آئی ایم ایف شرائط اور قومی پالیسی
حکومت پچھلی حکومتوں کے صیغہ سے خود کو آزاد کرے، جو ہوا سو ہوا
لاہور:
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط ماننے سے ملکی سیکیورٹی متاثر اور عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔ اگر معیشت ٹھیک نہ ہو تو خود کو زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رکھ سکتے، آئی ایم ایف سب سے سستے قرضے دیتا ہے، مجبوری میں اس کے پاس جانا پڑتا اور شرائط ماننا پڑتی ہیں۔
جمعہ کو یہاں وزیر اعظم آفس میں نیشنل سیکیورٹی پالیسی 2022-2026کے پبلک ورژن کے اجرا کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا اگر معیشت کے یہ حالات ہوں کہ ہر تھوڑے عرصہ بعد آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے تو ملکی سلامتی متاثر ہوگی، ماضی میں ہم نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا۔
وزیر اعظم کے اس بیان میں بڑی معنی خیز باریکی ہے، وہ درست کہتے ہیں کہ ماضی میں ملکی معیشت کے استحکام کے لیے اقدامات نہیں ہوئے، یعنی ملکی اقتصادی نظام میں استقامت نام کی کوئی چیز نہیں رکھی گئی۔
موجودہ حکومت کا موقف یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے پیسے لوٹے، عوام کو بد حال رکھا، معیشت پر کچھ توجہ نہیں دی، یہ موقف آج بھی برقرار ہے۔ یہ موقف آج کے پیرائے میں کتنا درست ہے اور کتنا درست نہیں ہے،اس کا فیصلہ تو تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ نے کرنا ہے کیونکہ سابق حکمرانوں کے مقدمات تاحال عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور حتمی فیصلوں کے منتظر ہیں۔
آج کا سوال یہ ہے اگر پچھلے حکمرانوں نے کرپشن کی اور ناقص پالیسیاں اختیار کیں جس کی وجہ ملک کی معیشت برباد ہوگئی، لیکن موجودہ حکومت اپنے تقریباً چار سالہ اقتدار میں کون سا معاشی اور اقتصادی بریک تھرو لائی، بیروزگاری کے خاتمے یا ملکی صنعتی پھیلاؤ میں کتنے سنگ میل عبور کیے، صحت کا پورا انفرا اسٹرکچر کس حال میں ہے، سرکاری تعلیمی نیٹ ورک کتنا بہتر اور فعال کیا گیا، نکاسی آب کا سسٹم کس شکستگی کی حالت میں ہے کہ گزشتہ بارشوں میں شہر کراچی کے معروف علاقے بارش کے پانی میں ہفتوں ڈوبے رہے، تعلیمی نظام میں کوئی انقلابی اصلاحات نہیں ہوئیں۔
چند ایک کا ذکر وزیر اعظم نے اپنے بیانیہ میں ضرور کیا ہے، دہشت گردی اور جرائم کے سدباب کے لیے عوام کو کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا، جرائم کا جہنم سلگ رہا ہے، متعدد ایسے سانحات کا حوالہ ابھی دیا جاسکتا ہے کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جسے پچھلی حکومتوں کے مقابلہ میں تقابل کے طور پر سامنے پیش کا جائے، اس لیے ماضی کی حکومتوں پر الزام درست بھی ہو تب بھی مخالفین اور ناقدین کے پاس شکایات کے لیے کافی گنجائش ہے، اپوزیشن کی بات کی جائے تو اسے سیاسی مفادات کی فکر ہے، انھوں نے عوام کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
اس نے عوامی مسائل پر بات تو کی لیکن حکومت کا راستہ روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی ہے، اس وقت غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عوام کا سب سے اہم مسائل کم آمدنی، حکومت کے بڑھتے ہوئے ٹیکسز، بے روزگاری ، جرائم میں اضافہ اور اشیاء ضروریہ کی مہنگائی ہے، حکومت اس حوالے سے ماضی کی حکومتوں سے بہتر کارکردگی پیش کرلے تو مناسب ہوگا۔
بلاشبہ حکومت چاہتی تو چار سالہ مدت میں بہت بنیادی نہ سہی کم از کم غربت اور بیروزگاری کے خاتمے میں نمایاں پیش رفت کرسکتی تھی، لیکن ایسا لگا کہ کسی نے حکومت کے ہاتھ پیر باندھ لیے ہیں، کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی، نظام حکومت فعال نظر نہیں آتا، ترقیاتی منصوبے ہنگامی انداز میں مکمل ہوتے ہیں جن پر دوسروں کی تختیوں کے الزام لگتے ہیں، اس وقت ملک کو ایک مستحکم اقتصادی اور سماجی نظام درکار ہے۔
