’’امرکوٹ اور کارونجھر‘‘کی ردولی
ہمیں بتایا گیا کہ بر صغیر میں پنڈتوں اور پہلوانوں کی ورزش کے دو (اکھاڑے) کشتی خانے بنارس اور صرف امرکوٹ میں ہیں
ISLAMABAD:
صحرائے ''تھر'' کی چاشنی سے بھرے ''مٹھی'' شہر سے کوسوں میل دور سو سے زاہد دھرم آستانوں پر مشتمل ''کارونجھر'' جو گنگا کی سادھنائوں کا بھرم رکھنے میں ''ننگر پارکر'' کے کاسنی پہاڑوں کی مدد سے اب تک اپنے دھرم اور وہاں بسنے والے دھرم پجاریوں کی غذا اور زندگی کو سنبھالنے پر فاخر ہے۔
یہ کارونجھر کے سونا اگلتے پہاڑوں کا وہ سلسلہ ہے جو رن کچھ کی آشائوں سے ہمیں مہمیز کرتا ہوا ہمارے انسان دوست خیالات کو کبھی راکھی کے دل کش لمحے دکھاتا ہے اور کبھی دھرم سے پرے یک جوئی کا پیغام ساری کائنات کو دیتا ہوا نظر آتا ہے، جپسم کے لا متناعی سونا اگلتے پہاڑوں سے ڈھکا ہوا کارونجھر آج کل عالمی سرمایہ داروں سمیت ملکی سرمایہ داروں کے منافعوں کے قہر میں بے یاس و مدد گار کی صورت ہماری توجہ اور احساس کا طلبگار ہے، ہماری مدد اور اپنے دکھ درد ہم سے بانٹنا چاہتا ہے، اپنے بیتے عذاب کی بپتا ہمیں سنانا چاہتا ہے، ہمارے سوئے ہوئے احساس کو جگانا چاہتا ہے اور ہمیں اپنا سنگی ساتھی بنانا چاہتا ہے۔
ہمیں جب مٹھی کے کشور نے ''تھر فیسٹیول'' میں کارونجھر کے بچائو کی خاطر صحافت اور فکر کے حوالے سے مدعو کیا تو ہمارے سنگ ہمارے ڈاکیومینٹری صحافت کے جانکار صحافی دوست عباس نقوی اور پاکستان میں تخلیقی ایڈورٹائزنگ کے تخلیق کار اور شاعر معین قریشی بھی ہم رکاب ہوئے، جب کہ تھر کے اس مطالعاتی دورے کے جڑائو میں سندھی ناول نگار اور ہمارے ڈی ایس ایف خاندان کے ساتھی منظور تھہیم پیش پیش تھے، جو حیدرآباد میں ہمارے منتظر تھے، کراچی سے ہم تینوں دوستوں نے رخت سفر باندھا اور مقررہ وقت پر ہم منظور تھہیم کے ٹھکانے پر پہنچ گئے، کھانا کھایا اور طے ہوا کہ ''مٹھی'' سے پہلے ایک رات ''امر کوٹ'' میں گذاری جائے گی اور کوشش کی جائے کہ دن ڈھلنے سے پہلے ''امر کوٹ'' کی ڈاکیومینٹری پر ابتدائی کام کر لیا جائے۔
متعلقہ پروگرام کو انجام دینے کی خاطر ہم تمام دوستوں کا میر پورخاص کے راستے سے جانا ضروری تھا تاکہ ہم تھر کی پہلی منزل ''امر کوٹ'' مقررہ وقت پر پہنچ جائیں، میرپورخاص کی حدود میں داخلے پر پریس کلب کے صحافی دوستوں نے انور بروہی صاحب کی سرکردگی میں ہمیں پریس کلب پہنچایا، راستے کی تھکن اتارنے کی خاطر پریس کلب میں نعیم کی موجودگی میں کافی اور پیزا کھانا پڑا، اور پھر ہم دن پہ ڈھلتے سائے سے پہلے امرکوٹ پہنچ گئے جہاں امر کوٹ کے تاریخی قلعے پر وہاں کے صحافی سیف منگریو اپنے صحافی دوست اور کیمرے سمیت موجود تھے۔
