکیت تھی۔
یہ رومن سٹون انٹرنیشنل لمٹیڈ نامی کمپنی ایک اور کاغذی کمپنی کی ملکیت تھی۔اس دوسری کمپنی کا مالک بحرین کی شاہی حکومت سے تعلق رکھنے والا خاندان تھا۔اب ٹونی بلئیر یہ عمارت براہ راست کمپنی سے خریدتا تو اسے تین لاکھ بارہ ہزار پائونڈ بطور سٹیمپ ڈیوٹی حکومت کو ادا کرنے پڑتے۔یہ رقم بچانے کے لیے برطانوی جوڑے نے یہ طریق واردات اختیار کیا کہ انھوں نے برطانیہ میں ایک کاغذی کمپنی بنا لی۔اس کمپنی نے پھر بحرینی شاہی کمپنی کی ملکیت کمپنی سے رومن سٹون انٹرنیشنل لمیٹڈ نامی کمپنی کاغذی کمپنی خرید لی۔اس سارے عمل پہ ایک ہزار پائونڈ بھی خرچ نہیں ہوئے۔یوں ٹونی صاحب نے سٹیمپ ڈیوٹی کی خطیر رقم اپنی چال چل کر بچا لی۔جب لندن کی عمارت خرید لی گئی تو ٹونی بلئیر نے برطانیہ میں قائم اپنی کاغذی کمپنی ختم کر دی۔غرض ان طریقوں سے امرا اپنی دولت بچاتے اور قانون کو بلڈوز کرتے ہیں۔
دلیر صحافی: یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر حکمران ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرتا ہے۔عوام کو کہتا ہے کہ سادگی اور قناعت سے مہنگائی کا مقابلہ کریں۔ مگر حکمرانوں کی اکثریت آف شور کمپنیوں کی مدد سے اپنی دولت کا بیشتر حصہ بیرون ممالک واقع بینکوں میں جمع کرا دیتی ہے۔یہ حکمران اوران کی آنے والی نسلیں تک اس دولت کے سہارے آرام وآسائش کی زندگی بسر کرتی ہیں۔حکمران طبقے اور عوام کے طرز زندگی میں کافی تضاد پیدا ہو چکا اور اسی باعث عوامی انقلاب بھی آتے ہیں۔ دور حاضر میں تو تقریباً ہر ملک میں عام آدمی بڑھتی مہنگائی کے سبب اپنے حکمرانوں سے نالاں ہے۔
بعض ملکوں میں حکومت مخالف مظاہرے معمول بن چکے۔صحافیوں کی عالمی تنظیم،انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس مبارک باد کی مستحق ہے کہ وہ کرپٹ شخصیات کے جرائم بہادری سے بے نقاب کر رہی ہے۔ایسی تنظیموں سے منسلک صحافیوںکی زندگیاں ہر وقت خطرے میں رہتی ہیں۔جرائم پیشہ انھیں قتل کر دیتے ہیں۔تاہم موت کا خطرہ بھی صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے نہیں روک پاتااور وہ دلیری سے معاشرہ دشمن افراد کی کرپشن افشا کرتے ہیں۔یہ صحافی نیکی اور بدی کی ازلی جنگ میں خیر، بھلائی اور محبت کے سپاہی ہیں جو انسانی معاشروں کو ہر جرم سے پاک کرنے کا اعلی عزم رکھتے ہیں۔انہی بہادروں کی وجہ سے دنیا میں نیکی کی شمع بجھ نہیں پاتی اور اس کی جلتی لو امید و حوصلہ برقرار رکھتی ہے۔
''ایک لالچی کے لیے پوری کائنات بھی تھوڑی ہے۔''(یونانی فلسفی سنیکا)
قدیم یونان کی روایت ہے کہ پرومیتھس نامی ایک دیوتا بنی نوع انسان کا ہمدرد تھا۔اس نے انسانوں کو علم وشعور کی دولت دی، انھیں تہذیب سے جینا سکھایا اور اپنے بادشاہ، زیوس دیوتا سے چھپ کر آگ کا تحفہ دے ڈالا۔یہ تحفہ پا کر انسان بہت خوش ہوئے اور ان کی تمدنی وتہذیبی ترقی کا آغاز ہو گیا۔مگر زیوس کو جب چوری کا پتا چلا تو اسے بہت غصہ آیا۔اس نے پرومیتھس کو دائمی طور پہ قید کر دیا۔زیوس کو انسان کی خوشیاں بھی ایک آنکھ نہ بھائیں۔