عام آدمی کو روزگار چاہیے، ریگولر آمدنی میں اضافہ چاہیے، جرائم کا خاتمہ چاہیے، صحت کے خطرات بے شمار ہیں، کورونا کے بعد اب ایمیکرون کے خطرات عوام کی نیندیں حرام کرچکے ہیں، عالمی ادارہ صحت کی طرف سے انتباہات کا سلسلہ جاری ہے، نامعلوم کس وقت کیا اعلان آجائے، کب لاک ڈاؤن لگ جائے، عوام تو ابھی تک چہروں پر ماسک لگا کے گھومتے ہیں، خارجہ پالیسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حکومت افغانستان کے انسانی المیے اور بحران کی دہائی دے کر ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی حکومت کو ڈرانے کا کام لے رہی ہے لیکن اسے اپنے ملک میں آئے روز جنم لینے والے سانحات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ملک کو فکری اور سیاسی نظام میں استحکام بھی چاہیے اور معاشی نظام میں بھی ایک جست لگانے کی دیر ہے، انقلابی تبدیلی سے زیادہ ضرورت سسٹم کو رواں اور مستحکم رکھنے کی ہے، غربت کا حوالہ بہت دیا گیا، مگر غریب کو سر بلندی نصیب نہیں ہوئی، نظام میں مثبت تبدیلی لانے کے بجائے مزید استحصالی بنایا جارہا ہے ۔
حقیقت میں ملکی سیاسی بحث کسی ایک مرکزی نکتے پر نہیں ہوتی، وزیر اعظم اجمالاً ملکی مسائل کے تناظر کو دیگر معاملات سے مشروط کر دیتے ہیں، وہ ملکی سلامتی پالیسی کو آئی ایم ایف سے جوڑتے ہوئے تعلیمی پالیسی کا معاملہ زیر بحث لاتے ہیں، جب کہ ان کے انداز نظر پر ملک کے دیگر ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی رائے ان سے مختلف ہوتی ہے اور یکساں نصابی پالیسی بھی ابھی تک متنازعہ بنی ہوئی ہے، بلکہ تعلیمی نصاب کے حوالے سے جو بھی کام سامنے آیا ہے، وہ رجعت پسندی کو مزید مضبوط کرتا ہے، یوں یکساں نظام کی بات یا کوشش بھی دراصل ملک کے نونہالوں کو ذہنی اپاہج بنانا ہے۔
اسی طرح ریاست مدینہ کے محترم اقتصادی حوالے بھی ملکی سیاسی اور معاشی تضادات کو ایک واضح حکمت عملی میں سمونے کی فکری بحث کو نتیجہ خیز نہیں بنا پائے، یوں پورے ملکی مسائل ایک دوسرے کے ساتھ اختلافی نکات کو الجھا دیتے ہیں، سیاست کے طالب علموں کے لیے مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ملکی تاریخ کی منضبط تاریخ اپنی نصابی صداقت کے ساتھ علمی حلقوں میں انتشار علمی کا باعث بنتی ہے، لگتا ہے کہ حکومتی چار سالہ آئینی میعاد صحرا نوردی میں ضایع ہوئی، ایک طرف وہ ملکی سلامتی کے آئی ایم ایف شرائط سے متاثر ہونے کا معاملہ سامنے لاتے ہیں مگر دوسری جانب وہ مانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سب سے سستا قرضہ دیتا ہے، وہ اس کے پاس جانے کو مجبوری بھی کہتے ہیں ۔ بقول شاعر:
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جن کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
آئی ایم ایف خود چل کر حکمرانوں کے پاس قرضہ دینے کے لیے نہیں آتا۔ پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے مسلسل امداد، قرضے، فنڈز وغیرہ حاصل کرتا آ رہا ہے، دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ملک آئی ایم ایف سے قرضے لیتے ہیں، جنوبی کوریا، تائیوان، جاپان وغیرہ نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر ہی ترقی کا سفر طے کیا ہے۔
انھوں نے بہتر منصوبہ بندی سے قرضوں کو استعما ل کیا اور انھیں اپنے ٹائم پر واپس کر دیا، تاہم قرض خواہی کے اصول مسلمہ ہیں کہ قرض مانگنے والے سے آئی ایم ایف حکام اس کی سیاسی، مالیاتی اور اقتصادی ساکھ کے حوالے سے شرائط طے کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں، کوئی بھی قرض خواہ ادارہ یا دوست ممالک یہ تو پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جو قرضہ مانگ رہے ہو وہ ادا بھی کر سکو گے۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے سیاسی اور معاشی دانشور ہمیشہ آئی ایم ایف کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں، ہماری