اس دوران عباس نقوی کی بھرپور کوشش رہی کہ وہ دن کے مناظر سمیت شام ڈھلنے کے وہ تمام منظر اپنے کیمرے میں محفوظ کر لے جو قلعے کی فصیلوں سے ڈھلتی شام کی رخصت ہوتی سرد و یخ بستہ اداس کرنوں سے ماحول کو خوبصورت بنائے ہوئے تھے، عباس نقوی ایک جنونی صحافی مانند ہم سب کی پرواہ کیے بغیر کیمرے کی تمامتر تیکنیک آزمانے میں مصروف تھے جب کہ معین اور منظور سمیت اس قلعے کے شاہانہ مہمان خانے اور نہری نظام کی دھول مٹی میں لپٹی ہوئی بربادی اور حکومت کی غفلت پر افسردہ ہم تینوں قلعے کی اس خستہ حالی کو دیکھ رہے تھے جو اپنی دلسوز بپتا حکومتی ناروا سلوک کے ذریعے ہم کو سنا رہا تھا۔
کچھ لمحے بعد ہمارے بوجھل سے قدم نئے تعمیر شدہ امر کوٹ میوزیم کی جانب بڑھے تو محسوس ہوا کہ میوزیم میں کچھ قدیم اشیا کے وہ نمونے ضرور ہیں جو قدیم کہلائے جا سکتے ہیں، باقی صرف میوزیم کی تعمیر پر نمائشی اخراجات ہی کیے گئے ہیں البتہ یہ امر قابلِ افسوس تھا کہ قلعے کے مرکزی دروازے سے چند فٹ پکی اینٹوں سے مزین فرش کے بعد دھول مٹی سے بھرپور کچا راستہ ہی قلعے میں آنے والوں کو میوزیم تک پہنچانے کا واحد ذریعہ تھا۔
امر کوٹ میں سرد شام ڈھل چکی تھی اور اس سرد شام میں تھری تھاپ پر ڈھولک کے آہنگ پر نوجوان تھری کی تھرکتی انگلیاں تھیں تو دوسرے لمحے وہ تھری گائیک مائی بھاگی کے گیت ''کھڑی نیب کے نیچے میں تو ہیکلی'' کے بلند آہنگ قلعے کی فصیلوں تک پہنچا رہا تھا اور ہم سب کو احساس دلا رہا تھا کہ تھر کی گائیکی اور سر تال سارنگ کبھی بھی اپنے تاریخی مقامات کو ساز راگ اور تھری گائیکی سے محروم نہیں رکھتے۔اب سوچیے کہ جب یخ بستگی اپنے جوبن پہ آتی ہو اور ایسے ملگجے ماحول میں مائی بھاگی کے راگ بکھرے ہوں تو امر کو ٹ کی فصیلیں کیا نا جھومیں گی،اس منظر میں محسوس ہوا کہ اس گائیک کے ساتھ پورا قلعہ خود میں مست و مگن تھا۔
امر کوٹ سے واپسی پر ریسٹ ہائوس میں ڈاکٹر تیرٹھ مالھی اپنے بیٹے پریم مالھی کے ساتھ موجود تھے اور امر کوٹ میں نئے سال کی صبح میں رنگ بھرنے کی خاطر ہم سب دوستوں کی تواضع کے لیے پرجوش تھے،ہم نے بھی سال نو کی خمار آمد کو ان کے ساتھ خوش آمدید کہا اور سرور میں مگن سرد رات کی ٹھنڈ کی پرواہ کیے بغیر سکڑتی ٹھٹرتی ہوئی رات کی شادابی میں چہل قدمی کرتے ہوئے امرکوٹ کے دھابے تک پہنچے اور نئے سال کے پکوان سے محظوظ ہوئے۔
ابھی رات بسری باقی تھی کہ محبتی تیرٹھ مالھی نے پہلے ہی پیغام دے ڈالا کہ نئی صبح کا روایتی ناشتہ ان کے گھر پہ ہوگا جو خواتین کے عائشہ بازار کے عین وسط میں تھا،ہم سب صبح تازہ دم تیرٹ مالھی کے گھر پر تھے جب کہ ناشتے کی تیاری کی بھینی بھینی خوشبو مسلسل ہماری بھوک کو مچلا رہی تھی کہ اسی دوران تیرٹھ مالھی نے دھرم شالی نوجوان بھگت چیتوانی سے یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ بھگت پچھلے بیس برس سے اجناس کے بغیر کھانے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں اور ان کی غذا صرف فروٹ اور دودھ پر ہے،کیونکہ یہ دھرم شالی ہیں لہٰذا یہ اجناس اور شادی کے بندھن سے دور ہیں۔