چناں چہ انسانوں کی زندگیاں عذاب بنانے کی خاطر زیوس نے ایک دیوتا سے عورت تیار کرائی جس کا نام پنڈورا رکھا۔ پھر پنڈورا کی شادی ایک احمق دیوتا سے کرائی اور تب اسے ایک مرتبان بطور تحفہ دیا۔ مرتبان میں ساری برائیاں...لالچ، ہوس، حسد، مکاری، دغا بازی وغیرہ موجود تھیں۔پنڈورا نے متجسّس ہو کر اسے کھولا تو ساری برائیاں مرتبان سے نکل کر دنیا میں پھیل گئیں۔تب سے وہ انسان کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
سیاہ کارنامے افشا: اکتوبر 2021ء میں صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم''انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (International Consortium of Investigative Journalists)نے امرا کے کرتوت افشا کرتی دستاویز دنیا والوںکے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تو انھیں ''پنڈورا پیپرز'' کا نام دیا۔ پنڈورا کے مرتبان سے تو برائیاں نکلی تھیں مگر یہ پیپرز مختلف ثابت ہوئے کیونکہ انھوں نے ہمارے سامنے دنیا بھر کی طاقتور شخصیات کے سیاہ کارنامے افشا کر دئیے۔سب سے بڑا انکشاف یہی ہوا کہ اول کئی دولت مند اپنی جائز یا ناجائز رقم غیر ملکی بینکوں میں رکھنے کے بہت شوقین ہیں۔
دوسرے ہر ملک میں کرپٹ شخصیات کا وتیرہ ہے کہ وہ بیرون ممالک ''کاغذی کمپنیاں ''کھول کر اپنے سیاہ دھن کو سفید بناتے ہیں۔ یہ کاغذی یا آف شور کمپنیاں ایسے ممالک میں کھولی جاتی ہیں جہاں انھیں کھولنے پر کوئی روک ٹوک نہیں اور نہ ان پہ ٹیکس عائد ہوتے ہیں۔ان دستاویزات کا حجم ''3ٹیرابائٹس ''تھا۔ گویا صحافیوں کی عالمی تنظیم نے ،2016ء میں ''پانامہ پیپرز''پیش کر کے اپنا بنایا ریکارڈ توڑ ڈالا۔پانامہ پیپرز کے ذریعے بھی بیرون ممالک کے اکائونٹس اور کمپنیوں میں چھپی امرا کی دولت افشا کی گئی تھی۔اس کی دستاویز کا حجم ''2.6ٹیرا بائٹس'' تھا۔
چودہ کمپنیاں: پانامہ پیپرز کی بیشتر دستاویزدراصل محض ایک کمپنی(موسیک فونسیکا)سے تعلق رکھتی تھیں۔جبکہ پنڈورا پیپرز کی دستاویز کا تعلق چودہ ایسی کمپنیوں سے ہے جو اپنے گاہکوںکو غیرملکی بینکوں میں اکائونٹس کھولنے کے لیے خدمات فراہم کرتی رہیں۔ان میں سے تین کیرئبین ملک، بیلیز، تین برٹش ورجن آئی لینڈز، دو ہانگ کانگ، دو پانامہ، دو سیشلیز، ایک قبرض ،ایک سوئٹزرلینڈ اور ایک متحدہ عرب امارات میں واقع ہیں۔پنڈورا پیپرز کی رو سے دنیا کے ایک سو ممالک سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں صدور، وزرائے اعظم، سیاست دانوں، سرکاری افسروں، جرنیلوں، ججوں، صنعت کاروں، کاروباریوں اور دیگر طاقتور شخصیات کے غیر ملکی اکائونٹس بیرون ملکوں کے بینکوں میں پائے گئے۔
یہ عمل بینکاری کی اصطلاح میں ''آف شور بینکاری'' کہلاتا ہے۔درج بالا شخصیات میں بارہ صدور، دس سابق صدور، چار وزرائے اعظم اور گیارہ سابق پرائم منسٹر شامل ہیں۔سیاست انسانیت کی خدمت کرنے کا نام ہے۔ صد افسوس کہ حکمران طبقے سے متعلق بہت سے لوگ سیاست کو ناجائز طریقے سے دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ ان لالچی لوگوں کی وجہ سے سیاست دور حاضر کا بدنام ترین شعبہ بن چکا۔