سیاسی تاریخ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، ہمارے ارباب اختیار عوام پر درجنوں نہیں بلکہ بیسیوں ٹیکس لگائیں گے لیکن اپنے غیرترقیاتی، مراعاتی اور استحقاقی اخراجات پر کٹوتی نہیں کرتے، ترقیاتی منصوبے ختم کرتے ہیں لیکن اپنی مراعات میں سے کوئی رقم نہیں دیتے، سارا نزلہ غریب اور مڈل کلاس عوام پر گرایا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا صائب ہے کہ ریاست اس وقت محفوظ ہوتی ہے جب عوام اس کے پیچھے کھڑے ہوں، جب تک تمام طبقات اور علاقے برابر ترقی نہیں کریں گے قوم غیر محفوظ رہے گی، اس لیے جب اجتماعی ترقی ہوگی تب ملک محفوظ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے تعلیم، غذائی تحفظ، قومی معیشت، ماحولیاتی تبدیلی، قانون کی حکمرانی، مساوی ترقی، آبی تحفظ سمیت مختلف کلیدی شعبہ جات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو قانون کی حکمرانی کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ جب قانون کی بالادستی نہ ہو تو معاشرے میں غربت ہوتی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کسی بھی ملک کا تعلیمی نظام ہی قوم کی تشکیل کرتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تین نظام تعلیم پروان چڑھ رہے ہیں جن میں انگریزی میڈیم، اردو اور مدارس کا متوازی نظام شامل ہے جس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔بلاشبہ وقت آگیا ہے کہ حکمراں معاشی اور مالیاتی پالیسیوں میں مطابقت، اصولی فیصلوں کی ضرورت اور عوام کے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے جرأتمندانہ اقدامات کریں، یہ وقت فضول بیان بازی، الزام تراشی محاذ آرائی، بحث مباحثہ اور تصادم کا نہیں دور اندیشی پر مبنی فیصلوں کا ہے، حکومت پچھلی حکومتوں کے صیغہ سے خود کو آزاد کرے، جو ہوا سو ہوا، اب عوام کو ریلیف مہیا کرنے اور معیشت کو بلندیوں پر لے جانے کے عزائم کی تکمیل کرے، اسی میں ملک و قوم کا مفاد مضمر ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط ماننے سے ملکی سیکیورٹی متاثر اور عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔ اگر معیشت ٹھیک نہ ہو تو خود کو زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رکھ سکتے، آئی ایم ایف سب سے سستے قرضے دیتا ہے، مجبوری میں اس کے پاس جانا پڑتا اور شرائط ماننا پڑتی ہیں۔
جمعہ کو یہاں وزیر اعظم آفس میں نیشنل سیکیورٹی پالیسی 2022-2026کے پبلک ورژن کے اجرا کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا اگر معیشت کے یہ حالات ہوں کہ ہر تھوڑے عرصہ بعد آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے تو ملکی سلامتی متاثر ہوگی، ماضی میں ہم نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا۔
وزیر اعظم کے اس بیان میں بڑی معنی خیز باریکی ہے، وہ درست کہتے ہیں کہ ماضی میں ملکی معیشت کے استحکام کے لیے اقدامات نہیں ہوئے، یعنی ملکی اقتصادی نظام میں استقامت نام کی کوئی چیز نہیں رکھی گئی۔
موجودہ حکومت کا موقف یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے پیسے لوٹے، عوام کو بد حال رکھا، معیشت پر کچھ توجہ نہیں دی، یہ موقف آج بھی برقرار ہے۔ یہ موقف آج کے پیرائے میں کتنا درست ہے اور کتنا درست نہیں ہے،اس کا فیصلہ تو تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ نے کرنا ہے کیونکہ سابق حکمرانوں کے مقدمات تاحال عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور حتمی فیصلوں کے منتظر ہیں۔
آج کا سوال یہ ہے اگر پچھلے حکمرانوں نے کرپشن کی اور ناقص پالیسیاں اختیار کیں جس کی وجہ ملک کی معیشت برباد ہوگئی، لیکن موجودہ حکومت اپنے تقریباً چار سالہ اقتدار میں کون سا معاشی اور اقتصادی بریک تھرو لائی، بیروزگاری کے خاتمے یا ملکی صنعتی پھیلاؤ میں کتنے سنگ میل عبور کیے، صحت کا پورا انفرا اسٹرکچر کس حال میں ہے، سرکاری تعلیمی نیٹ ورک کتنا بہتر اور فعال کیا گیا، نکاسی آب کا سسٹم کس شکستگی کی حالت میں ہے کہ گزشتہ بارشوں میں شہر کراچی کے معروف علاقے بارش کے پانی میں ہفتوں ڈوبے رہے، تعلیمی نظام میں کوئی انقلابی اصلاحات نہیں ہوئیں۔