بھگت چیتوانی کے متعلق اس انکشاف پر بہت مفید اور معلوماتی گفتگو رہی،میں نے سوال داغا کہ جب آپ صرف فروٹ پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں تو کیا آپ فطرت کے اشتہا والے پہلو سے صرف نظر کر سکتے ہیں،جس پر بھگت کا جواب نفی میں تھا اور ان کا خیال تھا کہ اس دھرم پجاری کی اکھشا میں شادی سے انکار ہر گز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فطری حاجت ہے،جو دیگر ذریعوں سے بھی پوری کی جا سکتی ہے،اس لمحے بھگت کی گفتگو اور ہمارے سوالات معلومات کا ایک خوبصورت امتزاج تھے،جس کے درمیان خالص دیسی تھر کا گرما گرم ناشتہ ساگ، اچار، پاپڑ، دھی جو،بیسن اور گندم کی روٹی اور مزید انواع اقسام کی اشیا دسترخوان کی زینت بنیں اور ہم سب احباب نے تھری محبتوں سے بھرپور ناشتہ کیا اور بھگت کے ٹھکانے والے مندر گئے اور معلومات سمیٹیں۔
اس دوران ہمیں بتایا گیا کہ بر صغیر میں پنڈتوں اور پہلوانوں کی ورزش کے دو (اکھاڑے) کشتی خانے بنارس اور صرف امرکوٹ میں ہیں جو اب تک قدیم ترین روایتوں کے ساتھ اپنا تاریخی کردار ادا کر رہے ہیں،یہ دلچسپ اور محبت بھری نئے سال کی صبح اور تیرٹھ کے پریم کا رکھ رکھائو ہمارے سال کے ابتدائی دن کی وہ یاد ہے جو تیرٹھ،بھگت اور پریم کی یادوں سے نجانے کب تک معطر رہے گی،وہ تو بھلا ہو اس مریض کا کہ جس نے خلوص بھرے تیرٹھ کو مجبور کیا اور تیرٹھ نہ چاہتے ہوئے فرض کی ادائیگی کے لیے نکل کھڑا ہوا،وگرنہ شاید ہی ہم مٹھی پہنچ پاتے۔تھر کا یہ سفر ابھی جاری ہے جس کے لیے آیندہ ہفتے تک انتظار۔
صحرائے ''تھر'' کی چاشنی سے بھرے ''مٹھی'' شہر سے کوسوں میل دور سو سے زاہد دھرم آستانوں پر مشتمل ''کارونجھر'' جو گنگا کی سادھنائوں کا بھرم رکھنے میں ''ننگر پارکر'' کے کاسنی پہاڑوں کی مدد سے اب تک اپنے دھرم اور وہاں بسنے والے دھرم پجاریوں کی غذا اور زندگی کو سنبھالنے پر فاخر ہے۔
یہ کارونجھر کے سونا اگلتے پہاڑوں کا وہ سلسلہ ہے جو رن کچھ کی آشائوں سے ہمیں مہمیز کرتا ہوا ہمارے انسان دوست خیالات کو کبھی راکھی کے دل کش لمحے دکھاتا ہے اور کبھی دھرم سے پرے یک جوئی کا پیغام ساری کائنات کو دیتا ہوا نظر آتا ہے، جپسم کے لا متناعی سونا اگلتے پہاڑوں سے ڈھکا ہوا کارونجھر آج کل عالمی سرمایہ داروں سمیت ملکی سرمایہ داروں کے منافعوں کے قہر میں بے یاس و مدد گار کی صورت ہماری توجہ اور احساس کا طلبگار ہے، ہماری مدد اور اپنے دکھ درد ہم سے بانٹنا چاہتا ہے، اپنے بیتے عذاب کی بپتا ہمیں سنانا چاہتا ہے، ہمارے سوئے ہوئے احساس کو جگانا چاہتا ہے اور ہمیں اپنا سنگی ساتھی بنانا چاہتا ہے۔