خوبیاں بھی ہیں: یہ واضح رہے کہ آف شور بینکاری بذات خود منفی عمل نہیں...اسے انجام دینے والے اپنے کرتوتوں سے اس کو شر انگیز عمل بنا لیتے ہیں۔جی ہاں، آف شور بینکاری خوبیاں بھی رکھتی ہے۔ مگر یہ صرف انہی کو میّسر ہیں جو جائز طریقے سے اس کو اپنا لیں۔سب سے بڑھ کر یہ ایمان داری سے کمائی دولت کو جائز طور پہ تحفظ دیتی ہے۔ معنی یہ کہ غیر ملکی بینکوں میں اکائونٹس کھولنا منفی عمل نہیں ، اس کو قانونی اور دیانت دارانہ طریقے سے کھولا جائے تو وہ جائز ہوتا ہے۔دنیا کے بعض ملکوں میں قائم بینک جو منافع دیتے ہیں۔
اس پہ کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔سوئٹزر لینڈ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں اس عمل کو قانونی تحٖفظ دینے کی خاطر باقاعدہ قوانین بنائے گئے۔چناں چہ کئی ممالک کے دولت مند دھڑادھڑ اپنا سرمایہ سوئس بینکوں میں جمع کرانے لگے تاکہ انھیں اپنے منافع پہ ٹیکس نہ دینا پڑے اور دولت بڑھتی چلی جائے۔مگر ان پہ لازم تھا کہ وہ اپنے وطن کی حکومت کو ان اکائونٹس سے مطلع کریں تاکہ منافع کی صورت ملنے والی آمدن جائز و قانونی قرار پائے۔مثال کے طور پر امریکا میں یہ قانون ہے کہ جس امریکی کی دس ہزار ڈالر سے زائد رقم غیرملکی اکائونٹس میں ہو، وہ اس کی بابت حکومت کو بتائے گا۔غیر ملکی اکائونٹس سے ملے منافع کی رقم مخصوص حد تک ٹیکس فری ہے۔ حد پار ہو جائے تو منافع پر بھی ٹیکس لگ جاتا ہے۔اسی قسم کے قانون دیگر بڑے یورپی ممالک میں بھی موجود ہیں۔
ہوا یہ کہ لالچی اور کرپٹ افراد خصوصاً ناجائز طریقے سے حاصل کردہ اپنی رقم غیر ملکی بینکوں میں پوشیدہ رکھنے لگے۔بینکوں کو تو کاروبار چاہیے تھا لہذا انھوں نے کرپٹ شخصیات سے زیادہ پوچھ گچھ نہ کی اور یوں ان کے اکائونٹس کھول کر جرم میں حصے دار بن گئے۔اس افسوس ناک شراکت داری سے دنیا بھر میں پھیلے کرپٹ مردوزن کو حوصلہ ملا۔وہ اپنے ملک میں مختلف جرائم انجام دے اور رقم جمع کر کے اسے غیر ملکی بینکوں میں چھپا کر بھاری منافع پانے لگے۔یوں آف شور بینکاری ہوس پرستوں کے لیے کمائی کا نیا دھندا بن گیا۔
آف شور بینکاری کے فوائد: اس نئے عجوبے نے ان دولت مندوں کو نقصان پہنچایا جو جائز ضرورت کے تحت آف شور بینکاری کرنے کے خواہاں تھے۔مثال کے طور پہ ایک کاروباری یا صنعت کار ایسے ملک مثلاً لبنان یا وینزویلا میں مقیم ہے جہاں معاشی وسیاسی حالات اچھے نہیں۔حکومت و معاشرے میں استحکام عنقا ہے اور آئے دن عوام کو معاشی وسیاسی جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔ایسی ناگفتہ صورت حال میں صنعت کار اپنی کمائی گئی دولت کو تحٖفظ دینے کی خاطر بیرون ملک کسی بینک میں جمع کرا دے تو یہ جائز بات ہو گی۔ اسے یہ ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔(تاہم غیر ملکی بین اکائونٹس ٹیکس فائلنگ کے وقت دکھانے ہوں گے)ظاہر ہے، تب ملک میں بغاوت ہو جائے یا خانہ جنگی چھڑ جائے تب بھی اس کی رقم محفوظ رہے گی۔ حتی کہ مخالف حکومت اس کی رقم پہ ناجائز قبضہ بھی نہیں کر سکتی۔اسی طرح پُرامن اور خوشحال ملک میں قانونی طریقے سے جائیدایں خرید کر بھی سرمایہ محفوظ بنانا ممکن ہے۔