چند ایک کا ذکر وزیر اعظم نے اپنے بیانیہ میں ضرور کیا ہے، دہشت گردی اور جرائم کے سدباب کے لیے عوام کو کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا، جرائم کا جہنم سلگ رہا ہے، متعدد ایسے سانحات کا حوالہ ابھی دیا جاسکتا ہے کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جسے پچھلی حکومتوں کے مقابلہ میں تقابل کے طور پر سامنے پیش کا جائے، اس لیے ماضی کی حکومتوں پر الزام درست بھی ہو تب بھی مخالفین اور ناقدین کے پاس شکایات کے لیے کافی گنجائش ہے، اپوزیشن کی بات کی جائے تو اسے سیاسی مفادات کی فکر ہے، انھوں نے عوام کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
اس نے عوامی مسائل پر بات تو کی لیکن حکومت کا راستہ روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی ہے، اس وقت غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عوام کا سب سے اہم مسائل کم آمدنی، حکومت کے بڑھتے ہوئے ٹیکسز، بے روزگاری ، جرائم میں اضافہ اور اشیاء ضروریہ کی مہنگائی ہے، حکومت اس حوالے سے ماضی کی حکومتوں سے بہتر کارکردگی پیش کرلے تو مناسب ہوگا۔
بلاشبہ حکومت چاہتی تو چار سالہ مدت میں بہت بنیادی نہ سہی کم از کم غربت اور بیروزگاری کے خاتمے میں نمایاں پیش رفت کرسکتی تھی، لیکن ایسا لگا کہ کسی نے حکومت کے ہاتھ پیر باندھ لیے ہیں، کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی، نظام حکومت فعال نظر نہیں آتا، ترقیاتی منصوبے ہنگامی انداز میں مکمل ہوتے ہیں جن پر دوسروں کی تختیوں کے الزام لگتے ہیں، اس وقت ملک کو ایک مستحکم اقتصادی اور سماجی نظام درکار ہے۔
عام آدمی کو روزگار چاہیے، ریگولر آمدنی میں اضافہ چاہیے، جرائم کا خاتمہ چاہیے، صحت کے خطرات بے شمار ہیں، کورونا کے بعد اب ایمیکرون کے خطرات عوام کی نیندیں حرام کرچکے ہیں، عالمی ادارہ صحت کی طرف سے انتباہات کا سلسلہ جاری ہے، نامعلوم کس وقت کیا اعلان آجائے، کب لاک ڈاؤن لگ جائے، عوام تو ابھی تک چہروں پر ماسک لگا کے گھومتے ہیں، خارجہ پالیسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حکومت افغانستان کے انسانی المیے اور بحران کی دہائی دے کر ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی حکومت کو ڈرانے کا کام لے رہی ہے لیکن اسے اپنے ملک میں آئے روز جنم لینے والے سانحات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ملک کو فکری اور سیاسی نظام میں استحکام بھی چاہیے اور معاشی نظام میں بھی ایک جست لگانے کی دیر ہے، انقلابی تبدیلی سے زیادہ ضرورت سسٹم کو رواں اور مستحکم رکھنے کی ہے، غربت کا حوالہ بہت دیا گیا، مگر غریب کو سر بلندی نصیب نہیں ہوئی، نظام میں مثبت تبدیلی لانے کے بجائے مزید استحصالی بنایا جارہا ہے ۔
حقیقت میں ملکی سیاسی بحث کسی ایک مرکزی نکتے پر نہیں ہوتی، وزیر اعظم اجمالاً ملکی مسائل کے تناظر کو دیگر معاملات سے مشروط کر دیتے ہیں، وہ ملکی سلامتی پالیسی کو آئی ایم ایف سے جوڑتے ہوئے تعلیمی پالیسی کا معاملہ زیر بحث لاتے ہیں، جب کہ ان کے انداز نظر پر ملک کے دیگر ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی رائے ان سے مختلف ہوتی ہے اور یکساں نصابی پالیسی بھی ابھی تک متنازعہ بنی ہوئی ہے، بلکہ تعلیمی نصاب کے حوالے سے جو بھی کام سامنے آیا ہے، وہ رجعت پسندی کو مزید مضبوط کرتا ہے، یوں یکساں نظام کی بات یا کوشش بھی دراصل ملک کے نونہالوں کو ذہنی اپاہج بنانا ہے۔