ہمیں جب مٹھی کے کشور نے ''تھر فیسٹیول'' میں کارونجھر کے بچائو کی خاطر صحافت اور فکر کے حوالے سے مدعو کیا تو ہمارے سنگ ہمارے ڈاکیومینٹری صحافت کے جانکار صحافی دوست عباس نقوی اور پاکستان میں تخلیقی ایڈورٹائزنگ کے تخلیق کار اور شاعر معین قریشی بھی ہم رکاب ہوئے، جب کہ تھر کے اس مطالعاتی دورے کے جڑائو میں سندھی ناول نگار اور ہمارے ڈی ایس ایف خاندان کے ساتھی منظور تھہیم پیش پیش تھے، جو حیدرآباد میں ہمارے منتظر تھے، کراچی سے ہم تینوں دوستوں نے رخت سفر باندھا اور مقررہ وقت پر ہم منظور تھہیم کے ٹھکانے پر پہنچ گئے، کھانا کھایا اور طے ہوا کہ ''مٹھی'' سے پہلے ایک رات ''امر کوٹ'' میں گذاری جائے گی اور کوشش کی جائے کہ دن ڈھلنے سے پہلے ''امر کوٹ'' کی ڈاکیومینٹری پر ابتدائی کام کر لیا جائے۔
متعلقہ پروگرام کو انجام دینے کی خاطر ہم تمام دوستوں کا میر پورخاص کے راستے سے جانا ضروری تھا تاکہ ہم تھر کی پہلی منزل ''امر کوٹ'' مقررہ وقت پر پہنچ جائیں، میرپورخاص کی حدود میں داخلے پر پریس کلب کے صحافی دوستوں نے انور بروہی صاحب کی سرکردگی میں ہمیں پریس کلب پہنچایا، راستے کی تھکن اتارنے کی خاطر پریس کلب میں نعیم کی موجودگی میں کافی اور پیزا کھانا پڑا، اور پھر ہم دن پہ ڈھلتے سائے سے پہلے امرکوٹ پہنچ گئے جہاں امر کوٹ کے تاریخی قلعے پر وہاں کے صحافی سیف منگریو اپنے صحافی دوست اور کیمرے سمیت موجود تھے۔
اس دوران عباس نقوی کی بھرپور کوشش رہی کہ وہ دن کے مناظر سمیت شام ڈھلنے کے وہ تمام منظر اپنے کیمرے میں محفوظ کر لے جو قلعے کی فصیلوں سے ڈھلتی شام کی رخصت ہوتی سرد و یخ بستہ اداس کرنوں سے ماحول کو خوبصورت بنائے ہوئے تھے، عباس نقوی ایک جنونی صحافی مانند ہم سب کی پرواہ کیے بغیر کیمرے کی تمامتر تیکنیک آزمانے میں مصروف تھے جب کہ معین اور منظور سمیت اس قلعے کے شاہانہ مہمان خانے اور نہری نظام کی دھول مٹی میں لپٹی ہوئی بربادی اور حکومت کی غفلت پر افسردہ ہم تینوں قلعے کی اس خستہ حالی کو دیکھ رہے تھے جو اپنی دلسوز بپتا حکومتی ناروا سلوک کے ذریعے ہم کو سنا رہا تھا۔
کچھ لمحے بعد ہمارے بوجھل سے قدم نئے تعمیر شدہ امر کوٹ میوزیم کی جانب بڑھے تو محسوس ہوا کہ میوزیم میں کچھ قدیم اشیا کے وہ نمونے ضرور ہیں جو قدیم کہلائے جا سکتے ہیں، باقی صرف میوزیم کی تعمیر پر نمائشی اخراجات ہی کیے گئے ہیں البتہ یہ امر قابلِ افسوس تھا کہ قلعے کے مرکزی دروازے سے چند فٹ پکی اینٹوں سے مزین فرش کے بعد دھول مٹی سے بھرپور کچا راستہ ہی قلعے میں آنے والوں کو میوزیم تک پہنچانے کا واحد ذریعہ تھا۔
امر کوٹ میں سرد شام ڈھل چکی تھی اور اس سرد شام میں تھری تھاپ پر ڈھولک کے آہنگ پر نوجوان تھری کی تھرکتی انگلیاں تھیں تو دوسرے لمحے وہ تھری گائیک مائی بھاگی کے گیت ''کھڑی نیب کے نیچے میں تو ہیکلی'' کے بلند آہنگ قلعے کی فصیلوں تک پہنچا رہا تھا اور ہم سب کو احساس دلا رہا تھا کہ تھر کی گائیکی اور سر تال سارنگ کبھی بھی اپنے تاریخی مقامات کو ساز راگ اور تھری گائیکی سے محروم نہیں رکھتے۔اب سوچیے کہ جب یخ بستگی اپنے جوبن پہ آتی ہو اور ایسے ملگجے ماحول میں مائی بھاگی کے راگ بکھرے ہوں تو امر کو ٹ کی فصیلیں کیا نا جھومیں گی،اس منظر میں محسوس ہوا کہ اس گائیک کے ساتھ پورا قلعہ خود میں مست و مگن تھا۔