غیر ملکی بینکوں میں دولت رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کا مالک پھر بین الاقوامی منصوبوں پر آسانی سے سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ بینک اس سلسلے میں اسے معاونت بھی فراہم کرتے ہیں۔غیرملکی اکائونٹس میں رکھی رقم اگر طاقتور کرنسیوں مثلاً ڈالر، یورو یا پائونڈ میں ہے تو اس سے بھی رقم جمع کرانے کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔خاص طور پہ اگر وہ کمزور کرنسی رکھنے والے ملک کا شہری ہو۔مثال کے طور پر پچھلے تین سال میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کافی گر چکی۔
اب جن پاکستانیوں کی رقم بصورت ڈالر یا پائونڈ غیرملکی بینکوں میں موجود تھی، وہ پاکستانی کرنسی کی گراوٹ کی زد میں آنے سے بچ گئی۔اپنے سرمائے کو کرنسی کی گراوٹ سے بچانا بھی ہر شخص کا حق ہے۔ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ڈالر یا پائونڈ میں جمع رقم کرنسی کی قدر بڑھنے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔اگر یہ قانونی طریقے سے جمع ہے تو اس فعل سے بھی اس کے مالک کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔اور وہ اس کا حقدار ہے۔اگر وہ اپنی صلاحیتوں ومحنت کے بل بوتے پہ امیرہوا ہے تو اسے میٹھا پھل ملنا چاہیے۔
سختی کا دور: ماضی میں غیرملکی بینکوں میں اکائونٹس اور غیر ممالک میں کاغذی کمپنیاں کھولنا آسان تھا۔مگر جب دہشت گرد اور جرائم پیشہ لوگ ان سے مستفید ہونے لگے تو ہر ملک اور عالمی قانونی اداروں نے اکائونٹس اور کاغذی کمپنیاں کھولنے کے قوانین سخت کر دئیے۔ورنہ پہلے چند ڈالر سے بھی اکائونٹ کھل جاتا تھا۔
اب تو آف شور بینکاری، تجارت اور کاروبار دنیا بھر میں بدنام ہو چکے۔اسی لیے خاص طور پہ غیرملکی بینک میں اکائونٹ کھولنا پیچیدہ و طویل عمل بن چکا۔امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں تو یہ قانون بن گیا کہ جو امریکی کسی غیرملکی بینک میں اکائونٹ کھولے، تو بینک پہ لازم ہے کہ وہ تمام متعلقہ تفصیل حکومت کو فراہم کرے۔جو غیرملکی بینک ایسا نہ کرے، حکومتیں اس پہ بھاری جرمانہ کرتی ہیں۔نیز اسے وطن میں کام کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتیں۔ماضی میں سوئٹزر لینڈ میں بینک قانونی طور پہ اپنے کلائنٹس کے نام وپتے پوشیدہ رکھنے کے مجاز تھے۔ اب سوئس حکومت نے بھی ایسے قوانین بنا لیے ہیں کہ اگر ثابت ہو جائے ،کسی سوئس اکائونٹ میں کرپشن کی رقم پڑی ہے تو اس کے مالک کی ساری تفصیل غیرملکی حکومت کو فراہم کی جا سکتی ہے۔گویا سوئٹزرلینڈ میں بھی خفیہ آف شور بینکاری کا دور ختم ہو چکا۔