اسی طرح ریاست مدینہ کے محترم اقتصادی حوالے بھی ملکی سیاسی اور معاشی تضادات کو ایک واضح حکمت عملی میں سمونے کی فکری بحث کو نتیجہ خیز نہیں بنا پائے، یوں پورے ملکی مسائل ایک دوسرے کے ساتھ اختلافی نکات کو الجھا دیتے ہیں، سیاست کے طالب علموں کے لیے مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ملکی تاریخ کی منضبط تاریخ اپنی نصابی صداقت کے ساتھ علمی حلقوں میں انتشار علمی کا باعث بنتی ہے، لگتا ہے کہ حکومتی چار سالہ آئینی میعاد صحرا نوردی میں ضایع ہوئی، ایک طرف وہ ملکی سلامتی کے آئی ایم ایف شرائط سے متاثر ہونے کا معاملہ سامنے لاتے ہیں مگر دوسری جانب وہ مانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سب سے سستا قرضہ دیتا ہے، وہ اس کے پاس جانے کو مجبوری بھی کہتے ہیں ۔ بقول شاعر:
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جن کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
آئی ایم ایف خود چل کر حکمرانوں کے پاس قرضہ دینے کے لیے نہیں آتا۔ پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے مسلسل امداد، قرضے، فنڈز وغیرہ حاصل کرتا آ رہا ہے، دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ملک آئی ایم ایف سے قرضے لیتے ہیں، جنوبی کوریا، تائیوان، جاپان وغیرہ نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر ہی ترقی کا سفر طے کیا ہے۔
انھوں نے بہتر منصوبہ بندی سے قرضوں کو استعما ل کیا اور انھیں اپنے ٹائم پر واپس کر دیا، تاہم قرض خواہی کے اصول مسلمہ ہیں کہ قرض مانگنے والے سے آئی ایم ایف حکام اس کی سیاسی، مالیاتی اور اقتصادی ساکھ کے حوالے سے شرائط طے کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں، کوئی بھی قرض خواہ ادارہ یا دوست ممالک یہ تو پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جو قرضہ مانگ رہے ہو وہ ادا بھی کر سکو گے۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے سیاسی اور معاشی دانشور ہمیشہ آئی ایم ایف کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں، ہماری سیاسی تاریخ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، ہمارے ارباب اختیار عوام پر درجنوں نہیں بلکہ بیسیوں ٹیکس لگائیں گے لیکن اپنے غیرترقیاتی، مراعاتی اور استحقاقی اخراجات پر کٹوتی نہیں کرتے، ترقیاتی منصوبے ختم کرتے ہیں لیکن اپنی مراعات میں سے کوئی رقم نہیں دیتے، سارا نزلہ غریب اور مڈل کلاس عوام پر گرایا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا صائب ہے کہ ریاست اس وقت محفوظ ہوتی ہے جب عوام اس کے پیچھے کھڑے ہوں، جب تک تمام طبقات اور علاقے برابر ترقی نہیں کریں گے قوم غیر محفوظ رہے گی، اس لیے جب اجتماعی ترقی ہوگی تب ملک محفوظ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے تعلیم، غذائی تحفظ، قومی معیشت، ماحولیاتی تبدیلی، قانون کی حکمرانی، مساوی ترقی، آبی تحفظ سمیت مختلف کلیدی شعبہ جات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو قانون کی حکمرانی کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ جب قانون کی بالادستی نہ ہو تو معاشرے میں غربت ہوتی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کسی بھی ملک کا تعلیمی نظام ہی قوم کی تشکیل کرتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تین نظام تعلیم پروان چڑھ رہے ہیں جن میں انگریزی میڈیم، اردو اور مدارس کا متوازی نظام شامل ہے جس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔بلاشبہ وقت آگیا ہے کہ حکمراں معاشی اور مالیاتی پالیسیوں میں مطابقت، اصولی فیصلوں کی ضرورت اور عوام کے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے جرأتمندانہ اقدامات کریں، یہ وقت فضول بیان بازی، الزام تراشی محاذ آرائی، بحث مباحثہ اور تصادم کا نہیں دور اندیشی پر مبنی فیصلوں کا ہے، حکومت پچھلی حکومتوں کے صیغہ سے خود کو آزاد کرے، جو ہوا سو ہوا، اب عوام کو ریلیف مہیا کرنے اور معیشت کو بلندیوں پر لے جانے کے عزائم کی تکمیل کرے، اسی میں ملک و قوم کا مفاد مضمر ہے۔