امر کوٹ سے واپسی پر ریسٹ ہائوس میں ڈاکٹر تیرٹھ مالھی اپنے بیٹے پریم مالھی کے ساتھ موجود تھے اور امر کوٹ میں نئے سال کی صبح میں رنگ بھرنے کی خاطر ہم سب دوستوں کی تواضع کے لیے پرجوش تھے،ہم نے بھی سال نو کی خمار آمد کو ان کے ساتھ خوش آمدید کہا اور سرور میں مگن سرد رات کی ٹھنڈ کی پرواہ کیے بغیر سکڑتی ٹھٹرتی ہوئی رات کی شادابی میں چہل قدمی کرتے ہوئے امرکوٹ کے دھابے تک پہنچے اور نئے سال کے پکوان سے محظوظ ہوئے۔
ابھی رات بسری باقی تھی کہ محبتی تیرٹھ مالھی نے پہلے ہی پیغام دے ڈالا کہ نئی صبح کا روایتی ناشتہ ان کے گھر پہ ہوگا جو خواتین کے عائشہ بازار کے عین وسط میں تھا،ہم سب صبح تازہ دم تیرٹ مالھی کے گھر پر تھے جب کہ ناشتے کی تیاری کی بھینی بھینی خوشبو مسلسل ہماری بھوک کو مچلا رہی تھی کہ اسی دوران تیرٹھ مالھی نے دھرم شالی نوجوان بھگت چیتوانی سے یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ بھگت پچھلے بیس برس سے اجناس کے بغیر کھانے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں اور ان کی غذا صرف فروٹ اور دودھ پر ہے،کیونکہ یہ دھرم شالی ہیں لہٰذا یہ اجناس اور شادی کے بندھن سے دور ہیں۔
بھگت چیتوانی کے متعلق اس انکشاف پر بہت مفید اور معلوماتی گفتگو رہی،میں نے سوال داغا کہ جب آپ صرف فروٹ پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں تو کیا آپ فطرت کے اشتہا والے پہلو سے صرف نظر کر سکتے ہیں،جس پر بھگت کا جواب نفی میں تھا اور ان کا خیال تھا کہ اس دھرم پجاری کی اکھشا میں شادی سے انکار ہر گز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فطری حاجت ہے،جو دیگر ذریعوں سے بھی پوری کی جا سکتی ہے،اس لمحے بھگت کی گفتگو اور ہمارے سوالات معلومات کا ایک خوبصورت امتزاج تھے،جس کے درمیان خالص دیسی تھر کا گرما گرم ناشتہ ساگ، اچار، پاپڑ، دھی جو،بیسن اور گندم کی روٹی اور مزید انواع اقسام کی اشیا دسترخوان کی زینت بنیں اور ہم سب احباب نے تھری محبتوں سے بھرپور ناشتہ کیا اور بھگت کے ٹھکانے والے مندر گئے اور معلومات سمیٹیں۔
اس دوران ہمیں بتایا گیا کہ بر صغیر میں پنڈتوں اور پہلوانوں کی ورزش کے دو (اکھاڑے) کشتی خانے بنارس اور صرف امرکوٹ میں ہیں جو اب تک قدیم ترین روایتوں کے ساتھ اپنا تاریخی کردار ادا کر رہے ہیں،یہ دلچسپ اور محبت بھری نئے سال کی صبح اور تیرٹھ کے پریم کا رکھ رکھائو ہمارے سال کے ابتدائی دن کی وہ یاد ہے جو تیرٹھ،بھگت اور پریم کی یادوں سے نجانے کب تک معطر رہے گی،وہ تو بھلا ہو اس مریض کا کہ جس نے خلوص بھرے تیرٹھ کو مجبور کیا اور تیرٹھ نہ چاہتے ہوئے فرض کی ادائیگی کے لیے نکل کھڑا ہوا،وگرنہ شاید ہی ہم مٹھی پہنچ پاتے۔تھر کا یہ سفر ابھی جاری ہے جس کے لیے آیندہ ہفتے تک انتظار۔