آسان نہیں رہا: پچھلے تیس چالیس برس کے دوران کرپٹ حکمرانوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی ناجائز کمائی کو غیرملکی بینکوں میں جمع کرانا باقاعدہ کاروبار بن گیا تھا۔وکلا اور اکائونٹنٹوں کی ایسی کمپنیاں وجود میں آ گئیں جو کرپٹ مردوزن کو غیرقانونی طور پہ کمائی رقم غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے کے لیے نت نئے طریقے بتاتی تھیں۔
عام طریق واردات یہ تھا کہ ٹیکس فری ملکوں میں کاغذی کمپنیاں کھول لی جاتیں۔معنی یہ کہ یہ کمپنیاں صرف کاغذوں تک محدود ہوتیں، ویسے ایک ٹکے کا بھی کام نہ کرتیں۔ کمپنیوں کے ڈائرکٹر یا حصص کنندگان بن کر لوگ پھر اپنی ناجائز کمائی ان کے غیرملکی اکائونٹس میں جمع کرا دیتے۔ یوں کالا دھن سفید ہو جاتا۔ سابق صدر آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر الزام لگتا ہے کہ انھوں نے کاغذی کمپنیاں کھول کر ہی پاکستانی خزانے سے لوٹی گئی رقم بیرون ملک منتقل کی تھی۔بہرحال اب حکومتوں اور عالمی اداروں کی سختی اور کڑی جانچ پڑتال کے باعث کاغذی کمپنیاں کھولنا اور ان کے ذریعے ناجائز دولت سفید بنانا آسان نہیں رہا۔
پاکستان کی صورت حال: پانامہ اور پنڈورا پیپرز کے ذریعے افشا ہو چکا کہ بہت سی پاکستانی شخصیات بھی غیرملکی بینکوں میں اکائونٹ رکھتی ہیں یا پھر وہ کاغذی کمپنیوں کے مالک نکلے۔کچھ لوگوں نے ٹیکس فائل میں یہ اکائونٹس یا کمپنیاں ڈکلئیر کر رکھی تھیں۔مگر اکثر لوگوں نے ان کی بابت متعلقہ سرکاری اداروں مثلاً ایف بی آر کو کچھ نہیں بتایا تھا۔لیکن ان لوگوں کا دعوی ہے کہ انھوں نے اپنی جائز کمائی غیرملکی بینکوں میں جمع کرائی۔مقصد یہ تھا کہ وہ محفوظ ہو سکے ۔پاکستان میں رکھتے تو معاشی و سیاسی جھٹکوں سے اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔اس ضمن میں پی ٹی آئی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کے ارکان ان کے دعوی کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان ہر معاملے میں قانون کی پاس داری کرے تو پُرسکون و مطمئن رہتا ہے۔وہ ٹیکس چوری کا فیصلہ کرے تو پھر اسے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔سب سے بڑھ کر ناجائز طور طریقے اپنانے پر ضمیر کی ملامت ہر وقت اسے پریشان اور انتشار زدہ رکھتی ہے۔ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے کے شوقین مردوزن نجانے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ چاہے کھربوں روپے اکھٹے کر لیں، آخرکار ان کا دائمی مسکن تین گز کی قبر ہی بننا ہے جہاں ایک پیسا بھی کام نہیں آتا بلکہ اعمال دیکھے جائیں گے۔
بھارتی قوم کہیں آگے: پنڈورا پیپرز سے ایک بہت بڑا انکشاف یہ ہوا کہ ٹیکس چور ی اور دیگر کالے دھندوں میں بھارتی قوم کہیں آگے ہے۔اس کے باوجود فیٹف پاکستان کے پیچھے پڑا ہوا ہے کیونکہ وہ ایک کمزور مملکت ہے۔فیٹف کی اتنی ہمت نہیں کہ معاشی وعسکری طور پہ طاقتور بھارت کے خلاف تحقیقات کر سکے جہاں ہزارہا بھارتی ٹیکس چور اور کالے دھندوں میں ملوث ہیں۔اس مثال سے عیاں ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں قانون وانصاف نہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے۔اسی ناانصافی سے کشمیر، فلسطین او ر بوسنیا جیسے عالمی مسائل نے جنم لیا۔اور طاقتور ملک کمزور ملکوں پہ دھاوا بول کر انھیں پامال کر ڈالتے ہیں۔پانامہ و پنڈورا سے افشا ہوا کہ کئی بھارتی دولت مندوں پر بھارت اور بیرون ممالک بھی ٹیکس چوری اور فراڈ کے مقدمے چل رہے ہیں۔
ویسے وہ دیوالیہ ہو چکے مگر ان کی بے پناہ دولت غیرملکی اکائونٹس میں پوشیدہ ہے۔یہ دولت حاصل کرنا طویل، پیچیدہ اور مہنگا عمل ہے، اسی لیے بھارتی حکومت اسے پانے کی کوشش نہیں کرتی۔ممتاز بھارتی اخبار، انڈین ایکسپریس کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پنڈورا پیپرز میں ''تین سو سے زائد'' بھارتیوں کے نام شامل ہیں۔اخبار نے ان دولت مند بھارتیوں پر ایک تہلکہ خیز رپورٹ مرتب کی جس میں ان کے طریق واردات پہ تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔
ٹرسٹ بنانے کا نیا دھندا: رپورٹ میں درج ہے کہ امیر بھارتی کاروبار، صنعت کار، سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر اور دیگر افراد اپنی جائز یا ناجائز دولت غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے کی خاطر مختلف ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔فی الوقت کسی غیر ملک میں ٹرسٹ قائم کر کے اسے اپنی بیشتر دولت دے دینا بھارتی امرا کا مرغوب عمل بن چکا ہے۔وجہ یہ کہ بھارتی حکومت کوئی مسئلہ کھڑا ہونے پر قانوناً کسی غیر ملکی ٹرسٹ سے ان کی رقم حاصل نہیں کر سکتی۔
رپورٹ نے افشا کیا کہ مشہور بھارتی صنعت کار، انیل امبانی کو برطانوی عدالتیں دیوالیہ قرار دے چکی ہیں۔مگر پنڈورا پیپرز کی رو سے وہ ''اٹھارہ غیر ملکی اکائونٹس''کا مالک ہے جن میں کثیر دولت پوشیدہ ہے۔قبل ازیں بتایا گیا کہ بعض ممالک میں بینکوں کے منافع پر ٹیکس نہیں لگتا۔آج کل اسے ملکوں میں سیموا(بحرالکاہل کا جزیرہ)، بیلیز، کک آئی لینڈز، برٹش ورجن آئی لینڈز اور پانامہ نمایاں ہیں۔چناں چہ کرپٹ بھارتی اپنا کالا مال انہی ملکوں کے بینکوں میں جمع کراتے اور دولت میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ایسے بھارتیوں کی فہرست میں بظاہر نیک نام بھارتی بھی شامل ہیں۔مثلاً پانامہ پیپرز سے منکشف ہوا تھا کہ امیتابھ بچن اور سچن ٹنڈولکر نے بھی چوری چھپے کاغذی کمپنیاں کھول کر اپنا سرمایہ غیرملکی اکائونٹس میں جمع کرا دیا۔ وہ اس ساری کارروائی کو متعلقہ سرکاری اداروں سے پوشیدہ رکھ کر جرم کے مرتکب ہوئے۔نیز بھارتی معاشرے میں ان کی اخلاقی حیثیت کو بھی ضعف پنچا۔
بھارتی سیاست دانوں کی چالبازی: بھارتی اخبار کی رپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ پانامہ اور پنڈورا پیپرز کے مطابق کئی بھارتی سیاست دانوں نے بھی آف شور اکائونٹس کھول رکھے تھے۔یہی وجہ ہے، یہ سیاست داں اسمبلیوں میں پہنچ کر ایسے قوانین بناتے ہیں کہ بیرون ممالک کاغذی کمپنیاں اور آف شور اکائونٹس کھولنا آسان عمل بن جائے۔وہ ایسے قوانین کو بے اثر بنا ڈالتے ہیں جن سے آف شور اکائونٹس کی تفتیش ممکن ہوتی ہے۔
اس انکشاف نے پورے بھارت میں سیاست دانوں کو بدنام کر دیا۔عام بھارتی یہی سمجھتا ہے کہ اکثر وزیر،مشیر وبیوروکریٹ کرپشن سے کمائی رقم کاغذی کمپنیاں کھول یا ٹرسٹ بنا کر بیرون ملک چھپاتے ہیں۔بھارتی اخبارات نے تحقیق کی ہے کہ پنڈورا پیپرز میں کن کن بھارتیوں کے نام موجود ہیں۔تفتیش سے پتا چلا کہ جرنیلوں ،سیاست دانوں اور اعلی سرکاری افسروں کے بیٹے بیٹیوں اور قریبی رشتے داروں نے بھی آف شور اکائونٹس کھول رکھے ہیں۔یہ بھی انکشاف ہوا کہ دولت چھپانے پر جن بھارتیوں پہ مقدمے چل رہے ہیں ،وہ ناجائز کمائی کے بل پر عیش وعشرت کی زندگی گذار رہے ہیں۔بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ایک بھارتی کاروباری خاندان بظاہر اربوں روپے کا مقروض ہے۔مگر اس نے بیرون ممالک پوشیدہ اپنی دولت سے ایک ہوائی جہاز خرید لیا۔
بھارت کے قانون کی رو سے بیرون ملک ٹرسٹ قائم کرنا جائز ہے۔چناں چہ اب بیشتر بھارتی امرا آف شور بینکاری کے بجائے بیرون ممالک میں ٹرسٹ بنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔وہ اپنی کثیر دولت ٹرسٹ کے نام کر دیتے ہیں تاکہ اگر وہ سیاہ دھن ہو تو وائٹ ہو سکے یا پھر جائز دولت کو تحفظ مل جائے۔غرض بھارت میں قوانین اتنے طاقتور نہیں کہ کرپٹ افراد کی سرگرمیوںکو پوری طرح روک سکیں۔یہی وجہ ہے، بھارت میں امرا اور غربا کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کی رو سے صرف ''دس فیصد''بھارتی شہری مملکت کی ''پچاس فیصد''سے زائد دولت کے مالک ہیں۔یہ ایک الم ناک صورت حال اور بھارتی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام پہ تنقید: مائیکل مورے امریکا کا ممتاز ادیب، فلم ساز اور دانشور ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے پوری دنیا میں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہے۔کہتا ہے:'' اس نظام میں لالچ و ہوس بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔جو بھی اس نظام کا حصہ بنے، وہ زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کی خواہش پال لیتا ہے۔
زندگی کی اعلی اقدار مثلاً سادگی،قناعت، سچائی، ایثار، پیار محبت ،ہمدردی وغیرہ اسے ہیچ لگنے لگتی ہیں۔وہ سر تا پا مادہ پرست بن جاتا ہے۔''امریکا اور برطانیہ کے حکمران اپنے آپ کو حق گو، جمہوریت پسند اور اصول پرست ثابت کرنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔ مگر جب قانون سے کھلواڑ کر کے رقم بچانے کا معاملہ آئے، تو وہ بھی پیچھے نہیں رہتے۔تب ان کی ساری اصول پرستی ہوّا ہو جاتی ہے۔مثال کے طور پہ سابق برطانوی وزیراعظم، ٹونی بلئیر ہی کو لیجیے۔موصوف افغانستان، عراق اور یمن میں جنگیں چھیڑنے والے امریکی صدر، بش جونئیر کے دست راست تھے۔
پنڈورا پیپرز سے منکشف ہواکہ 2017ء میں ٹونی صاحب نے آف شور بینکاری سے مدد لے کر اپنے دیس میں ٹیکس کی کثیر رقم بچا لی۔ہوا یہ کہ ٹونی بلئیر اور ان کی وکیل بیوی کو لندن میں ایک عمارت خریدنی تھی۔یہ عمارت برٹش ورجن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ ایک کاغذی کمپنی کی ملکیت تھی۔
یہ رومن سٹون انٹرنیشنل لمٹیڈ نامی کمپنی ایک اور کاغذی کمپنی کی ملکیت تھی۔اس دوسری کمپنی کا مالک بحرین کی شاہی حکومت سے تعلق رکھنے والا خاندان تھا۔اب ٹونی بلئیر یہ عمارت براہ راست کمپنی سے خریدتا تو اسے تین لاکھ بارہ ہزار پائونڈ بطور سٹیمپ ڈیوٹی حکومت کو ادا کرنے پڑتے۔یہ رقم بچانے کے لیے برطانوی جوڑے نے یہ طریق واردات اختیار کیا کہ انھوں نے برطانیہ میں ایک کاغذی کمپنی بنا لی۔اس کمپنی نے پھر بحرینی شاہی کمپنی کی ملکیت کمپنی سے رومن سٹون انٹرنیشنل لمیٹڈ نامی کمپنی کاغذی کمپنی خرید لی۔اس سارے عمل پہ ایک ہزار پائونڈ بھی خرچ نہیں ہوئے۔یوں ٹونی صاحب نے سٹیمپ ڈیوٹی کی خطیر رقم اپنی چال چل کر بچا لی۔جب لندن کی عمارت خرید لی گئی تو ٹونی بلئیر نے برطانیہ میں قائم اپنی کاغذی کمپنی ختم کر دی۔غرض ان طریقوں سے امرا اپنی دولت بچاتے اور قانون کو بلڈوز کرتے ہیں۔
دلیر صحافی: یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر حکمران ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرتا ہے۔عوام کو کہتا ہے کہ سادگی اور قناعت سے مہنگائی کا مقابلہ کریں۔ مگر حکمرانوں کی اکثریت آف شور کمپنیوں کی مدد سے اپنی دولت کا بیشتر حصہ بیرون ممالک واقع بینکوں میں جمع کرا دیتی ہے۔یہ حکمران اوران کی آنے والی نسلیں تک اس دولت کے سہارے آرام وآسائش کی زندگی بسر کرتی ہیں۔حکمران طبقے اور عوام کے طرز زندگی میں کافی تضاد پیدا ہو چکا اور اسی باعث عوامی انقلاب بھی آتے ہیں۔ دور حاضر میں تو تقریباً ہر ملک میں عام آدمی بڑھتی مہنگائی کے سبب اپنے حکمرانوں سے نالاں ہے۔
بعض ملکوں میں حکومت مخالف مظاہرے معمول بن چکے۔صحافیوں کی عالمی تنظیم،انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس مبارک باد کی مستحق ہے کہ وہ کرپٹ شخصیات کے جرائم بہادری سے بے نقاب کر رہی ہے۔ایسی تنظیموں سے منسلک صحافیوںکی زندگیاں ہر وقت خطرے میں رہتی ہیں۔جرائم پیشہ انھیں قتل کر دیتے ہیں۔تاہم موت کا خطرہ بھی صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے نہیں روک پاتااور وہ دلیری سے معاشرہ دشمن افراد کی کرپشن افشا کرتے ہیں۔یہ صحافی نیکی اور بدی کی ازلی جنگ میں خیر، بھلائی اور محبت کے سپاہی ہیں جو انسانی معاشروں کو ہر جرم سے پاک کرنے کا اعلی عزم رکھتے ہیں۔انہی بہادروں کی وجہ سے دنیا میں نیکی کی شمع بجھ نہیں پاتی اور اس کی جلتی لو امید و حوصلہ برقرار رکھتی ہے۔